روشنی پھیلی فضا جھومی محمد آگئے

روشنی پھیلی فضا جھومی محمد آگئے

مولانا امدادالحق بختیار

کسی مہینہ میں کوئی اہم واقعہ پیش آنا یا کسی بڑی شخصیت کا اس مہینہ میں دنیا میں تشریف لانا، اس مہینہ کی عظمت کا باعث ہوتا ہے، جیسے جمعہ کے دن کو ہفتہ کے دیگر دنوں پر اس لیے فضیلت حاصل ہے کہ اس میں ماضی میں تین اہم واقعات رونما ہوئے اور آئندہ بھی اس میں قیامت کا اہم واقعہ پیش آنے والا ہے، اسی طرح ربیع الاول کے مہینہ کو دوسرے مہینوں پر اس حیثیت سے فضیلت اور عظمت حاصل ہے کہ اس میں محبوب رب کائنات، سرکار دو جہاں ، امام الانبیاء رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی؛ اس لحاظ سے یہ مہینہ اپنے اندر بڑی عظمت اور برکت رکھتا ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے انبیا اور رسولوں کو ایسے خاندان میں پیدا کرتا ہے، جو ہر لحاظ سے عزت اور شرافت کا حامل ہو، جس کے اخلاق و کردار پر انگلی نہ اٹھائی جا سکتی ہو، جس کے ساتھ معاشرہ میں احترام واکرام کا معاملہ کیا جاتا ہو؛ چناں چہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکی ولادت خاندان قریش میں ہوئی، جو جزیرة العرب میں سیادت وقیادت اورشرافت ووجاہت کے بلند مقام پر فائز تھا، اس خاندان کو تمام قبائل میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے والد محترم جناب عبد اللہ اپنے والد جناب عبد المطلب کے بڑے لاڈلے اور چہیتے فرزند تھے، عبد المطلب نے اپنے لخت جگر کا نکاح مدینہ منورة کے ایک شریف خاندان بنو زہرہ کی نیک سیرت اور صالح خاتون بی بی آمنہ کے ساتھ کیا، ابھی نکاح کو کچھ ہی مہینے ہوئے تھے، بی بی آمنہ امید سے تھیں کہ دوران سفر مدینہ منورة میں جناب عبد اللہ کا ایک بیماری کے بعد انتقال ہوگیا، اس طرح دنیا میں آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمیتیم ہوگئے ، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی والدہ محترمہ بی بی آمنہ پر اپنے شوہر اور خواجہ عبد المطلب پر اپنے لاڈلے جوان سال بیٹے کی وفات پر جو رنج وغم کے پہاڑ ٹوٹے ہوں گے، اس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے غیبی طور پر بی بی آمنہ کے غم کو ہلکا کرنے کی تدبیریں کی جاتی رہیں، اللہ کے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم جب اپنی والدہ کے پیٹ میں تھے تو بی بی آمنہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کے خواب نظر آتے ، جن سے انہیں یقین ہوگیا کہ میرے پیٹ میں موجود میرا لاڈلا ایک در یتیم ہے، وہ ایک عظیم ہستی، منفرد شان کا مالک اور ہادی عالم ہوگا، نیز بی بی آمنہ کے ساتھ من جانب اللہ عجیب وغریب معاملات ہوتے، جیسے دوران حمل انہیں کبھی کوئی تکلیف، کوئی بوجھ، کسی طرح کی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا، بلکہ بی بی آمنہ اگر مکہ کی گرمیوں میں اور تیز دھوپ میں کسی ضرورت سے باہر نکلتیں تو بادل کا ایک ٹکڑا ان پر سایہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ چلتا ، اس طرح اللہ تعالی نے ان سے شوہر کی وفات کے غم کو ہلکا کیا۔

جس رات کے اخیر حصہ میں طلوع صبح صادق کے وقت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی، تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے کرشمے اس دنیا میں رونما فرمائے، جن سے ہر عقل مند اور اہل علم یہ نتیجہ نکال سکتا تھا کہ کسی عظیم ہستی کے وجود مسعود سے یہ دنیا بہرہ ور ہوئی ہے اور اب اس دنیا میں کوئی بڑا انقلاب برپا ہونے والا ہے، چناں چہ خود بی بی آمنہ کہتی ہیں کہ ولادت والی رات میں ہمارے پورے گھر میں ایسا نور تھا، جس کی روشنی سورج سے بھی زیادہ تھی۔ اور فرماتی ہیں کہ جب ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے۔ اسی طرح ام ایمن جو اس رات بی بی آمنہ کے پاس تھیں، وہ بیان کرتی ہیں کہ بچہ کی ولادت کے بعد آسمان کے تمام ستارے آمنہ کے گھر کی طرف جھک گئے اوربالکل قریب آگئے۔

دوسری طرف کئی بڑے اور اپنی نوعیت کے عجیب وغریب حادثات پیش آئے، جیسے ملک فارس میں کسری کے دربار میں ایک آگ صدیوں سے بغیر کسی توقف کے جل رہی تھی، جس کی وہ پرستش کرتا تھا، کبھی وہ آگ بجھی نہیں تھی؛ لیکن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے ہوتے ہی بغیر کسی سبب کے اچانک وہ آگ بند ہوگئی۔ اسی طرح کسری کے محل کے چودہ بڑے بڑے اور مضبوط ترین کنگورے دفعة زمین بوس ہوگئے۔ لوگوں نے ایک حیرت انگیز واقعہ یہ بھی دیکھا کہ فارس میں سالوں سے بہنے والی نہر ساوی ایک لمحہ میں بالکل خشک ہوگئی اور بالکل ایسی ہوگئی ؛ گویا اس میں کبھی پانی کا نام ونشان بھی نہ رہا ہو، فارس کے بادشاہ نے اپنی مملکت میں پرانی کتابوں کے ماہر علماء سے ان حیرت انگیز واقعات کی وجہ معلوم کرائی تو پتہ چلا کہ یہ نبی آخر الزمان صلی الله علیہ وسلم کے اس دنیا میں تشریف لانے کی مبارک گھڑی ہے۔

اسی طرح ایک یہودی تجارتی مقصد سے مکہ میں تھا، اس نے قریش سے کہا کہ کیا آج رات کسی بچہ کی ولادت ہوئی ہے؟ لوگوں نے لا علمی کا اظہار کیا، تو اس نے کہا کہ معلوم کرو؛ کیوں کہ آج رات کو ہی اس امت کا نبی پیدا ہونے والا ہے؛ چناں چہ معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ عبد المطلب کے یہاں پوتے کی ولادت ہوئی، اس یہودی نے کہا کہ مجھے اس بچہ کے پاس لے چلو؛ چناں چہ وہ آیا اور اس نے جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی تو بیہوش ہو کر گر پڑا، ہوش آیا تو اس نے ایک لمبا سانس کھینچتے ہوئے کہا:آہ !بنی اسرائیل سے نبوت چلی گئی (سیرت مصطفی:1/55)

ان تمام واقعات سے اس جانب اشارہ تھا کہ اب دنیا میں اسلام کی روشنی کا بول بالا ہونے والا ہے ، جس سے باطل کی تمام تر تاریکیاں چھٹ جائیں گی، کفر وشرک اور ظلم ونا انصافی کا خاتمہ ہوگا، چناں چہ اسی جانب اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اشارہ فرمایا ہے:

﴿قَدْ جَاء َکُمْ مِنَ اللَّہِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِینٌ. یَہْدِی بِہِ اللَّہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلَامِ وَیُخْرِجُہُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِہِ وَیَہْدِیہِمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ﴾․(سورة مائدة 15-16)

اللہ کی طرف سے آپ کے پاس نور اور کتاب مبین آگئی ہے، جو لوگ اللہ تعالی کی خوش نودی کا اتباع کرتے ہیں، انہیں اس نور اور کتاب کے ذریعہ اللہ تعالی سلامتی کا راستہ دکھائیں گے اور انہیں اپنے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائیں گے اور انہیں سیدھے راستے پر چلائیں گے۔

اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کو اس حال میں شکم مادر سے باہر لایاکہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے جسم اطہر پر کسی قسم کی کوئی آلائش اور گندگی نہیں تھی، جیسے عام طور پر بچے ولادت کے وقت خون میں لت پت ہوتے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کا جسم مبارک بالکل پاک و صاف اور نہایت نظیف تھا ، گویا ابھی فوراً بچہ کو نہلاکر لایا گیا ہو۔ نیز رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اس حال میں شکم مادر سے باہر تشریف لائے کہ آپ کی ناف کی نالی کٹی ہوئی تھی اور آپ کی ختنہ ہوچکی تھی، یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا اپنے محبوب کے ساتھ خاص معاملہ تھا۔ (سیرت مصطفی:1/61)

جب دادا عبد المطلب کو بچہ کی ولادت کی خبر دی گئی تو خوشی میں جھوم اٹھے، انہوں نے خود بھی یتیمی کا زمانہ کا دیکھا تھا، چناں چہ اپنے چوبیس سال کے نوجوان پیارے فرزند عبد اللہ کی اس یادگار کے پیدا ہونے کی خبر سنتے ہی گھر میں آئے اور بچے کو خانہ کعبہ لے گئے اور بچہ کے حق میں دعائیں مانگیں۔ (رحمة للعالمین:1/41)اس مبارک بچہ کی آمد سے پورے خاندان میں خوشی ومسرت کا ماحول ہوگیا، خوشی کا عالم یہ تھا کہ ابو لہب کی باندی ثویبہ نے جب اسے خبر دی کہ آپ کے بھائی عبد اللہ کے گھر بچہ کی ولادت ہوئی تو ابو لہب نے اس عظیم خوش خبری کے بدلے ثویبہ کو ہمیشہ ہمیش کے لیے آزادی کا تحفہ عطا کردیا۔

بچہ بے پناہ حسین وجمیل اور خوب صورت تھا، گویا چاند بچے کی چہرے میں اتر آیا ہو، جو بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھتا تو حیرت زدہ رہ جاتا اور دانتوں تلے انگلیاں دبانے لگتا اور کیوں نہ ایسا ہو کہ آج تک نہ سورج نے اتنا خوب صورت بچہ دیکھا ، نہ چاند نے، نہ زمین نے دیکھا، نہ آسمان نے ؛ بلکہ دنیا کی مخلوق کے ساتھ ساتھ آسمان کے فرشتے بھی بچہ کی خوب صورتی اور اس کے حسن وجمال پر عش عش کر رہے تھے۔
          رخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
          نہ ہماری بزم خیال میں نہ دکان آئینہ ساز میں

دادا عبد المطلب نے ساتویں دن بڑے اہتمام سے اپنے پوتے کا عظیم الشان عقیقہ کیا، تمام قریش کو عقیقہ کی دعوت دی اور محمد نام رکھا، جب کہ والدہ نے اپنے لخت جگر کا نام احمد رکھا، دونوں نے ہی ان ناموں کا خواب دیکھا تھا اور اسی کی روشنی میں یہ نام تجویز کیے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلمکی ذات اقدس کے بھی مناسب دونوں ہی نام تھے؛ کیوں کہ احمد کے معنی ہیں: سب سے زیادہ اللہ کی تعریف کرنے والا۔ اور محمد کے معنی ہیں: وہ شخص جس کی بہت تعریف کی جائے۔ اور یہ دونوں ہی باتیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکی ذات گرامی میں پورے طور پر پائی جاتی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلمتمام مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ کی تعریف کرنے والے ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلمکی ذات ایسی ہے، جس کی بے پناہ تعریف کی جاتی ہے۔ سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی آپ کے دونوں ہی نام ملتے ہیں، چناں چہ توریت میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی بشارت میں محمد نام کا ذکر ہے۔ (تسبیحات سلیمان، باب:5) اور انجیل میں حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت میں احمد نام آیا ہے۔ ( انجیل یوحنا، باب5،61، بحوالہ پیغمبر اعظم، ص681)اور قرآن کریم نے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو دونوں ہی ناموں سے یاد کیا ہے:

﴿وَإِذْ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِی إِسْرَائِیلَ إِنِّی رَسُولُ اللَّہِ إِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَأْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاء َہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا ہَذَا سِحْرٌ مُبِینٌ﴾․ (سورة صف :6)

اور جب عیسی بن مریم نے کہا:اے بنی اسرائیل !میں اللہ کا رسول ہوں، تمہارے پاس بھیجا گیا ہوں، میں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی خوش خبری سناتا ہوں، جن کا نام احمد ہوگا۔ پھر جب نبی ان کے پاس واضح دلائل کے ساتھ آگئے تو انہوں نے کہا کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے۔

﴿مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیمًا ﴾․(سورة احزاب: 40)

محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور اللہ تعالی ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

قریش نے اس نام پر تعجب کا اظہار کیا اور عبد المطلب سے کہا کہ آپ نے اپنے پوتے کا نام خاندان کے مروّجہ ناموں کے خلاف کیوں رکھا؟ تو عبد المطلب نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچہ کی دنیا بھر میں تعریف وتوصیف کی جائے ۔ (رحمة للعالمین:1/41)

چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں سال سے پیغمبراسلام صلی الله علیہ وسلم کی جتنی تعریف ہوتی ہے اور جس مقدار میں آپ کا ذکر خیر ہوتا ہے، دنیا میں نہ آج کسی شخص کا اتنا تذکرہ ہوتا ہے اور نہ اس سے پہلے ہوا ہے۔ تمام دنیا میں پانچوں وقت اذانوں میں مسلسل آپ صلی الله علیہ وسلم کا نام اس طرح پکارا جاتا ہے کہ اس کی صدائیں دنیا میں ہر وقت گونجتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ نمازوں میں، تلاوت قرآن میں، قراء ت حدیث میں، درود شریف میں، نیز سیرت اور وعظ و نصیحت کے جلسوں میں، نعت کے مشاعروں میں ، مضامین، اخبارات، رسالوں اور کتابوں میں، ریڈیو اور دوسرے پروگراموں میں اتنی کثرت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذکر ہوتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کے بارے میں اس کی مثال نہیں ملتی اور کسی وقت دنیا کی فضائیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذکر خیر سے خالی نہیں رہتیں۔(پیغمبر اعظم، ص:682-681) صلی اللہ علیہ وسلم!

سیرت سے متعلق