اسلام نے سادگی سکھلائی ہے!

idara letterhead universal2c

اسلام نے سادگی سکھلائی ہے!

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی

غیر قوموں کے طریقہ پر چلنے کی تم کو کچھ ضرورت نہیں بلکہ اسی سادگی کے طریقہ پر چلو جو اسلام نے ہم کو سکھلایا ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ کے پاس شام سے لشکر اسلام نے ایک عرض داشت بھیجی تھی کہ بیت المقدس فتح نہیں ہوتا اور وہاں کا پادری یہ کہتا ہے کہ فاتح بیت المقدس کا حلیہ ہماری کتاب میں موجود ہے، تم اپنے خلیفہ کو بلا لو، ہم دیکھ لیں گے، اگر ان کا حلیہ ہو گا جو اس کتاب میں ہے، تو ہم بدون لڑائی کے قلعہ کھول دیں گے، ورنہ تم قیامت تک فتح نہیں کرسکتے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ امیر المؤمنین یہاں تشریف لے آئیں ، شاید یہ قلعہ بدون لڑائی کے فتح ہو جائے، امیر المؤمنین نے اس درخواست پر سفر کا ارادہ فرمایا، اب غور فرمائیے کہ یہ اس شخص کا دور تھا جس کے نام سے کسریٰ اور ہرقل بھی تھراتے تھے، مگر حالت یہ تھی کہ جس قمیص میں آپ نے سفر کیا تھا اس میں چند درچند پیوند تھے اور سواری کے لیے صرف ایک اونٹ تھا، اس سے زیادہ کچھ نہ تھا، جس پر کبھی آپ سوار ہوتے، کبھی آپ کے غلام، آج کل ادنی سے ادنی ڈپٹی کے دورے پر بڑا سامان ہوتا ہے۔ یہاں خلیفہ اعظم رضی الله عنہ کے دورے میں کچھ بھی سامان نہ تھا، پھر آج کل ادنیٰ حاکم کے دورے میں رعایا پریشان ہو جاتی ہے، کیوں کہ رعایا کو ان کے دورہ کے لیے رسد کا سامان کرنا پڑتا ہے، یہاں خلیفہ کے دورہ سے ایک متنفس کو بھی تکلیف نہ ہوئی، کیوں کہ ہر شخص کے ساتھ ایک تھیلے میں ستو اور ایک تھیلے میں چھوہارے بندھے ہوئے تھے، منزل پر اتر کرستو گھول کر پی لیا اور چھوہارے کھا لیے، نہ رعایا سے مرغ لیے، نہ انڈے، نہ دودھ لیا نہ گھی، جب اس شان سے، کبھی سوار کبھی پیدل، چلتے ہوے شام کے قریب پہنچے تو لشکر اسلام نے استقبال کرنا چاہا، آپ نے ممانعت کر دی۔ خاص خاص حضرات نے آپ کا استقبال کیا، اس وقت بعض حضرات صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین نے کہا کہ امیر المؤمنین! اس وقت آپ دشمن کے ملک میں ہیں اور وہ لوگ آپ کو دیکھیں گے، اس لیے مناسب ہے کہ اپنا یہ قمیص اتار کر دوسرا قمیص عمدہ سا پہن لیجیے اور اونٹ کی سواری چھوڑ کر گھوڑے پر سوار ہوجائیے، تاکہ ان کی نظر میں عزت ہو، حضرت عمررضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”نحن قوم أعزنا الله بالاسلام“ ہم وہ لوگ ہیں جن کو خدانے اسلام سے عزت دی ہے! ہماری عزت قیمتی لباس سے نہیں ہے، بلکہ خدا کی اطاعت سے عزت ہے، مگر حضرات صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے اصرار سے ان کا دل خوش کرنے کے لیے درخواست منظور کر لی، چناں چہ ایک عمدہ قمیص لایا گیا، جس کو پہن کر آپ گھوڑے پر سوار ہوئے، دو چار ہی قدم چلے تھے کہ فوراً گھوڑے سے اتر پڑے اور فرمایا:”میرے دوستو! تم نے اپنے بھائی عمر کو ہلاک ہی کرنا چاہا تھا، والله! میں دیکھتا ہوں کہ اس لباس میں اور اس سواری میں میرا دل بگڑنے لگا ہے، تم میرا وہی پیوند کا قمیص اوراونٹ لے آؤ، میں اسی لباس میں اپنے اونٹ پر سوار ہو کر چلوں گا“۔

اے صاحبو! جب ایسے شخص کا دل قیمتی لباس سے بگڑ رہا ہے تو ہمارا دل اور ہمارا منھ کیوں نہ بگڑے گا، پھر ہم اپنے قلب کی نگہداشت سے اتنے غافل کیوں ہیں؟! او رہم کو کس چیز نے مطمئن کر دیا ہے کہ ہمارے لیے کوئی لباس مضر نہیں؟! اور جو حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا ”نحن قوم…الخ“ واقعی بات یہی ہے کہ اگر ہم خدا کے مطیع وفرماں بردار ہیں تو ہم سادہ لباس میں بھی معزز ہیں ، ورنہ قیمتی لباس سے بھی کچھ عزت نہیں ہو سکتی ہے #
          زعشق نا تمام بجمال یار مستغنیٰ است!
          باب ورنگ وخال وخط چہ حاجت روئے زیبا را

خوب صورت چہرہ کو زیب وزینت کی ضرورت نہیں، وہ تو ہر لباس میں حسین ہے، بناوٹ کی احتیاج اس کو ہے کہ جس کو قدرتی حسن نصیب نہ ہو، چناں چہ حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ اپنا وہی لباس پہن کر چلے او راونٹ ہی پر سوار ہوئے اور اسی لباس اور سواری پر آپ کو دیکھ کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا، کیوں کہ جب آپ فصیل شہر کے قریب پہنچے او رنصاریٰ کو اطلاع ہوئی کہ خلیفہ اسلام تشریف لے آئے تو ان کا بڑا پادری فصیل پر آیا اورکتاب کھول کر حضرت عمررضی الله تعالیٰ عنہ کے حلیہ کو ان اوصاف سے ملانے لگا، جو کتاب میں لکھے ہوئے تھے، اس میں یہ بھی لکھا ہوا تھا کہ حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ ایسے لباس اور ایسی سواری پر تشریف لائیں گے، اس معمولی لباس ہی میں آپ کی عزت مخفی تھی۔
          کہ آب چشمہٴ حیوان درون تاریکی است

اگر آپ قیمتی لباس میں آتے تو پیشین گوئی پوری نہ ہوتی، چناں چہ پادری نے جب سارے اوصاف کتاب کے موافق دیکھ لیے تو وہ چیخ مار کر گر پڑا اور کہا کہ جلدی سے قلعہ کا دروازہ کھول دو، بخدا !یہی وہ شخص ہے جس کا لقب توراة میں حدید ہے! یہی فاتح بیت المقدس ہے ، تم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس طرح الله تعالیٰ نے بدون جنگ وجدال کے بیت المقدس کو فتح کر دیا۔

مولانا گنج مراد آبادی رحمہ الله
تو صاحبو ! ہمیں تکلیف، تکلف او ربناوٹ کی ضرورت نہیں، ہماری عزت تو سادگی ہی میں ہے۔ حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی رحمہ الله اسی زمانہ میں ایک بزرگ ہوئے ہیں۔ آپ سے لیفٹیننٹ گورنر نے ملنے کی اجازت چاہی، یہاں سے اجازت ہو گئی، اس وقت آپ یہ تذکرہ کر رہے تھے کہ لیفٹیننٹ گورنر کے واسطے سونے کی کرسی ہم کہاں سے لائیں گے؟ خدام نے عرض کیا کہ اس کی حاجت نہیں، وہ چوبی کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں،، چوں کہ لیفٹیننٹ گورنر اس وقت مہمان ہو کر آرہے تھے او رمہمان کی مدارات اس کے مذاق کے موافق ہوتی ہے، اس لیے یہ خیال ہوا، مگر یہ سارے منصوبے پہلے ہی پہلے تھے، وقت پر کچھ بھی اہتمام نہیں کیا گیا، بلکہ آپ کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ لیفٹیننٹ گورنر کس دن آئیں گے؟ چناں چہ جب دن آیا اور لیفٹیننٹ گورنر خانقاہ میں پہنچے تو وہاں کوئی تکلف نہ تھا، سب معمولی سامان تھا، بعد ملاقات لیفٹیننٹ گورنر نے کہا حضرت! ہمیں کچھ نصیحت ووصیت فرمائیں ۔ارشاد فرمایا: ”ظلم کبھی نہ کرنا!“ پھر اس نے درخواست کی کہ ہم کو کچھ تبرک عطا فرمایا جائے۔ فرمایا میرے پاس کیا رکھا ہے؟ پھر خادم سے فرمایا کہ ارے دیکھنا! مٹھائی کی ہنڈیا میں کچھ ہو تو ان کو دے دو، یہ مانگ رہے ہیں! چناں چہ ہنڈیا میں سے مٹھائی کا چورا تھوڑا تھوڑا سب کو دے دیا گیا، جس کو سب نے نہایت ادب سے لیا او ربڑے خوش خوش واپس ہوئے۔

تو دیکھیے! مولانا کو اول تو اس زمانہ کے لحاظ سے کچھ تکلف کا خیال ہوا بھی تھا، مگر آخر میں یہ سارے منصوبے مٹ گئے اور وہی اسلامی سادگی رہ گئی اور اسی میں ان کی عظمت و عزت ظاہر ہوئی #
          نہ کچھ شوخی چلی باد صبا کی!!
          بگڑنے میں بھی زلف ان کی بنا کی

بے تکلفی
غرض ہم کو اسلامی سادگی پر رہنا چاہیے، اگر کسی مسلمان کی خاطر سے کچھ تکلف بھی کیا جائے تو اس میں بھی اعتدال اسلامی کا لحاظ ضرور ی ہے، مبالغہ نہ کیا جائے، اس میں ہماری عزت ہے، مگر آج کل مسلمان تقلید یورپ میں اپنی عزت سمجھتے ہیں، ان کا لباس او ران کا طرز معاشرت، ان کا طریقہٴ تمدن وتجارت اختیار کرکے ترقی کرنا چاہتے ہیں، میں سچ کہتا ہوں کہ اس میں مسلمان کی عزت نہیں۔

ایک واقعہ
ایک بار میں بریلی میں تھا، بھائی سے ایجنٹ نے کہا کہ ہم آپ کے بھائی سے ملنا چاہتے ہیں، بھائی نے مجھ سے پوچھا میں نے کہا ہم خود تو حکام سے نہیں ملتے، لیکن جب وہ خود ملنا چاہتے ہیں تو اعراض کرنا برا ہے، آخر وہ حاکم ہیں، ہم کو حق حکومت کا لحاظ ضروری ہے، میں چلوں گا، بھائی نے میرے واسطے قیمتی لباس کا اہتمام کرنا چاہا، میں نے کہا”ہر گز نہیں! جس لباس میں میں یہاں آیا ہوں، اسی میں جاؤں گا، چناں چہ میں اچکن اور کرتہ میں ان سے ملنے گیا، وہ شاید غسل کر رہے تھے، ہم کرسیوں پر جاکر بیٹھ گئے، عصر کی نماز کا وقت آگیا او رمیں نے او ربھائی نے ان کے بنگلہ ہی میں نماز پڑھی، پھر وہ آکر ملے او رمجھ کو اپنی خاص کرسی پر بٹھایا او رخود ایک معمولی کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں نے اصرار بھی کیا، مگر نہیں مانے، پھر نہایت احترام کے ساتھ باتیں کیں او رتھوڑی دیر میں رخصت ہو کر آگئے، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں انگریزی لباس میں ملتا تو وہ عزت ہر گز نہ ہوتی جو اسلامی لباس میں ہوئی۔

کلکتہ میں مولوی عبدالجبار صاحب وائسرائے سے عبا او رچوغہ پہن کر او رعمامہ باندھ کر ملے، دوسرے رؤساء انگریزی لباس میں گئے تھے ، تو وائسرائے نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب! آپ اس لباس میں شہزادے معلوم ہوتے ہیں، یہ لباس بڑی راحت کا ہے او رہمارا لباس بہت تکلیف دہ ہے، مگر ہم اپنی قومی وضع سے مجبو رہیں، ہم کو آپ کے لباس پر بہت رشک آتا ہے۔ غرض ہم کو شریعت نے جو تعلیم دی ہے، اس پر چلنا چاہیے۔