دین کی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کا آسان طریقہ

idara letterhead universal2c

دین کی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کا آسان طریقہ

محترم عبدالمتین

وقت اور مصروفیت
ایسے مسلمان بھائی جو دین کی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، لیکن اپنی تعلیمی،تدریسی،ملازمت یا کاروبار کی وجہ سے بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں اور ان کے دن کا اکثر حصہ ان مصروفیات کی نذر ہوجاتا ہے، ایسے میں ہم غور کریں تو اس قدرمصروف شخص بھی موبائل استعمال کرلیتا ہے،اپنی ورزش کے لیے وقت نکال لیتا ہے، دوستوں کو وقت دے دیتا ہے،نیند آرام اور لیٹنے کے لیے بھی ضرورت سے زیادہ اہتمام کرلیتا ہے اور یقینایہ تمام کام ایسے ہیں جو دن بھر میں ایک گھنٹے سے تو زائد وقت لے لیتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ مصروفیت دین کی تعلیم حاصل کرنے میں بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی، کیوں کہ دین کی بنیادی تعلیم کے لیے لائبریری یا سالہا سال تک پڑھنا ضروری نہیں ہوتا ،بلکہ ایک عام شخص روزانہ صرف ایک گھنٹے کا وقت نکال کر بہت آسانی کے ساتھ بنیادی دینی تعلیم حاصل کرسکتا ہے ۔

وقت نکالنے کا طریقہ

اس کے لیے سب سے پہلے اپنے معمولات کا بھرپور جائزہ لینے کی ضرورت ہے، جن میں کچھ کام بہت ضروری، کچھ ضروری اور کچھ غیر ضروری ہوتے ہیں ،لہذا غیر ضروری کاموں کوسب سے پہلے اپنے معمولات سے کاٹ لیں اور اس کے بعد ضروری کاموں میں بھی ترجیح قائم کرکے، اپنے معمولات کی ایک ترتیب بنائی جائی اور جو امور اوپر ذکر ہوئے ان پر نظر ثانی کرنے سے بھی یقینا بہت سا وقت بچ سکتا ہے ۔

وقت،جگہ،استاذ اور نصاب کے انتخاب کا طریقہ کار

لہٰذا جب وقت بچانے کی مہم کام یاب ہو جائے تو اپنے 24گھنٹوں میں روزانہ بلا ناغہ صرف ایک گھنٹے کا وقت نکال لیں اور یہ وقت نمازوں کے اوقات کے متصل ہو تو اور بھی زیادہ اچھا ہے، مثلاً فجر، ظہر، عصر، مغرب یا عشاء کے متصل بعد، اس طرح کہ کسی ایک نماز کے بعد یہ پکا عزم کیا جائے کہ میں نماز سے فارغ ہوکر پورا ایک گھنٹہ مسجد میں رہوں گا ۔ اس کے بعد اپنے گھر ،دکان یا دفتر کے قریب ایسی مسجد کا انتخاب کرے جہاں وہ آسانی کے ساتھ نماز پڑھنے جاتا ہو ،وہاں امام مسجد سے اکیلے میں یا اپنے چند دوستوں کے ہم راہ گزارش کرے کہ ہمیں دین سیکھنے کا بے حد شوق ہے، لیکن ہم اپنے مصروفیات میں اٹے ہوئے ہیں لہٰذا ہمارے لیے آپ ایک گھنٹہ فلاں وقت نکال لیں، تاکہ ہم ایک پاکیزہ ماحول میں عالمِ دین کی نگرانی میں دین کا صحیح فہم حاصل کرسکیں اور ہم اس کے لیے آپ کو معاوضہ بھی دیں گے ۔

اس کے بعد امام صاحب ایک ضروری نصاب پڑھائیں گے جس کا خاکہ درج ذیل ہو گا :
عقائد و نظریات۔ تجوید۔مسائل و آداب۔ اخلاقیات و معاشرت۔اذکار و دعوات۔سیرت و سوانح

مضامین کی اہمیت

یہ سات وہ بنیادی امور ہیں کہ جن کو ایک عالمِ دین کی نگرانی اورتربیت میں رہ کر سیکھنے سے مسلمان کی زندگی میں ایک مثالی کردار کی جھلک محسوس کی جاسکتی ہے ۔ان میں عقائد و نظریات کی اہمیت یہ ہے کہ ایک مسلمان کا تعلق اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے ساتھ ایسا مضبوط ہوجائے کہ دنیا کی کوئی بھی مادی طاقت اسے پیچھے نہ ہٹاسکے۔ تجوید کے ذریعے وہ اللہ کے کلام کو کماحقہ پڑھنے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے اور اسی سے اپنی نماز و اذکار کی بہتر ادائیگی کرتا ہے ۔ مسائل و آداب کا علم ایک مسلمان کو عملی زندگی کے راہ نما اصول سکھاتا ہے، جن کو جان کر اسے مہد سے لحد تک زندگی گزارنے کے طریقوں کا پتہ چل جاتا ہے۔ اخلاقیات انسان کی روحانی حالت کو بہتر کرتے ہیں، اس کی روح میں موجودبری عادات کوکرید کرید کر نکالتے اور اچھی عادات کو جگہ دیتے ہیں ۔ اذکار ودعوات کے ذریعے ایک مسلمان اس بات کا عادی بن جاتا ہے کہ وہ پل پل اپنے رب سے رابطے میں رہے اور اپنے دل کی حالت کودرست رکھے۔ نیز ان تمام امور میں سیرت طیبہ اور سوانح کے شامل کرنے کا مقصد اپنے اسلاف کی روشن اور تاب ناک مثالی زندگی سے واقف ہونا ہے ۔

نصاب کا اسلوب

یہ ایک ایسا نصاب ہے جس کے لیے کوئی باقاعدہ کورس تیار نہیں کیا جاسکتا، بلکہ استاذ سیکھنے والوں کی ضرورت،صلاحیت اور ماحول کے مطابق کوئی بھی اچھی ترتیب متعین کرسکتا ہے،ورنہ کسی بھی مخصوص نصاب کا ہر طالب علم کی استعداد و ضرورت کے موافق ہونا خود تعلیمی اصولوں کے خلاف ہے ۔ اور مذکورہ امور میں ایسے مضامین شامل ہیں جس کے ذریعے ایک مسلمان اپنی تمام نظریاتی اور عملی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے ۔

طریقہ تعلیم

مذکورہ تعلیمی سلسلہ ہر شخص اپنی آسانی کے موافق اختیار کرسکتا ہے، کیوں کہ ایسا کوئی گھر،دوکان،دفتر یا کاروبار نہیں جس کے 10 منٹ کے فاصلے پر کوئی مسجد نہ ہو اور ایسی کوئی مسجد نہیں جس میں کوئی امام نہ ہو اور ایسے ائمہ نہ ہونے کے برابر ہیں جو عالمِ دین نہ ہوں، ورنہ تقریباً ائمہ عالم ِ دین ہوتے ہیں اور تجوید،قرآن حدیث،فقہ،سنن و آداب،اذکار و دعوات اور سیرت کے بنیادی مباحث سے واقف ہوتے ہیں ۔

لہٰذا جب وقت،جگہ،استاذ اور نصاب کے موضوعات کا تعین ہوگیا تو اس کے بعد آپ اپنے اس گھنٹے کو تقسیم کریں اور استاذ سے گذارش کریں کہ وہ روزانہ آپ کو 20 منٹ تجوید سکھائیں،جس میں سب سے پہلے قاعدہ ،پھر ناظرہ اور بقیہ 10 منٹ آپ کو عقائد کا تعارف کرائیں، جس میں توحید،رسالت اور آخرت کے بارے میں سمجھائیں ۔اس کے بعد 10 منٹ مسائل سمجھادیں، جن میں طہارت ،نماز،روزہ،زکوٰة،حج عمرہ،احکام میت،نکاح اور خرید و فروخت کے مسائل شامل ہیں۔اس کے بعد 10 منٹ آپ حدیث پڑھیں، جس میں اخلاقیات،معاشرت اور رقاق اور دعوات کے مضامین شامل ہوں ۔ آخری 10 منٹ دعاؤں کے یاد کرنے میں لگادیں۔

ہفتے میں چار دن یہ معمول طے کرنے کے بعد ایک دن تجوید کے سبق سے فارغ ہوکر نماز کی عملی مشق کی جائے اور استاذ کو بتایا جائے کہ میں آپ کے سامنے دو رکعت نماز پڑھتا ہوں، آپ میری نماز میں موجود کوتاہیوں کی نشان دہی فرماکر مجھے مسائل سمجھاتے جائیں ۔اس کے علاوہ استاذ سے گذارش کریں کہ ہمیں سیرت و سوانح کا مضمون بھی پڑھادیں، ہفتے میں دو مرتبہ انبیاء ،صحابہ،تابعین،ائمہ،محدثین ،اولیاء و علمائے کرام کی زندگی کے بارے میں بھی بتائیں ،تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ جو کچھ ہم سیکھ رہے ہیں اس کی عملی شکل کیسی ہوتی ہے اور کیا حالات ہیں ان شخصیات کے جنہوں نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ اسی طرح آخری درخواست یہ کریں کہ ہمیں اولاً قرآن کریم کی مختصر سورتوں کا ترجمہ و تفسیر پڑھادیں، وہ سورتیں جو نمازوں میں عام طور پر پڑھی جاتی ہیں،تاکہ ہم اپنی نماز کو سمجھ سمجھ کر پڑھیں اور اس کے بعد طویل مکی سورتیں پڑھادیں، جن میں ایمانیات کو موضوع بنایا گیا ہے، تاکہ ہم بھی اپنی ایمانی تربیت کا انتظام کرسکیں اور پھر مدنی سورتیں،جس کے بعد ہمیں قرآن فہمی کا ایک مستند تصور سمجھنے کو ملے اور اللہ کے عظیم کلام کے ساتھ ہمارا ایک تعلق بن جائے ۔

البتہ وہ ساتھی جو تجوید میں بہترہیں اور تلاوت کا معمول بھی رکھتے ہیں تو وہ تجوید کامضمون نہ پڑھیں، اسی طرح احادیث میں پہلے جوامع الکلم پر مشتمل مختصر احادیث کا مجموعہ حفظ کیا جائے ،بعد میں معارف الحدیث جیسی تفصیلی کتاب پڑھیں، جو کہ اردو میں احادیث کا ایک بہترین مجموعہ ہے، جس میں صحاح ستہ کی تمام احادیث کا مجموعہ آگیا ہے۔ اس کا ایک بہت بڑا فائدہ سیکولرازم کی تردید بھی ثابت ہوگا، کیوں کہ جب ہر شخص دین کی تعلیم حاصل کرے گا تو ہر ادارے میں دین کا رنگ دیکھنے کو ملے گا، جن میں گھر، گلی، مسجد، بازار، تھانہ، عدالت، دکان، کاروبار، دفتر سب شامل ہوں گے اور یہ تعلیمچوں کہ فقط عبادات کی حد تک محدود نہیں ہے، اسی لیے ہر موڑ پر دین پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے گا، جن میں طہارت و عبادات سے لے کر خرید و فروخت تک سب احکامات شامل ہیں۔