پڑوسی کے حقوق

idara letterhead universal2c

پڑوسی کے حقوق

مولانا محمد اسجد قاسمی

”من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ، ومن کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیرا أو لیصمت․“ (بخاری)

ترجمہ:”جو شخص الله پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ ضرور اپنے مہمان کے ساتھ احترام کا معاملہ کرے اور جو الله اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ پہنچائے اور جو الله اور یوم قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات بولے یا خاموش رہے۔“

”لایدخل الجنة من لا یأمن جارہ بوائقہ․“ (مسلم)

ترجمہ:” وہ شخص جنت میں نہیں جاسکتا جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ ومأمون نہ ہوں۔“

”مازال جبریل یوصینی بالجار حتی ظننت أنہ سیورثہ․“ (بخاری)

ترجمہ:” حضرت جبرائیل مجھے پڑوسی کے بار ے میں تاکید کرتے رہے، حتیٰ کہ میں خیال کرنے لگا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے۔“

” یانساءَ المسلمات، لا تحقرن جارة لجارتھا ولو فرسن شاةٍ․“ ( بخاری)

ترجمہ:” اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسی اپنی پڑوسن کو ( تحفہ بھیجنے یا صدقہ دینے میں ) حقیر نہ سمجھے، اگرچہ وہ بکری کا کُھر ہی کیوں نہ ہو۔“

تشریح… ان تمام احاد یث میں سب سے بنیاد ی بات پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی، ان کے اکرام او ران کو ایذا نہ دینے او ران کو ہدیہ و صدقہ دینے کی تاکید ہے۔

پہلی حدیث میں تین باتیں فرمائی گئی ہیں جو الله اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو اپنے مہمان کا اکرام کرے، اکرام ضیف ایمان کا مطالبہ ہے، مہمان کی ضیافت تین دن ہونی چاہیے، یہ ضرور ی ہے، تین دن کے بعد خود مہمان کے لیے بلا ضرورت میزبان کو پریشان کرنا درست نہیں۔ بھلی بات کہے، ورنہ چپ رہے، فضول گوئی سے بچنے میں نجات ہے ”من صمت نجا“ جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا، اگر بولے تو بھلی بات ہی بولے، اسی لیے فرمایا گیا کہ جس گفت گو میں ذکر الله شامل نہ ہو وہ وبال ہے اور اسی لیے زبان کی حفاظت کی تلقین بھی کی گئی ہے۔ پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔

پڑوسی کو تکلیف پہنچانا حرام ہے ، دوسری حدیث میں واضح کر دیا گیا کہ جس کا پڑوسی اس کی ایذا ررسانیوں ، مفسد ہ پر دازیوں اور شرارتوں سے محفوظ اور مأمون وبے خوف نہ رہے وہ مؤمن او رجنتی نہیں ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اسلام میں ہمسایوں کے حقوق کی کتنی رعایت او ران کے ساتھ حسن سلوک کی کتنی تاکید ہے، پڑوسی کے ساتھ بد سلوکی کرنے والے کے جنت میں داخل نہ ہو پانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کبھی جنت میں نہ جائے گا ،کیوں کہ جس نے صدقِ دل اقرارِ توحید ورسالت کر لیا ہے وہ جنت میں ضرور جائے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے اس جرم کی سزا بھگتے گا ،پھر کہیں جنت میں جاسکے گا، بہرحال ایسا شخص ایمان کامل سے محروم ہے۔
تیسری حدیث میں رسول الله ا فرمارہے ہیں کہ حضرت جبرائیل منجانب الله میرے پاس پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کے سلسلہ میں مسلسل اتنے تاکیدی احکام وہدایت لاتے رہے کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ اب پڑوسی بھی خونی رشتہ داروں کی طرح مال میں اور ترکہ میں حصہ دار اور وارث قرار پا جائے گا۔ اس حدیث سے پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اسلامی شریعت میں پڑوسیوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، قرآن کریم میں بھی ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے، فرمایا: ﴿وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَیٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ﴾․ (نساء:36)

اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ اچھا معاملہ کر اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی جار ذی القربی سے مراد وہ پڑوسی ہے، جس کا مکان متصل ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی، اس طرح اس کے دو حق ہو جاتے ہیں، پڑوس کا اور قرابت کا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ پڑوسی جو مسلمان ہو اور جارجنب سے مراد وہ پڑوسی ہے، جس کا مکان قدرے فاصلہ پر ہو جو رشتہ دار نہ ہو، صرف پڑوسی ہو یا جو غیر مسلم ہو۔

بہرحال پڑوسی دور ہو یا قریب ، رشتہ دار ہو یا نہ ہو، مسلمان ہو یا نہ ہو، اس کا حق ہے کہ اس کی خبر گیری او رتعاون کیا جائے، پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کی خوش گواری او رناخوش گواری کا لازمی اثر زندگی کے سکون وبے سکونی اور اخلاقی صلاح وفساد پر پڑتا ہے، اسی لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پڑوسی کے اکرام او راس کے حقو ق کی ادائیگی کو ایمان کا جز، جنت کے دخول کی شرط اور الله ورسول کی محبت کا معیار قرار دیا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من سرہ أن یحب الله ورسولہ أو یحبہ الله ورسولہ فلیصدق حدیثہ إذا حدث، ولیؤد أمانتہ إذا اؤتمن ولیحسن جوار من جاورہ․“ (بیہقی) جس کو یہ بات پسند ہو کہ وہ الله ورسول سے محبت کرے یا الله ورسول کو اس سے محبت ہو تو وہ جب بات کرے سچ بولے، جب کسی امانت کا اسے امین بنایا جائے تو امانت داری کے ساتھ اسے ادا کر دے او راپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا رویّہ رکھے۔ دوسری روایت ہے:” ما آمن بی من بات شبعان وجارہ جائع إلی جنبہ وھو یعلم بہ“ (طبرانی) وہ آدمی مجھ پر ایمان نہیں لایا جو اپنا پیٹ بھر کر سو جائے جب کہ اس کے برابر رہنے والا اس کا پڑوسی بھوکا ہو او راسے اس کے بھوکے ہونے کی خبر ہو۔ بعض احادیث میں حقوق متعین کر دیے گئے ہیں، مثلاً پڑوسی بیمار ہو تو اس کی عیادت وخبر گیری، انتقال کر جائے تو تجہیز وتکفین او رتدفین میں شرکت، قرض مانگے تو حسب وسعت قرض دینا، بد عمل ہو تو اس کی پردہ پوشی ، کوئی خوشی اسے ملے تو مبارک باد دینا، مصیبت میں تعزیت اور تسلی، اپنی عمارت اور دیوار اتنی بلند نہ کرنا کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہو جائے، اچھا کھانا پکے تو اس کو کچھ بھیجنایا اس بات کی کوشش کہ مہک اس تک پہنچ کر اس کے اہل وعیال کے لیے باعث ایذا نہ بنے۔ ( طبرانی)

ایک حدیث میں یہ وارد ہوا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے یہاں سالن کی ہانڈی پکے تو شوربا زیادہ کرے ،پھر اس میں سے کچھ پڑوسی کو بھیج دے۔ (طبرانی)

پڑوسی کی تین قسمیں بتائی گئی ہیں، ایک تو غیر مسلم پڑوسی ہے جو رشتہ دار بھی نہ ہو تو اس کا صرف ایک حق پڑوس کا ہے، دوسرا وہ پڑوسی ہے جو مسلمان ہو تو اس کے دو حق ہیں۔ پڑوس کا حق اور اسلام کا حق، تیسرا وہ پڑوسی ہے جو مسلمان ہو اور شتہ دار بھی ہو، تو اس کے تین حق ہیں، پڑوس ، اسلام اورقرابت۔ (مسند بزار)

ترمذی کی ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک بار حضرت عبدالله بن عمر وبن عاص رضی الله عنہ کے گھر بکری ذبح ہوئی، انہوں نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کا ہدیہ بھیج دیا؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم پڑوسی بھی مستحق اکرام ہے، حدیث میں یہ تلقین بھی کی گئی ہے کہ اگر پڑوسی علمی، عملی لحاظ سے کم تر ہو تو اس کی تعلیم وتربیت او راصلاح کی بھی ذمہ داری ڈالی گئی ہے او راس میں کوتاہی کو جرم او رباعث ِ سزا بتایا گیا ہے۔ (مسند اسحاق بن راہویہ)

ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جو عورت اپنی بد زبانی سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے چاہے وہ کتنی نمازیں پڑھے، روزے رکھے، صدقے دے وہ جہنم میں جائے گی۔ (بیہقی) قیامت میں حقوق کی عدم ادائیگی سے متعلق سب سے پہلے ان دو ہمسایوں ہی کا معاملہ پیش ہو گا جو ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرتے ہوں گے او رایذا پہنچاتے ہوں گے۔ (مسند احمد)

ترمذی کی ایک روایت میں آیا ہے کہ کسی محلہ کے لوگوں میں الله کے نزدیک سب سے افضل شخص وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہو۔

چوتھی حدیث میں یہ بتایا جارہا ہے کہ پڑوسی کو ہدیہ بھیجا جائے، چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو، نہ ہدیہ بھیجنے والے اسے حقیر معمولی سمجھیں اور نہ ہدیہ لینے والے اسے معمولی سمجھ کر نہ لیں، بلکہ ہدیہ کیسا بھی ہو اس سے محبت اور تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔

حدیث میں فرمایا جارہا ہے کہ کوئی پڑوسن کو تحفہ بھیجنا یا صدقہ دینا حقیر نہ سمجھے، چاہے وہ بکری کا ایک کُھر ہی کیوں نہ ہو، عورتوں کی فطرت عموماً معمولی چیز نہ بھیجنے کی ہوتی ہے اور وہ اچھی ہی چیزیں بھیجنا چاہتی ہیں، اس لیے یہ فرمایا جارہا ہے کہ معمولی ہدیہ بھی دینے میں چوکنا نہیں چاہیے، بکری کے کھر کا ذکر ہدیہ کے انتہائی معمولی ہونے کی طرف اشارہ ہے، یعنی کتنی ہی معمولی چیز کیوں نہ ہوں نہ دینے والا شرمائے اور نہ لینے والا تردد وتنقید کرے۔

بہرحال ان تمام احادیث سے پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی اوران کے ساتھ اکرام واحترام کی اہمیت کااندازہ کیا جاسکتا ہے۔