اسلام دراصل الله کی مکمل اطاعت کا نام ہے۔ اسلامی شریعت کا مقصد انسان کی فلاح وبہبود ہے۔ وہ زندگی کے تمام امور ومسائل میں راہ نمائی کرکے انسان کو شریعت اسلامی کا پابند بنانا چاہتی ہے۔ زیر نظر مضمون میں شادی بیاہ کے مسائل پر روشنی ڈالی جارہی ہے، تاکہ غیر اسلامی اورجاہلانہ رسوم ورواج سے بچا جاسکے۔ شادی بیاہ میں رشتہ کا انتخاب بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں شریعت کی کیا راہ نمائی ہے؟
رشتوں کا معیار
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عورتوں سے چار باتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مال کے پیش نظر، اس کے حسب ( خاندان ) کے باعث، اس کے حسن کی خاطر اور دین داری کے باعث۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں( یہ جملہ کبھی تعجب او رکبھی تنبیہ وغیرہ کے لیے بولا جاتا ہے ) تجھے تو دین دار عورت حاصل کرنی چاہیے‘۔‘ (بخاری) دوسری جگہ ارشاد ہے: ”تم ان سے دین کی بنیاد پر شادی کرو۔ کیوں کہ ایک کالی کلوٹی کم عقل والی لونڈی بھی اگر دین دار ہو تو وہ دوسری عورتوں سے افضل ہے“۔ (حدیث) مزید ایک جگہ فرمایا:” دنیا کی حیثیت ایک متاع ہے او رمتاع دنیا میں بہترین چیز نیک عورت ہے۔“ (بہ روایت عبدالله بن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ، مسلم) دراصل دین کا علم او راس پر عمل بہت بڑی دولت ہے۔ زندگی کو پر لطف وپرسکون بنانے او راطمینان قلب حاصل کرنے کے لیے دین داری ہی بہتر اور ضروری ہے۔
نکاح کی اہمیت
حضرت ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جس شخص نے میری سنت کو راہ ِ زندگی بنا لیا پس وہ مجھ سے ہے او رمیری سنت نکاح ہے۔“ (حدیث) حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اے علی! تین کام ہیں جن میں جلدی کرنی چاہیے۔ ایک نماز جب اس کا وقت آجائے۔ دوسرے جنازہ، جب کہ وہ تیار ہو جائے۔ تیسرے بن بیاہی عورت کا نکاح، جب کہ اس کا مناسب رشتہ مل جائے۔“ (ترمذی۔ حاکم) رشتہ کے طے ہونے ہی کو منگنی کہا جاتا ہے۔ لیکن رشتہ طے ہو جانے کے بعد جاہلانہ غیر اسلامی رسوم ورواج کا ایسا سلسلہ چلتا ہے کہ رسم ورواج کی پیروی میں لوگ شیطان کو بھی شرما دیتے ہیں۔ دراصل اہل ایمان کو مندرجہ بالا تعلیمات کے مطابق اسلامی احکام کی پابندی کرتے ہوئے رسم ورواج سے پرہیز کرنا چاہیے۔
نکاح کے اصول وضوابط
نکاح، اسلامی معاشرتی نظام کا ایک اہم رکن ہے، جو زوجین کو حلال طریقے سے ازدواجی رشتے میں باہم منسلک کرتا ہے، اعتدال کی حالت میں نکاح کرنا سنت ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ہے : ”النکاح من سنتی“
فقہائے کرام نے حالات کے اعتبار سے نکاح کرنے او رنہ کرنے کے احکام بیان کیے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
فرض: اگر شہوت بہت زیادہ ہو، حتی کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ کر لینے کا یقین ہو ، مہر او رنان ونفقہ ادا کرسکتا ہو، نیزی بیوی پر ظلم وستم کرنے کا خوف نہ ہو، تو ایسی صورت میں نکاح کر لینا فرض ہے۔
واجب : نکاح کرنے کا تقاضا ہو ، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو، مہر او رنان ونفقہ ادا کرسکتا ہو، نیز بیوی پر ظلم وستم کرنے کا خوف نہ ہو، تو ایسی صورت میں نکاح کر لینا واجب ہے۔
سنت مؤکدہ: عام حالات میں یعنی مالی او رجسمانی حالت اچھی ہو، بیوی کے حقوق کو ادا کرسکتا ہو، بیوی پر ظلم وستم کرنے کا خوف نہ ہو تو نکاح کرنا سنت مؤکدہ ہے۔
مکروہ تحریمی: اگر نکاح کرنے کے بعد بیوی کے مالی یا صنفی حقوق ادا نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔
حرام: اگر نکاح کرنے کے بعد بیوی کے مالی یا صنفی حقوق ادا نہ کرنے کا یا عورت پر ظلم کرنے کا یقین ہو یا نکاح کرنے کا مقصد بیوی پر ظلم کرنا ہو تو پھر نکاح کرنا حرام ہے۔ (البحرالرائق:3/84، الدر المختار علی رد المحتار:3/6، فتاوی محمودیہ:10/472، پاکستان)
نکاح کرنے کے یہ درجات جس طرح مردوں کے لیے ہیں، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہیں۔ نکاح میں لڑکے کے اوپر مہر، ولیمہ مسنونہ اور مستقل طور پر بیوی کے نان ونفقہ کے اخراجات کے علاوہ کوئی مالی ذمہ داری نہیں ہے؛ اس لیے صرف اس وجہ سے کہ ابھی زیادہ روپیہ پیسہ نہیں ہے، یا ولیمہ میں بھار ی بھر کم خرچہ کرنے کی استطاعت نہیں ہے، نکاح نہ کرنا یا نکاح کو مؤخر کرنا درست نہیں ہے؛ بلکہ اگر نکاح کرنے کی ضرورت ہو تو ایسی صورت میں سخت گناہ ہو گا او راپنے ذہن او رجسم وروح کے ساتھ ناانصافی بھی ہو گی۔ جہیز کا مطالبہ کرنا لڑکے کا یا اس کے گھر والوں کی طرف سے کسی کا لڑکی سے یا اس کے گھر والوں میں سے کسی سے کسی بھی سامان کا یا کھانے کی دعوت کا صراحت کے ساتھ یا اشارہ وکنایہ میں یا رسم ورواج کی بنیاد پر جائز نہیں، سخت گناہ کی بات ہے او رمرد کی غیرت کے خلاف ہے۔ کپڑے، زیورات او رگھریلو ساز وسامان کا انتظام کرنا سب مرد کے ذمہ ہے۔ اگر لڑکی والے مطالبہ کے بغیر، مگر رسم ورواج یا سماج کے دباؤ میں آکر کچھ دے تو بھی لینا نہیں چاہیے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لایحل مال رجل مسلم لأخیہ، إلا ما أعطاہ بطیب نفسہ“ ․ (السنن الکبریٰ للبیہقی:16756)
یعنی کسی دوسرے کا مال اس کی دلی رضا مندی کے بغیرکسی کے لیے حلال نہیں۔ سماجی دباؤ میں آکر دینے کا مطلب یہ ہے کہ دینے والایوں سمجھے کہ ہمارے یہاں اس موقع پر فلاں چیز دینے کی رسم ہے دینی ہی پڑے گی، اگر نہیں دیں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟ اگر لڑکی از خود کوئی سامان اپنے میکے سے لاتی ہے تو اس پر صرف اسی لڑکی کا حق ہے۔ مرد کو اس میں اپنا حق جتانا یا بیوی کی اجازت کے بغیر اس کا استعمال کرنا صحیح نہیں ہے۔ حق مہر نکاح کی وجہ سے بیوی کا مہر واجب ہوتا ہے۔ مہر کی مقدار کم از کم دس درہم یعنی تیس گرام چھ سو اٹھارہ ملی گرام چاندی یا اس کی مالیت کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے کم مالیت میں اگر نکاح کیا جائے مثلاً پانچ سو روپے میں یا صرف786 روپے میں تو نکاح تومنعقد ہو جائے گا، مگر دس درہم کی مقدا ر کا ادا کرنا واجب ہو گا، تاہم متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے مہر فاطمی، یعنی ایک کلو پانچ سوتیس گرام نوسو ملی گرام چاندی متعین کرنا مستحب ہے۔ دین مہر کا بعد نکاح فوراً ادا کرنا دینا بہتر ہے۔ اس کو مؤخر کرنا مناسب نہیں ، علمائے کرام کا مشورہ ہے کہ اس زمانہ میں سونے یا چاندی میں مہر متعین کرنا لڑکی کے حق میں مناسب ہے، اس لیے کہ افراط زر کے اس زمانہ میں سالوں گزرنے کے باوجود اس کی مالی حیثیت میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ سنت سے زیادہ قریب ہے، کیوں کہ دورِ نبو ی میں عموماً سونے وچاندی سے مہر طے ہوتا تھا۔
ارکانِ نکاح
نکاح حرام کو حلال کرتا ہے؛ اس لیے اس کے ارکان اور شرائط کو بوقت نکاح ملحوظ رکھنا نہایت ہی ضروری ہے، ورنہ بعض دفعہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ہے اور طویل عرصہ تک لڑکا لڑکی دونوں حرام کاری کرتے رہتے ہیں۔ نکاح کے ارکان ایجاب وقبول ہیں۔ پیغام دینے اور پیش کش کرنے کو ایجاب کہتے ہیں ، خواہ لڑکے کی طرف سے ہو یا لڑکی کی طرف سے اوردوسرے کی طرف سے منظور کر لینے کو قبول کہا جاتا ہے۔
ایجاب وقبول کی شرائط
پہلی شرط: ایجاب وقبول کی شرطوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایجاب وقبول کی مجلس ایک ہو، مثلاً ایجاب جس مجلس میں ہوا اسی مجلس میں قبول ہو جائے، ورنہ نکاح منعقد نہیں ہوگا، مثلاً اگر ایجاب وقبول کی جگہ بدل جائے یا کوئی ایک مجلس سے اٹھ جائے، پھر قبول کرے تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ (البدائع الصنائع:2/232، ہندیہ:1/269)
دوسری شرط: دوسری شرط یہ ہے کہ : ( الف) ایجاب وقبول کا تلفظ کیا گیا ہو، یعنی اگر ایجاب وقبول کرنے والا بولنے پر قادر ہے اور دونوں مجلس میں موجود ہیں تو ایجاب وقبول کی منظوری زبان سے دینا ضروری ہے۔ مثلاً ایجاب یوں کرے” میں نے آپ سے اتنے مہر کے عوض نکاح کیا“ اور قبول یوں کرے” ہاں میں نے قبول کیا“ اگر ایجاب و قبول کے الفاظ لکھ دیے جائیں یا صرف سر کو ہلا دیا جائے یا نکاح نامہ میں صرف دستخط کر دیے جائیں تو ان صورتوں میں نکاح منعقد نہیں ہو گا۔ (ب) اگر نکاح کرنے والوں میں سے کوئی ایک مجلس میں موجود نہ ہو، مگر اس کی طرف سے اس کا ولی جس کو اس نے نکاح کرانے کی اجازت دے رکھی ہو یا وکیل جس کو اس نے نکاح کرانے کا وکیل بنایا ہو، موجود ہو تو وہ خود اس کی طرف سے ایجاب یا قبول کرے۔ مثلاً یوں ایجاب کرے ” میں نے فلاں یا فلا نہ کا نکاح آپ سے اتنے مہر کے عوض کیا“ اور قبول اس طرح کرے ”ہاں! میں نے فلاں یا فلا نہ کی طرف سے قبول کیا“ یا قاضی ولی اور وکیل کا ترجمان بن کر اس کی موجودگی میں ایجاب کرے تو اس سے بھی نکاح منعقد ہو جائے گا۔ (ج) اگر کوئی ولی یا وکیل بھی موجود نہ ہو تو اگر کسی ایک نے ایجاب کو لکھ کر بھیجا اور دوسرے نے جس مجلس میں اس کو ایجاب کی تحریر پہنچی اسی مجلس میں گواہوں کی موجودگی میں ایجاب کو پڑھ کر یا کسی سے پڑھوا کر زبان سے قبول کیا تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔(ہندیہ:1/270-269)
تیسری شرط: تیسری شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کے صیغے ماضی یا حال کے ہوں، مثلاً میں نے آپ سے نکاح کیا یا نکاح کرتا ہوں کہے، اسی طرح میں نے قبول کیا یا میں قبول کرتا ہوں یا مجھے قبول ہے وغیرہ الفاظ کہے، پس اگر مستقبل کے صیغے استعمال کیے جائیں، مثلاً یوں کہا کہ نکاح کروں گا، قبول کروں گا یا ٹھیک ہے کر لوں گا وغیرہ تو نکاح منعقد نہیں ہو گا۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ:9/35)
چوتھی اور آخری شرط: چوتھی شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کم ازکم دو ایسے مسلمان عاقل وبالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں ہو، جو فریقین کے ایجاب وقبول کے الفاظ کو سن سکیں؛ لہٰذا اگر دو گواہ نہیں ہیں یا گواہ تو ہیں؛ مگر مسلمان نہیں ہیں یا صرف عورتیں ہیں، یا گواہ بالغ اور عاقل نہیں ہیں تو نکاح منعقد ہی نہیں ہو گا۔
نکاح کرنے کے طریقے
نکاح کرنے کے چار طریقے ہیں ،جو حسب ِ ذیل ہیں:
اَصالةً: یعنی نکاح کرنے والا خو دایجاب یا قبول کرے۔ مثلاً لڑکا یا لڑکی دونوں میں سے کوئی ایک دو گواہوں کی موجود میں دوسرے سے کہے ہاں! میں نے قبول کیا۔
ولایةً: یعنی نکاح کرنے والے کا ولی، مثلاً اس کا باپ یا دادا، بھائی، چچا وغیرہ (بالترتیب) اس کی طرف سے ایجاب یا قبول کرے، ایسا صرف اس صورت میں ہوتا ہے؛ جب کہ لڑکا یا لڑکی نابالغ ہو۔ اور اس وقت اگر نکاح باپ دادا کے علاوہ کسی دوسرے ولی، مثلاً بھائی، چچا وغیرہ نے کرایا ہے، تب تو ان کو بالغ ہونے کے بعد اختیار ہو گا کہ اس نکاح کو باقی رکھیں یا ختم کر دیں او راگر باپ دادا نے کرایا ہے تو یہ اختیار نہیں رہے گا۔ ہاں! اگر باپ دا دااپنے فسق وفجور میں مشہور ہوں تو پھر نکاح ختم کرنے کا اختیار ہوگا۔ فقہ کی اصطلاح میں اس کو ”خیار بلوغ“ کہا جاتا ہے ؛ مگر اس کے لیے قضائے قاضی شرط ہے، یعنی شرعی دارا لقضاء میں جاکر قاضی شریعت کی خدمت میں فسخ نکاح کا درخواست دینا ضرور ی ہے، قاضی محترم تحقیق کرنے کے بعد فسخ کرسکتے ہیں۔
اجازة: اگر لڑکا یا لڑکی بالغ ہو تو اس کی طرف سے اجازت یا وکالت کا ہونا ضروری ہے۔ ہمارے معاشرہ میں عموماً لڑکا اور لڑکی کے والدین، اولیاء وسرپرستان نکاح کراتے ہیں، یہ ایک بہتر او رمستحسن عمل ہے؛ کیوں کہ دونوں کے اولیاء اپنی اولاد کی دینی اور دنیاوی بھلائی دیکھ کر ہی نکاح کرائیں گے۔ اسی وجہ سے شریعت میں ولی کی اجازت کے بغیر کیے گئے نکاح کو ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اولیاء کو حکم فرمایاہے کہ وہ اپنی بالغ اولاد کا نکاح ان کی رضا مندی کے بغیر نہ کریں۔ ”لاتنکح الأیم حتی تستامر، ولا تنکح البکر حتی تستاذن“ (بخاری:5136)
کیوں کہ ازدواجی زندگی دونوں میاں بیوی کو گزارنی ہے؛ اس لیے ان سے اجازت لی جائے۔ اجازت کامطلب یہ ہے کہ بالغ لڑکا یا لڑکی اپنے ولی مثلاً باپ،دادا یا بھائی کو اس بات کی اجازت دے کہ آپ میرا نکاح فلاں سے کرا دیں یا جس سے چاہیں کرا دیں یا ولی اپنے بیٹے یا بیٹی سے اس بات کی اجازت لے لیں کہ وہ اس کا نکاح فلاں یا فلانہ سے کرانے جارہا ہے، واضح رہے کہ اگر باپ دادا نے کنواری لڑکی سے اجازت طلب کی اور وہ خاموش رہی تو اس کا خاموش رہنا بھی اجازت کے حکم میں ہو گا۔ بہرحال ایسی صورت میں ولی کو بھی اپنے بالغ بیٹے یا بیٹی کا نکاح کرانے کا یعنی ایجاب یا قبول کرنے کا حق ہو گا۔ اجازت دیتے یا لیتے وقت بہتر ہے کہ دو گواہ بھی موجود ہوں۔
وکالةً: یعنی نکاح کرنے والا لڑکا یا نکاح کرنے والی لڑکی کسی کو ایجاب وقبول کرنے کا زبانی یا تحریری طویر پر وکیل بنا دے، مثلاً یوں کہے یا لکھ دے کہ میں نے فلاں بن فلاں کو فلا نہ بنت فلانہ سے یا فلاں بن فلاں سے اپنا نکاح کرانے کا وکیل بنا دیا اور وکیل اس کی طرف سے ایجاب یا قبول کرے۔ مثلاً یوں ایجاب کرے کہ میں نے اپنی مؤکلہ کو آپ کی زوجیت میں دیا ،میں نے اپنے مؤکل کا نکاح آپ سے کیا۔ قبول اس طرح کرے کہ میں نے اپنے مؤکل یا مؤکلہ کی طرف سے قبول کیا۔(الدر المختار علی رد المحتار:3/85، ہندیہ:1/298)
جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ نکاح
ٹیلیفون، موبائل، واٹس ایپ، فیس بک میں چیٹنگ کے ذریعہ ہو یا آڈیو کانفرنس ہو یا ویڈیو کانفرنس ہو، نکاح کسی بھی صورت میں منعقد نہیں ہوگا؛ کیوں کہ دونوں کی مجلس ایک نہیں ہے؛ البتہ اگر ان ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کسی کو وکیل بنا دیا جائے اور وہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے گواہوں کی موجودگی میں ایجاب یا قبول کرے تو پھر نکاح منعقد ہو جائے گا۔
کورٹ میریج
کورٹ میں نکاح کرنے کی صورت میں اگر ایجاب وقبول کی ساری شرطیں موجود ہوں تو نکاح منعقد ہو گا، ورنہ نکاح نہیں ہو گا۔ مثلاً اگر متعلقہ افسر کے سامنے صرف کاغذ پر دستخط کر دیا، زبان سے ایجاب وقبول نہیں کیا۔ یا دونوں گواہ مسلمان نہیں تھے یا صرف عورتیں گواہ تھیں تو نکاح منعقد نہیں ہوگا۔
خطبہٴ مسنونہ
ایجاب وقبول سے پہلے خطبہ دینا مسنون ہے۔ جس میں سورہ نساء کی پہلی آیت ، سورہ آل عمران کی آیت نمبر102 ، سورہٴ احزاب کی آیت نمبر71,70 اور سورہ حجرات کی آیت نمبر31 ،اسی طرح نکاح سے متعلق احادیث، مثلاً:”النکاح من سنتی“ وغیرہ کا پڑھنا بہتر ہے۔
مجلسِ نکاح میں تقریر کرنا
مجلس نکاح میں اردو یا مادری زبان میں تقریر کرنا جس میں نکاح کی فضیلت، مسائل واحکام او رمیاں بیوی کے فرائض وحقوق کو بیان کرنا اورانہیں شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرنا مناسب ہے۔ نیز طلاق وخلع کے نقصانات کو واضح کرنا اور اس کے مسنون طریقہ کو بھی بیان کر دینا مناسب ہے۔
میاں بیوی کو مبارک باد دینا
نکاح کے بعد میاں بیوی کو دعا او رمبارک باد دینا سنت ہے، مبارک بادی کے الفاظ حدیث میں اس طرح منقول ہیں:”بارک الله لکما وجمعکما فی خیر“ ترجمہ: الله تعالیٰ اس نکاح میں برکت دے او رتم دونوں میاں بیوی کو خیر میں جمع کر دے۔ ( بخاری:6386) نکاح کا اعلان کرنا حدیث میں ہے :” اعلنوا ھذا النکاح، واجعلوہ فی المساجد، واضربوا علیہ بالدفوف“ (ترمذی:1089) یعنی کھلے عام نکاح کرو، اس کو مسجد میں کرو او ردف بجاؤ؛ تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں اور فلانہ کے درمیان نکاح ہوا ہے۔
نکاح کا وقت
نکاح کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے ؛ البتہ شوال کے مہینے میں اورجمعہ کے دن نکاح کرنا مستحب ہے، کیوں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے ماہ شوال میں او رجمعہ کے دن نکاح کرنا منقول ہے۔ (الد رالمختار علی رد المحتار:3/8)
ولیمہ کرنا
نکاح کے فوراً بعد چھوارے یا کوئی میٹھی چیز تقسیم کرنا مستحب ہے، اسی طرح نکاح کی خوشی میں ولیمہ کرنا بھی لڑکے کے لیے مستحب ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے اعزہ واقرب کو اپنی وسعت کے مطابق کھانا کھلائے؛ بشرطے کہ کوئی نام ونمود نہ ہو اور فضول خرچی نہ ہو۔ کھانا کھلانے کے تعلق سے لڑکی یا اس کے گھروالوں پر کوئی چیز واجب یا مستحب نہیں ہے۔ ولیمہ کرنے کے نام پر لڑکے والے کا لڑکی والے سے کچھ مانگنا درست نہیں۔ اگر وسعت نہ ہو تو ولیمہ ہی نہ کرے؛ مگر دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔
نکاح نامہ کی حیثیت
نکاح نامہ کی حیثیت ایک دستاویز کی ہے، بعض دفعہ اس کی ضرورت پڑتی ہے، اس لیے نکاح نامہ تیار کرالینا بھی بہتر ہے، تاہم اس کے بغیر بھی نکاح منعقد ہو جائے گا۔
نکاح کا رجسٹریشن کرانا
متعلقہ سرکاری دفتر میں جاکر نکاح کا رجسٹریشن کرالینا چاہیے، تاکہ سرکاری طو رپر بھی نکاح کا ریکارڈ رہے، البتہ رجسٹریشن کیے بغیر بھی نکاح شریعت کی نظر میں صحیح ہو جاتا ہے۔
ایک جاہلانہ رسم
بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ طعام گاہ کے قریب میز (ٹیبل) لگا دیا جاتا ہے، تاکہ لوگ کھانے سے فارغ ہو کر کچھ رقم جمع کریں۔ یہ بھی ایک بیہودہ رسم ہے کہ کھانے کی دعوت پر لوگوں کو جمع کیا جائے او ران سے ایک مخصوص رقم (کھانے کا بل) وصول کیا جائے۔
بے پردگی
شادی بیاہ کے موقع پر بے پردگی بہت ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اپنے حسن کی نمائش کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ پردہ فرض ہے۔ اس کی خلاف ورزی بہت بڑا گناہ ہے۔ قرآن کا فرمان ہے :” اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں او راپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں او راپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں۔بجز اس کے جو ظاہر ہو جائے۔ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں۔“ (نیز ان کو حکم دو کہ ) وہ چلتے وقت اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا اظہار ہو۔“ (سورہٴ نور:31) عورتوں کے ستر عورتوں کے لیے ستر کی حدود یہ ہیں کہ وہ اپنے چہرے او رہاتھوں کے سوا تمام جسم کو شوہر کے علاوہ تمام لوگوں سے چھپائیں۔ رسول خدا صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہیے، سوائے چہرے او رکلائی کے جوڑ تک ہاتھ کے “۔(ابوداؤد) نبی صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ الله کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو لباس پہن کر بھی ننگی کی ننگی رہیں۔(حدیث)حضرت عمر رضی الله عنہ کا ارشاد ہے کہ اپنی عورتوں کو ایسے کپڑے نہ پہناؤ جو جسم پر اس طرح چست ہو کہ سارے جسم کی ہیئت نمایاں ہو جائے۔ مندرجہ بالا تعلیمات کی روشنی میں خواتین کو بے پردگی سے بچنا چاہیے۔ (یہ احادیث ستر سے متعلق ہیں ،حجاب یعنی اجنبی سے پردہ کا حکم اس سے مختلف ہے، اجنبی مرد کے سامنے چہرے کا ظاہر کرنا بھی درست نہیں ہے۔)
تحفہ
تحفہ دینا شریعت میں پسندیدہ ہے، لیکن بدلے کی نیت سے نہیں دینا چاہیے۔ یہ بات اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو کوئی چیز تحفے کے طور پردے چکا ہو، بدلے کی نیت رکھے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنی ہی قئے خود چاٹ لے۔الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ اہل ایمان کو اپنی اطاعت کرنے اورشریعت اسلامیہ کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)