حیا اسلام کی نظر میں

idara letterhead universal2c

حیا اسلام کی نظر میں

مولانا محمد شاہ نواز قاسمی

لغت کی کتابوں میں کسی معیوب او رناپسندیدہ عمل کے خوف سے انسان کے اوپر طاری ہونے والی ظاہری تبدیلی کو شرم اور حیا کہا گیا ہے۔ جب کہ شریعت کی روشنی میں ایسی فطری خصلت کو حیا کہتے ہیں جو انسان کو برے امور سے اجتناب اور حق دار کے حقوق کی ادائیگی کی داعی اورمُحرک ہو۔ ابن رجب حنبلی رحمہ الله فرماتے ہیں: حیا کی دو قسمیں ہیں: وہبی اور کسبی۔ وہبی حیا انسان کو الله تعالیٰ کی طرف سے انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہوتی ہے۔ حیا کی دوسری قسم کسبی کہلاتی ہے۔ یہ صفت انسان کو الله تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت، یقین کی مضبوطی اور اس کی شان کی بلندی کا علم حاصل کرنے سے نصیب ہوتی ہے۔ حیا کی یہ قسم ایمان کی اعلیٰ ترین صفت اور سلوک کا اونچا درجہ ہے۔

امام قرطبی رحمہ الله نے” الحل المفھم“ میں لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ذات اطہر وہبی او رکسبی دونوں قسم کی حیاکا مجموعہ تھی۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کی فطری حیاکا یہ عالم تھا کہ پردہ نشین باکرہ لڑکی سے زیادہ شرمیلے اور حیا دار تھے اور کسبی حیا کا یہ مقام کہ پہاڑ کی اونچائی اس کے آگے ہیچ۔
شریعت کی نظر میں حیا کی نوعیتیں دو ہیں۔ حیائے شرعی: جو کسی بڑے کے احترام کے پیش نظر کی جائے، یہ حیائے محمود کہلاتی ہے۔ حیا غیر شرعی: جو کسی حکم شرعی کے چھوڑنے کا سبب بنے، یہ شکل مذموم اور ناپسندیدہ ہے؛ اسے باطن کی شکستگی اور نفس کی کم زوری کہنا موزوں ہو گا۔ مشہور مفسر مجاہد رحمہ الله کا ارشاد ہے: شرمیلا انسان علم کا اکتساب نہیں کرسکتا۔ اس سے مراد حیائے غیر شرعی ہے۔ حیا کی وجہ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تغافل نہیں برتنا چاہیے۔ بصورت دیگر اسے نفسیاتی خوف اور بزدلی کا نام دیا جاسکتا ہے۔

حیا انسان کی فطری خوبی اور ہر خیر کی اساس ہے۔ ذیل میں حیا کے چند فضائل نقل کیے جاتے ہیں:

حیا ا لله تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ عمل ہے

حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ حیا دار او رپردہ کرنے والے ہیں۔ حیا اور پردہ آپ کو نہایت پسند ہیں، اگر کوئی غسل کرے تو اسے پردہ کرناچاہیے۔ اس حدیث شریف میں لوگوں کو شرم اور پردہ کی ترغیب دی گئی ہے؛ کیوں کہ الله تعالیٰ برائیوں کو ناپسند فرماتے ہیں اور عیوب کی پردہ پوشی فرماتے ہیں؛ اس لیے بندوں کو بھی صفتِ الہٰی اختیار کرتے ہوئے حیا اور پردہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔

حیا خداتعالیٰ کے شایان شان ایک عظیم صفت

حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرمایا: الله تعالیٰ باحیا اور سخی ہیں، جب بندہ الله تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو الله تعالیٰ کو شرم آتی ہے کہ انہیں خالی ہاتھ واپس کر دیں۔

علامہ ہر اس کہتے ہیں: حیا الله تعالیٰ کی ایک صفت ہے؛ مگر عام مخلوق کے وصف سے بالکل مختلف اور جداگانہ ہے۔ الله تعالیٰ کی شان میں حیا کا مطلب ایسے امور کو نظر انداز کرنا ہے جو اس کی رحمت، فیاضی، عفوودرگزر کے منافی ہیں، انسان ہمہ وقت الله تعالیٰ کی طرف احتیاج، اپنی بے بسی اور لاچاری کے باوجود برملا نافرمانی کرتا ہے، مگر الله تعالیٰ تمام تر قدرت اور شان بے نیازی کے باوصف انسان کے عیوب کی پردہ دری سے شرم کرتے ہوئے پردہ پوشی کے وسائل مہیا فرماتے ہیں او رتوبہ کے بعد بندے کو عفو وکرم کا پروانہ عطا کرتے ہیں۔

حیا ہر خیر کی کنجی ہے

حضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حیا کا انجام محض خیر او راچھائی ہے۔

ابن بطال مالکی رحمہ الله فرماتے ہیں: جو انسان برائیوں اورمحرکات کا ارتکاب کرتے ہوئے لوگوں سے شرم کرتا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ایسا شخص اپنے خالق اور پروردگار سے زیادہ شرم محسوس کرے؛ کیوں کہ الله تعالیٰ سے شرم کی بنا پر فرائض اور واجبات کی ادائیگی میں لاپرواہی اورمعاصی کے ارتکاب سے نفرت ہو گی۔ ہر سلیم الفطرت انسان کو معلوم ہے کہ الله تعالیٰ ہی نفع ونقصان او رموت وحیات کے مالک ہیں؛ اس لیے انسان کو الله تعالیٰ سے شرم کرنی چاہیے۔

ابن رجب حنبلی رحمہ الله فرماتے ہیں: حیا کا انجاممحمود ہے؛ کیوں کہ حیا برائیوں کو لگام دیتی ہے۔ بد اخلاقیوں سے روکتی او رحسن اخلاق کی ترغیب دتی ہے۔ اس معنی کے اعتبار سے حیا ایمان کا وصف خاص قرار پایا۔

حیا ہر برائی کو روکنے کا ذریعہ ہے

حضرت ابو مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں کو پہلے انبیائے کرام کی جو باتیں معلوم ہوئی ہیں، ان میں سے یہ ہے کہ اگر تم کو شرم نہ ہو تو جو چاہو کرو۔

ابن حجر عسقلانی رحمہ الله فرماتے ہیں: فاصنع ماشئت فعل امر کا صیغہ خبر کے معنی میں وارد ہوا ہے۔ یا فعل امر تہدید کے معنی میں شرم اور حیا کی خلاف ورزی کے انجام بد سے ڈرانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے؛ یعنی تم جو چاہوں کرو، الله تعالیٰ تمہیں اس پر جزا سزا دینے والے ہیں۔ یا اپنے ذریعے کیے جانے والے کاموں کو دیکھ لو، اگر شرم وحیا کے مغایر نہ ہوں، کر ڈالو اور اگر شام وحیا کے منافی ہوں، تو باز آجاؤ۔ یا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کو الله تعالیٰ سے ذرا شرم نہیں آتی ہے تو دینی معاملے میں بھی الله تعالیٰ سے شرم نہ کرتے ہوئے اس کو انجام دینا چاہیے اور مخلوق کے خوف کو بالکلیہ خاطر میں نہیں لانا چاہیے ۔ یا اس کے ذریعے انسان کو حیا کی ترغیب اور اس کی خوبیوں کی ستائش مقصود ہے۔ یعنی جب تمہاری مرضی کے مطابق ہر کام کرنا جائز نہیں ہے تو شرم اور حیا کو خیر باد کہنا بھی بہتر نہیں ہے۔

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ سے اتنی حیا کرو جتنا اس کا حق ہے، ہم نے عرض کیا یا رسول الله! الله کا شکر ہے کہ ہم اس سے حیا کرتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، لیکن اس کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر اور جو کچھ اس میں ہے اس کی حفاظت کرو ،پھر پیٹ او راس میں جو کچھ اپنے اندر جمع کیا ہوا ہے اس کی حفاظت کرو اور پھر موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرواور جو آخرت کی کام یابی چاہے گا وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے گا اور جس نے ایسا کیا اس نے الله سے حیا کرنے کا حق ادا کر دیا۔

تشریح: سر کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ سرجسے خدا نے شرف مکرمت سے نوازا ہے خدا کے علاوہ کسی اور کے کام نہ آئے۔ سر کو، جسے خدا نے انسانی تقدس عطا فرمایا ہے انسان کے ہاتھوں تراشے گئے فانی بتوں اور خود انسانوں کے سامنے سجدہ ریز کرکے ذلیل نہ کیا جائے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اپنی دین داری کا سکہ جمانے کے لیے نماز نہ پڑھی جائے۔ سر کو خدا کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جھکا یا نہ جائے اور سرکواز راہ غروروتکبر بلند نہ کیا جائے۔

”سر کے ساتھ“ کی چیزوں سے مراد ہیں۔ زبان، آنکھ او رکان او ران چیزوں کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ ان اعضاء کو گناہ سے بچا یا جائے، جیسے زبان کو غیبت میں مبتلا نہ کیا جائے او رنہ جھوٹ بولا جائے ، آنکھ سے نامحرم اور گناہ کی چیزیں نہ دیکھی جائیں او رکان سے کسی کی غیبت اور جھوٹ، مثلاً کہانی وغیرہ نہ سنی جائے۔

”پیٹ کی محافظت“ کا مطلب یہ ہے کہ حرام او رمشتبہ چیزیں نہ کھائی جائیں۔

” پیٹ کے ساتھ“ کے چیزوں سے جسم کے وہ حصے اور اعضاء مراد ہیں جو پیٹ سے ملے ہوئے ہیں، جیسے ستر، ہاتھ پاؤں اور دل وغیرہ، مطلب یہ ہے کہ جسم کے ان اعضا اورحصوں کو بھی گناہ سے محفوظ رکھا جائے، مثلاً ستر کو حرام کاری میں مبتلا نہ کیا جائے، گناہ وفواحش کی جگہ جیسے میلے ، تماشے، ناچ گانے میں نہ جایا جائے کہ اس طرح پاؤں معصیت سے محفوظ رہیں گے، ہاتھوں سے کسی کو کسی بھی طرح کی ایذا نہ پہنچائی جائے۔ جیسے نہ کسی کو مارے پیٹے، نہ کسی کا مال چوری کرے اور نہ چھین کر لے او رنہ نامحرم کو ہاتھ لگائے، اسی طرح دل کو برے عقیدوں، گندے خیالات او رخدا کے علاوہ کسی دوسرے کی یاد سے پاک رکھا جائے۔

آخرمیں انسان کے جسم خاکی کے فانی ہونے کا احساس دلایا گیا ہے۔ چناں چہ فرمایا گیا ہے کہ اس بات کو کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ آخر کار ایک نہ ایک دن اس دنیا سے تعلق ہو جائے گا اور یہ فانی جسم، خواہ کتنا ہی حسین و جمیل او رباعظمت کیوں نہ ہو، قبر کی آغوش میں سلا دیا جائے گا، جہاں گوشت تو گوشت، ہڈیاں تک بوسیدہ وخاک ہو جائیں گی۔

پھر اس کے بعد آیت﴿وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ … الخ﴾ فرما کر ایک ضابطہ بیان فرما دیا گیا ہے کہ جو شخص جانتا ہے ہ دنیا فانی ہے وہ دنیا اور دنیا کی لذات وخواہشات کو ترک کر دیتا ہے، نیز یہ کہ جو شخص آخرت کے ثواب اوروہاں کی ابدی نعمتوں اور سعادتوں کی خواہش رکھتا ہے وہ دنیا کی ظاہری زیب وزینت چھوڑ دیتا ہے، کیوں کہ یہ دونوں چیزیں پورے کمال کے ساتھ کسی ایک شخص میں یہاں تک کہ اولیاء میں بھی جمع نہیں ہوسکتیں۔ اس حدیث کو لوگوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ بیان کرنا، اس کی اشاعت کرنا او راس کے مفہوم ومطالب سے عوام کو باخبر کرنا بڑی سعادت اور فضیلت کی بات ہے، چناں چہ امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو کثرت کے ساتھ ذکر وبیان کرنا مستحب ہے۔ (مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰة شریف، جلد دوم، حدیث نمبر86)

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حضرت موسی علیہ السلام پر شرم وحیا کا بہت غلبہ تھا، حتیٰ کہ وہ اپنے برہنہ حصہ پر نگاہ بھی نہیں پڑنے دیتے تھے۔ اس کے برعکس بنی اسرائیل مجمع عام میں برہنہ ہو کر غسل کرنے کے عادی تھے، اس لیے وہ حضرت موسی علیہ السلام کو تنگ کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے، کبھی کہتے کہ ان کے خاص حصہ جسم پر برص کے داغ ہیں، کبھی کہتے کہ ان کوادرة (فوطوں کا متورم ہو کر بڑھ جانا) کا مرض ہے یا کوئی او راسی قسم کا خراب مرض ہے، تب ہی تو چھپ کر علیحدہ نہاتے ہیں، حضرت موسی علیہ السلام سنتے او رخاموش رہتے، آخر الله تعالیٰ کی یہ مرضی ہوئی کہ ان کواس تہمت سے پاک اور بری کرے، چناں چہ ایک روز وہ علیحدہ آڑ میں نہانے کی تیاری کر رہے تھے، کپڑے اُتار کر پتھرپررکھ دیے،پتھر خدا کے حکم سے اپنی جگہ سے سرکا اوربنی اسرائیل کے مجمع میں پہنچ گیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام گھبراہٹ اور غصہ میں اس کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے”ثوبی، حجر“ (اے پتھر! میرے کپڑے) پتھر جب مجمع کے سامنے ٹھہر گیا تو سب نے دیکھ لیا کہ موسی علیہ السلام بیان کردہ ہر قسم کے عیب سے پاک وصاف ہیں، حضرت موسی علیہ السلام پر اس اچانک واقعہ کا ایسا اثر ہوا کہ پتھر پر لاٹھی کے چند وار کیے، جس سے اس پر نشان پڑ گئے۔

حضرت موسی علیہ السلام ایک عظیم پیغمبر تھے، جو الله تعالیٰ سے براہ راست ہم کلام ہوئے۔ایک مرتبہ سفر میں تھے، گرمی کا موسم تھا ،پاؤں ننگے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور پیدل چل چل کر پاؤں میں چھالے پڑ چکے ہیں، ذرا آرام کرنے کے لیے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ فاصلے پر ایک کنواں ہے، وہاں سے کچھ نوجوان اپنی بکریوں کو پانی پلا رہے ہیں او ران سے کچھ فاصلے پر باحیا دو لڑکیاں کھڑی ہیں۔ جب آپ نے ان کو دیکھا تو حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ یہ دونوں لڑکیاں اس جنگل میں کیوں کھڑی ہیں اور کس کا انتظار کر رہی ہیں؟ حضرت موسی علیہ السلام نے جب وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ ان کا کوئی بھائی نہیں، باپ بوڑھا ہے، وہ اس قابل نہیں کہ چل پھر سکے اور وہ دونوں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے آئی ہیں کہ جب تمام لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں گے تو آخر میں یہ اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔ حضرت موسی علیہ السلام ان کی بات سننے کے بعد آگے بڑھے او رخود پانی کنوئیں سے نکالا او ران کی بکریوں کو پلا دیا۔ لڑکیاں جب خلاف معمولی جلدی گھر پہنچیں تو باپ نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی تو دونوں نے باپ کو پوری حقیقت سے آگاہ کر دیا۔ باپ خود بھی پیغمبر تھے فرمایا کہ جاؤ! اس نوجوان کو بلا کر لاؤ، تاکہ ہم اس کو پورا پورا بدلہ دیں۔ اب ایک لڑکی جب موسیٰ علیہ السلام کو بلانے آئی تو وہ کس طرح آئی، اس کا انداز کیا تھا۔ قرآن نے اس کے چلنے کا انداز، جو کہ شرم وحیا سے لبریز تھا، اس طرح بیان کیا ہے:

ترجمہ:” پھر آئی ان دونوں میں سے ایک ، شرم وحیا سے چلتی ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ میرے والد آپ کو بلاتے ہیں، تاکہ وہ بدلہ دے جو آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔“ (القصص:25)

حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی حضرت موسی علیہ السلام کو بلانے آئی۔ شرم وحیا کا دامن نہیں چھوڑا، نگاہ نیچے تھی۔ بات بھی شرما کر زیادہ کھل کر نہیں کی۔ الله تعالیٰ کو اس کی حیا اس قدر پسند آئی کہ اس حیا کو قرآن بنا کر حضرت محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر نازل کر دیا، تاکہ پوری امت کی عورتوں کو پتہ چل جائے کہ جب وہ گھروں سے نکلیں تو شرم وحیا سے عاری لوگوں کی طرح گردن اٹھا کر نہ چلیں، بلکہ دھیمی چال سے کہ شرافت او رحیا ان سے واضح نظر آئے۔ جس طرح حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی شرم وحیا سے چلتی ہوئی آئی۔
حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کو کوئی بات ناپسندگزرتی ، تو ہم اس ناپسندیدگی کے آثار آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہٴ مبارک پر پہچان جاتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا دار تھے، جس میں سب سے زیادہ شرم وحیا ہوتی ہے؛ کیوں کہ شادی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مردوں کے ساتھ میل جول سے دور ہوتی ہے۔ چناں چہ وہ شرم وحیا کا پیکر بن کر اپنے گھر ہی میں رہتی ہے۔ لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ تاہم نبی صلی الله علیہ وسلم کو جب کوئی ناپسندیدہ یا ایسی بات نظر آتی ہے، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت کے برخلاف ہوتی تو اس کے اثرات آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہٴ انور پر ظاہر ہو جاتے تھے۔

حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے زینب بنت جحش رضی الله عنہا سے نکاح کے بعد (بطور ولیمہ) گوشت او روٹی تیار کروائی او رمجھے کھانے پر لوگوں کو بلانے کے لیے بھیجا، پھر کچھ لوگ آئے او رکھا کر واپس چلے گئے۔ پھر دوسرے لوگ آئے او رکھا کر واپس چلے، میں بلاتا رہا۔ آخر جب کوئی باقی نہیں رہا تو میں نے عرض کیا: اے الله کے نبی ! اب تو کوئی باقی نہیں رہا جس کو میں دعوت دوں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب دستر خوان اٹھا لو، لیکن تین اشخاص گھر میں باتیں کرتے رہے۔نبی کریم صلی الله علیہ وسلم باہر نکلے آئے اور عائشہ رضی الله عنہا کے حجرہ کے سامنے جاکر فرمایا: السلام علیکم اہل البیت ورحمة الله ۔ انہوں نے کہا وعلیک السلام ورحمة الله، اپنے اہل کو آپ نے کیسا پایا؟ الله برکت عطا فرمائے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اسی طرح تمام ازواج مطہرات کے حجروں کے سامنے گئے او رجس طرح حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے فرمایا تھا اس طرح سب سے فرمایا اور انہوں نے بھی حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی طرح جواب دیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو وہ تین آدمی اب بھی گھر میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم بہت زیادہ حیا دا رتھے، آپ ( یہ دیکھ کر کہ لوگ اب بھی بیٹھے ہوئے ہیں) عائشہ رضی الله عنہا کے حجرہ کی طرف پھر چلے گئے، مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد میں نے یا کسی اور نے آپ کو جاکر خبر کی کہ اب وہ تینوں آدمی روانہ ہوچکے ہیں۔پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اب واپس تشریف لائے اور پاؤں چوکھٹ پر رکھا۔ ابھی آپ کا ایک پاؤں اندر تھا او رایک پاؤں باہر کہ آپ نے پردہ گرالیا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔

”اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے، ایسے طو رپر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ بیٹھے رہو، البتہ جب تم کو بلایا جائے تب جایا کرو۔پھر جب کھانا کھا چکو تو اٹھ کر چلے جایا کرو اور وہاں باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو۔ اس بات سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے، سووہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور الله صاف بات کہنے سے (کسی کا) لحاظ نہیں کرتا اورجب تم ان (رسول کی ازواج) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے ما نگا کرو، یہ تمہارے او ران کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے اورتمہیں جائز نہیں کہ تم رسول الله کو ( کسی طرح بھی ) تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو، بے شک یہ الله کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔“

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں:(ایک دن) رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اپنے گھر میں اپنی رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے لیٹے تھے کہ حضرت ابو بکر نے حاضر ی کی اجازت چاہی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اندر بلا لیا او راسی حالت میں لیٹے رہے، حضرت ابوبکر (کچھ دیر تک بیٹھے)آپ صلی الله علیہ وسلم سے باتیں کرتے رہے، پھر حضرت عمر نے حاضری کی اجازت چاہی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اندر بلا لیا اور اسی طرح لیٹے رہے، حضرت عمر (بھی کچھ دیر تک بیٹھے) آپ صلی الله علیہ وسلم سے باتیں کرتے رہے او رپھر جب حضرت عثمان نے حاضری کی اجازت چاہی ( اور اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئے) تو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے او رکپڑوں کو درست کر لیا( یعنی رانیں یا پنڈلیاں ڈھک لیں) جب حضرت عثمان (او رخدمت اقدس میں حاض دوسرے لوگ) چلے گئے تو حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ حضرت ابوبکر اندر آئے تو آپ نے نہ جنبش کی او رنہ ان کی پروا کی، (بلکہ اسی طرح لیٹے رہے او راپنے کپڑے بھی درست نہیں کیے) اسی طرح حضرت عمر اندر آئے تو آپ نے اس وقت بھی نہ حرکت کی او رنہ ان کی پرواکی، مگر جب حضرت عثمان اندر داخل ہوئے تو آپ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئے او راپنے کپڑے درست کر لیے؟! آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں اس شخص سے حیا نہ کرو جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں۔ او رایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ عثمان بہت حیا دار آدمی ہیں،میں نے محسوس کیا کہ اگر میں نے عثمان کو اسی حالت میں بلا لیا( کہ میری رانیں یا پنڈلی کھلی ہوئی ہوں) تو وہ مجھ سے اپنا مقصد پورا نہیں کریں گے، یعنی اگر وہ مجھ کو اس حالت میں دیکھیں گے تو غلبہ ادب اور شرم وحیا سے میرے پاس نہیں بیٹھیں گے اورجس مقصد سے یہاں آئے ہیں اس کو پورا کیے بغیر واپس چلے جائیں گے۔

حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ میرے گھر کے جس کمرے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم میرے والد (حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ) کی قبریں تھیں میں وہاں اپنے سر پر دوپٹہ نہ ہونے کی حالت میں بھی چلی جاتی تھیں، کیوں کہ میں سمجھتی تھی کہ یہاں صرف میرے شوہر او رمیرے والد ہی تو ہیں، لیکن جب حضرت عمر رضی الله عنہ کی بھی وہاں تدفین ہوئی تو بخدا! حضرت عمر رضی الله عنہ سے حیا کی وجہ سے میں جب بھی اس کمرے میں گئی تو اپنی چادر اچھی طرح لپیٹ کر ہی گئی۔

صحیح بخاری میں خود حضرت اسماء رضی الله عنہا سے روایت ہے:”زبیر نے مجھ سے نکاح کیا، اس وقت ان کے پاس نہ تو زمین تھی نہ غلام، نہ کچھ اور، سوائے ایک اونٹ او رایک گھوڑے کے۔ میں ان کے گھوڑے کو دانہ کھلاتی تھی، پانی بھرتی تھی، ڈول سیتی تھی، آٹا گوندھتی تھی۔ انصار کی کچھ عورتیں جو میری ہمسایہ تھی، روٹی پکا دیتی تھیں، وہ عورتیں مخلص تھیں، میں زبیر کی زمین سے جوا نہیں حضور صلی الله علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی، سر پر گٹھلیاں رکھ کر لاتی تھی۔ یہ زمین میر ی گھر سے تین فرسخ کی مسافت پر تھی“۔

اسی زمانے میں ایک دن حضرت اسماء رضی الله عنہا کھجور کی گٹھلیوں کا گٹھا سر پر لادے چلی آرہی تھی کہ راستے میں رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کچھ اصحاب کے ہم راہ مل گئے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور چاہا کہ اسماء رضی الله عنہا اس پر سوار ہو جائیں، لیکن حضرت اسماء شرم کی وجہ سے اونٹ پر نہ بیٹھیں او رگھر پہنچ کر حضرت زبیر رضی الله عنہ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا:”سبحان الله! سر پر بوجھ لادنے سے شرم نہیں آئی، لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اونٹ پر بیٹھنے میں شرم مانع ہوئی۔“ کچھ عرصہ بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ نے حضرت اسماء اورحضرت زبیر رضی الله عنہ کو ایک غلام عطا کیا ،جس نے گھوڑے او راونٹ کی نگہداشت سنبھال لی اور حضرت اسماء رضی الله عنہا کی مصیبت کچھ کم ہوئی۔