قربانی کثیر الجہت عبادت

idara letterhead universal2c

قربانی کثیر الجہت عبادت

مولانا زبیر احمد صدیقی

عید الاضحی اور اس کے متصل ایام میں قربانی اسلام کا عظیم شعار ، حق تعالیٰ کے ساتھ محبت کا بہترین مظہر، سنت ابراہیمی کی اقتدا، جذبہ فناء محبوب کا اظہار، حق تعالیٰ کی نعمتوں کا شکرانہ، توحید قولی وتوحید فعلی کا حسین امتزاج، حصول درجات کا ذریعہ، ایثار وخدمت خلق کا نمونہ اور بندے کے اپنے خالق پر فدا ہو جانے سے عبارت ہے۔ قربانی اخلاص وتقویٰ کا دوسرا نام اور کثرت حسنات کا ذریعہ ہے، یہ بندگی کے اظہار کے ساتھ تواضع، انکساری اور صلہ رحمی جیسی بہترین اوصاف کے ساتھ متصف کر دیتی ہے۔ الغرض اس ایک عبادت میں متعدد اوصاف جمع ہیں، یہی وجہ ہے کہ ابتدا ئے آفرینش سے لے کر بعثت محمدی تک مختلف شکلوں میں قربانی کی ادائیگی کا سلسلہ جاری وساری رہا، جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم دس سال مدینہ منورہ مقیم رہے اور ہر سال آپ صلی الله علیہ وسلم نے قربانی فرمائی، عہد رسالت سے لے کرتاہنوز، امت میں مخصوص انداز میں، مخصوص اوقات میں، یہ عبادت سرانجام دی جارہی ہے، قربانی جیسی عبادت جسے قرآن کریم نے ”منسک“” قربان“ اور”نحر“ کے الفاظ سے تعبیر کیا اپنی مخصوص ہیئت کے ساتھ ہی مقصود ہے، شریعت نے اس کا بدل کسی چیز کو قرار نہیں دیا۔

قرآن کریم سے واضح ہے کہ قربانی کی ابتدا سیدنا آدم علیہ السلام کے صاحب زادوں کی قربانیوں سے ہوئی، چناں چہ سورة مائدہ آیت نمبر 27 میں ارشاد خدا وندی ہے:﴿وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللَّہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ﴾․(المائدہ:27)

” اور ( اے پیغمبر!) ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ ۔ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ اس (دوسرے نے پہلے سے) کہا کہ ” میں تجھے قتل کر ڈالوں گا“ پہلے نے کہا کہ الله تو ان لوگوں سے قربانی قبول کرتا ہے جو متقی ہوں۔“
اس آیت سے جہاں قربانی کی تاریخ معلوم ہوئی وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کی قبولیت میں تقوی واخلاص اور جذبہ رضائے الہی کا دخل ہوتا ہے، اس لیے سورة حج آیت نمبر37 میں ارشاد فرمایا:﴿لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَٰکِن یَنَالُہُ التَّقْوَیٰ مِنکُمْ کَذَٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَیٰ مَا ہَدَاکُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِینَ﴾․ (الحج:37)

”الله کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے، اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دیے ہیں، تاکہ تم اس بات پر الله کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی۔ اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں، انہیں خوش خبری سنا دو۔“

سورة حج آیت نمبر34 میں ہر امت کے لیے قربانی کے فریضہ کو ذکر کرنے کے ساتھ قربانی کی غرض بھی واضح فرمائی:﴿وَلِکُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیٰ مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَٰہُکُمْ إِلَٰہٌ وَاحِدٌ فَلَہُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِینَ﴾․(الحج:34)

”اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی اس غرض کے لیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر الله کا نام لیں جو الله نے انہیں عطا فرمائے ہیں، لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چناں چہ تم اسی کی فرماں برداری کرو اور خو ش خبری سنا دو ان لوگوں کو جن کے سر الله کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔“

مذکورہ آیت سے معلوم ہوا کہ قربانی حق تعالیٰ کے عطا کردہ رزق حلال، جو جانوروں کی شکل میں ہے، پر ذکر خدا وندی کرنے کا ذریعہ اورتوحید کا پیغام ہے، اس سے تسلیم ورضا کا درس ملتا ہے، اس لیے ارشاد فرمایا اسی کی فرماں برداری کرو اور رجوع کرنے جھک جانے والوں کے لیے بشارت کا ذکر ہے۔ واضح ہوا کہ قربانی امر الہٰی پر جھک جانے اور رجوع الیٰ الله کا نام ہے۔

امم سابقہ میں قربانی بارگاہ ایزدی میں پیش کی جاتی تھی، جسے آسمانی آگ جلا کر راکھ کر دیتی اور یہ قبولیت قربانی کی علامت سمجھی جاتی تھی، اس اُمت پر یہ کرم ہوا کہ قربانی کا گوشت کھانے او راستعمال کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی، بلکہ سنت نبوی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی کا گوشت پاکیزہ اور پسندیدہ گوشت ہے، اسے خود بھی کھایا جائے اوردوسروں کو بھی کھلایا جائے، اُمت محمدیہ چوں کہ ملت ابراہیمی ہے ،اس لیے اس اُمت کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی وہ قربانی عطا کی گئی جو جان کی قربانی کے عوض میں عطا کی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا:

”یا رسول الله( صلی الله علیہ وسلم) یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں۔ صحابہ نے دریافت کیا ہمیں ان قربانیوں سے کیا حاصل ہوگا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی نصیب ہوگی۔ صحابہ نے اون والے جانور کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اُون کے ہر جز کے بدلے بھی نیکی ملے گی۔“ (سنن ابن ماجہ، مسند احمد)
قربانی میں سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام کے جذبہ فدائیت کا اظہار ہے، ایک مسلمان اسی جذبہ کے ساتھ قربانی کرتا ہے کہ الله تعالیٰ نے مال کی قربانی کا حکم دیا ا،گر جان کی قربانی کا حکم ہو تو اس کے لیے بھی حاضر ہوں۔
زندہ کنی عطائے تو            وربکشی فدائے تو
دل شدہ مبتلائے تو            ہرچہ کنی رضائے تو

”آپ نے زندگی دی، یہ محض آپ کی عطا ہے ،اگر آپ جان بھی لے لیں تب بھی آپ پر قربان، دل آپ کی محبت میں فدا ہے، آپ جو بھی کریں آپ کی رضا میں راضی ہیں۔“

جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت خود بھی استعمال فرمایا اور تقسیم بھی فرمایا، اہل علم کے نزدیک قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا مستحب ہے:

1..اپنے لیے 2..اقارب کے لیے 3..غرباء کے لیے۔

معلوم ہوا کہ قربانی صلہ رحمی کے ساتھ غرباء کے کھانے کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے دنوں میں روزہ رکھنا ناجائز ہے اور ایام قربانی وایام تشریق الله تعالیٰ کی مہمانی کے دن ہیں، جن میں الله تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب کھلاتے او رپلاتے ہیں، گویا قربانی حق تعالیٰ کی رضا کے حصول کے ساتھ مخلوق کی بھی خوش نودی کا ذریعہ ہے، ایام قربانی میں کثرت ذکر الله کی ترغیب دی گئی، نیز9 ذوالحجہ نماز فجر سے 13 ذوالحجہ نماز عصر تک ہر نماز کے بعد تکبیر تشریق پڑھنے کو ہر مردوزن پر واجب قرار دیا گیا ،وہ یہ تکبیر پڑھیں۔

اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، اَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ․

اس قولی توحید وذکر کے ساتھ جانور الله کے نام پر قربان کر دینے سے فعلی توحید کا بھی اقرار کرایا گیا او ریہی اسلام کی تعلیم ہے ،جس کا اظہار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا:﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ﴾․(الانعام:162)

”کہہ دو کہ : میری نماز، میری عبادت، میرا جینا، مرنا سب کچھ الله کے لیے ہے، جو تمام جہانوں کا پرورد گار ہے۔“
لہٰذا اس دن کثیر الجہت عبادت سرانجام دینے کے لیے ان احکام کو بجالایا جائے:

کثرت ذکر الله فرض نماز کے بعد تکبیر تشریق نمازعید کی ادائیگی جذبہ فنائیت کے ساتھ قربانی غرباء واقرباء میں گوشت کی تقسیم مستحقین کی مالی اعانت رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک تواضع وانکساری گناہوں سے اجتناب خاندان کے تمام صاحب نصاب عاقل بالغ مرد وزن کی جانب سے قربانی کے اہتمام کے ساتھ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم، حضرات صحابہ کرام، امہات المومنین، اہل بیت اطہار، بزرگان دین، اپنے مرحومین کی جانب سے نفلی قربانی بھی بلندی درجات کا ذریعہ بنتی ہے۔