گفت گو کے تفصیلی اور اہم آداب

idara letterhead universal2c

گفت گو کے تفصیلی اور اہم آداب

محترم عبدالمتین

∗…جب تک ضروری نہ ہو بات نہ کرے بلاوجہ بات کرنے سے خاموشی بہتر ہے۔

∗…جب تک زبان قابو میں رہے گی عزت بھی قابو میں ہوگی۔

∗…جب تک کوئی بات کررہا ہے تو اس کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع نہ کرے، بلکہ اس کی بات توجہ سے سنے اور پوری ہونے دے۔

∗…بڑے،چھوٹے،بزرگ والدین، علماء ، اکابر سب سے بات کرنے کا الگ الگ طریقہ ہے ،سب سے ایک ہی لہجے میں بات نہ کرے۔

∗…بات کو زیادہ لمبا نہ کرے، بلکہ مختصر پر اثر گفت گو کرے۔

∗…ہر بات کا جواب دینا درست نہیں، اسی طرح ہر وقت خاموش رہنا بھی درست نہیں۔

∗…اگر بات کرنے سے فتنہ فساد جھگڑا ہوسکتا ہے تو خاموش رہے۔

∗…سنی سنائی بات نہ کرے، نہ ہی یہ کہے کہ میں نے سنا ہے، باقی اللہ جانے، بلکہ بیان ہی نہ کرے ۔

∗…جس موضوع پر علم نہ ہو اس موضوع پر بات نہ کرے ۔

∗…کسی کے منھ میں گھس کر بات نہ کرے، بلکہ تھوڑا فاصلہ رکھے تاکہ سننے والے کو الجھن نہ ہو۔

∗…منھ سے معدے وغیرہ کی بدبو نکلتی ہو تو صفائی کا اہتمام کرکے بات کرے، مثلا مسواک،پانی،الائچی وغیرہ کا استعمال زیادہ کرے۔

∗…منہ میں پان، گھٹکا، چھالیہ وغیرہ ہو تو منھ صاف کرکے بات کرے اور دوسروں کے کپڑوں کا خیال رکھ کر بات کرے ۔

∗…گول مول بات نہ کرے، بلکہ سیدھی،سچی اور کھری بات کرے۔

∗…اپنی تعریف والی باتیں نہ کرے، جیسے میں نے کہا تھا نا ، لکھ لو میری بات، مانا کہ نہیں،میں چیلنج کرتا ہوں وغیرہ۔

∗…اپنی تعریف خود نہ کرے، اس طرح عزت بڑھنے کے بجائے کم ہوتی ہے، اگر بہت ضروری ہو تو کبھی کبھی نعمت کا اظہار کرکے بات کرے کہ اللہ کا فضل ہے مجھ پر کہ میں بے ادب نہیں ہوں، وغیرہ۔

∗…اتنی آہستہ بات نہ کرے کہ کوئی سننے کو ترس جائے یا سمجھ ہی نہ آئے ،نہ اتنی زور سے کہ کان کے پردے متاثر ہوجائیں۔

∗…بات کرتے وقت یہاں وہاں نہ دیکھے، بلکہ جس سے بات کررہا ہے اسی کو دیکھے۔

∗…سوال،مشورہ،نصیحت،واقعہ وغیرہ ان میں سے ہر بات کو واضح کرے ،ایسا نہ ہو کہ سوال میں نصیحت ملادے یا مشورے میں نصیحت سنانا شروع کرے۔

∗…غیبت والی بات نہ کرے۔

∗…طعنے نہ دے۔

∗…پہلے تولے ،پھر بولے ۔

∗…مذاق نہ اڑائے ۔

∗…کسی کو اڑے، اوہ یا بازاری لقب دے کر نہ پکارے، بلکہ اس کا نام لے، نام معلوم نہ ہو تو بیٹا بیٹی، اماں بابا ، بھائی بہن یا محترم محترمہ وغیرہ کہہ کر پکارے۔

∗…ہروقت ہنس کر بات نہ کرے ۔

∗…ہر کسی سے بے تکلف ہوکر بات نہ کرے اور نہ جلدی بے تکلف ہوا کرے۔

∗…کوئی اجنبی ہو اور بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو پہلے سلام اور مختصر تعارف کے بعد بات کرے۔

∗…بلاضرورت نامحرم سے بات نہ کرے۔

∗…جھوٹ نہ بولے۔

∗…بات بات پر قسم نہ اٹھائے۔

∗…بات بات پر اپنی صفائی پیش نہ کرے، بلکہ ایسی بات ایسا کام ہی نہ کرے کہ ہروقت صفائی دینی پڑجائے۔

∗…کسی کا راز نہ بتائے، نہ ہی اپنا راز کسی کو بتائے، آگے چاہے اپنی بیوی یا دوست کوئی بھی ہو۔

∗…ڈھینگ نہ مارے، نہ ہی ہر وقت اپنی یا اپنے خاندان وغیرہ کی بڑائی کے قصے سنائے ۔

∗…اپنی بڑائی کے جملوں سے پرہیز کرے، جیسے میں کسی کے باپ سے نہیں ڈرتا، مجھے ہلکا مت لو، تمہیں اندازہ نہیں تم کس سے الجھ رہے ہو، وغیرہ۔

∗…بات کرتے وقت فون نہ اٹھائے، بہت ضروری ہو تو آگے سے اجازت لے کر فون اٹھائے ۔

∗…ہروقت ایک ہی طرح کے موضوع پر بات نہ کرے۔

∗…ایسی باتیں نہ کرے کہ لوگوں کے بیچ مشہور ہوجائے کہ یہ قصے زیادہ سناتا ہے یا لطیفے زیادہ سناتا ہے۔

∗…سنجیدہ مجلس میں لطیفے نہ سنائے اور لطیفے ویسے بھی زیادہ نہ سنائے۔

∗…بات بات پر ناراض نہ ہوا کرے، اگر ایسا ہے تو اس موقع پر بات ہی نہ کرے ۔

∗…بات کرتے وقت بہت سے لوگ مخاطب ہوں تو ایک ہی شخص کو دیکھ کر بات نہ کرے، بلکہ سب کو دیکھے۔

∗…ایک وقت میں ایک بات کرے، اس ایک بات میں سو موضوعات شامل نہ کرے۔

∗…مذاق یا بے تکلفی کی بات ہو تو اس سے دیگر نتائج برآمد نہ کرے، بلکہ مذاق کو مذاق ہی سمجھے۔

∗…کسی سے بات کرنے کو دل نہیں چاہتا تو بلاوجہ بات کرنا ضروری نہیں ،لیکن اس سے تعلق خراب نہ کرے، بلکہ سلام عیادت وغیرہ جاری رکھے۔

∗…اشارے کنائے یا جاسوسی انداز میں بات نہ کرے کہ بات کچھ، جواب کچھ۔

∗…سوال والی بات پر سوال کرنے کے بجائے جواب دے یا عذر کرے۔

∗…بات کو غور سے سنے، پھر جواب دے، مثلا استاذ پوچھے کہ کل کیوں نہیں آئے؟ تو جواب میں یہ نہ کہے کہ میں نے چھٹی لی تھی، بلکہ اپنے نہ آنے کی وجہ بتائے اور پھر چھٹی کا کہے۔

∗…والدین یا بڑے کتنی ہی سخت بات کیوں نہ کہہ دیں، ان کو جواب نہ دے، بلکہ ادب سے سنے۔

∗…مجلس، گھر،پڑوس وغیرہ میں موجود لوگوں سے بات کرنے کو فون پر بات کرنے والوں سے زیادہ اہمیت دے، ایسا نہ ہو کہ میلوں دور بیٹھے شخص سے ہر وقت بات ہو اور ساتھ بیٹھے شخص سے کبھی کبھی۔ البتہ کوئی زیادہ اہم معاملہ ہو تو الگ بات ہے ۔

∗…کسی سے اس کی عمر اور آمدنی سے متعلق بات نہ کی جائے، البتہ بے تکلفی کا تعلق ہو تو الگ بات ہے۔

∗…کسی کی ذاتیات پر حملہ آور بات نہ کی جائے، چاہے وہ کوئی لیڈر ہو یا عام مسلمان۔

∗…ہر وقت دوسروں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرنا، یعنی ایسی بات کہنے کی کوشش کرنا کہ بولتی بندہوجائے اور مکمل خاموش کرادے، یہ انتہائی غلط بات ہے۔

∗…بات بات پر انگریزی کے الفاظ استعمال کرنا اچھی بات نہیں، بلکہ اپنی مادری یا قومی زبان میں بات کی جائے۔

∗…اچھی گفت گو کا راز اپنی بات سمجھانے سے زیادہ دوسروں کی بات سمجھنے میں ہے،لہٰذا بولنا آسان ہے ،لیکن کسی کو توجہ سے سننا بہت مشکل ہے اور اسی مشکل کے لائق بننا کام یابی ہے۔

∗…بات شروع کرنا آسان ہے، لیکن بات کو ختم کرنا مشکل ہے اور یہی ضروری ہے ،کیوں کہ سمجھانے سے زیادہ سمجھنا اہم ہے اور جب بات سمجھ آگئی تو اسے ختم کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

∗…گفت گو کے دوران ہر وقت ایسی دلیل سوچنا کہ کیسے میں اسے غلط ثابت کرکے بحث جیت جاوں یہ بہت ہی نامناسب بات ہے، اس طرح اگر کوئی بحث جیت بھی جائے تو وہ تعلق اور رشتہ کو کم زور کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

∗…دوران گفت گو اپنی رائے دینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن انداز ایسا ہو کہ جس سے باہمی تعلق متاثر نہ ہو۔

∗…کسی کو زیادہ معلومات،اونچی آواز یا اپنی شخصیت کے رعب سے چپ کرادینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ آپ کی بات مان لے گا۔

∗…دوران گفت گو بالکل چپ بیٹھ جانا درست نہیں، بلکہ سامنے والے کو احساس دلایا جائے کہ میں اس کی بات توجہ سے سن رہا ہوں، جس کے لیے اس کی طرف متوجہ ہونا، اس کی طرف دیکھنا، مختصر جواب دیتے رہنا، جیسے”اچھا“وغیرہ۔

∗…گفت گو کا اختتام کسی نہ کسی نتیجے پر ہونا چاہیے ۔

∗…کوئی شخص چاہے کتنا ہی شدید غصے میں کیوں نہ ہو اسے دس منٹ بولنے دیا جائے تو وہ خود ٹھیک ہوجائے گا۔

∗…کسی کو بولنے میں مشکل ہوتی ہو ،مثلا ًہکلاتا ہو یا توتلا ہو تو اس پر ہنسنا بہت گھٹیا کام ہے۔

∗…بات سمجھانے کی خاطر دہرانا سنت ہے۔

∗…چغل خوری اور لگائی بجھائی سے بچنا چاہیے۔

∗…خوشی کے موقع پر غمی کی باتیں، غمی کے موقع پر خوشی کی باتیں اور سنجیدہ موقع پر مذاق کی باتیں نہیں کرنی چاہییں۔

∗…جلدبازی کے بجائے ٹھہر ٹھہر کر بات کرنی چاہیے۔

∗…مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرنی چاہیے۔

∗…دوران گفت گو کوئی خوش گوار بات ہو تو مسکرادینا چاہیے۔

∗…دوران گفت گو لہجہ بہت اہم ہے، لہجے میں نرمی ہونی چاہیے اور بناوٹی لہجے سے بچنا چاہیے۔

∗…لہجے میں نرمی اور عاجزی لانے کے لیے کچھ طریقے یہ ہیں جیسے: کھالو کی جگہ کھالیجیے،میرا فیصلہ کی بجائے میری رائے،میں کہہ رہا ہوں کی جگہ میں عرض کررہا ہوں،تم کی جگہ آپ، تم نہیں سمجھ سکتے کی جگہ شاید میں سمجھا نہیں پارہا وغیرہ۔

∗…کسی کی بات نقل کرے تو اس میں اپنی طرف سے ملاوٹ نہ کرے۔

∗…جن کاموں کا تعلق آپ سے نہیں ان پر بلاوجہ رائے دینا،مشورہ دینا،اعتراض کرنا درست رویہ نہیں۔

∗…کسی منفی پہلو پر بات کرنی پڑے تو اس میں الفاظ سوچ سمجھ کر استعمال کرے۔

∗…ایسی زبان میں گفت گو کرے جو مجلس میں سب کو سمجھ آتی ہو۔