نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم ہندو مفکرین کی نظر میں

نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم ہندو مفکرین کی نظر میں

مولانا امداد الحق بختیار

اس روئے زمین پر بلا اختلاف دین ومذہب تمام انسانی طبقات کی طرف سے اگر سب سے زیادہ کسی عظیم شخصیت کی تعریف وتوصیف اور مدح سرائی ہوئی ہے، تو وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمکی ذات گرامی ہے؛ چناں چہ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم مفکرین، دانش وران، مذہبی، سماجی اور سیاسی شخصیات نے اسلام کے پیغمبر صلی الله علیہ وسلمکی عظمت، پاکیزگی، تقدس، اخلاق وکردار، صداقت وامانت، رواداری، بھائی چارگی، امن وسلامتی اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے بے لوث مخلصانہ پیہم کوششوں کو خوب صورت الفاظ اور پیرایہ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

وہیں دوسری طرف ہمیں ہر زمانے میں کچھ ایسے متعصب اور فرقہ پرست عناصر بھی نظر آجاتے ہیں، جو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی پانی سے زیادہ پاک، آئینہ سے زیادہ صاف وشفاف، چاند سے زیادہ خوب صورت اور سورج سے زیادہ روشن زندگی پر کیچڑ اچھالنے کی ناکام، نامراد اور گھٹیا کوشش کرتے ہیں، ان کی یہ ہرزہ سرائی کسی مطالعہ، غور وفکر اور استنباط واستخراج کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کے پس پردہ تعصب، فرقہ پرستی اور اسلام دشمنی کار فرما ہوتی ہے، چناں چہ اس کا اعتراف اور اظہار کرتے ہوئے خود ایک غیر مسلم دانش ور سوامی نرائن جی سنیاسی بی، اے لکھتے ہیں:

”دنیا کے پیر پیغمبروں اور اوتاروں میں سب سے زیادہ ناانصافی اگر کسی کے ساتھ کی گئی ہے اور سب سے زیادہ ظلم اگر کسی پر کیا گیا ہے اور سب سے زیادہ جھوٹ اگر کسی پر بولا گیا ہے، تو وہ رسول عربی حضرت محمد بن عبد اللہ صلی الله علیہ وسلم ہیں، طرح طرح کے بہتان آپ پر تراشے گئے اور طرح طرح کے الزام آپ پر لگا کر آپ کو دنیا میں وحشی و خوں خوار اور بے رحم دکھایا گیا، جھوٹے سچے واقعات کی بنا پر آپ کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، چوں کہ عیسائیت، اسلام کو حریف سمجھتی تھی اور اسلام کے مقابلہ پر اس کا فروغ ناممکن تھا؛ اس لیے اسلام کو ہندوستان میں اس نے ایک خاص رنگ میں پیش کیا، جو ہندوستانی تہذیب وروایات کے خلاف تھا، اس کا مقصد یہ تھا کہ اہل ہند کو اسلام اور پیغمبر اسلام سے نفرت پیدا ہو؛ تاکہ عیسائیت کے لیے دروازہ کھلے اور اس میں اس وجہ سے ایک حد تک کام یابی ہوئی کہ ہندوؤں نے اسلامی تاریخ، مذہب اور بانی اسلام کی سیرت کا کبھی مطالعہ نہیں کیا، عیسائیوں نے جھوٹے سچے واقعات کو، جس طرح چاہا، رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کیا اور ہندوؤں نے سچ سمجھ کر ان کو قبول کر لیا اور اسی کے مطابق اپنی رائے قائم کر لی، اس سے ناخوش گوار کیفیت میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا اور فرقہ وارانہ کشیدگی نے بہت زیادہ بڑی صورت پیدا کردی۔“ (پیغمبراعظم صلی الله علیہ وسلم، مؤلف:مولانا سید محمد طاہر حسن امروہی، اشاعت دوم (1433ھ مطابق 2012ء ) ناشر:جامعہ اسلامیہ عربیہ، جامع مسجد امروہہ، ص:249،250،251)

انگریزی اقتدار کے دور میں عیسائی مشنریز نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلمکو بدنام کرنے کی گندی کوشش کی تھی، ٹھیک اسی طرح اِس وقت ہمارے ملک عزیز کی ایک متعصب اور متشدد فرقہ پرست جماعت اور اس کے کچھ عناصر بھی اسی طرح کی قے کر کے اپنے اندرون کی غلاظت کا پتہ دے رہے ہیں؛ جب کہ خود انہی کے ہم مذہب بہت سے انصاف پسند ہندو مفکرین اور دانش وران نے نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کی شان میں اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں اور جلی الفاظ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی طہارت و پاکیزگی، رحمت واخوت اور انسانی ہم دردی کو بیان کیا ہے؛ چناں چہ ذیل میں ایسے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔

جناب موہن داس کرم چند گاندھی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں لکھتے ہیں:

”اسلام نے بزور شمشیر سرفرازی اور سربلندی حاصل نہیں کی؛ بلکہ اس کی بنیاد ہے:نبی کا خلوص، خودی پر آپ کا غلبہ، وعدوں کا پاس، غلام، دوست اور احباب سے یکساں محبت، آپ کی جرا ت اور بے خوفی، اللہ اورخود پر یقین جیسے اوصاف۔“ (اسلام کے پیغمبر محمد، مؤلف:پروفیسر راما کرشنا راؤ، ترجمہ:شمیم احمد عثمانی، ص8، بحوالہ:پیغمبر عالم صلی الله علیہ وسلم، مؤلف: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ص 446)

پروفیسر راما کرشنا راؤ مراٹھی آرٹس کالج برائے خواتین میسور کے شعبہ فلسفہ میں استاد اور صدر شعبہ رہے ہیں، انہوں نے (Mohammad The Prophet of Islam) کے نام سے ایک کتابچہ تصنیف کیا ہے، جس کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، مصنف نے اس کتاب میں بہت تفصیل کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ (پیغمبر عالم صلی الله علیہ وسلم ، مؤلف:مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ص447.) پروفیسر راما کرشنا راؤ مراٹھی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اگر عظمت کا راز کسی ایسی قوم کی تطہیر میں پوشیدہ ہے جو سر تا پا وحشت وبربریت کا شکار اور اخلاقی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہو، تو وہ شخصیت جس نے عربوں جیسی انتہائی پستیوں میں گری ہوئی قوم کو یکسر بدل کر رکھ دیا، اسے عظمت و شائستگی کے اعلی مقام پر پہنچایا اور علم وتہذیب کا مشعل بردار بنایا، ہر لحاظ سے عظیم قرار پاتی ہے۔

اگر کسی معاشرہ کے متصادم عناصر کے درمیان اخوت ومحبت کا رشتہ استوار کرنا عظمت کی نشانی ہے تو یہ امتیاز پیغمبر صحرا کے حصہ میں آتا ہے۔

اگر توہمات کے شکار اور باطل رسومات میں گرفتار لوگوں کی اصلاح کا نام عظمت ہے، تو پیغمبر اسلام نے ہزار ہا انسانوں کو توہم پرستی اور بے بنیاد خوف سے نجات دلائی۔

اگر عظمت کا تصور اعلی اخلاق کا مظہر ہونے سے وابستہ ہے، تو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو ان کے دوست اور دشمن امین اور صادق کہہ کر پکارتے تھے۔

اگر ایک فاتح کو عظیم انسان کہا جا سکتا ہے، تو ہمارے سامنے ایک ایسی شخصیت آتی ہے، جس نے اپنی زندگی کا آغاز ایک بے سہارا، یتیم اورمعمولی انسان کی حیثیت سے کیا اور بالآخر عرب وعجم کی تاج دار کہلائی، جس کا مقام قیصر وکسری سے کسی طرح کم نہ تھا، اس نے ایک ایسی مملکت کی بنیاد ڈالی جو چودہ سو (اب پندرہ سو) سال سے اب تک چلی آرہی ہے۔

اگر کسی رہ نما سے اس کے پیروکاروں کی عقیدت مندی عظمت کا پیمانہ ہے تو دنیا کے گوشہ گوشہ میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کی روحوں کو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کا نام ایک سحر انگیز کیفیت سے سرشار کیے ہوئے ہے۔“(اسلام کے پیغمبر محمد، مؤلف:پروفیسر راما کرشنا راؤ، ترجمہ:شمیم احمد عثمانی، ص:19-20، بحوالہ:پیغمبر عالم صلی الله علیہ وسلم ، مؤلف:مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ص: 447-448)

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق و کردار کے حوالے سے پروفیسر صاحب لکھتے ہیں:

”محمد صلی الله علیہ وسلم اپنے معاصرین کی نگاہ میں کھرے اور اعلی کردار کے مالک تھے؛ چناں چہ یہودی بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی صداقت کے قائل تھے، آپ کے کردار میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے معاصرین کو دھوکہ دہی، فریب کاری یا دنیاوی مفاد پرستی کی ہلکی سی جھلک بھی نظر نہیں آتی تھی۔“(سیرت محمد صلی الله علیہ وسلم عالم انسانیت کے لیے مشعل راہ، خصوصی شمارہ سہ ماہی مجلہ بحث ونظر ، مضمون:ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ص:73-74)

ڈاکٹر شنکر داس مہرہ بی، ایس، سی ایم، بی، بی، ایس، دہلی نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی شان میں اپنی عقیدت کے پھول ایک کتاب کی شکل میں پیش کیے ہیں، جس کا نام ہے: حضرت محمد کی زندگی ایک ہندو کی نظر میں، اس کتاب میں وہتحریر کرتے ہیں:

”محمد صاحب وہ مہان ہستی تھے، جن کا سر ہمیشہ خدا کے سجدے میں رہا اور جن کا دل ودماغ انسان کی بھلائی میں، حضرت محمد صاحب وہ انقلابی انسان تھے، جنھوں نے تمام عمر بدی کے خلاف جنگ کی اور انسانیت کو اونچا اٹھانے کا پروگرام پیش کیا، گو یہ پیغام کوئی نئی راہ عمل نہ تھی، آپ سے پہلے بہت سے انبیا پیش کر چکے ہیں؛ مگر جس خوبی سے آپ نے اس کو دوبارہ پیش کیا اور جس سختی سے اس پر عمل کیا، یہ آپ ہی کا حصہ تھا، آپ کی زندگی پر ہر فرد بشر کو ناز ہونا چاہیے۔“(پیغمبراعظم صلی الله علیہ و سلم ، مؤلف: مولانا سید محمد طاہر حسن امروہی، اشاعت دوم( 1433ھ مطابق 2012) ناشر:جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ، ص:242-243)۔

پروفیسر فراق گورکھپوری لکھتے ہیں:
”میرا اٹل ایمان ہے کہ حضرت محمد پیغمبر اسلام کی ہستی بنی نوع انسان کے لیے ایک رحمت تھی، پیغمبر اسلام نے تاریخ وتمدن، تہذیب واخلاق کو وہ سب کچھ دیا جو شاید ہی کوئی اور بڑی ہستی دے سکے، ان کا دلی احترام کرنا ہر انسان کا فرض؛ بلکہ ہر انسان کے لیے سعادت ہے، اس میں مسلم غیر مسلم کی تفریق نہیں۔“( حوالہ بالا، ص:244)

مسٹر اجیت پرشاد جین، سابق وزیر حکومت ہند کہتے ہیں:
”آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے جو پیغام دیا ہے وہ تمام کائنات کے لیے ہے، اگر صحیح جذبہ کے ما تحت دیکھا جائے تو غیر مسلم بھی ان کی تعلیم اور زندگی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔“ (حوالہ بالا، ص:247)

لالہ لاجپت رائے کہتے ہیں:
”مجھے یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں کہ میرے دل میں پیغمبر اسلام کے لیے نہایت عزت ہے، میری رائے میں ہادیان دین اور رہبران بنی نوع انسان میں ان کا درجہ بہت اعلی ہے۔“ (حوالہ بالا، ص:249)

مشہور مہاتما ستیہ دھاری اپنی کتاب بحر نبوت میں لکھتے ہیں:
”دین اسلام لانے والے حضرت محمد صاحب کی زندگی دنیا کو بے شمار سبق پڑھاتی ہے، ان کی ہر حیثیت دنیا کے لیے سبق دینے والی ہے؛ بشرطیکہ دیکھنے والی آنکھ، سمجھنے والا دماغ اور محسوس کرنے والا دل ہو۔“ (حوالہ بالا، ص:249)

لالہ بشن داس لکھتے ہیں:
”حضرت محمد صاحب کی شان میں میرے جیسے ناچیز ہیچ مداں کا کچھ عرض کرنا سراسر بے ادبی اور چھوٹا منھ بڑی بات ہے؛ کیوں کہ حضرت ولیوں کے ولی، پیروں کے پیر، آسمانِ نبوت کے سورج، ہادیانِ مذاہب کے سرتاج اور رہ نمایانِ دین کے رہبر تھے، جس عزت وتوقیر اور تعظیم وتکریم اورپریم کے ساتھ اس خاتم الانبیاء کا نام لیا جاتا ہے، کسی دیگر پیر، پیغمبر، ولی، گورو، رشی اور منی کا ہرگز نہیں لیا جاتا۔ جو اخوت (بھائی چارہ) پیغمبر اسلام نے قائم کی ہے، کوئی نہیں کر سکا، جس مضبوط چٹان پر اسلام کی بنیاد حضرت محمد نے رکھی ہے، وہ نہ کسی کو ملا ہے، نہ ملے گا۔ یہ ساری باتیں اس امر کا یقینی ثبوت ہیں کہ حضرت محمد صاحب غیر معمولی انسان تھے اور نوع انسانی کی اصلاح کے لیے خدا کے فرستادہ تھے۔“ (حوالہ بالا، ص:253)

جناب راجندر نارائن لال (ولادت:1916ء ) کا تعلق بھرت پور، راجستھان سے ہے، انہوں نے ہندی میں اسلام ایک سویم سدھ ایشوریہ جیون ویوستھا (اسلام ایک خدائی نظام حیات ) کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

”آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ساری زندگی انتہائی سادگی کے ساتھ گزاری، آپ کسی امتیاز کے بغیر سبھی مذاہب اور طبقات کے لوگوں کے خیر خواہ تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم اس قدر سخی تھے کہ قرض لے کر بھی دوسروں کی ضرورتیں پوری کردیتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اندر کسی طرح کی بھی اخلاقی برائی نہیں پائی جاتی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم سراپا صداقت، امانت، پاکیزگی و طہارت، رحم وکرم اور امن وسلامتی کے پیام بر اور سخاوت ورحمت کا مظہر تھے، صرف دوسروں کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے زندہ رہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی نیکی کی کوئی حد نہ تھی، محنت ومشقت کی عظمت کے لیے دوسروں میں مساوات، بھائی چارہ اور ہم دردی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے جنگ اور امن کسی بھی حالت میں ایسا کام نہ کیا، جس کی وجہ سے لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کو دوسروں سے ممتاز سمجھیں، آپ صلی الله علیہ وسلم جنگ اور امن میں حیرت انگیز طور پر رحم دل اور در گزر کرنے والے تھے۔“ (سیرت محمد صلی الله علیہ وسلم عالم انسانیت کے لیے مشعل راہ، خصوصی شمارہ سہ ماہی مجلہ بحث ونظر ، مضمون:ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، ص:77)

بلاشبہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ اس روئے زمین پر سب سے زیادہ عظیم، مقدس، سب سے اعلی اخلاق وکردار کی حامل اور بے انتہا صاف وشفاف ہے، رحمت، اخوت، نصرت، سخاوت، ہم دردی، انسانیت نوازی جیسی صفات اپنے مکمل معنی اور مظہر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں نمایاں ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ پوری انسانیت کے لیے سب سے بہترین نمونہ ہے۔