تقویٰ – روزہ کا اصل مقصود

idara letterhead universal2c

تقویٰ – روزہ کا اصل مقصود

مولانا خالد سیف الله رحمانی

اسلام نے جتنی عبادتیں فرض کی ہیں ان میں انسان کی تربیت اور اصلاح کا پہلو بھی ملحوظ ہے، روزہ بھی ان ہی عبادتوں میں سے ایک ہے، جس میں نفس کی تربیت اور تزکیہ کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ قرآن مجید نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تم پر روزے اس لیے فرض کیے گئے ہیں کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾․ (البقرة:183)

”تقویٰ“ کا لفظ عربی زبان میں ”وقایہ“ سے ماخوذ ہے، وقایہ کے معنی انتہائی درجہ حفاظت کے ہیں ،”الوقایة فرط الصیانة“ (تفسیر کبیر:1/381) تقویٰ کے معنی جہاں بچنے کے ہیں وہیں خوف اور خشیت کے بھی ہیں اور قرآن مجید میں مختلف مواقع پر یہ لفظ اسی معنی کے لیے استعمال ہوا ہے ( دیکھیے: النساء:1، الشوریٰ:106، آلعمران:102) گویا محض الله تعالیٰ کے خوف سے آدمی اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے رکھے اسی کا نام ”تقویٰ“ ہے۔

اسی کو سلف صالحین نے مختلف الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، خود حدیث شریف میں حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ جب تک بندہ گناہ کی باتوں سے بچنے کے لیے، از راہ احتیاط، بعض جائز باتوں سے بھی اجتناب نہ کرے متقیوں کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ ( تفسیر کبیر:1/381) حضرت عمر رضی الله عنہ نے ایک دفعہ حضرت ابی رضی الله عنہ سے تقویٰ کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت ابی رضی الله عنہ نے ایک مثال کے ذریعہ تقویٰ کو سمجھایا، حضرت ابی رضی الله عنہ نے عرض کیا کہ کیا آپ کبھی کسی خاردار راستہ سے گزرے ہیں؟ حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا: ہاں، حضرت ابی رضی الله عنہ نے دریافت کیا کہ اس موقعہ سے آپ نے کیا کیا؟ فرمایا: میں نے پائینچے اٹھا لیے اور احتیاط سے کام لیا۔” تشمرت وحذرت“ حضرت ابی رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اسی کا نام تقویٰ ہے، ( تفسیر قرطبی:1/162) گویا دنیا ایک رہ گذر ہے جو خاردار جھاڑیوں سے گھری ہوئی ہے، یہ جھاڑیاں خواہشات او رگناہوں کی ہیں، جو انسان کے دامن عمل سے لپٹ جانا چاہتی ہیں، متقی شخص وہ ہے جو اپنے ایمان اور عمل کے دامن کوخدا کی نافرمانیوں اور عصیان شعاریوں سے بچا کر دنیا کا یہ سفر طے کر لے۔

اسی طرح تقوی ایک جامع لفظ ہے۔ جو خیر کی تمام باتوں کو شامل ہے۔ (قرطبی:1/262) چناں چہ مشہور بزرگ شیخ ابو یزید بسطامی نے فرمایا کہ متقی وہ ہے کہ جو کچھ کہے الله کے لیے کہے اور جو کچھ کرے الله تعالیٰ کے لیے کرے:”من اذا قال قال لله، ومن اذا عمل عمل لله“․ (حوالہ:1/161)۔ تقوی کے اسی وسیع مفہوم کو قرآن مجید نے سورہٴ بقرہ کے شروع میں بیان فرما دیا ہے کہ:

”متقی وہ لوگ ہیں جو غیب کی باتوں پرایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو کچھ ہم نے عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل فرمائی گئی اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئیں اور جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں“۔ (البقرة:4-3)

اس سے معلوم ہوا کہ تین باتوں کو تقویٰ میں بنیادی اہمیت حاصل ہے، ان میں پہلی چیز عقیدہ وایمان کی اصلاح ہے۔ یہ اسلام کی خشت اوّل ہے او راسی پر دین کی پوری عمارت کھڑی ہے، ایمان کا حاصل یہ ہے کہ خدا ورسول کی بتائی ہوئی ان دیکھی باتوں پر اس کا یقین ایسا ہو جیسا انسان کو دیکھی ہوئی باتوں کا یقین ہوتا ہے، ”یقین“ بہ ظاہر ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن درحقیقت کسی بات کا یقین انسان کی زندگی میں بہت بڑے انقلاب کا داعی ہوتا ہے، اگر لوگوں کے مجمع میں پلاسٹک کا مصنوعی سانپ بنا کر رکھ دیا جائے یا کسی عجائب خانہ میں شیر کا بھیانک مجسمہ بنا ہوا ہو تو کتنے ہی بڑے اور چھوٹے، بچے او رجوان، مرد اور عورت اس کو ہاتھ لگاتے ہیں، اس سے کھیلتے ہیں اور بعض منچلے تو اس کی سواری کرنے سے بھی نہیں چوکتے، لیکن اگر لوگوں کے مجمع میں اس سے بہت چھوٹا حقیقی اور زندہ شیر آجائے یا سانپ نکل آئے تو ہر شخص کا خوف سے بُرا حال ہوگا، اچھے اچھے بہادروں کو بھی راہِ فرار مطلوب ہو گی۔ نہ کھیل ہو گا،نہ تماشہ ہو گا، نہ تبصرہ کی ہمت ہو گی، یہ ”یقین“ کا فرق ہے۔ حالاں کہ شکل وصورت کے اعتبار سے دونوں شیر اور سانپ ہیں، لیکن آدمی جس چیز کے بارے میں شیر او رسانپ ہونے کا یقین نہ رکھتا ہو تو خواہ بہ ظاہر وہ کتنا ہی بھیانک نظر آئے اس سے کوئی خوف اور ڈر نہیں ہوتا ہے او رجب شیر ہونے کا یقین ہو جائے تو سوچ کے انداز ہی بدل جاتے ہیں۔

”ایمان“ ایسے ہی انقلاب انگیر یقین کا نام ہے، جو دلوں کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دے اور فکر ونظر کی کائنات میں انقلاب کا پیغمبر ثابت ہو، خدا پر ایمان انسان میں ایسی کیفیت پیدا کر دے کہ گویا وہ اپنے خالق کے سامنے کھڑا ہے او راس کے دامن کو تھامے ہوا ہے۔ خدا کی محبت اس کے دلوں سے امنڈنے لگے۔ الله تعالیٰ کی خوش نودی پر چل کر وہ اتنا خوش ہو کہ گویا اس نے سب سے بڑی نعمت پالی ہے۔ خدا کے عذاب کا خوف اس کو لرزا دے اوراس کی آنکھوں کو اشک بار کیے بغیر نہ رہے۔ اسے ایسا لگے کہ جیسے جنت اور دوزخ اس کے سامنے رکھی ہوئی ہے۔ خدا کی کتاب پر اس کو اس درجہ کا یقین حاصل ہو کہ آنکھوں دیکھی باتوں پر بھی آدمی کو اس درجہ اطمینان نہیں ہوتا، اسے یوں لگے کہ جیسے یہ کتاب اسی کو مخاطب کر رہی اور الله تعالیٰ اس سے ہم کلام اور سرگوش ہے۔ اس کیفیت کے بغیر ہمارا ایمان ناقص اور ناتمام ہے۔ ایک بے روح ایمان، جو نہ گناہوں سے ہمارے قدموں کو روک سکے او رنہ نیکیوں کی طرف ہمیں لے جاسکے، تقویٰ کے لیے یہ پہلا زینہ ہے!

دوسری چیز جس کا الله تعالیٰ نے ذکر فرمایا: ” اقامت صلاة“ یعنی نمازوں کا قائم کرنا ہے۔ نماز کیا ہے؟ اپنے آپ کو خدا کے آگے بچھا دینا اورسر سے پاؤں تک الله تعالیٰ کی مرضیات کے سانچہ میں ڈھال لینا! زبان خدا کے ذکر سے تر ہے، ہاتھ نیاز مندانہ خدا کے سامنے بندھے ہوئے ہیں، آنکھیں ایک غلام کی طرح جھکی ہیں، جسم بے حرکت کھڑا ہے، پھر جب نمازی رکوع میں جاتا ہے تو فروتنی اور بڑھ جاتی ہے، پشت خمیدہ، سرافگندہ، زبان پر تسبیح۔ اب سجدہ کی منزل ہے، جو عجز وانکسار او ربے بسی کا نقطہٴ عروج ہے۔ سر، پیشانی او رناک انسان کے عزت ووقار کا سب سے بڑا مظہر ہیں، لیکن خدا کے سامنے ہی سب زمین پر خاک آلودہ ہیں۔ ہاتھ بچھے ہوئے ہیں، جسم کے ایک ایک انگ سے خود سپردگی او رغلامی وبندگی ظاہر ہے، قدم قدم پر خدا کی کبریائی کا نعرہ ہے، اس کی حمد وثنا کا زمزمہ ہے، الحاح والتجا ہے، تضرع ودعا ہے، اپنی گنہ گاری کا اقرار واعتراف ہے، واقعہ یہ کہ نماز خدا کی بندگی کا ایسا فطری او راثر انگیز طریقہ ہے کہ اس کی ایک ایک کیفیت سے روح وجد میں آئے او رانسان کو خدا سے اپنی قربت کا احساس ہونے لگے۔ اس کو یوں محسوس ہونے لگے جیسے وہ خدا کے سامنے کھڑا ہے۔

پس یہ نماز ایک عنوان ہے اور اس کے ذریعہ انسان کو ان تمام اعمال کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جس کا مقصد الله تعالیٰ کے حقوق ادا کرنا ہے کہ خدا کا کوئی حکم مسلمان سے ٹوٹنے نہ پائے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان اپنی خواہشات اور چاہتوں کا ایسا دیوانہ ہوجائے کہ الله کی مرضیات اور اس کی چاہتیں اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں، وہ خدا کے حکم کو ہر حکم پر مقدم رکھے۔ اور جہاں نفس کو گراں گزرے وہاں بھی الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے فیصلہ کو اپنے آپ پر نافذ کرے۔

متقیوں کی تیسری صفت”انفاق“ ہے۔ انفاق کے معنی خرچ کرنے کے ہیں۔ قرآن کے بیان کے مطابق تقویٰ والوں کی ایک اہم صفت یہ ہے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی کم وبیش عطا ہوتا ہے وہ اس کا ایک حصہ اپنے غریب بھائیوں پر خرچ کرتے ہیں، دراصل دنیا میں جو چیز سب سے زیادہ دامن نفس کو کھینچتی او راپنا فریفتہ کرتی ہے وہ مال ودولت ہے۔ اس کی حرص اولاً خدا سے بے توجہ کرتی ہے۔ پھر دولت وثروت کا نشہ دل ودماغ پر چڑھتا ہے اور کبروغرور انگڑائیاں لینے لگتا ہے، یہی کبردین واخلاق کے لیے سم قاتل ہے۔ اس سے خود غرضی پیدا ہوتی ہے، ایثار کا جذبہ مفقود ہوتا ہے اور وہ لوگوں کے حقوق کو ایک بوجھ سمجھنے لگتا ہے، ” انفاق“ اسی کا علاج ہے۔ گویا انفاق سے صرف دوسرے انسانوں کی مالی اعانت ہی مراد نہیں ہے، بلکہ ”حقوق العباد“ کے لیے ایک عنوان کے درجہ میں ہے کہ جیسے انسان خدا کے حقوق ادا کرے اسی طرح خدا کی مخلوق کے حقوق کی بھی رعایت کرے۔ اس لیے کہ خدا کا حق اپنی ضرورت سمجھ کرادا کرے اسی طرح خدا کی مخلوق کے حقوق کی بھی رعایت کرے۔ اس لیے اپنی ضرورت سمجھ کر ادا کرنا ہے، خدا انسان کی عبادت اور بندگی کا محتاج نہیں۔ اور لوگوں کے حقوق کا ادا کرنا لوگوں کی ضرورت کے پیشنظر ہے کہ انسان محتاج اور ضرورت مند ہے۔ اسی لیے بعض وجود سے حقوق الناس کی اہمیت حقوق الله سے بھی زیادہ ہے۔

اس طرح تقوی تین باتوں کو شامل ہے، دل میں ایمان ویقین کی حقیقی کیفیت کو پیدا کرنا، ایسا یقین جو دل کی دنیا کو بدل دے او رخدا کی مرضیات کو بجالانے میں اسے لطف آنے لگے، دوسرے وہ الله کے حقوق کو ادا کرنے والا ہو، فرائض وواجبات کو پورا کرتا ہو او رگناہوں سے بچتا ہو، تیسرے وہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے والا ہو، مال کے ذریعہ بھی غریب بھائیوں کا تعاون کرتا ہو۔ اور اپنی زبان سے بھی لوگوں کی عزت وآبرو کو محفوظ رکھتاہو، اس طرح تقوی پوری انسانی زندگی کو شامل ہے اور زندگی کا کوئی گوشہ اس سے باہر نہیں۔

انسان کو چاہیے کہ جیسے وہ اپنی جسمانی بیماریوں کو تلاش کرتا ہے، اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو بھی تلاش کرے اور ان کے علاج کی طرف متوجہ ہو، کسی کی بیماری ایمان وعقیدہ میں چھپی ہوئی ہے وہ نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، لیکن توہمات کا شکار ہے اور خدا سے نفع ونقصان کے بجائے دنیا کی چیزوں سے نفع و نقصان کا یقین اپنے دل میں بٹھائے ہوئے ہے، خدا کے خزانہٴ غیبی سے زیادہ دنیا کے اسباب پر اس کا یقین ہے، تو اس کا تقویٰ یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی اصلاح کرے۔ اگر ایک شخص نیکیوں کے تمام کام کرتا ہو، لیکن نماز کی توفیق سے محروم ہو تو نماز کا اہتمام ہی اس کے لیے تقویٰ کی کسوٹی ہے، عبادت کا اہتمام کرتا ہو، لیکن لوگوں کے حقوق میں غافل ہو، غریب بھائیوں پر خرچ کرنا اس کی ڈکشنری میں نہ ہو تو اس کے لیے تقویٰ کا معیار ”انفاق“ ہے۔ اگر نماز وروزہ کی بھی توفیق ہو، الله کے راستہ میں خرچ بھی کرتا ہو، لیکن اس کے اخلاق اچھے نہ ہوں، اس کی زبان لوگوں کی عزت ریزی پر کمر بستہ رہتی ہو، اس کا سینہ کینوں اور کدورتوں سے معمور ہو، لوگ اس کی ترش روئی سے گھبراتے او راس کی تند کلامی سے خوف کھاتے ہوں تو اخلاق میں اس کا تقویٰ چھپا ہوا ہے، اگر وہ اس کی اصلاح کر لے تو ” متقی“ ہے۔

غرض تقویٰ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتاہے او رتقویٰ کی منزل تک پہنچنا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ انسان اپنی روحانی بیماری کی شاخت کرے اور جہاں گناہ کا پیپ ہے وہیں اصلاح کا نشتر لگائے، اگر الله تعالیٰ نے کچھ نیکیوں کی توفیق فرمائی تو اس سے دھوکہ نہ کھائے کہ کسی مریض کے لیے اس سے زیادہ نقصان دہ کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے آپ کو صحت مند تصور کرنے لگے۔ روزہ کا مقصد ایک مسلمان کو تقویٰ کی منزل تک پہنچانا ہے، اب کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے، ہم اپنیگریبانوں میں جھانک کر دیکھیں او راحتساب کا آئینہ اپنے رخ زندگی کے سامنے کر دیں اوردیکھیں کہ کیا ہم نے تقویٰ کی طرف سفر شروع کر دیا ہے او راگر شروع نہیں کیا تو کیا اب بھی اس کا وقت نہیں آیا؟؟