انسانیت کے لیے بہترین نمونہٴ

انسانیت کے لیے بہترین نمونہٴ

محترم سعد امجد عباسی، متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی

انسانی فطرت وجبلت یہ ہے کہ اسے زندگی گزارنے کے لیے کسی نمونہ وآئیڈیل کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے نقش قدم پر چل کر انسان ایک بہترین او ر معیاری زندگی گزار سکے، تاکہ دنیا وآخرت میں کام یابی اس کے قدم چومے، اسی کام یابی کو حاصل کرنے کے لیے ہر شخص اپنے ذہن کے مطابق اپنا آئیڈیل ونمونہ بناتا ہے، اسی لیے کسی نے اپنا آئیڈیل ونمونہ جاہ وجلال والے کوتو کسی نے مال ودولت والے کو بنایا ہوا ہے، تو کوئی شان وشوکت والے کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے، تو کوئی عہدہ دار کے، تو کسی نے فلمی ہیرو کو، تو کسی نے ناچ گانے والے کو آئیڈیل بنایا ہوا ہے، الغرض ہر شخص اپنی عقل وفہم کے مطابق آئیڈیل بناتا ہے او را س کی اچھی او ربری خصلتوں کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کا فائدہ کس میں ہے اور نقصان کس میں؟

آج امت مسلمہ کی مغلوبیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ مغربیت سے متاثر ہو کر انہیں اپنا آئیڈیل ونمونہ بنا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے لادینیت والجاد کو فروغ ملتا ہے، فحاشی وعریانی عام ہوتی ہے، باحیا بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہیں، زنا وچوری جیسے جرائم عام ہو جاتے ہیں، دین سے کوسوں دور اور الله اور اس کے پیارے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی کھلم کھلا نافرمانیاں ہوتی ہیں، حالاں کہ مسلمان صرف ان کی ایجادات کو دیکھ کر انہیں اپنا آئیڈیل بناتے ہیں، لیکن دین متین سے لاعلمی کی وجہ سے تمام جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اور ایسے کام کرتے ہیں جو سرسرا دین اسلام کے مخالف ہو تے ہیں، دین دشمن مسلمانوں کو ایثار وہم دردی، اخوت وبھائی چارگی او رمحبت والفت کا فریب دے کر دین سے لا پروا کر دیتے ہیں۔ شاعر اس حقیقت کو شعر میں یوں بیان کرتے ہیں #
          اپنے دین سے اگر دور نکل جاؤ گے
          تو غائب ہو جاؤ گے
          افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
          اپنی ہی مٹی پر چلنے کا سلیقہ سیکھو
          سنگ مرمر پر چلو گے تو پھسل جاؤ گے
          ہر روز دیتا ہے سورج یہ منادی
          کہ مغرب کی سمت جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے

اب اگر ہر صاحب عقل شخص غور وفکر کرے کہ ہمارے لیے بہترین نمونہ کس کی ذات ہے؟ تو وہ بخوبی جان لے گا کہ وہ ذات جسے اپنے بھی، غیر بھی، دوست بھی ،دشمن بھی، چاہنے والے بھی، نہ چاہنے والے بھی، محبت رکھنے والے بھی، بغض وحسد رکھنے والے بھی… الغرض سب کے سب اسے صادق وامین کے لقب سے جانتے ہیں، جس کی زندگی پیار والفت، ایثار وہمد ردی، شفقت ومہربانی، رحم وترحم اور جود وسخا جیسی اعلیٰ صفات سے مزین ہے ۔جی ہاں! میں آمنہ کے لخت جگر، عبدالله کے در یتیم، امام الانبیاء، سید الکونین، ساقی کوثر، شافعی محشر، آقا مدنی محمد صلی الله علیہ وسلم کی بات کر رہا ہوں، جو کل کائنات کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔

الله رب العزت کا ارشاد ہے:﴿لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌٌ﴾․(سورہ الأحزاب،آیت:21)

ترجمہ:” تحقیق تمہارے لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔“

آپ صلی الله علیہ وسلم کے تمام مکارم اخلاق، انداز اطاعت وعبادت، حالات جلوت وخلوت ، تمام اعمال واقوال اور تعلقات ومعاملات زندگی ہر قوم اور ہر طبقہ وجماعت اور فرد کے لیے، ہرزمانے اور ہر وقت میں بہترین نمونہ ومثال ہیں۔

چناں چہ آپ علیہ السلام کی مبارک جماعت ( حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم) جن کی تطہیر وتزکیہ نفس اور تعلیم وترہیب آپ علیہ السلام نے کی ، الله نے انہیں دنیا میں ہی جنت کا پروانہ عطا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:﴿رَّضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ﴾․(سورہ توبہ، آیت:100)

اس مبارک جماعت نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تمام صفات کو امت تک پہنچایا، آپ علیہ السلام کا اٹھنا، بیٹھنا، کھانا،پینا، سونا، جاگنا، چلنا، پھرنا، سفروحضر، اجتماعیت وانفرادیت، جود سخا، حلم وعفو، قناعت وتوکل، دیانت وامانت، نرمی وشفقت، ایثارو تحمل، زہد وتقوی، رحم وترحم، خشیت الہی، رقت قلبی، فکر آخرت او رامور طبعی وانتظامی جیسی اعلیٰ صفات کو امت تک پہنچایا، تاکہ امت کا ہر ہر فرد وطبقہ ان صفات کو اپنا کر دنیا وآخرت میں کام یابی سے ہم کنار ہو سکے، کیوں کہ آپ علیہ السلام کی ذات بہترین نمونہ ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے طرز طریق پر ہی دونوں جہانوں کی کام یابی مضمرہے۔

شاعر نے کیا خوب کہا #
          نقش قدم نبی (علیہ السلام) کے ہیں جنت کے راستے
          الله سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

اسی لیے آپ علیہ السلام کی پیروی واطاعت اور نقش قدم پر چلنے والوں کے بارے میں الله تعالیٰ کاا رشاد ہے:﴿تِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ وَمَن یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَذَٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ﴾․(سورہ النساء، آیت:13)

ترجمہ:”جو شخص الله اور ا س کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ (الله تعالیٰ) اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ایسے لوگ ہمیشہ ان ( باغات) میں رہیں گے“۔ (آسان ترجمہ قرآن)

یہ خوش خبری ان حضرات کے لیے ہے جو الله اور اس کے پیارے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے او را س کے برعکس جو الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی راہ سے روگردانی کریں گے، ان کے بارے میں الله رب العزت کا ارشاد ہے :﴿وَمَن یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِینٌ﴾․(النساء، آیت:14)

ترجمہ:” او رجو شخص الله اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اوراس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے الله دوزخ میں داخل کرے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا او راس کو ایسا عذاب ہو گا جو ذلیل کرکے رکھ دے گا۔“ (آسان ترجمہ قرآن)

اب ہمارے اپنے اختیار میں ہے کہ الله تعالیٰ کی خوش نودی ورضا حاصل کرکے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات کو نمونہ بنا کر آخرت میں بہترین ٹھکانے کا انتخاب کرتے ہیں یا الله رب العزت کی نافرمانی کرکے اور آپ علیہ السلام کے بہترین طریقوں سے کنارہ کشی کرکے آخرت میں بدترین ٹھکانے کا انتخاب کرتے ہیں۔

قارئین کرام!
خود انصاف کیجیے کہ کس کی ذات بہترین نمونہ وآئیڈیل ہے، وہ جس کی ذات بھی عالی، جس کی صفات بھی عالی، جس کے اخلاق کریمانہ ہیں، جو پیکر شرم وحیا ہے، جو وفات کے وقت بھی امت کا درد دل میں رکھنے والا ہے، جس نے عدل اونصاف کا بول بالا کیا، جو یتیموں اور مسکینوں کا ماوی ہے، جو بے سہاروں کا سہارا ،جو سید الکونین ہے، جو وجہ تخلیق کون ومکاں ہے اور جو رحمة العالمین ہے۔ صلی الله علیہ وسلم۔

یاوہ لوگ جو جاہ وجلال، شان وشوکت اور مال ودولت کے شوقین ہیں، جنہوں نے بے حیائی فحاشی وعریانی کو فروغ دیا، جنہوں نے امت کو تاریک گڑھوں میں اوندھے منھ گرا دیا اور اشرف المخلوقات کو غلامی کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔
﴿فَاعْتَبِرُوا یَا أُولِی الْأَبْصَارِ﴾

سیرت سے متعلق