انسانیت کے ساتھ محبت و ہمدردی اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

انسانیت کے ساتھ محبت و ہمدردی اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

مفتی محمد عبدالله قاسمی

ربیع الاول اسلامی مہینوں میں تیسرا مہینہ ہے، اس مہینے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو جامع اور محیط ہے، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، خلوت و تنہائی ہو کہ اجتماعیت ومحفل، گوشہ عافیت وسکون ہو کہ میدان کارزار… غرض ہر شعبے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت انسانیت کی راہ نمائی کرتی ہے اور آج نوع انسانی کوجومشکلات اور چیلنجز درپیش ہیں ان کا حل سیرت طیبہ ہی میں ہمیں مل سکتا ہے۔

انسانیت نوازی سیرت رسول کا ایک نمایاں پہلو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ایک نمایاں پہلو انسانیت کے ساتھ محبت اور ہم دردی ہے ، انسانیت کے ساتھ لطف اور نرمی سے پیش آنا آپ ا کی زندگی کا لازمی حصہ تھا، ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنا ،محتاج اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا، نادار اور محروم لوگوں کو نوازنا، یتیموں اور بیواؤں کے کام آنا، مفلوک الحال اور بچھڑے ہوئے لوگوں کی داد رسی کرنا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک روشن باب تھا ۔

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اسلام کی سب سے پہلی محسن خاتون
ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ علیہ السلام کی سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں ،پچیس سال کی عمر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا اور نبوت ملنے کے بعد آپ علیہ السلام پر جو بھی مصیبت اور پریشانی کفارمکہ کی جانب سے آتی تھی اور ان سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم رنجیدہ اور دل گرفتہ ہو جاتے تھے، تو ایسے نازک وقت میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتی تھیں اور آپ کی ڈھارس بندھاتی تھیں اور حوصلہ افزا کلمات کے ذریعے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غموں کو مٹاتی تھیں، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مالی تعاون بھی کرتی تھیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے غارحرا میں کئی کئی روز عبادت کیا کرتے تھے، ایک روز اسی دوران حضرت جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زور سے بھینچا اور کہا کہ پڑھو،آپ نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، یہ مکالمہ تین مرتبہ ہوا، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ پانچ آیتیں پڑھیں:
﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ، خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ، الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾ (العلق:1 5-).

پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر، جس نے سب کچھ پیداکیا، انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھو اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے ،جس نے قلم سے تعلیم دی ،انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا ۔

وحی کا بوجھ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو اس کا سخت بوجھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوپر محسوس کرتے تھے،وحی کے بوجھ اورشدت کی وجہ سے ہی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین بیان کرتے ہیں کہ سخت سردی کے زمانے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ پسینے سے شرابور ہو جاتے تھے۔ (بخاری)وحی کے سخت بوجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری بھی برداشت نہیں کر پاتی تھی، چناں چہ جب آپ پراونٹنی پر سوار ہونے کی حالت میں وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ جاتی تھی ۔حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے زانو پر اپنا مبارک سر رکھ کر آرام فرما رہے تھے ،اسی اثناء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر وحی کے آثار شروع ہوگئے ،وحی کا بوجھ اوراس میں شدت اتنی زیادہ تھی کہ مجھے لگا کہ میری ران کی ہڈی ریزہ ریزہ ہوجائے گی۔

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شہادت
حضرت جبرئیل علیہ السلام کے آپ علیہ السلام کو بھینچنے اور وحی کے ناقابل برداشت بوجھ کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پریشان ہوگئے اور اپنی جان پر خوف محسوس کرنے لگے، ایسے وقت میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی:
”کَلاَّ وَاللَّہِ، مَا یُخْزِیکَ اللَّہُ أَبَدًا، إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِینُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ“.
ہرگز نہیں! اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا!یقینا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور بوجھ اٹھاتے ہیں اور ناداروں کو کما کر دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور آفات سماویہ پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف بیان کئے ہیں ان سب کاتعلق انسانی ہمدردی اور باہمی اخوت و بھائی چارہ سے ہے، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادتوں کو ذکر نہیں کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج اور عمرے کا ذکر نہیں کیا ،غارحرامیں جاکر کئی کئی روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت انجام دیتے تھے اس کا تذکرہ نہیں کیا؛ بلکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان خوبیوں کا تذکرہ کیا جن کا تعلق انسانیت نوازی،غربا پروری،بے کسوں کی دست گیری اور مظلوموں کی داد رسی سے تھا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانیت سے محبت اور ہم دردی کاوصف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہت نمایاں تھا اور آپ علیہ السلام کی حیات طیبہ کا جزولاینفک تھا اور آپ کے بارے میں یہ شہادت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ہے، جو آپ کے ساتھ ایک دو مہینے نہیں؛ بلکہ پندرہ سال گزار چکی تھی، انہیں آپ کی زندگی کو بالکل قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا ،جلوت وخلوت اور خارجی و داخلی زندگی کی سرگرمیوں کوسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بچشم خود دیکھا کرتی تھیں، اس لمبے اور طویل عرصے میں آپ کی زندگی کا کوئی پہلو ان کی نگاہوں سے مستور اور مخفی نہیں تھا ؛اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شہادت بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔

بندوں کے حقوق کی اہمیت
واقعہ یہ ہے کہ انسانیت کی خدمت اور ان کے ساتھ محبت و ہم دردی بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اس کا اللہ جل شانہ کی نگاہوں میں بڑا مقام اور بڑا رتبہ ہے ؛اسی وجہ سے احادیث شریفہ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کسی انسان سے حقوق اللہ میں کوتاہی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے معاف کر سکتے ہیں، تاہم اگر انسان سے حقوق العباد میں کسی قسم کی کوتاہی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں فرمائیں گے؛ بلکہ روز محشر صاحب حق کو اس کا حق دلائیں گے ،چناں چہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ روز قیامت جب لوگ پل صراط پر سے گزریں گے تو بیچ پل صراط پر اللہ تبارک و تعالی تمام لوگوں کو کھڑا کریں گے اور اعلان ہوگا کہ جس شخص کا بھی کسی پر کوئی حق ہو تو وہ لے لے، اس وقت لوگوں کی گھبراہٹ اور خوف وہراس کا یہ عالم ہوگا کہ جس شخص کے نامہ اعمال میں ستر انبیاء کی عبادت اور اعمال محفوظ ہوں گے ایسا متقی اور پارسا بھی اپنی عبادت کو کم خیال کرے گا ،اور اسے جنت کے حصول کے لیے کافی نہ سمجھے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفار و مشرکین پر شفقت و ہم دردی
آپ علیہ السلام کی امت کے ساتھ شفقت اور ہم دردی اس قدر حد سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی کہ کفار و مشرکین کے ایمان نہ لانے پر آپ علیہ الصلاة والسلام کڑھتے تھے، ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ملول اور کبیدہ خاطر ہو جاتے تھے، ان کے اسلامی تعلیمات کو قبول نہ کرنے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی کوفت ہوا کرتی تھی ،قرآن کریم نے آپ علیہ السلام کی اسی کیفیت کا کچھ یوں نقشہ کھینچا ہے:﴿لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ﴾․(الشعراء :3 )

اے پیغمبر!شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کیے جا رہے ہو کہ یہ لوگ( کیوں) ایمان نہیں لاتے۔

قحط سالی کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار مکہ کے لیے غذائی اجناس مہیا کرنا
مشرکین مکہ جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو ستایا،مکہ کی سر زمین میں ان کے لیے عرصہ حیات تنگ کر دیا، ان حالات سے مجبور ہوکر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے مکہ مکرمہ کو چھوڑ دیا اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے ، اس پربھی کفارومشرکین کو ترس اور رحم نہیں آیا؛ بلکہ وہ برابر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور ان کے آتشیں لب مسلمانوں کے خون کے پیاسے بنے رہے،ادھر کفار مکہ کی بد اعمالیوں کی وجہ سے مکہ میں جب قحط پڑااور کفار و مشرکین فاقہ کشی اور بھوک مری کا شکار ہوگئے تو ایسے وقت میں بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت نوازی کا ثبوت دیااور انسانیت سے فطری محبت ولگاؤ ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے ان کے لیے غلہ اور کچھ رقم ارسال فرمایا۔

حلف الفضول کا معاہدہ اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت
مظلوموں کی داد رسی اور غریب اور پس ماندہ لوگوں کی مدد کا جذبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک تاب ناک اور روشن باب ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیے جانے سے پہلے کا واقعہ ہے، ایک مرتبہ مکةالمکرمة میں ایک تاجر اپنا سامان تجارت بیچنے کے لیے آیا، عاص بن وائل نے اس تاجر کا مال خرید لیا ؛لیکن اس کی قیمت ادا کرنے سے وہ صاف مکر گیا ،تا جرنے مکہ والوں سے فریاد کی اور ان سے مدد کی درخواست کی، اس موقع پر مکہ کے زندہ ضمیر اور باہمت لوگوں نے باہم مل بیٹھ کر یہ عہد کیا کہ ہم مظلوموں کی مدد کریں گے ،ظالموں سے ان کا حق دلوائیں گے، طاقت ور لوگوں کو کم زوروں پر ظلم کرنے اور دست درازی کرنے کا موقع نہیں دیں گے، یہ معاہدہ تاریخ میں”حلف الفضول“کے نام سے مشہور ومعروف ہے اور اس معاہدے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے تھے اور نبوت ملنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: اگراس جیسے معاہدے میں شریک ہونے کے لیے اب بھی مجھے بلایا جائے تو میں ضرور اس میں شرکت کروں گا۔یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانی ہم دردی اور انسانیت کی بنیاد پر خیر خواہی اورتعاون کی عکاسی کرتا ہے۔

انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام اور انسانی ہم دردی
حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء انسانیت نواز اور غریب پرور ہوتے ہیں،بندگان خدا سے محبت و ہم دردی ان کی سرشت میں داخل ہوتا ہے،وہ انسانوں پر بے حد شفیق اور مہربان ہوتے ہیں،غریب اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا ان کی فطرت کا اٹوٹ حصہ ہوتا ہے،دبے کچلے اور مظلوموں کے لیے وہ محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوتے ہیں۔

حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی انسانیت نوازی
حضرت نوح علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر پیغمبر اور رسول تھے، انہوں نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی ، شرک اور بت پرستی سے ان کو منع کیا ؛ لیکن قوم نے ان کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرا اور شرک و کفر سے ان کی قوم باز نہیں آئی،اللہ نے انہیں متنبہ کرنے کے لیے بارش کو روک دیااور قحط سالی میں مبتلا کر دیا ،قوم کااضطراب اور اس کی پریشانی حضرت نوح علیہ السلام سے دیکھی نہ گئی اور انہوں نے انسانیت کے ساتھ محبت و ہم دردی ہونے کے ناطے اس ہمہ گیر آفت سے گلو خلاصی کے لیے یہ تدبیر بتلائی کہ تم اللہ سے توبہ کرو ،اس سے معافی مانگو، اپنے گناہوں سے باز آجاؤ، اللہ تعالی اس تنگی کو کشادگی سے اور برے حالات کو اچھے اور خوش گوار حالات سے بدل دیں گے، قرآن کریم نے اس واقعے کی کچھ اس طرح منظر کشی کی ہے:
﴿اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا، یُرْسِلِ السَّمَاء َ عَلَیْکُم مِّدْرَارًا، وَیُمْدِدْکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَارًا﴾․(نوح:10۔12)

اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو ،یقین جانو بہت بخشنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گااور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لیے باغات پیدا کرے گا اور تمہاری خاطر نہر یں مہیا کرے گا۔

حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی انسانیت کے ساتھ ہمدردی
حضرت موسی علیہ السلام مصر سے مدین تشریف لے گئے، وہاں ایک کنویں پر آپ نے دیکھا کہ دو لڑکیاں اپنے مویشیوں کو لے کر کنارے کھڑی ہیں اور مویشیوں کو پانی پلانا چاہتی ہیں ،آپ کے اندر ہم دردی اور محبت کا جذبہ بیدار ہو گیا اور آپ نے آگے بڑھ کر ان کے مویشیوں کو پانی پلایا اور اس پر انہوں نے ان سے کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا ،جب کہ حضرت موسی علیہ السلام بے سروسامانی کے عالم میں مصر سے نکلے تھے اور بھوک کی شدت کی وجہ سے آپ اتنے نڈھال ہوگئے تھے کہ چلنا آپ کے لیے مشکل ہو رہا تھا، ایسی اضطراری حالت میں بھی آپ نے ان سے کوئی اجرت نہیں لی، اور خالص اللہ کی رضا کے لیے انہوں نے مویشیوں کو پانی پلایا ۔

مندرجہ بالا واقعات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں
مذکورہ بالا واقعات ہمارے لیے مشعل راہ اور رفیق حضر ہیں اور ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ انسانیت نوازی کا قیمتی وصف ہم اپنے اندر پیدا کریں، بلا تفریق مذہب و ملت مجبور اور پریشان حال لوگوں کے کام آنے کو یقینی بنائیں، ہماری ذات سے حتی المقدور دوسروں کو جتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے اس سے دریغ نہ کریں، امدادی کاموں میں خوب سے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور یہ کام محض اللہ کی رضا اور اس کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے کریں، دنیا میں ہم اس پر کسی قسم کے اجراور معاوضہ کی توقع نہ رکھیں۔

آج بدقسمتی سے تصویر کشی اور ویڈیو گرافی کا ایک غیر صالح جذبہ پروان چڑھتا جارہاہے، غریبوں اور محتاجوں کی امداد کے وقت فوٹوگرافی کی جا رہی ہے اور اسے سوشل میڈیا پر شائع کیا جا رہا ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر صالح جذبہ ہے، اس سے اعمال صالحہ کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ ہے، ایسا عمل جس سے ریا ونمود مقصود ہواور لوگوں سے داد و تحسین وصول کرنا پیش نظر ہو اس کی اللہ تعالیٰ کے یہاں ذرہ برابر بھی حیثیت نہیں ہے،ضرورت ہے کہ ہم شریعت کی راہ نمائی میں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیں اور غریبوں کی امداد کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ان کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے،اپنے طرز عمل سے ہم ان کے وقار اور احترام کو پامال نہ کریں۔