قربانی،جذبہ فدائیت کا عدیم المثال نمونہ

idara letterhead universal2c

قربانی،جذبہ فدائیت کا عدیم المثال نمونہ
قصہء ذبح ِاسماعیل سے مستنبط علمی فوائد ولطائف

محترم محمد طیب حنیف

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَابُنَیَّ إِنِّی أَرَی فِی الْمَنَامِ أَنِّی أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِینَ، فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِینِ، وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَاإِبْرَاہِیمُ، قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ، إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاء ُ الْمُبِینُ ، وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ﴾․(سورة الصافات: 107-102)

ترجمہ:سو جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ابراہیم کے ساتھ چلنے لگا تو ابراہیم نے فرمایا:برخودار! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں، سو تم بھی سوچ لو، تمہاری کیا رائے ہےَ؟ وہ بولے کہ اے اباجان، آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ کیجیے،ان شاء اللہ آپ مجھ کو سہار(صبر) کرنے والوں میں سے دیکھیں گے۔غرض جب دونوں نے تسلیم کرلیا، اورباپ نے بیٹے کو کروٹ پر لٹایا اور ہم نے ان کو آواز دی کہ ابراہیم! تم نے خواب کو خوب سچ کر دکھایا۔وہ وقت بھی عجیب تھا ، ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔ حقیقت میں تھا بھی بڑا امتحان اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا۔(ترجمہ از بیان القرآن)

قربانی کی نعمت سے سابقہ اُمتیں بھی برابر مستفید ہوتی رہی ہیں، البتہ طریقہ ادائیگی اختلاف ِشرائع کی بنا پر مختلف رہا ہے، لیکن یہ بات مسلّم اور ثابت شدہ ہے کہ قربانی کا عمل حق تعالی شانہ کے تقرب کا نہایت مستند ومفید ذریعہ ہے، پھر خواہ اس قربانی کا تعلق ذبیحہ سے ہو یا راہِ خدا میں جان ومال کا نذرانہ پیش کرنے سے ہو۔
قربانی کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ عاشق اپنے محبوب ذات کی بارگاہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے، مگر حق تعالیٰ شانہ نے اپنی حکمتِ بالغہ کے تحت جانور کو اس کا قائم مقام بناکرسنت ابراہیمی کو رہتی دنیا تک کے لیے مشروع ٹھہرایا۔

ذیل میں قرآن مجید کی ذکر کردہ آیات کریمہ سے مستنبط شدہ علمی لطائف وفوائد کو ہدیہ قارئین پیش کیا جاتا ہے:

∗…نبی کا خواب حجت ہو تا ہے: منصب نبوت پر فائز شخص پر القائے وحی کی ایک صورت خواب ہے، جو حجت شرعیہ کے درجہ میں ہوتی ہے (عن ابن عباس رضی اللہ عنہما :”رؤیا الأنبیاء وحی“․(تفسیر قرطبی: 15/102، دار الکتب المصریة)،یہی وجہ ہے ابراہیم علیہ السلام نے بغیر کسی حِیل وحجت پیش کیے خواب میں مشاہد حکم کی تعمیل کا اقدام کیا۔برخلاف عام انسانوں کے خواب کہ وہ محض بشارت وطمانینت کا درجہ رکھتے ہیں، ان کو حجت تصور کرنا نہایت سنگین غلطی ہے، نیز اس واقعہ سے وحی کی ایک قسم ”غیر متلو“کا بھی ثبوت ملتا ہے۔

∗…خواب کی تعبیر کاتحقق تین طرح ممکن ہوتا ہے:
(الف)خواب کا امر ِمشاہَد کے عین موافق واقع ہوجانا، جیسا کہ حضور علیہ السلام نے فتح مکہ سے قبل مسجد حرام میں امن وسکون کے ساتھ مسلمانوں کو داخل ہوتے دیکھا، اس خواب کو اللہ رب العزت نے چند عرصہ بعد اسی کیفیت سمیت پورا فرمادیا:﴿لَّقَدْ صَدَقَ اللَّہُ رَسُولَہُ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ﴾․ (سورة فتح آیت نمبر 27)

(باء ) امرِمشاہَد کے بالکل برعکس ہوجانا،جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لختِ جگر کو ذبح کرتے دیکھا، مگر اللہ تعالیٰ نے مینڈھے کو ذبح کرنے کے ساتھ خواب کی تکمیل فرمائی:﴿قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا … إلی قولہ: وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ﴾․(سورة الصافات :107-105)

(جیم)امرمشاہدکا تاویل وتعبیر کا محتاج ہونا، جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے سورج، چاند اور گیارہ ستاروں کو اپنے سامنے سجدہ ریز ہوتے دیکھا تویہ خواب تعبیر کامحتاج تھا، جو ایک طویل عرصہ بعد تعبیر سمیت پورا ہوا: ﴿وَرَفَعَ أَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَہُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاأَبَتِ ہَذَا تَأْوِیلُ رُؤْیَایَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَہَا رَبِّی حَقًّا﴾․ (سورة یوسف آیت نمبر 100، وتفسیر الرازی:26/350، دار إحیاء التراث العربی، بیروت)

∗…نوعمر بچوں کو محنت ومشقت آمیزکام کا مکلف بنانا انسانی فطرت کے بھی خلاف ہے:بچوں کو ایسے کاموں پر مامور کرنا جو ان کی طاقت وقوت سے بالاتر ہوں، ایسے کام ان کے جسمانی وذہنی قوی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں، جس سے بچہ کی صحت و نشونما شدید متأثر ہوتی ہے،چناں چہ ایک شفیق والد اپنے بچے کی صحت کا پورا پورا خیال رکھتا ہے۔﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ…﴾․(سورة صافات:102،وتفسیر بیضاوی:5/15، دار إحیاء التراث العربی، بیروت)

∗…حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے لختِ جگر سے رائے طلب کرنے میں حکمت:مفسرین نے چند حکمتیں ذکر کی ہیں:
(الف)اپنے بیٹے کا طاعتِ خداوندی کے ولولہ وجذبہ سے سرشار ہونے کے پیمانہ کا جائزہ لینا مقصودتھا۔

(باء )امتثالِ حکم کی کیفیت واحساس کا جائزہ لے کر کامل ومکمل اجر وثواب کا مستحق ٹھہرانا تھا۔

(جیم)طبعی وپدری شفقت تعمیل ِحکم میں رکاوٹ وحائل نہ بن جائے، لہٰذا ذہنی طور پر تیار کردیا کہ اگر بیٹے کے دل میں کچھ تذبذب ہو تو اس کو سمجھایا جاسکے۔

∗…بذیعہ خواب ذبح ِاسماعیل علیہ السلام کا حکم: فرشتے کے ذریعہ پیغام ووحی بھیجے جانے کے بجائے بذریعہ خواب حکم دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت شعاری کو کمال کے ساتھ ظاہر فرمانا مقصد تھا، خواب میں مشاہد حکم جو مختلف حِیل وتاویل کی گنجائش کا محتمل تھا۔ اس سب کے باوجود کمالِ انقیادِ ظاہری وباطنی کا ثبوت دیا۔

∗…غایت درجہ ادب وتواضع کا اظہار:حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اپنے معاملہ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کرکے دعویٰ نفسانی کی ظاہری صورت کو بھی زائل فرمادینا غایت ِادب وتواضع کا اظہار تھا، یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کہتے ہیں کہ اس معاملہ کو مشیت خداوندی کے سپرد کرنے کے نتیجہ میں ہی ان کو اس سخت ابتلا پر صبر کی توفیق مرحمت فرمائی گئی۔ (تفسیرقرطبی:15/102، دار الکتب المصریة)۔ نیز خود کو صبر وہمت سے متصف کرنے کے بجائے یوں فرمانا:”مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے“،گویابزبانِ حال اللہ رب العزت کے سامنے اپنے عجز وقصور کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرنا تھا کہ اس سخت امتحان میں صبر وضبط کا عمل تنہاں میراکمال نہیں، بلکہ اس مقام ورتبہ پر متعدد شخصیات نے اپنے سر پر کام یابی کا سہرا سجایا ہے۔
           یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
           سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی!

اس واقعہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کایہ جملہ اور موسی علیہ السلام کیگفت گو:﴿سَتَجِدُنِی إِن شَاء َ اللَّہُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِی لَکَ أَمْرًاَ﴾کے مابین فرق اور نتیجہ کا اختلاف سب پر واضح ہے۔ نیز اس جملہ سے تمام انسانیت کو اپنے متعلق بلند بانگ دعوے سے محفوظ رہنے کادرس ملتا ہے۔ (روح المعانی للآلوسی:12/124 ، دار الکتب العلمیة)

∗…نیک اولادِ نرینہ کی دعا کی مشروعیت کا ثبوت:حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی پیرانہ سالی وضعیف العمری کے باوجود رحمت ِخداوندی سے مایوس نہ ہوئے اور نیک اولاد نرینہ کی دعا مانگی، جو اجابت کو پہنچی اور حلم وبردباری کی صفت سے متصف بچہ کو ان کی اہلیہ نے بانجھ ہونے کے باوجود جنم دیا، جس سے حق تعالی شانہ کی قدرت کاملہ پرایمان ویقین کی کیفیت میں مزید اضافہ ہوا :﴿رَبِّ ہَبْ لِی مِنَ الصَّالِحِینَ﴾(سورة صافات آیت نمبر 100، وتفسیر منیر23/116،دار الفکر المعاصر)

∗…مسلمانوں کی کام یابی جانی ومالی قربانیاں پیش کرکے دینی وملی خدمات سرانجام دینے میں مضمر ہے: اس واقعہ میں لختِ جگر کو ذبح کرنے کاعزم محض تعمیل ِحکمِ خداوندی کے تحت تھا، یہ ایک مشفق ضعیف العمر باپ کے لیے اپنی ایسی اولاد کو ذبح کرناجوآئندہ زندگی میں اس کے بڑھاپے کا سہارا بن سکتی ہو، بہت بڑی قربانی کا عمل تھا،جس کو درجہ قبولیت سے نواز تے ہوئے اس عمل کے طفیل ہی صاحب زادے کو نبوت سے سرفرازی کی بشارت کا فیصلہ سنایا گیا۔(تفسیر الدر المنثور:7/115،دار الفکر، بیروت)، یہی دینی وملی قربانیوں کا نتیجہ ہوتا ہے، قرآن مجید میں فرمایا: ﴿وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَیٰ لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِکَ کَانَ سَعْیُہُم مَّشْکُورًا﴾ ․(سورة بنی اسرائیل، آیت: 19)

ترجمہ:جو شخص آخرت کی نیت رکھے گا، اور ا س کے لیے جیسی سعی(کوشش)کرنی چاہیے ویسی ہی سعی بھی کرے گا، بشرطیکہ وہ شخص مؤمن بھی ہو، سو ایسے لوگوں کی یہ سعی مقبول ہوگی۔ (ترجمہ از بیان القرآن)
ذکر کردہ مضمون کی مناسبت سے مولانا یوسف کاندھلوی صاحب کا تاریخی جملہ پیش کرنا بے موقع نہ ہوگا، وہ فرماتے ہیں:”اسلام جب بھی چمکا ،قربانیوں کی بدولت چمکا ہے اور آج بھی قربانیوں سے چمکے گا۔جب اسلام کے لیے قربانیاں ہوں تو دشمنانِ اسلام کے گھیرے میں اپنی آب وتاب کے ساتھ چمکے گا،ا ور جب قربانیاں پیش کرنے میں کمی نمایاں ہونے لگے تو یہ اپنی بادشاہت میں بھی مٹ جاتا ہے۔“

∗…اعمالِ صالحہ کا اہتمام ذریعہ نجات وفلاح ہے:اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ حالات کی سختی ومصیبت سے نجات دلانے اور امتحان میں پورا اترنے کے لیے مؤثر ذریعہ ہیں، ظاہر ہے یہی اعمال قربِ الہی کا موجب ہیں، جس کا دنیوی واخروی حالات کی تبدیلی میں بڑا دخل ہے:﴿إِنَّا کَذَٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ﴾․(سورة صافات آیت: 105، وتفسیر ابی سعود:7/201، دار احیاء التراث العربی)

∗…اسبابِ فضیلت کا اجتماع:ہر عمل کی فضیلت کے اثبات میں چار اسباب میں سے کسی ایک سبب کا ہونا نہایت ضروری ہے:

حقیقت زمانی حقیقت مکانی حقیقت غائی حقیقت بانی۔قربانی کا یہ عظیم عمل چاروں اسباب کو جامع ہے۔(مواعظ اشرفیہ ، قربانی سے متعلق ساتواں باب)، نیز یہ واقعہ بھی ان چاروں باتوں کو متضمن ہے۔ آخری دو میں بالکل واضح ہے، باقی زمان ومکان اس بنا پر ہے کہ یہ ذبح کا معاملہ یوم النحر کے دن مقام منٰی میں منحر(جانور ذبح ونحر کرنے کی جگہ) پرعمل میں آیا۔

∗…جانور کا ذبح سنت ابراہیمی کے درمیان مناسبت: اس پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو تعمیل حکم میں اپنے لختِ جگر کی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا ، مگر پوری امت جانور کو ذبح کرتی ہے، پھر اس کو سنت ابراہیمی قرار دینا کیسے درست ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اصل تو اس سنت کی اتباع میں امت پر اپنی اولاد کو ذبح کرنا مشروع ہونا چاہیے تھا، مگر حق تعالی شانہ کی رحمتِ خاصہ وعنایت ِکاملہ نے جانور کے ذبح کو اس کا قائم مقام قراردیا:”عن ابن عباس:”لو تمت تلک الذبیحة لکانت سنة وذبح الناس أبناء ہم“․ تفسیر کشاف:4/55)

∗…طاعات ومعاصی کا مدار:انسانی جسم سے صادر اعمال وافعال کا طاعات ومعاصی کے قبیل سے ہونا یہ محض عقل سے ثابت نہیں ہوتا، بلکہ ا س کے ساتھ امرِ الہی ونہیِ ربّانی کی وابستگی اس کو طاعات ومعاصی کے درجہ تک پہنچاتی ہے،اس سے یہ اشکال از خود رفع ہوجاتا ہے کہ ذبحِ اولاد کیسے طاعت بنا؟ لہٰذا یہ عمل رب تعالی کے حکم کی تابع داری میں تھا، سو یہ از قبیلِ طاعات ہے۔

∗…کسی امر کی مشروعیت کا اس کے معمول بہاہونے(عمل میں آنے) سے قبل منسوخ ہوجانا یہ مستبعد نہیں:اس واقعہ میں منشأخداوندی اسماعیل کوذبح کیا جانا نہ تھا، البتہ حکم ذبح ہی تھا، چناں چہ جب ابراہیم علیہ السلام نے کمالِ انقیاد ظاہری وباطنی کا منھ بولتا ثبوت دیا اور اپنے خواب کو سچا کردکھایا، سو اللہ رب العزت نے اس امر کی مشروعیت کو عمل سے قبل ہی اٹھاکرمنسوخ فرمادیا۔ یہی جمہور اہل سنت والجماعت کا موقف ہے، چناں چہ معراج کے موقع پر پچاس نمازوں سے پانچ تک کی تحدید اسی قبیل سے ہے۔معتزلہ نے اس اصول سے انحراف کرتے ہوئے تاویل کا سہارا لیا،جو محض تکلف وتعسف پر مبنی ہے۔(تفسیر کشاف: 4/57،دار الکتب العربی)

∗…ذبیح اسماعیل علیہ السلام :متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے، چناں چہ اس واقعہ میں صبر واستقلال کی صفت کی بنا پر ہی دوسری جگہ آپ کے اوردیگر بعض انبیاء کے وصف امتیازی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:﴿کُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِینَ﴾․(سورة انبیاء آیت: 85) اور اپنے والد بزرگوار سے صبر سے متعلق وعدے کی کما حقہ پاس داری کے وصف کو ان الفاظ میں اجاگر فرمایا: ﴿کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ﴾․(سورة مریم آیت: 54)۔نیز ابو عمرو بن العلاء نے امام لغت اصعمی کی جانب سے ذبیح کے مصداق کی تعیین سے متعلق دریافتگی پرفرمایا:

”کیا تمہارے عقل پر پردہ آگیا ہے؟اسحاق علیہ السلام کب مکہ میں آباد ہوگئے؟ مکہ تو اسماعیل علیہ السلام کا وطن مألوف تھا، جنہوں نے اپنے والد کے ہم راہ بیت اللہ کی زیرِ زمین گُم گشتہ بنیادوں کو بلند کیا، نیز اسی کے قریب منی کے مقام پرقربانی کا یہ عمل وجود میں آیا۔“(تفسیر الرازی:26/347 ،دار احیاء التراث العربی)

∗…اسباب عادیہ محض سبب کا درجہ رکھتے ہیں:قرآن مجید کی آیت:﴿فَلَمَّآ أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِینِ﴾ (سوجب دونوں نے تسلیم کرلیا اوراس (اسماعیل)کوپیشانی کے بل لٹایا)اس سے متعلق تاریخی روایات میں ملتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کی گردن پر چھری چَلائی تو وہ بار بار چلائے جانے کے باوجود بے اثرثابت ہوئی،کیوں کہ اللہ رب العزت نے اپنی قدرت سے اس کے درمیا ن ایک پیتل کے ٹکڑے کو حائل ورکاوٹ بنادیا تھا ، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسباب عادیہ محض اسباب کا درجہ رکھتے ہیں، ان میں تاثیر کا پہلوحق تعالی شانہ کی جانب سے ودیعت کیا جاتا ہے۔(تفسیر مظہری، بحوالہ ابن جریر، منقولا عن السدی:8/103 ، مکتبة رشید یہ پاکستان)

∗…ایام حج کی وجہ تسمیہ:حج کے مخصوص پانچ ایام میں منی، عرفات،مزدلفہ قصد کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے، آٹھویں ذوالحجہ کو یوم الترویہ،نویں کو یوم عرفہ ، دسویں کو یوم النحرکہا جاتا ہے، اس واقعہ سے متعلق تفصیلی روایات کی روشنی میں ان ایام کی وجہ تسمیہ معلوم ہوتی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین دن مسلسل خواب میں اپنی اولاد کو ذبح کرتے دیکھا، پہلا دن جو آٹھویں ذوالحجہ کا تھا، خواب دیکھنے کے بعد ایک لمحہ کے لیے سوچ میں پڑگئے کہ یہ خواب رحمانی ہے یا شیطانی؟عربوں میں کہاجاتا ہے ”فلان روّی فی نفسہ“جب کوئی شخض کسی معاملہ میں گہری سوچ میں چلاگیا ہو، اسی وجہ سے اس دن کا یوم الترویہ نام رکھا گیا۔(الصحاح تاج اللغة للجوھری:6/2364)، دار العلم للملایین)،بہرحال نویں ذوالحجہ کو”عرف أنہ من اللہ“اس بات کو بخوبی جان گئے کہ یہ رب تعالیٰ کی جانب سے حکم ہے ، لہٰذا اس کو یوم عرفہ کے نام سے موسوم کیا گیا اوردسویں ذوالحجہ کو ذبح کا ارادہ کیا اور مینڈھے کو ذبح کیا، اس وجہ سے اس دن کا نام یوم النحر تجویز کیا گیا۔(روح المعانی للآلوسی:12/123، دار الکتب العلمیة)

∗…فائدہ فقہیہ:اس واقعہ کی روشنی میں امام اعظم ابوحنیفہ  نے ایک فقہی مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ اگر کسی شخص نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی نذر مانی تو اس کی جگہ ایک بکری ذبح کرنے سے نذر پوری ہوجائے گی، جب کہ بعض علماء نے اس کا بدل سو اونٹ کو قرار دیا ہے۔

ابن جریر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اثر نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے مسئلہ دریافت کیا کہ میں نے اپنی جان کو ذبح کرنے کی نذر مانی ہے، اب کیا صورت اختیار کی جائے؟ آپ نے آیت تلاوت فرمائی :﴿لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾․(سورة احزاب آیت: 21) اور پھر اس آیت کو تلاوت فرمایا:﴿وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ﴾(سورة صافات آیت: 107) اور پھر حکم دیا کہ اس کی جگہ ایک مینڈھا ذبح کردو، یہ اس کی طرف سے عوض ہوجائے گا۔ (الدر المنثور:7/114 دار الفکر، بیروت)

∗…بلاغی نکتہ:آیت قرآنی :﴿ومُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ مُبِینٌ﴾میں محُسِّنات ِ معنویہ میں سے صنعت مطابقت (صنعت مطابقت: وہ کلام جس میں دو متضاد معنی والے الفاظ کو یکجا کرکے پیش کیا جائے۔ (جواھر البلاغة:1/303 ،المکتبة العصریة)کے استعمال نے کلام میں نکھار پیدا کرکے گویا ایک نئی جان ڈالی ہے۔

∗…نحوی طریفہ:آیت :﴿وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیمٍ﴾یہاں فدیہ کی نسبت باری تعالیٰ نے اپنی جانب فرمائی، حالاں کہ فاعل حقیقی تو ابراہیم علیہ السلام تھے، اس کو نحوی اصطلاح میں اسناد مجازی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ (تفسیر أبی السعود 7/201،دار احیاء التراث العربی)

نیز﴿یَابُنَیَّ إِنِّی أَرَی فِی الْمَنَامِ أَنِّی أَذْبَحُکَ﴾میں ماضی کو بصیغہ مضارع پیش کرکے اس امر کی اہمیت کو باور کرانے کے لیے ذہنی طور پر مستحضر ہونا ثابت کیا ہے۔(تفسیر روح المعانی للآلوسی: 12/123)

∗…شیطانی وساوس کا دفعیہ اور علاج:جب ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں اپنے لختِ جگر کو ذبح کرتے دیکھا تو شیطان نے اس بات پرقسم اٹھائی کہ وہ آل ابراہیم کو اپنے دامِ فریب میں الجھا کر ضرور لغزش میں مبتلا کرے گا۔ اب چوں کہ ابراہیم علیہ السلام پر تو اس قدرآسانی سے زور چلنا ممکن نہ تھا، لہذا اس مہم کا آغاز آپ کی اہلیہ سے کیا اور پوچھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ابراہیم(علیہ السلام) اپنے بیٹے کو کہاں لے کر گئے ہیں؟ اس نیک خاتون نے کہا کہ فلاں جگہ لکڑیاں کاٹنے گئے ہیں۔ شیطان نے کہا کہ وہ بیٹے کو ذبح کے ارادہ سے نکلے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے۔ ان کی اہلیہ نے جب سنا تو فرمایا کہ اگر واقعی رب تعالیٰ کا حکم ہے تو میں اس حکم پر راضی ہوں، اسی کی اطاعت میں خیر مضمر ہے۔

شیطان یہ جواب سُن کر ناکام ونامراد ہوکر نوعمراسماعیل علیہ السلام کے پاس آکر بھی یہی سوال وجواب کی صورت اختیار کی، بیٹے نے بھی کہا کہ اگر حقیقتاً یہ رب کا حکم ہے تو مجھے دل وجاں سے قبول ہے۔

بہرحال شیطان مایوس ہوکراپناطریقہ واردات تبدیل کرکے ابراہیم علیہ السلام کے پاس آکر کہنے لگا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کو شیطان نے خواب میں اپنی اولاد کے ذبح کاحکم دیا ہے،جس کی تعمیل میں آپ اس قدردل چسپی ظاہر فرما رہے ہیں، ابراہیم علیہ السلام نے جب اس بات کو سُنا تو فورا سمجھ گئے کہ یہ شیطان ملعون ہے۔ اسی وقت اس کودھتکار ا اور سفر کو جاری رکھا۔

ایک روایت میں ہے کہ اس کے بعد بھی شیطان اپنی کوشش میں سرگرم رہا، چناں چہ جب ذبح کا وقت آیا تو پھر بھیس بدل کر آیا اور مختلف سوالات میں الجھانے کی کوشش کرنے لگا، ابراہیم علیہ السلام نے اس کو جمرہ عقبہ، وسطی اور کبری کے پاس سات سات کنکریاں مار کربھاگنے پر مجبور کیا،اسی سنت کو مناسکِ حج کا حصہ بنائے جانے پر حجاج کرام آج اس کو زندہ کرتے ہیں۔(تفسیر الخازن:4/24،دار الکتب العلمیة، بیروت)

∗…حسب و نسب کا ہدایت وگم راہی سے کوئی واسطہ نہیں: ﴿وَمِن ذُرِّیَّتِہِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ مُبِینٌ﴾،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم واسحاق علیہما السلام کی اولاد میں بعض ظلم ومعصیت کی راہ اختیار کیے زندگی بسر کریں گے، جس سے ان دونوں بزرگ ہستیوں کی شان پر حرف تک نہیں آسکتا ۔(تفسیر بیضاوی:5/16، ادراحیاء التراث العربی)
وصلی اللہ وسلم علی سید الأنبیاء والمرسلین ، وعلی آلہ وصحبہ أجمعین․ 

مقالات و مضامین سے متعلق