اسلام کس مساوات و برابری کا قائل ہے؟

idara letterhead universal2c

اسلام کس مساوات و برابری کا قائل ہے؟

مولانا محمد امجد

اللہ تعالیٰ کا قرآن پاک میں ارشاد مبارک ہے: ”اے ایمان والو!اگر تم بعضے اہل کتاب کا کہا مانو گے تو وہ تم کو ایمان لانے کے بعد پھر سے کافر کر دیں گے “۔

میری مسلمان ماؤ اور بہنو!آج آپ کو ایک زبردست پرفریب اور سنگین حملے کا سامنا ہے، جو دشمنان اسلام کی طرف سے آپ کو آپ کے مضبوط قلعے اور محفوظ گھر سے باہر نکالنے کی خاطر کیا جا رہا ہے –

پس اے مسلمان خواتین!ان دشمنوں سے بچ کر رہو اور ان کے اٹھائے ہوے شکوک و شبہات اور ان کے بلند بانگ دعووں سے دھوکہ مت کھاؤ،جن اہم مسائل میں دشمنان اسلام شکوک و شبہات پیدا کرنا چاہتے ہیں،اور انہیں ختم کردینا چاہتے ہیں ان میں سر فہرست ”مسئلہ حجاب“اور ”مساوات“ کا نعرہ لگا کر خواتین اسلام کو گھر سے در بدر کرنا ہے ۔
یہاں تک کہ بعض دشمنان دین نے یہ کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم عورتوں کو نوکریوں اور ملازمتوں پر لگائیں،جس دن وہ اس غرض سے ہماری طرف ہاتھ بڑھائیں گی،ہم ان کو حرام کاری میں مبتلا کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے اور دین کی فتح و کام یابی کے لیے کوشش کرنے والوں کا لشکر شکست خوردہ ہو کرتتر بتر ہو جائے گا۔

اور ایک دوسرے دشمن خدا نے کہا:”شراب کا جام اور حسین وجمیل بدکارہ دو شیزہ امت محمدیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں وہ اثر رکھتی ہے جو ہزاروں توپیں نہیں رکھتیں لہذا اسے شہوت و جنس کی محبت میں غرق کر دو “۔

لیکن ان دشمنوں کو کام یابی کہاں مل سکتی ہے؟جب کہ اللہ تعالیٰ نے پردے کے بارے میں بہت سی آیات محکمات نازل فرمائی ہیں، جن کی تلاوت قیامت تک ہوتی رہے گی اور وہ ہمیشہ مسلمان عورتوں کو پردہ اور پاک دامنی کی دعوت دیتی رہے گی ۔

پس احقر یہی بات بڑے درد دل کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہے کہ”اے میری قابل احترام ماؤ اور بہنو!جب اتنی کثیر آیات و احادیث میں مسلمان عورت کو گھر میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے اور بلا کسی شرعی حقیقی ضرورت کے گھر سے باہر نکلنے پر سخت فتنوں،لعنتوں اور مصیبتوں کے پیش آنے سے ڈرایا جا رہا ہے اور انداز بدل بدل کر ہمارے محبوب و محسن آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عورت کو گھر سے باہر نکلنے پر دنیوی واخروی نقصانات کو خوب کھول کھول کر بیان فرما رہے ہیں،تو پھر ایک مسلمان کے لیے ان پر عمل نہ کر کے اپنی عقل و رائے پر چلنے کی گنجائش کہاں باقی رہ جاتی ہے؟“

مگر آہ!پھر بھی ہمیں بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل مغربی ماحول سے متاثر اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے نتیجہ میں بہت سے بظاہر دین دار لوگ بھی اس معاملے میں بڑے فاسد خیالات کے حامل ہیں اور ان کی نگاہوں میں عورت کا گھر سے باہر اکیلی نکلنا،بلا تکلف ڈرائیونگ کرکے ادھر ادھرگھومنا اور باہر آفسوں اور دکانوں میں ملازمت کرنا،سب درست اور صحیح ہے ا ور اس پر نکیر کرنے والوں کو وہ لوگ دین میں شدت اور تنگی پیدا کرنے کا طعنہ دینے لگتے ہیں،جو کہ اہل مغرب کی ایجاد کردہ بڑی خطرناک زہریلی اور دھوکہ سے بھری ہوی اصطلاح و تعبیر ہے، جس کا مقصدکامل متبع سنت و شریعت دین دار مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے کہ دین پر چلنے کو شدت و تنگی کا نام دیتے ہیں۔

میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ: آپ ذرا سوچ سمجھ کربتائیں کہ کیا کسی بھی مسلمان میں یہ جُرات ہے کہ نعوذباللہ وہ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر شدت پسند یا تنگ نظر ہونے کا الزام لگائے ؟

جب تعلیم کردہ تمام باتیں یا تو قرآنی آیات اور نبوی ارشادات ہیں یا پھر ان دونوں سے ماخوذ و مستنبط مسائل صحیحہ ہیں،تو پھر اس کو تنگ نظری یا شدت پسندی کہنا کیا معنی رکھتا ہے؟اس بات کے سوائے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ یہ شہوت پرستوں اور بے دینوں کی طرف سے اپنی نفسانی اغراض اور شہوانی جذبات کی تکمیل کی راہ میں، حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی خاطر ،ان کی سوچی سمجھی ایک ایسی من گھڑت تعبیر ہے، جس کے متعلق احقر بس اتنا عرض کرے گا کہ درحقیقت ان تعبیرات و اصطلاحات کے ذریعہ یہ اسلام کے دشمن بڑی آسانی کے ساتھ امّت مسلمہ کو شہد میں زہر ملا کر پلا دیتے ہیں اور دلوں کی گہرائیوں میں چبھ کر پیوست ہو جانے والے کانٹوں کو پھولوں کے گل دستوں میں سجا کر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ہمیں ان کے چبھنے کا احساس بھی نہ ہواور یہ ان کے سوچے سمجھے منصوبے ہیں کہ جن سے کتنے ہی افراد امّت بغیر چھر ی کے ذبح، یعنی ایمانی موت کا شکار ہو چکے ہیں ۔

قارئین کرام! آج ایک بہت بڑا فتنہ اور دشمنان دین و ملت کی طرف سے اسلام کے اوپر ایک قبیح الزام ”عدم مساوات“کا ہے،اس نعرے کو لگا کر نہ جانے وہ کتنی بڑی تعداد میں مسلمان عورتوں،اسلام کی شہزادیوں کو گم راہ کر رہا ہے آیئے ؟!ذرا اس حقیقت کا جائزہ لیتے چلیں کہ مساوات وبرابری کا مطلب کیا ہے؟اور صحیح درجہ میں مساوات سوائے اسلام کے کسی مذہب میں موجود نہیں ہے –

اہل مغرب اسلامی تعلیمات پر حملہ کرنے اور اس کے نظام عدل ومساوات پر کیچڑ اچھالنے کے لیے اور مسلمانوں پر ظالمانہ حملوں اور خالص مذہبی نوعیت کی انتقامی کارروائیوں کے لیے پہلے مخصوص تعبیرات واصطلاحات کو وجود میں لا کر اس کو خوب پھیلاتے اور عام کرتے ہیں اورپھر آہستہ آہستہ اس کو اسلام اور مسلمانوں پر چسپاں کیا جانے لگتا ہے۔

جو مساوات و برابری ہمارے اسلام نے مرد و عورت کے درمیان رکھی ہے وہ دنیا کے کسی مذہب اور تمام اقوام عالم میں سے کسی قوم میں موجود نہیں ہے اور ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ ہمارے پاس اسلام دین الہی اور نظام و قانون خداوندی ہے اور دوسرے لوگ اس سے عاری و خالی ہیں -ان کو مساوات و برابری کا جو سبق پڑھایا جاتا ہے اور جو معنی سمجھایا اور باور کرایا جاتا ہے وہ مساوات و برابری کا معنی و مطلب نہیں ہے،بلکہ وہ خود بھی دھوکے میں ہیں اور دوسروں کو بھی دھوکہ میں رکھنا اور گم راہ کرنا چاہتے ہیں –

اسلام مرد و عورت میں جس مساوات و برابری کا قائل ہے اور اس کا جو صحیح معنی و مطلب ہے،وہ ہے ”اعطاء کل ذی حق حقہ“یعنی ہر حق والے کو اس کا حق دینا،یعنی اگر مرد کے کچھ حقوق ہیں،تو اسی طرح عورت کے بھی کچھ حقوق ہیں،تو جس کے جو حقوق ہیں،اس کو وہ حقوق ملنے چاہییں،اسی کو مساوات و برابری کہتے ہیں ۔

﴿ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف﴾دستور شرعی اورقانون الٰہی میں جس طرح عورتوں پر مردوں کے کچھ حقوق ہیں،اسی طرح مردوں پر بھی عورتوں کے کچھ حقوق ہیں،تو جس کے جو حقوق ہیں وہ اسے حاصل ہونے چاہیں اور جس کے جو فرائض ہیں وہ اسے انجام دینے چاہییں-

مثال کے طور پر شوہر پر بیوی کا حق ہے کہ اس کو رہنے کے لیے مکان دے اور کھانے پینے کے لیے کے لیے مناسب درمیانی قسم کا اپنی وسعت کے مطابق انتظام کرے اور پہننے کے لیے بھی اچھا مناسب لباس خرید کر دے،اس کے ساتھ محبت رکھے،اچھے سلوک سے رہے۔

ٹھیک اسی طرح بیوی پر بھی شرعا و دیانتاً اور اخلاقاً ضروری ہے کہ شوہر کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کرے، جب شوہر کو اس کی ضرورت ہو تو اس سے انکار و اعراض نہ کرے اور گھریلو معاملات و امور خانہ داری میں خوب امانت و دیانت کے ساتھ اس کے مال میں تصرف کرے-بلاوجہ خوامخواہ شوہر کو ناراض کرنے والی حرکتوں سے باز رہے،اپنی صورت و سیرت میں اس طرح رہے کہ شوہر اس کو دیکھے تو دل خوش ہو جائے -اسی طرح شوہر کی خدمت و راحت کی فکر کرنا،اس کی خاطر ہر وہ طریقہ اختیار کرنا کہ جو شوہر کے دل کی خوشی کا ذریعہ و باعث سکون ہو، بشرطیکہ معصیت ونافرمانی اور گناہ کا کام نہ ہو،اس کی آبرو و عزت میں ہرگز خیانت نہ کرنا،اس کی اولاد کی صحیح دیکھ بھال و تربیت کرنا وغیرہ وغیرہ ۔

قارئین کرام!مساوات کی یہ ایک مثال احقر نے پیش کی ہے، جس سے یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ مساوات ہوتی کیا ہے؟اور اس کا صحیح مفہوم ومطلب کیا ہے؟اور اس صحیح معنی و مطلب کے لحاظ سے اسلام نے کس قدر اعتدال و تناسب کے ساتھ حقوق کی تقسیم فرمائی ہے،ہر ایک کو اس کی شان اور حال کے لائق حقوق عطا کیے،جیسا کہ اسی شوہر و بیوی کی مثال سے واضح ہے۔

مساوات کا بگڑا ہوا معنی و مطلب

آج کل اہل مغرب نے مرد و عورت کے درمیان برابری اور مساوات کا جو شور بلند کیا ہے اور ہر طرف اس کا ڈھنڈورا پیٹا ہے اور پھر اس کے اعتبار سے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے،وہ مساوات نہیں ہے،بلکہ وہ مساوات تو درحقیقت بے چاری عورت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کے برابر ہے،یعنی یہ کہنا کہ مردوں اور عورتوں کو برابر کے حقوق دو،کہ جو کام مرد کر سکتے ہیں ان تمام کاموں کو عورت کیوں نہیں کر سکتی؟ لہذا ان کاموں کے کرنے کی عورتوں کو بھی اجازت دو،تب مساوات و برابری ہو گی!مثال کے طور پر مرد باہر جا کر کاروبار و تجارت کر سکتے ہیں تو عورت کیوں گھر سے باہر جا کر کاروبار و تجارت نہیں کر سکتی؟اسی طرح مرد گاڑی چلا سکتے ہیں ڈرائیونگ کر سکتے ہیں تو عورتیں کیوں نہیں کر سکتیں؟مرد پولیس اور فوج میں بھرتی ہو سکتے ہیں تو عورتیں کیوں نہیں ہو سکتیں؟

خلاصہ ان کی مساوات کا یہ ہے کہ جو کام مرد کر سکتے ہیں،وہ سب کام عورتیں بھی کر سکتی ہیں،یہ مفہوم جہالت و حماقت پر مبنی اور عورتوں پر ظلم ہے کہ نہیں ہے؟ جب مرد عورت کے بہت سے کاموں کو سر انجام نہیں دے سکتے تو پھر یہ برابری کہاں ہوئی؟تو یہ درحقیقت آزادی اور برابری کی خوب صورت تعبیر کی آڑ میں اس بے چاری عورت کو گھروں سے باہر ملازمتوں اور محنتوں کی قیدوبند کی صعوبتوں میں جکڑنا ہے، جو کہ اس کے او پر ظلم ہی ظلم ہے۔
مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمة اللہ علیہ اسی موضوع پر بہت درد سے فرماتے ہیں کہ:

”مغربی تہذیب اور اس کے طرز تعلیم نے صنف نازک کو اقتصادی،معاشرتی،سماجی اور اخلاقی میدان میں کس طرح پامال کیا ہے،اس کے ناموس اور تقدس کو کس طرح حرص کی بھینٹ چڑھایا ہے،اس کی معصومیت،حیا اور شرافت کو مغربیت نے کس طرح شکار کیا ہے،اس کے وقار،اس کی عزت،اس کی اقدار اور وفادارانہ روایات کو دور حاضر نے کس طرح کچل کر رکھ دیا ہے،اس کے جذبات،احساسات اور تصورات کو اضطراب،بے چینی اور بے اطمینانی کے کس اندھیرے غار میں ڈال دیا ہے،ان سوالات کے جوابات آج اخبار کے صفحات میں”ہر دیکھنے والی نظر“کے سامنے بکھرے پڑے ہیں،لیکن مغربی افیون کا نشہ،پڑھنے والوں کو ان پر غور و فکر کی مہلت نہیں دیتا-ہمیں لکھتے پڑھتے اور کہتے سنتے بھی شرم آتی ہے کہ مغربی تاجروں نے صنف نازک کو تعلیم و تہذیب،فیشن اور کلچر،مساوات اور حقوق کے پر فریب نعروں سے دھوکہ دے کر ان کو تباہ کر ڈالا ہے،زندگی کا کون سا شعبہ ایسا ہے جس میں ”عورت “کے نام،نغمہ وکلام،شکل و صورت اور تصویر اور فوٹو کو فروغ تجارت کا ذریعہ نہیں بنایا ہے،عورت کے فطری فرائض بدستور اس کے ذمہ ہیں،خانہ داری اور نسل انسانی کی پرورش کا بوجھ وہ اب بھی اٹھاتی ہے،لیکن ظلم پیشہ،کسل پسند اور آرام طلب ”مرد“ نے ”وزارت“سے لے کر ہسپتال کے نرسنگ سسٹم تک زندگی کے ایک ایک شعبے کا بوجھ بھی اس مظلوم اور ناتواں کے نحیف کندھوں پر ڈال دیا ہے۔

مرد و زن کی الگ الگ فطری تخلیق،الگ الگ جسمانی ساخت،الگ الگ ذہنی صلاحیت،الگ الگ جذبات و احساسات،الگ الگ طرز نشست و بر خاست کا فطری تقاضا یہ تھا کہ ان دونوں کے فطری فرائض الگ الگ ہوتے،دونوں کا میدان عمل ہی الگ الگ ہوتا،دونوں کے حقوق و واجبات بھی الگ الگ ہوتے،دونوں کی زندگی کا دائرہ کار بھی الگ الگ ہوتا،نیز جس طرح عورت اپنے فطری فرائض بجا لانے پر مجبور ہے،اسی طرح عقل و انصاف کا تقاضا اور فطرت کی اپیل ہے کہ وہ مرد اپنے فطری فرائض کے میدان میں مکمل طور پر مصروف ہونے کا بار خود اٹھائے اور صنف نازک کو اندرون خانہ سے باہر نکل کر بیروں خانہ رسوا نہ کرے۔

مرد و عورت بلاشبہ گاڑی کے دو پہیے ہیں لیکن یہ گاڑی اپنی فطری رفتار کے ساتھ اسی وقت چل سکے گی،جب کہ ان دونوں پہیوں کو اس گاڑی کے دونوں جانب فٹ کیا جائے،گھر کے اندر عورت ہو اور گھر کے باہر مرد ہو،لیکن اگر ان دونوں کو ایک ہی جانب فٹ کر دیا جائے یا بٹوارا کر لیا جائے کہ مرد بھی نصف گھر سے باہر کے فرائض انجام دے اور نصف گھر کے اندر کے،اسی طرح عورت کو اندر اور باہر کے فرائض کی دو عملی میں بانٹ دیا جائے تو یا تو یہ گاڑی سرے سے چلے گی ہی نہیں یا اگر چلے گی بھی تو فطری رفتار سے نہیں چلے گی،بلکہ اس کی رفتار میں کجی،ہچکولے،بے اطمینانی اور سردردی کا اتنا عظیم طوفان ہو گا کہ انسانی زندگی نمونہ جنت نہیں، بلکہ سراپا جہنم زار بن کر رہ جائے گی“۔

اے اسلام پر مرد و عورت میں عدم مساوات کا الزام لگانے والو!یہی بات تو ہم سمجھانا چاہتے ہیں،کاش کہ کوئی سمجھنے والا ہو،اس پورے عالم کا نظام اور دنیا کی یہ گاڑی بھی اسی طرح ٹھیک چل سکے گی جب اس کی ہر چیز کو ہم اس کے صحیح مقام پر رکھیں۔یہ پورا عالم ایک گاڑی کی مانند ہے،اس کی ہر چیز کو حق تعالیٰ نے خاص انداز اور خاص وضع اور ساخت سے مخصوص مقصد کے لیے بنایا ہے،اس نے حیوانات و نباتات و جمادات سب کو پیدا کر کے سب کے بارے میں بتا دیا کہ کون کس کام اور کس مقصد کے لیے ہے۔ اور یہ کہ بنی نوع آدم کی تخلیق کس لیے ہے؟پھر ان میں مرد کن امور کی انجام دہی کے لیے ہیں اور عورت کن امور کو پورا کرنے کے لیے ہے؟پس جس مذہب میں مرد و عورت کے لیے پورا نظام زندگی پیش کیا گیا ہو،وہ صرف دین اسلام ہے۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم ایسے مذہب کے ماننے والے ہونے کے باوجود عورتوں کے حقوق و فرائض کے بارے میں بھٹکتے پھریں اور دوسروں سے بھیک مانگیں،جب کہ ہمارے پاس دونوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفصیلی نظام موجود ہے ۔

لہٰذا ہمارے خالق و مالک نے جس چیز کو جس مقصد کے لیے بنایا ہے،اگر اس کو اس سے ہٹائیں گے تو زندگی کی گاڑی نہیں چل سکے گی۔ مغرب کے جن دیوانوں نے اس طرح گاڑی چلانی چاہی،وہ آج تھک ہار کر بیٹھ چکے ہیں،عورت کو گھر سے باہر نکال کر مردوں کے کام اس کے کندھے پر رکھنے کے برے اور خطرناک نتائج ان کی نظروں کے سامنے آگئے،جس میں سب سے بڑا اور بھاری نقصان یہ ہوا کہ گھریلو تعلقات، خاندانی رشتے،فیملی کی تربیت اور افزائش نسل کا پورا نظام درہم برہم ہو گیا،اب وہ پلٹنا چاہ بھی رہے ہیں تو ان کے لیے راستے بند ہوتے جا رہے ہیں، لہٰذا وہ یہی تباہی مسلمانوں کے اندر بھی لانا چاہ رہے ہیں، تاکہ مسلمانوں کا معاشرہ, ان کی نسلیں بھی اسی طرح تباہی اور بربادی کا شکار ہو جائیں اور مسلمان ہیں کہ آنکھیں بند کر کے ان کے لگائے ہوے پر فریب نعروں کے پیچھے دوڑے جا رہے ہیں۔

ہمارا دین خالص دین الٰہی اور وحی آسمانی ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل ہی دنیا و آخرت کے سکو ن اور کام یابی کاضامن ہے ۔

حق تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ امت مسلمہ کی ماؤں،بہنوں،اسلام کی شہزادیوں اور ان کے سرپرستوں پر راہ حق واضح فرما کر ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق دے ۔

مقالات و مضامین سے متعلق