صبر کی توفیق سب سے بہتر اور وسیع تر عطیہ

idara letterhead universal2c

صبر کی توفیق سب سے بہتر اور وسیع تر عطیہ

مولانا محمد نجیب قاسمی

صبر انسان میں ایک ایسی داخلی قدرت کا نام ہے جو ایمانی قوت سے پیدا ہوتی ہے، جس کے ذریعے اپنی خواہشات پر قابو پانے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر قناعت کرنے کا ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کسی تکلیف یا صدمے پر روئے بھی نہیں۔ کسی تکلیف یا صدمے پر رنج وافسوس کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے، اسی لیے شریعت اسلامیہ نے کسی تکلیف یا مصیبت کے وقت رونے پر کوئی پابندی نہیں لگائی، کیوں کہ جو رونا بے اختیار آجائے، وہ بے صبری میں داخل نہیں۔

البتہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ کسی تکلیف یا صدمے یا حادثے پر اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہ کیا جائے ،بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر رضامندی کا اظہار کرکے اسے تسلیم کیا جائے۔ ویسے تو ہر شخص اپنی زندگی میں بے شمار مرتبہ صبر کرتا ہے، مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی صورت میں ہی صبر کرنا عبادت بنے گا، ورنہ مجبوری۔

جلیل القدر نبی حضرت ایوب علیہ السلام کا مصیبتوں اور تکلیفوں پر صبر کرنا ،صبر ایوبی، کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کی اولاد کے انتقال کے علاوہ آپ کا تمام مال بھی ختم ہوگیا تھا، نیز متعدد بیماریاں آپ کو لگ گئی تھیں، جن کی وجہ سے لوگوں نے آپ کو الگ تھلگ کردیا تھا ،مگر حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی نے آپ کی بے مثال خدمت کی۔ جب بیوی کو بھی آپ کی وجہ سے بہت زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تو حضرت ایوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی تکلیفوں کی دوری کے لیے دعا فرمائی، چناں چہ آپ کو مکمل صحت عطا کردی گئی۔

صبر کی متعدد اقسام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن اعمال کے کرنے کا حکم دیا ہے، انہیں بجالانا، خواہ بظاہر مزاج کے خلاف ہو۔ مثلاً نرم گرم بستر چھوڑ کر نماز فجر کی ادائیگی کرنا۔ مال کی محبت اور اُس کی ضرورت کے باوجود زکوٰة کے فرض ہونے پر زکوٰة کی ادائیگی کرنا۔اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، اُن سے بچنا، خواہ نفس کی خواہش ہو۔ مثلاً شراب پینے اوررشوت لینے سے بچنا۔اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر صبر کرنا، یعنی جو بھی حالات آئیں، اُن پر صبر کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں جگہ جگہ صبر کی تعلیم دی ہے۔ چند آیات پیش ہیں:اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ بے شک، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں، اُنہیں مردہ نہ کہو۔ دراصل وہ زندہ ہیں۔ مگر تمہیں (اُن کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا اور دیکھو! ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور ، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے اور (کبھی)مال وجان اور پھلوں میں کمی کرکے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں، اُنہیں خوش خبری سنا دو۔ (سورة البقرہ :155-153 ) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: اے ایمان والو! صبر کرو اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہو۔ (سورہ آل عمران: 200) صبر کرنے والوں کو بے حساب اجروثواب عطا کیا جائے گا، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں، اُن کا ثواب انہیں بے حساب دیا جائے گا۔ (سورة الزمر:10) حالات پر صبر کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ہمت والا کام قرار دیا ،چناں چہ فرمان الٰہی ہے:جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرجائے تو یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ سورة العصر میں خالق کائنات نے انسان کی کام یابی کے لیے صبر اور صبر کی تلقین کو لازم قرار دیا۔

قیامت تک آنے والے انس وجن کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے قول وعمل سے صبر کرنے کی ترغیب دی۔ چناں چہ نبی بنائے جانے سے لے کر وصال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمار تکلیفیں دی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر اونٹنی کی اوجھڑی ڈالی گئی۔ گھر کا کوڑا ڈالا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کو طلاق دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تین سال تک بائیکاٹ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسائے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا شہر چھوڑنا پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ اُحد کے موقع پر زخمی کئے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوزہر دے کر جان لینے کی کوشش کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک دن میں دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں دو دو مہینے تک چولھا نہیں جلا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر پتھر کی چٹان گراکر جان لینے کی کوشش کی گئی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وفات ہوئی۔ غرض یہ کہ سید الانبیاء وسید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف طریقوں سے آزمایا گیا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسالت کی اہم ذمہ داری کو استقامت کے ساتھ بہ حسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے یہ سبق لینا چاہیے کہ گھریلو یا ملکی یا عالمی سطح پر جیسے بھی حالات ہمارے اوپر آئیں، ہم ان پر صبر کریں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ، بیماری، غم، رنج، دکھ اور تکلیف پہنچتی ہے ،حتی کہ وہ کانٹا بھی جو اسے چبھتا ہے، اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی غلطیاں معاف فرماتا ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص سوال سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، اللہ اسے بچالیتا ہے اور جو بے نیازی طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز کردیتا ہے۔ جو صبر اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا کرتا ہے۔ صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع تر عطیہ کسی کو نہیں دیا گیا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مومن کا سارا معاملہ ہی عجیب ہے کہ اس کے تمام کام اس کے لیے خیر ہیں۔ مومن کے علاوہ کسی کو یہ چیز (اللہ کی عظیم نعمت) حاصل نہیں۔ اگر اسے خوش حالی میسر آتی ہے تو شکر کرتا ہے تو یہ شکر کرنا اس کے لیے بہتر ہے اور اگر اسے تنگ دستی آجائے تو صبر کرتا ہے تو یہ صبر کرنا اس کے لیے بہتر ہے۔ (صحیح مسلم)

حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت کے پاس سے ہوا ،جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو اللہ سے ڈر اور صبر کر۔اُس نے کہا مجھ سے ہٹ جاو۔ تمہیں میری والی مصیبت نہیں پہنچی اور نہ تم اسے جانتے ہو۔ اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانا تھا۔ جب اسے بتا گیا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تو وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر حاضر ہوئی اور وہاں کسی دربان کو نہ دیکھا توکہنے لگی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بلاشبہ صبر وہی ہے جو تکلیف کے آغاز میں کیا جائے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) یعنی کسی مصیبت یا پریشانی کے آنے پر شروع سے ہی صبر کرنا چاہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس سے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے تکلیف میں مبتلا کردیا جاتا ہے ۔ (صحیح بخاری)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی شخص تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے۔ اگر اسے کرنا ہی ہو تو یوں کہے:اے اللہ!مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میں میرے لیے خیر ہے اور مجھے موت دے ،جب موت میں میرے لیے بہتری ہو ۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دنیا میں بھی گناہ کی سزا جلد دے دیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے برائی کا ارادہ فرماتا ہے توگناہ کے باوجود سزا کو روک دیتا ہے، تاکہ پوری سزا قیامت کے دن دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:بڑا بدلہ بڑی آزمائش کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو انہیں کسی آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ جو اس آزمائش سے راضی ہو اس کے لیے اللہ کی رضامندی ہے اور جو ناراض ہو اس کے لیے اللہ کی ناراضی ہے۔ (ترمذی) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں بہادر وہ نہیں جو دوسروں کو پچھاڑدے۔ بہادر وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر کنٹرول کرے ۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مومن مرد وعورت کی جان، اولاد اور مال پر آزمائش آتی رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جاملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (ترمذی)

کسی قریبی رشتے دار کے انتقال پر دل کا غمگین ہونا اور آنکھوں سے آنسو کا بہنا ایک فطری تقاضاہے، مگر بلند آواز سے مرحوم کے اوصاف بیان کرکے رونے پیٹنے، کپڑوں کے پھاڑنے اور گریہ وزاری کرنے سے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ ہمیں ایسے موقع پر صبر سے کام لینا چاہیے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:کوئی بندہ بھی اپنی مصیبت میں یہ کہے:اِنَّا لِلّٰہِ واِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن، اللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیْراً مِنْہَا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مصیبت میں اس کا ثواب عطا کرتا ہے اور اس سے بہتر چیز اسے عطا کرتا ہے۔ چناں چہ جب ابوسلمہ  کا انتقال ہوا تو میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق یہ دعا پڑھی، حالاں کہ میں سوچ رہی تھی کہ اُن سے بہتر کون ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے اُن سے بہتر دولت یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا۔ (صحیح مسلم) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہ  سے ہوا تھا، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔

انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ آپ رضی الله عنہا کو آپ کے خاندان والوں نے حضرت ابوسلمہ  کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے روک دیا تھا اور گود کا بچہ بھی چھین لیا تھا۔ بعد میں حضرت ام سلمہ  کی حالت پر ترس کھاکر خاندان والوں نے بچے کو دے دیا تھا اور مدینہ منورہ ہجرت کرنے کی بھی اجازت دے دی تھی۔ آپ رضی الله عنہا پہلی مہاجر خاتون تھیں۔ ان کے شوہر حضرت ابو سلمہ  کی جنگ اُحد کے زخموں سے وفات ہوگئی تھی۔ چار بچے یتیم چھوڑے۔ جب کوئی بظاہر دنیاوی سہارا نہ رہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے کس بچوں اور ان کی حالت پر رحم کھاکر ان سے نکاح کرلیا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی بشر ایسا نہیں ہے جسے پریشانیوں، مصیبتوں، تکلیفوں اور دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ خالق کائنات نے قرآن کریم (سورة البلد)میں چار چیزوں کی قسم کھاکر قیامت تک کے لیے اصول وضابطہ بیان فرمادیا کہ دنیا میں انسان کو اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ اُسے زندہ رہنے کے لیے کسی نہ کسی شکل میں مشقت ضرور اٹھانی پڑتی ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا حاکم یا دولت مند شخص کیوں نہ ہو۔ انبیاء علیہم السلام، صحابہ، علماء اور صالحین کو بھی دشوار کن مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ ہمارے اوپر جو پریشانیاں اور دشواریاں آتی ہیں، وہ یا تو ہمارے اعمال کی سزا ہوتی ہیں یا اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہماری آزمائش ہوتی ہے۔ لہٰذا مصیبت یا پریشانی کے وقت گناہوں سے توبہ واستغفار کرکے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اسی میں ہماری کام یابی کا راز پوشیدہ ہے۔

دشواریوں اور پریشانیوں کے وقت رب العالمین نے ہمیں صبر کرنے اور نماز قائم کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، یعنی صبر کرنے والوں کو اللہ کی معیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ اِن دِنوں مسلمانوں کے سامنے علاقائی وعالمی سطح پر بے شمار مسائل درپیش ہیں، جن کے حل کے لیے متعدد فارمولے پیش کیے جاسکتے ہیں، لیکن سب سے اہم فارمولا یہ ہے کہ ہم اپنا تعلق خالق کائنات سے مضبوط کریں اور خالق کائنات کے حکم کی روشنی میں حالات پر صبر کرکے نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد چاہیں۔