غیبت ایک عظیم گناہ

idara letterhead universal2c

غیبت ایک عظیم گناہ

مولانا عبدالمتین

﴿وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ ﴾․ (سورةالحجرات:12)

کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ،نہایت رحم والا ہے۔

غیبت کی تعریف

نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگرتمہارابھائی تمہارے سامنے موجود نہیں اورتم اس کاذکر اس طرح کروکہ اگر وہ موجود ہوتا تو اسے برالگتا تو سمجھو یہ غیبت ہے۔

غیبت اور عزت و آبرو کی دھجیاں اڑانا

دین اسلام کے مقاصد میں شامل ہے کہ مال،عزت آبرو اور جان کو ہر حال میں تحفظ ملے۔ غیبت ایک ایسا گناہ ہے جس کا تعلق براہ راست انسان کی عزت و آبرو کے ساتھ ہے۔ گویا جو شخص غیبت کا شکار ہوجائے وہ اپنے بھائی کی عزت و آبرو کے ساتھ کھیل رہا ہے، جو کسی صورت جائز نہیں، بلکہ بہت بڑا جرم ہے۔

غیبت اور آدم خوری

سورہ حجرات کی مذکورہ آیت میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ وہ آدم خوری کرے یعنی انسانی گوشت کھائے اور گوشت بھی کسی زندہ انسان کا نہیں بلکہ مردے کا اور وہ مردہ بھی کوئی غیر نہیں بلکہ تمہارا اپنا بھائی؟! مزید فرمایا کہ جب تم اس قدر گراوٹ جیسی حرکت نہیں کرسکتے اور ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تو غیبت بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے لہٰذا اس سے بھی بچو اور اللہ سے اور اللہ کے بندوں سے معافی مانگو، اللہ بے شک معاف کرنے والا ہے۔

غیبت ایک عظیم گناہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے سفر میں کچھ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جن کے ناخن لوہے کے ہیں اور وہ اپنے چہرے اور سینوں کو زخمی کررہے ہیں، پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو غیبت کرکے اپنے بھائیوں کی عزتوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔

غیبت گناہ کبیرہ

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ غیبت گناہ کبیرہ میں شامل ہے، ایسے ہی جیسے چوری،شراب،بدکاری وغیرہ۔

بہت سے گناہ ایسے ہیں جن کاتعلق اللہ سے ہے، جنہیں ہم حقوق اللہ کے نام سے جانتے ہیں، جنہیں اللہ توبہ کے بعد معاف فرمادیتے ہیں۔ لیکن کچھ گناہ ایسے ہیں جو حقوق العباد کہلاتے ہیں، جن کی معافی جب تک اس بندے سے نہ ملے معاف نہیں ہوتے۔

غیبت سننا بھی گنا ہ ہے

ہماری مجالس میں اکثر غیبت ہوتی رہتی ہے ۔اور یہ بظاہر اس قدر شیریں، لذیذ اور میٹھا گناہ ہے کہ ایک مرتبہ تذکرہ چل پڑے تو رکنے کو دل نہیں چاہتا۔

غیبت جس طرح کرنا حرام ہے ویسے ہی غیبت سننا بھی حرام ہے اورغیبت والی مجلس میں جان بوجھ کر بیٹھے رہنا بھی حرام ہے۔۔

ایسی مجلس میں اگرکوئی بیٹھاہوتوپہلے کوشش کرے کہ غیبت کرنے والے کو منع کرے،روکنے کی کوشش کرے، اس میں دل شکنی کاخوف نہ رکھے، بلکہ دین شکنی کی فکر کرے۔اگرسامنے والابات نہیں مان رہاتوکوشش کرے کہ موضوع بدل دے،اگریہ بھی نہ ہوسکے تو آخری حل یہ ہے کہ اس مجلس سے ہی اٹھ کرچلاجائے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں توسامنے بھی کہتاہوں تو واضح کیا جائے کہ وہ آپ کا مسئلہ ہے ،لیکن اس وقت آپ پیٹھ پیچھے ہی بات کررہے ہیں، جوکہ غیبت ہے۔

غیبت اور آپسی تعلقات

غیبت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ دلوں سے محبت،احترام اور تعلق کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردیتا ہے، جس گھر یا دفتر میں غیبت کا ماحول پیدا ہو تو وہاں آپس کے تعلقات میں ہم دردی اور صلہ رحمی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ جس معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کی ذات کو گلی، سڑک، دہلیز اور قہوہ خانوں میں موضوع بناتے ہیں تو وہاں اتحاد و الفت کا پیدا ہونا محال ہوجاتا ہے۔

بلکہ غیبت کا عمل آہستہ آہستہ دلوں میں نفرت عداوت کو مضبوط کرتا ہے اور اک معمولی سا اشارہ اس اندر کی آگ کو شدید جھگڑے میں بدل دیتا ہے۔

غیبت ایک نشہ

شیخ سعدی فرماتے ہیں جو شخص آپ کے ساتھ بیٹھ کر کسی کی غیبت کرے تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر آپ کی غیبت بھی ضرور کرے گا، کیوں کہ غیبت ایک لت اور بیماری ہے، جو ہر جگہ اپنا نشہ پورا کرنا چاہتی ہے، لہٰذا بعض اوقات ایک گھر یا معاشرے میں کوئی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کسی کی غیبت کرتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ میرا خیرخواہ ہے میرے دشمنوں کے خلاف ہے، جب کہ وہ کسی کا دوست نہیں ہوتا بلکہ ایک بیمار نشیٴ کی طرح اپنا نشہ پورا کررہا ہوتا ہے، جسے یہ موقع کل پرسوں آپ کے دشمن کی مجلس میں بھی مل سکتا ہے۔

غیبت کا علاج

حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ غیبت کا علاج یہ ذکر فرماتے ہیں کہ جب بولے توسوچ سمجھ کربولے اور اپنی مجلس میں موجود لوگوں کے علاوہ کسی تیسرے کا تذکرہ ہی نہ کرے، چاہے وہ اچھا تذکرہ ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ عام طور پر کسی کی اچھائی کا تذکرہ کرتے کرتے ہم اگر مگر لیکن کا یوٹرن لے کر غیبت کی شاہ راہ پر نکل پڑتے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔

زبان کی حفاظت اور غیبت

امام شافعی  سے جب کوئی سوال کرتاتوجواب دینے سے پہلے کچھ دیرخاموش رہتے کہ اس کاجواب دیناضروری بھی ہے یانہیں۔

اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ :﴿مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ․(ق)

وہ زبان سے کوئی بات نہیں نکالتامگر یہ کہ ایک محافظ فرشتہ اس کے پاس تیار بیٹھاہوتا ہے۔ اچھی یابری ہماری ہر بات نوٹ ہورہی ہے اور نوٹ کون کررہا ہے؟ فرمایا وہ ”عتید“ ہے یعنی ہر وقت تیار بیٹھا ہوا ہے ہماری حرکات وسکنات کو نوٹ کرنے کے لیے۔

نبی صلی الله علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کونصیحت فرمائی کہ اپنی زبان پر قابورکھنا،حضرت معاذ رضی الله عنہ نے عرض کیاکہ یارسول اللہ! کیازبان کی وجہ سے بھی بازپرس ہوگی؟نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایابہت سے لوگ قیامت کے دن زبان کی وجہ سے اوندھے منھ پڑے رہیں گے ،ہلاک ہوں گے۔

زبان ہمارے لیے ایک سرکاری مشینری ہے ،جو مفت میں مل چکی ہے ،تبھی اس کا اندھا دھند استعمال عام نظر آتا ہے، جب چاہابے دھڑک استعمال کیا، گالم گلوچ ،غیبت ،گانابجانا،فضولیات وغیرہ، جب کہ اس کے درست استعمال سے ہم نیکیوں کاخزانہ سمیٹ سکتے ہیں۔نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ :

”کَلِمَتَانِ خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان فی المیزان، حبیبتان إلی الرحمن:سبحان اللہ وبحمدہ، سبحان اللہ العظیم“.(صحیح)

دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بڑے ہلکے ہیں، میزان میں بڑے وزنی ہیں، رحمن کو بڑے محبوب ہیں، وہ:” سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَانَ اللَّہِ الْعَظِیمِ “ہیں۔