اسلامی معاشرت میں بچوں کا مقام

idara letterhead universal2c

اسلامی معاشرت میں بچوں کا مقام

محترم عبدالمتین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کھائے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ جانے۔ (ترمذی)

حدیث میں لیس منا کا مطلب یہ ہے کہ وہ امت محمدیہ کے طریقے سے ہٹا ہوا ہے اور اس کا یہ فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھلائی ہوئی تعلیمات کے خلاف ہے۔

فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہ کھائے، اسلامی معاشرت میں چوں کہ معاشرے کے تمام طبقات کے حقوق کا ذکر ہے اسی ضمن میں اس حدیث مبارکہ میں خاص کر چھوٹے اور بڑے کا حق ذکر کیا گیا ہے۔

چھوٹے سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو ہم سے عمر میں چھوٹے ہیں ،لہٰذا بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ چھوٹوں کے ساتھ زیادتی سے کام نہ لیں بلکہ بھرپور شفقت کا مظاہرہ کریں ۔

شفقت،محبت،لحاظ،مروت اور اعتماد کا تعلق

بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ چھوٹوں پر کسی طرح کی زیادتی نہ کریں، جومنھ میں آئے سنا دیا یا جب جی چاہا ماردیا۔ یہ رویہ ان کے حق میں بالکل بھی درست نہیں ۔

غلط فہمی

یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ ہم چھوٹوں پر کوئی بھی زیادتی ان کے جسمانی یا ذہنی کمی کے سبب کرلیتے ہیں اور یہ خیال کرلیتے ہیں کہ یہ نہ مجھ سے بدلہ لے سکتا ہے اور نہ ہی مجھے جواب دے سکتا ہے۔
حالاں کہ بچہ اپنی جسمانی کم زوری یا شعوری کم زوری کے سبب باقاعدہ بدلہ تو نہیں لیتا لیکن تجربہ شاہد ہے کہ وہ یہ سب حرکات و سکنات نوٹ کررہا ہوتا ہے اور اپنے شعور یا لاشعور میں ان کو محفوظ بھی کرلیتا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ اپنے طور پر ان تمام امور کا بھرپور بدلہ بھی لیتا ہے۔

مثلا اس کی چندمثالیں اس طرح ہیں گئی :
جب اس بچے کا واسطہ اپنے سے چھوٹے کے ساتھ پڑتا ہے تو وہ وہی کارروائی دہراتا ہے جو اس کے ساتھ کی گئی تھی۔

جب وہ بڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے سے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، بلکہ معاشرے کی طویل غیر معیاری تربیت اس کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے ۔

یہی بچے بڑے ہوکر اپنی انا اور طاقت کے استعمال کو ہی متاع کل تصور کرلیتے ہیں، جس سے آئندہ آنے والی پوری نسل غلط تربیت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

اسی لیے اس بات کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ بچے پر بے جا سختی اور زیادتی سے کام نہ لیا جائے، ورنہ اس کے اثرات نسلوں تک منتقل ہوسکتے ہیں۔

درگزر کا معاملہ

ایک اہم معاملہ بچوں کی شرارت کا ہے، ہمیں نہ جانے کیا ہوگیا ہے کہ ہم بچے کی ہر حرکت کو شرارت اور بدتمیزی کا نام دے دیتے ہیں اور جب تک اس نام نہاد بدتمیزی یا شرارت پر ڈانٹ کی ندا نہیں لگاتے بے چین رہتے ہیں۔

حالاں کہ ماہرین فن کے مطابق بچوں سے بہت زیادہ منفی اسلوب میں بات کرنا بھی نقصان دہ ہے۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ شرارت کی تعریف یہ نہیں ہے کہ بچہ جو بھی کام کرے اسے شرارت کہا جائے گا، بچہ ہل جل ، کھیل کود، مقابلہ وغیرہ کرے گا تو وہ اس کی عمر کا طبعی تقاضا ہے، جسے بدلنے کی کوشش ایسا ہی ہے جیسے ایک بچے سے درویش اور صوفی بننے کی تمنا رکھنا، جو کہ یکسر غلط ہے۔

غلطی پر تنبیہ

لہٰذا بچہ کھیل کود کرے تو وہ غلطی نہیں ہے، یہ اس کا طبعی تقاضا ہے، لیکن اگر وہ واقعی کوئی غلط اورنامناسب کام کرے تب اسے تنبیہ ضرور کرنی چاہیے۔ بس اس تنبیہ میں کچھ باتوں کا خیال رہے کہ اسے پہلی مرتبہ میں کبھی بھی مارا نہ جائے، بلکہ مناسب الفاظ میں ڈانٹ پلائی جائے اور اسے یہ احساس دلایا جائے کہ اس پر ایک سرپرست کی بھرپور نظر ہے اور اگر آئندہ ایسا کچھ ہوا تو مزید سختی سے پیش آیا جاسکتا ہے۔

اس کے باوجود بھی وہ غلطی پر مصر رہے تو ہلکی پھلکی مار لیکن اس کے ساتھ ڈانٹ پر زیادہ زور رہے، اس کے بعد بھی اگر ایسا ہوجائے تو ذرا سخت مار، جس میں چہرہ اور سر پر ہاتھ اٹھایا نہ جائے اور نہ ہی کسی آلے کا استعمال ہو اور نہ ہی وہ مار اس کے دوستوں کے سامنے ہو۔

بس خیال رہے کہ یہ مار کا عمل بلاضرورت نہ ہو، بار بار نہ ہو، بغیر تنبیہ کے نہ ہو،اپنی طاقت اور بڑے پن کے نشے میں مست ہوکر نہ ہو، وگرنہ بچہ اس مار کا عادی ہوجائے گا اور ایک وقت آنے پر وہ مار کو معمولی سمجھ کر ہر برے کام کا ارتکاب نڈر ہوکر کرے گا، جس میں اسے زیادہ سے زیادہ جو مارپیٹ کا خدشہ ہوگا وہ اپنے وسیع تجربے کی بنا پر اسے نظر انداز کرے گا اور بالآخر معاشرے کے لیے ایک ناسور ثابت ہوگا۔

اعتماد

بچے کی نشونما میں اعتماد کا بڑا عمل دخل ہے، ہم جتنا بچے پر اعتماد کریں گے اتنا ہی اس کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا رہے گا، بچے کے نمبرات کم آئے ہوں، وہ آئندہ غلطی نہ دہرانے کا عزم کرے، شرمندہ ہو ایسے موقع پر بھرپور موقع دے کر اسے معاف کیا جائے اور اس کی صلاحیت کے موافق بھرپور اعتماد سے کام لیا جائے تو وہ چوری چھپے کوئی غلط کام نہیں کرے گا، وہ ہمیشہ اس بات کی کوشش کرے گا کہ آپ سے اپنا ہر مسئلہ ڈسکس کرے اور یہ عمل اسے کسی بھی برے انجام سے ہمیشہ محفوظ رکھے گا ۔

ٹین ایجرز( 13 تا 19 عمر کے بچے) اور تربیت کی کام یابی کی علامت

بالخصوص جوTeenagersکی عمر کے بچے ہیں، ان کے حوالے سے بھرپور توجہ دینا لازمی ہے، اگر وہ اس اہم مرحلے سے گزرنے کے بعد بھی آپ سے جڑے ہوئے ہیں، آپ سے اپنی بات شیئر کرتے ہیں اور کوئی کام آپ کی اجازت اور سرپرستی کے بغیر نہیں کرتے تو اس کا مطلب تربیت کا عمل کام یابی کے ساتھ مکمل ہوچکا ہے۔

بچے من کے سچے

بچے نہایت سچے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ معاشرے کی جھوٹی اور نفاق بھری آلودگی سے اپنی کم عمری کے باعث محفوظ رہتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ ہمارا عمل ان کے سامنے معاشرے کی ایک عملی تصویر پیش کرتا ہے جس کے سبب ان کی طبیعت اور فطرت سلیمہ اس مشاہدے کی عادی بن جاتی ہے اور یہی ان کو ایک صحیح طریقہ معلوم ہوتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ انتہائی غور و خوض سے کام لیتا ہے اور اپنے کانوں سے زیادہ اپنی آنکھوں کو استعمال کرتا ہے ، وہ دیکھ دیکھ کر سیکھتا ہے اور اسی دیکھے ہوئے کو دہراتا ہے، ہم اسے سو بار کہیں کہ پانی بیٹھ کر پیا کرو، لیکن جب تک ہم خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے تب تک وہ اس فعل کو فضول سمجھتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ اتنا ہی اہم کام ہوتا تو فلاں خود ضرور کرتے۔

ہماری گفت گو، نشست وبرخاست، دل چسپی، رجحانات، معاملات سب ایک خوراک کی شکل میں بچے تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔

لہٰذا تربیت کے عمل میں اس بات کا بڑا ہی دخل ہے کہ ہم خود کیا ہیں ؟ ہمارے بچے کیسے ہیں یہ دوسرا سوال ہے، اس سے پہلے ہمیں پہلے سوال کی تیاری کرنا ہوگی۔

اگر ہم نے اپنے آپ پر محنت نہ کی تو ایک بہت بڑی آبادی،ایک نسل،ایک قوم تباہی کے گھاٹ اتر سکتی ہے۔ الله تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو۔