پیارے نبی حضرت محمدصلی الله علیہ وسلم کا ولیمہ

پیارے نبی حضرت محمدصلی الله علیہ وسلم کا ولیمہ

مولانا ندیم احمد انصاری

نکاح انتہائی مسرت اور خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ مسلمان اپنی اس خوشی میں اعزہ و اقربا کو شریک کرے۔ مسنون ولیمہ یعنی نکاح کے بعد احباب کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنا ثواب کا باعث ہے، لیکن شریعت میں کسی بھی موقع پر دکھاوے اور اتراہٹ کو پسند نہیں کیا گیا۔ آج کل لوگوں نے نکاح و ولیمے کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور اس میں اسراف، ریا اور نام و نمود جیسی گندگیاں شامل کر لی گئی ہیں۔ ایک ایک ولیمے میں اتنا خرچ کر دیا جاتا ہے کہ کئی لوگ فریضہ حج ادا کر سکتے ہیں۔حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے از خود ولیمہ کر کے دکھایا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلمنے نکاح کے بعد ولیمے میں دعوت کا اہتمام فرمایا اور اعتدال کی راہ دکھائی۔ ہمارا ایمان ہے کہ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم چاہتے تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ولیمے میں آسمان سے فرشتے صف باندھے اترتے، آپ صلی الله علیہ وسلم چاہتے تو منّ و سلویٰ سے بہتر خوان جنت سے اتر جاتا، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کا خیال رکھا اور ہمیں ولیمے کا وہ سادہ طریقہ سکھایاجس پر بہ آسانی عمل کیا جا سکتا ہے۔آج لوگ مسنون ولیمے کے نام پر کس کس طرح حدود سے تجاوز کررہے ہیں، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

دو مُد جَو سے ولیمہ

حضرت صفیہ بنت شیبہسے روایت ہے، حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں کا ولیمہ دو مد جَوسے کیا۔(بخاری)بخاری شریف کے حاشیے میں ہے کہ یہ ام المومنین حضرت امِ سلمہکا ولیمہ تھا۔ انسان کے حالات ہر وقت ایک جیسے نہیں رہتے، جیسا موقع ہو اس حساب سے ولیمے کے انتظام میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔

حضرت صفیہسے نکاح اور ولیمہ

ام المومنین حضرت صفیہحُی بن اَخطب کی بیٹی تھیں، وہ خیبر میں آباد قبیلہ بنوقریظہ و بنو نضیر کے سردار تھے، جب خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس میں مسلمانوں کو فتح دی تو صفیہ قید ہو کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی ملکیت میں آئیں، آپ نے ان کو آزاد کر دیا اور اپنی زوجیت میں لے لیا۔حضرت انسسے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت صفیہکو آزاد کیا، پھر ان سے نکاح کرلیا اور ان کا آزاد کرنا ہی مہر قرار پایا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کا ولیمہ ملیدے سے کیا۔(بخاری)

ولیمے میں روٹی تھی نہ بوٹی

حضرت انسسے روایت ہے، حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مدینے اور خیبر کے راستے میں تین دن فروکش رہے، یہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت صفیہسے خلوت فرمائی۔ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ولیمے میں مسلمانوں کو بلایا، اس ولیمے میں نہ روٹی تھی نہ گوشت۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت بلالکو دسترخوان بچھانے کا حکم دیا، جب دسترخوان بچھا دیا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پر چھوہارے، پنیر اور گھی ڈال دیا۔ مسلمان آپس میں کہنے لگے:صفیہامہات المومنین میں سے ہیں یا آپ صلی الله علیہ وسلم کی کنیز ہیں ؟ لوگوں نے کہا :اگر آپ صلی الله علیہ وسلم ان کا پردہ کرائیں گے تو امہات المومنین میں سے ہیں ورنہ کنیز۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے کوچ کیا تو ان کے لیے اپنے پیچھے بیٹھنے کی جگہ بنائی اور پردہ کھینچ دیا (جس سے معلوم ہوا کہ وہ امہات المومنین میں سے ہیں)۔(بخاری)

دسترخوان نبی کا، کھانا صحابہ کا

حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرامکے ساتھ چوں کہ سفر میں تھے، اس لیے جو کچھ آپ کے پاس تھاوہ دسترخوان پر ڈال دیا گیا اور صحابہ کو بھی فرمایا کہ جس کے پاس جو ہو وہ لے آئے۔مفصل حدیث اس طرح ہے:حضرت انسسے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے خیبر کا رخ کیا تو ہم نے نمازِ فجر خیبر کے نزدیک اندھیرے میں ادا کی، پھر نبی صلی الله علیہ وسلم اور حضرت ابوطلحہسوار ہوئے، میں حضرت ابوطلحہ کے پیچھے سوار تھا۔ حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی سواری کا رخ خیبر کی گلیوں کی طرف کردیا۔ میرا گھٹنا آپ صلی الله علیہ وسلم کی ران سے چھو جاتا تھا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ران سے تہبند ہٹایا، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی شفاف اور سفید ران کی سفیدی اور چمک دیکھ لی۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم خیبر کی بستی میں داخل ہوئے تو آپ نے فرمایا:اللہ اکبر، خیبر برباد ہوگیا!جب ہم کسی قوم کے آنگن میں پڑاو کرتے ہیں تو ان کی صبح بڑی ہول ناک ہوتی ہے، جو قبل ازیں متنبہ کیے گئے ہوں!آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔ حضرت انسکہتے ہیں:خیبر کے یہودی اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھے:محمد( صلی الله علیہ وسلم )آ پہنچے۔ عبدالعزیز راوی نے کہا:حضرت انسسے بعض روایت کرنے والے ہمارے ساتھیوں نے والخمیس کا لفظ بھی نقل کیا ہے یعنی وہ چلا اٹھے کہ محمد( صلی الله علیہ وسلم) لشکر لے کر پہنچ گئے۔ پس ہم نے خیبر بہ زور فتح کرلیا اور قیدی جمع کیے گئے۔ پھر دحیہ آئے اور عرض کیا:اے اللہ کے رسول ! مجھے قیدیوں میں سے کوئی باندی عنایت کیجیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ، کوئی باندی لے لو۔ انھوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:اے اللہ کے رسول!صفیہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے سردار کی بیٹی ہیں، انھیں آپ نے دحیہ کو دے دیا، وہ تو صرف آپ ہی کے لیے مناسب تھیں!آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: دحیہ کو مع صفیہ کے بلا لاو۔ وہ لائے گئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو فرمایا:قیدیوں میں سے کوئی اور باندی لے لو۔ راوی نے کہا: پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کردیا اور اپنے نکاح میں لے لیا۔ ثابت بنانی نے حضرت انسسے پوچھا: ابوحمزہ! آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کا مہر کیا رکھا؟ حضرت انسنے فرمایا:ان کی آزادی ہی ان کا مہر تھا اور اسی پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کیا۔ پھر راستے ہی میں حضرت ام سلیم(حضرت انسکی والدہ) نے انہیں دلہن بنایا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس رات کے وقت بھیجا۔ اب آپ صلی الله علیہ وسلم دلہا تھے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جس کے پاس جو کچھ ہو وہ لے آئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے چمڑے کا ایک دستر خوان بچھایا۔ بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی۔ عبدالعزیز نے کہا :میرا خیال ہے کہ انسنے ستو کا بھی ذکر کیا۔ پھر لوگوں نے ان کا حلوہ بنا لیا۔ یہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔(بخاری)

حضرت زینبسے نکاح اور ولیمہ

حضرت انس بن مالکنے کہا؛ میں پردے کی آیت سے اچھی طرح واقف ہوں۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جب حضرت زینبسے نکاح کیا اور وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں آئیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ولیمہ کیا اور لوگوں کو دعوت دی۔ لوگ آئے اور کھانا کھانے کے بعد باتیں کرنے بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اندر گئے، پھر باہر آگئے، تاکہ لوگ چلے جائیں، مگر وہ بیٹھے ہی رہے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیتِ حجاب نازل فرمائی۔آپ صلی الله علیہ وسلم اندر تشریف لے گئے اور میں نے بھی جانے کا قصد کیا، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا اور لوگ اٹھ کر چلے گئے۔(بخاری)

آیتِ حجاب کا ترجمہ یہ ہے:اے ایمان والو!نبی کے گھروں میں (بلا اجازت) داخل نہ ہو، مگر یہ کہتمہیں کھانے پر آنے کی اجازت دے دی جائے، وہ بھی اس طرح کہ تم اس کھانے کی تیاری کے انتظار میں نہ بیٹھے رہو، لیکن جب تمھیں دعوت دی جائے تو جاو، پھر جب کھانا کھا چکو تو اپنی اپنی راہ لو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بات سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ تم سے (کہتے ہوئے) شرماتے ہیں اور اللہ حق بات میں کسی سے نہیں شرماتا۔ اور جب تمھیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ طریقہ تمہارے دلوں کو بھی اور ان کے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کا ذریعہ ہوگا۔ اورتمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بڑی سنگین بات ہے۔ (الاحزاب)

سب سے بڑا ولیمہ

ام المومنین حضرت زینبکے ولیمے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک بکری ذبح کی تھی، جس میں دعائے نبوی سے برکت ہوئی تھی اور تین سو آدمیوں نے شکم سیر ہو کر کھایا تھا، اتنا بڑا ولیمہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی بیوی کا نہیں کیا تھا۔(تحفة القاری)حضرت انس بن مالککے سامنے حضرت زینب بنت جحشکے نکاح کا ذکر آیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ازواج میں سے کسی کا ایسا ولیمہ کیا ہو جیسا حضرت زینبسے نکاح کے بعد کیا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک بکری سے ولیمہ کیا تھا۔(ابوداود)

حضرت انس بن مالکسے روایت ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات سے نکاح پر زینبکے نکاح سے زیادہ اور افضل ولیمہ نہیں کیا۔ ثابت البنانی نے کہا:آپ صلی الله علیہ وسلم نے کس چیز کے ساتھ ولیمہ کیا تھا؟ انھوں نے کہا:آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرامکو گوشت اور روٹی کھلائی، یہاں تک کہ انھوں نے (سیرہو کر) چھوڑ دیا۔ (مسلم)

سیرت سے متعلق