مصائب وحوادث کا علاج

idara letterhead universal2c

مصائب وحوادث کا علاج

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی

آج کل ہر طرف آلام ومصائب او رافکار وحوادث کا ہجوم ہے، مفلس اور متمول، مزدور اور سرمایہدار جاہل اور عالم، مریض اور تن درست، محکوم او رحاکم، عوام اور خواص سب ہی ان سے متاثر ہیں اور سکونِ قلب اور طمانینتِ خاطر کسی کو بھی نصیب نہیں ( الا ماشاء الله) ہر شخص کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا ہے۔ پریشانی کی نوعیت مختلف ہے، کوئی تنگ دستی اور افلاس کا شکار ہے، کسی کی صحت خراب ہے، کوئی اولاد کی نالائقی اور بد اطواری سے پریشان ہے، کسی کو بیوی کے ناروا طرز عمل کی شکایت ہے، کوئی شوہر کی بدسلوکی سے نالاں ہے، کسی کو اقارب واحباب کے نامناسب برتاؤ کا شکوہ ہے اورکسی کو کوئی دوسری فکر اور پریشانی لاحق ہے، غرض یہ ہے کہ #
          آماج گاہِ موجِ حوادث ہے آج کل
          پتلا بنا ہوا ہے غم روزگار کا

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مصائب وحوادث سے کس طرح نجات ملے؟ اور سکون ِ قلب کیسے حاصل ہو؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل یہ معلوم کرنا ضرور ی ہے کہ نزول حوادث ومصائب کا سبب کیا ہے؟ تاکہ اس کو دور کیا جاسکے، اس لیے کہ جب سبب دور ہو جائے گا تو مصائب اور حوادث سے خود بخود نجات مل جائے گی۔ یوں تو ہمارے بہت سے اصحاب فکر ونظر اور ارباب حل وعقد بھی اپنے اپنے علم وفکر کے مطابق آئے دن ان تدابیر کے متعلق غور کرتے رہتے ہیں جن پر عمل کرنے سے بھی بنی نوع انسان کو پریشانیوں اور تکلیفوں سے نجات ملے اور فلاح وعافیت نصیب ہو۔ لیکن کیا وہ اپنی کوششوں میں کام یاب ہیں؟ اور یقینا نہیں، وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اصل مرض کی تشخیص اور ازالہٴ مرض کی تجویز میں ٹھوکر کھائی، ان کی نظر صرف اسباب طبعیہ تک محدود رہتی ہے، اسباب اصلیہ تک نہیں پہنچتی، مثلاً ان کا خیال ہے کہ اگر اولاد کی پیدائش پر پابندی عائد کرکے آبادی کے اضافے کو روک دیا جائے، زراعت کے جدید آلات استعمال کرکے اور کاشت کے نئے نئے طریقے ( جو ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہیں) اختیار کرکے مزروعہ زمین کی پیداوار بڑھائی جائے، صنعت وحرفت کی ترقی اور بے روز گاری کے دور کرنے کے لیے نئے نئے کارخانے قائم کر لیے جائیں، سیلاب کو روکنے کے لیے بڑے بڑے مضبوط او رپختہ بند تعمیر کر لیے جائیں ، حوادث اراضی کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں، جرائم کے انسداد کے لیے سخت اور مؤثر قدم اٹھائے جائیں، تعلیم کی کمی اور بے روز گاری کو دور کر دیا جائے، علاج کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کر دی جائیں … تو موجودہ تکالیف کا سدباب اور زندگی کا معیار بلند ہو جائے گا اورانسان خوش حالی اور فارغ البالی کی زندگی بسر کرنے لگے گا، ان تدابیر میں سے پہلی کے سوا اکثروہ ہیں جو اسلامی شریعت کے نقطہ نظر سے جائز اورمستحسن ہیں اور انہیں ضرو راختیار کرنا چاہیے، لیکن یہاں ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے اور وہ یہ کہ یہ تمام تدبیر یں ظاہر اورمادی ہیں اور مسلمان کے نقطہٴ نظر سے ہرگز کافی نہیں، قرآن وحدیث نے ہمیں اپنے مصائب اورمشکلات دور کرنے کا کچھ اور طریقہ بھی بتلایا ہے، افسوس ہے کہ مسئلے کا یہ پہلو ہماری نظروں سے اُوجھل ہوتا جارہا ہے۔ ان مادی وسائل کے اختیار کرنے کو کون منع کرتا ہے؟ اختیار کیجیے، ضرور کیجیے، لیکن یہ یاد رکھیے کہ صرف یہ وسائل اصل سبب کے ازالہ کے لیے کافی نہیں۔ نزول حوادث ومصائب کا سبب معلوم کرنے کے لیے جب ہم قرآن حکیم کا مطالعہ کرتے ہیں توحسب ذیل آیات ہمارے سامنے آتی ہیں:

﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَہُم بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ﴾․(سورہ روم، آیت:41)

(خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب بلائیں پھیل رہی ہیں ،تاکہ الله تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزہ ان کو چکھادے، تاکہ وہ باز آجائیں) لیکن کیا ہم اپنی بد اعمالیوں سے باز آرہے ہیں؟ پھر جب سبب دور نہ ہو تو مسبب کیسے دور ہو سکتا ہے؟!

﴿وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیرٍ﴾․(سورہ شوریٰ،آیت:30)

( اور تم کو جو مصیبت پیش آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں سے کیے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے او ربہت سے گناہ توالله تعالیٰ معاف ہی فرما دیتے ہیں)الله الله یہ سزا تو ہمارے بعض اعمال کی ہے او ربہت سی خطاؤں کو تو وہ معاف ہی فرماتے رہتے ہیں، اگر سارے گناہوں پر گرفت ہوا کرتی تو کہاں ٹھکانا تھا، چناں چہ خود ہی فرماتے ہیں:﴿وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوا مَا تَرَکَ عَلَیٰ ظَہْرِہَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰکِن یُؤَخِّرُہُمْ إِلَیٰ أَجَلٍ مُّسَمًّی فَإِذَا جَاء َ أَجَلُہُمْ فَإِنَّ اللَّہَ کَانَ بِعِبَادِہِ بَصِیرًا﴾․(سورہ فاطر،آیت:45) (اگر الله تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب دار وگیر اور مؤاخذہ فرمانے لگتے تو روئے زمین پر ایک متنفس کو نہ چھوڑتے، لیکن وہ ایک میعاد معین تک مہلت دے رہے ہیں، سو جب ان کی وہ میعاد آپہنچے گی اس وقت الله تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دیکھ لیں گے۔)

لہٰذا ہم کو اس کا علاج کرنا چاہیے او روہ علاج یہی ہے کہ اپنے اعمال سیئہ کو حسنات سے بدلا جائے او رگزشتہ گناہوں سے استغفار کیا جائے، والله! اس کے سوا ان بلاؤں کا کوئی علاج نہیں #
          ہیچ کنجے بے دو وبے دام نیست
          جز بخلوت گاہ حق آرام نیست
(خلوت گاہ حق یعنی تعلق مع الله کے سوا کہیں آرام نہیں)

کاش! ہماری سمجھ میں یہ بات آجائے کہ یہ بلائیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے آرہی ہیں اور ان کا علاج توبہ واستغفار، ترک معاصی اور دعا ہے۔ قرآن وحدیث میں مصائب کا جو اصل سبب او ران کے ازالہ کی جو صحیح تدبیر بیان کی گئی ہے، اس سے صرف نظر اور روگردانی کرکے عقلائے زمانہ اصلاح حال کے لیے کتنی ہی او رکیسی ہی کوشش کیوں نہ کر لیں، راقم السطور کی ہی پیشین گوئی نوٹ کر لی جائے کہ ہر گز کام یاب نہ ہوں گے، مرض کی تشخیص صحیح نہ ہو تو علاج کبھی کام یاب نہیں ہو سکتا اور عازم کعبہ اگر ترکستان کی طرف جانے والے راستہ پر چلنے لگے تو یہ یقین غلط نہیں کہ وہ منزل مقصود پر نہ پہنچ سکے گا، بلکہ اس سے بعیدتر ہوتا چلا جائے گا۔ چناں چہ تجربہ شاہد ہے کہ جو غلط تدابیر اب تک اختیار کی گئیں ان کا انجام یہی ہوا کہ اصلاح کی جگہ فساد بڑھتا رہا اور حالت روز بروز بد سے بد تر ہوتی چلی گئی، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

جب انسان صراط مستقیم سے بھٹک جائے اور عقل سے صحیح طور پر کام نہ لے تو اس کی رائے بھی غلط ہو گی اور عمل بھی۔ اس کو ایک مثال سے واضح کرنا چاہتا ہوں، مثلا اگر کسی علاقے میں سیلاب یا طوفان آجائے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا صحیح علاج تو یہ ہے کہ جائز ظاہری ومادی وسائل کو اختیار کرنے کے علاوہ، ہم گزشتہ گناہوں سے استغفار کریں، جو گناہ کر رہے ہیں ان کو ترک کر دیں اور آئندہ کے لیے گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لیں اور الله تعالیٰ سے نہایت عاجزی او رتضرع وزاری کے ساتھ ازالہٴ مصائب کے لیے دعا کریں او راپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی جائز اور بقدر وسعت وگنجائش زیادہ سے زیادہ مدد کریں۔ لیکن جب عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں تو یہ سیدھا اور صحیح علاج انسان کی سمجھ میں نہیں آتا اور وہ سیلاب وطوفان سے متاثر ہونے والے افراد کی مالی مدد کرنے کے لیے مثلاً ورائٹی شو اور ایکٹریسو کا میچ کراتا ہے اور ٹکٹ فروخت کرکے یا کسی دوسرے طریقہ سے، جو شرعاً ناجائز اور الله کو ناپسند ہو ،رقم حاصل کرتا ہے او راس طرح اپنی ہم دردی کا ثبوت دیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان یہ جانتے اورمانتے ہوئے کہ گناہوں کی وجہ سے الله کا قہر وغضب نازل ہوتا ہے گناہوں کو ترک کرکے، الله کو راضی کرنے کے بجائے، پھر گناہ کرکے اس کے مزید قہر کو دعوت دے۔ الله کے قہر کو تو الله کا لطف ہی دور کرسکتا ہے اور وہ حاصل ہوتا ہے اوامر کے امتثال اور نواہی کے اجتناب سے۔

بہرحال سمجھ میں آئے یا نہ آئے، لیکن جیسا کہ کتاب وسنت سے ثابت ہے، حقیقت یہی ہے کہ مصائب وحوادث ( قحط، گرانی، پریشانی، بلاء وباء ، تباہی وبربادی، ہلاکت ِ جان ومال، امساکِ باراں، پیداوار میں کمی وغیرہ) کا سبب حق سبحانہ وتعالیٰ کی نافرمانی عدول حکمی او رمعاصی( کثرتِ فواحش، زنا ومقدمات ِ زنا، لواطت، ومقدمات ِ لواطت، سود، شراب، ناپ تول میں کمی اور زکوٰة نہ ادا کرنا وغیرہ) کا ارتکاب ہے۔ جس خطہ زمین پر زنا کاری، شراب نوشی، سود خوری، رشوت ستانی، بے حیائی وعریانی، قتل وغارت گری، اغوائے اغلام اور دوسرے فواحش ومعاصی کی کثرت ہو، وہاں الله کی رحمت نازل ہوگی یا اس کا قہر وغضب ؟ #
          اس زمین پر آگ اور اخگر برسنے چاہییں
          برق گرنی چاہیے اژدہے برسنے چاہییں

عام طو رپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو شخص تن درست ہے، صاحب اولاد ہے، اعلی تعلیم یافتہ ہے، جس کے پاس کثیر دولت، شان دار مکانات، عمدہ او رنفیس ساز وسامان ، بیش قیمت اور آرام دہ سواریاں اور ملازم وخدمت گار موجود ہیں او رجس کو جاہ واقتدار، حکومت وعظمت اور سیادت وقیادت حاصل ہے، وہ بہت خوش قسمت ہے اور اس کو سکون قلب حاصل ہے، یہ درست ہے کہ یہ تمام چیزیں اسباب راحت ہیں، لیکن عین راحت نہیں، اسباب راحت اور راحت لازم وملزوم نہیں، یعنی یہ ضروی نہیں کہ جہاں اسباب راحت موجو دہوں وہاں راحت بھی ہو، دنیا اپنے غلط معیار کی بنا پر جن لوگوں کی ظاہری کام یابی اور کام رانی پر رشک کرتی ہے ان کے حالات کا قریب سے مطالعہ اور مشاہدہ کیاجائے تو انسان بعض اوقات یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ ناز ونعمت، عیش وعشرت اور آرام وراحت میں زندگی بسر کرنے والے، طوفان رنگ وبو میں غرق ہو جانے والے اوراپنی زعمِ باطل میں نغمہ ورقص، جام وسبو سے زندگی کی تلخیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنے والے، اپنے پہلو میں کس قدر بے چین اور بے قرار دل رکھتے ہیں اور زندگی کی حقیقی لذتوں او رمسرتوں سے کس درجہ محروم او رنا آشنا ہیں، اسباب راحت کو لے کر کوئی کیا کرے؟ اس سے ثابت ہوا کہ اسباب ِ راحت مقصود بالذات نہیں، مقصود بالغیر ہیں۔

پھر وہ کون سا طریقہ ہے جس سے سکون قلب یقینی طور پر حاصل ہو جائے ؟ اس کا جواب نہ سائنس دانوں کے پاس ہے، نہ ارباب علم وحکمت کے پاس، اس کا جواب بھی قرآن ہی میں ہے، چناں چہ حق تعالیٰ شانہٴ کا ارشاد ہے :﴿أَلَا بِذِکْرِ اللَّہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾․(سورہ رعد، آیت:28) ( خوب سن لو کہ الله کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے) ہم تلاش کرتے ہیں سکون قلب کو اعلیٰ درجے کے ماکولات ومشروبات، ملبوسات ومسکونات، دولت وثروت میں، حکومت وسلطنت اور قیادت وامارت میں، حالاں کہ یہ دولت صرف الله کے ذکر سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنی جدوجہد اور سعی وکاوش سے اسباب راحت جمع کرنے میں کام یاب بھی ہو گئے ،تب بھی بغیر ترک معاصی اور رجوع الی الله، تعلق مع الله اور ذکر الله کے نہ تو آپ کو غم واندوہ سے نجات ملے گی اور نہ سکون خاطر نصیب ہو گا #
          اے کاش! تیرے دل میں اتر جائے میری بات