پیغامِ ہدایت .. ایک خط جو شادی کے موقع پر ارسال فرمایا

idara letterhead universal2c

پیغامِ ہدایت .. ایک خط جو شادی کے موقع پر ارسال فرمایا

مولاناقاری محمد طیب قاسمی 

الحمدلله وکفیٰ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی اما بعد!

شادی اور نکاح سنت انبیاء علیہم السلام ہے اور اسے اسلام نے صرف معاملے کی حد تک محدود نہیں رکھا، بلکہ عبادات کے زُمرہ میں شمار کیا۔ اسی لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”النکاح نصف الدین، فلیتق الله فی النصف الباقی“․

نکاح آدھا دین ہے، آدمی کو چاہیے کہ بقیہ آدھا دین تقوی اور طہارت سے حاصل کرے۔

نکاح ہی ہے جس کی ذریعہ عفت ، پاک دامنی او رخیال کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے، آدمی حرام سے بچتا ہے او رحلال کے دائرہ میں محدود رہتا ہے نکاح ہی ہے جس کے ذریعہ اتحا دباہمی اور قبائل اورخاندانوں کے باہمی تعاون کی بنیاد پڑتی ہے۔

کتنے ہی اجنبی باہم مربوط ہو جاتے ہیں اور پہلے سے بیگانے ہوں تو یگانگت بڑھ جاتی ہے اور باہمی حقوق قائم ہو جاتے ہیں، اسی لیے حق تعالیٰ شانہ نے جہاں آبائی اور جدی نسبت کو محل نعمت میں شمار فرمایا وہیں صہری اور سسرالی رشتہ کو بھی نعمت ظاہر فرمایا۔ ارشادخدا وندی ہے:﴿وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآء ِ بَشَرًا فَجَعَلَہ نَسَبًا وَّ صِہْرًا﴾․(قرآن حکیم)

” اور الله ہی وہ ہے جس نے ایک قطرہٴ پانی سے بشر کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے نسب آبائی اور سسرالی رشتہ پیدا فرمایا۔“

پس جیسے نسب کو نعمت ظاہر فرما کر بشر پر اپنا احسان جتایا کہ یہ نعمت اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں دے سکتا ایسے ہی سسرالی رشتہ کو بھی نعمت ظاہر فرمایا کہ اجنبی دلوں کو اسی طرح باہم ملا دینا بھی اسی کا کام ہے ،جو کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں۔ اسی لیے حق تعالیٰ نے نکاح کی غرض وغایت ظاہر فرماتے ہوئے اسے اپنی قدرت کی نشانی اور آیت قرار دیا۔

کیا یہ قدرت ہی کا کرشمہ نہیں کہ نکاح سے ایک منٹ پہلے مرد عورت باہمی اجنبی ہیں او رایک دوسرے کے دکھ درد کو بعینہ اپنا دُکھ درد نہیں سمجھتے، اگر کبھی اجنبی عورت کسی تکلیف میں مبتلا ہو جائے تو سوائے عام انسانی ہم دردی کے آدمی اس کی کوئی خاص ٹیس اور چبھن اپنے دل میں اس طرح محسوس نہیں کرتا کہ بے چین ہو جائے۔ اور اپنے دکھ درد کو بھول جائے، لیکن نکاح سے ایک منٹ بعد اگر عورت کے دکھ درد کی بات اس کے کان میں پڑ جائے تو وہ متفکر ، پریشان اور بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنے دکھ درد کو بھول کر منکوحہ کے دکھ درد کے مداوے میں مستغرق ہو جاتا ہے، یہی صورت عورت کی بھی ہے، یہ دلوں کا ملاپ اور قلوب کی وحدت کیا محض قدرت کا ہی کرشمہ نہیں کہ دلوں کی دنیا بیک دم بدل ڈالی اور جانبین کے دلوں میں انقلاب عظیم رونما فرما دیا، اس لیے اگر اسے آیت اور نشانی فرمایا گیا ہے تو وہ ایک حقیقت واقعی ہے، محض کوئی نظر یہ نہیں ظاہر ہے کہ دو کا یہ ملاپ فریقین کے متعلقین کا بھی قدرتی ملاپ ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ لڑکی والے لڑکے والے کے اور لڑکے والے لڑکی والے کے دکھ درد میں شریک نہ ہوں اورباہم یگانگت محسوس نہ کریں، اس لیے نکاح جیسے خود ایک آیت اور قدرت کے کرشموں کی ایک عظیم نشانی ہے، ایسے ہی وہ باہمی اتحاد ویگانگت کا بھی ایک معجزانہ وسیلہ ہے، اس لیے حضور اکرم صلی الله علیہ و سلم نے متعدد نکاح فرما کر قبائل کو اپنے ساتھ ملایا، باہم شیر وشکر فرمایا اور اسی لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو نکاح کے تعلق کی پختگی او رمضبوطی کا اہتمام تھا، طلاق جو قاطع نکاح ہے، باوجود جائز ہونے کے عندالله اس کو مبغوض قرار دیا، چناں چہ فرمایا:”ابغض المباحات عند الله الطلاق“

جائز چیزوں میں سب سے زیادہ عداوت خدا تعالیٰ کو طلاق سے ہے ،کیوں کہ یہ قاطع نکاح ہے ،نکاح جو ذریعہ اتحاد ووحدت ہے تو طلاق قاطع اتحاد وملاپ بھی ہے، درآنحالیکہ انبیاء علیہم السلام کا مقصد وحید توحید کے ساتھ اتحاد باہمی بھی ہے کہ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا جائے اور بچھڑے ہوؤں کو ملاپ دیا جائے او رخدا سے ٹوٹے ہوئے دل کو خدا کے ساتھ جوڑ دیا جائے، اس لیے وہ نکاح کے تعلق میں کسی ادنی اختلال کو بھی کیسے گوارا فرماسکتے تھے، البتہ نکاحی تعلق مضبوط سے مضبوط اور ذریعہ اتحاد بنانے کا جو راستہ شریعت الہی نے طے فرما دیا وہ بنیادی طور پر دو چیزیں ہیں، ایک شفقت ،ایک اطاعت، جس سے معاشرہ کی گاڑی چلتی ہے۔

خاوندوں کو تو حکم دیا کہ وہ بیوی کے ساتھ انتہائی شفقت اور دل داری سے پیش آئیں اور نرم اخلاق سے اس کے دل کو موہ لینے کی سعی میں لگے رہیں، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ :” ان اکرم المؤمنین احسنکم اخلاقاً والطفکم اھلاً…“․ (یعنی ) تم میں سب سے زیادہ قابل تکریم وہ مسلمان ہے جس کے اخلاق پاکیزہ ہوں اور بیوی کے ساتھ لطف ومدارات کا برتاؤ کرتا ہو۔

حتی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کھانا کھاتے وقت اپنے ہاتھ سے بیوی کے منھ میں لقمہ دے دینا بھی صدقہ کے حکم میں ہے، جس پر اجر دیا جاتا ہے اور اسے عبادت شمار کیا جاتا ہے، خود آں حضرت صلی الله علیہ وسلم بھی ازواج مطہرات کے ساتھ انتہائی ملاطفت اور دل جوئی کا عمل فرماتے تھے، اس لیے بیویوں کے ساتھ دل جوئی او ران پر لطف وکرم اور شفقت و محبت کے برتاؤ سے جہاں نکاح کی حقیقی غرض وغایت نکلتی ہے وہیں اس سے قلوب میں سکون او رباہمی مودت اور تحاد پیدا ہوتاہے، ارشاد باری ہے:﴿وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً﴾

اور الله کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تم میں سے تمہارے جوڑے بنائے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تم میں آپس میں مودت اور رحمت پیدا ہو۔ بلاشبہ اس میں فکر کرنے والے کے لیے قدرت کی نشانیاں ہیں( کہ بے تعلق قلوب میں وہ کس طرح اچانک تعلق خاص، بلکہ محبت باہمی کا علاقہ قائم فرما دیتا ہے)۔
اور یہ اس لیے کہ بیوی خاوند کی وجہ سے اپنے گھر بار، ماں باپ، اپنے عزیز واقرباء کو چھوڑ چھاڑ کر خاوند کے گھر آتی ہے کہ اس کی بن کر رہے، اگر وہ بھی ملاطفت اور شفقت سے دست کش ہو جائے او راس کے ساتھ بے رحمی اور ایذا رسانی کا برتاؤ کرے تو یہ غریب عورت کہاں جائے ،نہ ادھر کی رہے گی نہ ادھر کی، اپنے عزیز تو خاوند کی وجہ سے چھوٹے او رخاوند بھی اپنا نہ ہو تو اس غریب کا ٹھکانا ہی کیا باقی رہا ؟!سوائے اس کے کہ غم میں گھل گھل کر اپنی زندگی ختم کر دے۔

اِدھر بیویوں کو حکم دیا گیا کہ وہ خاوند کی اطاعت او راتباع میں سرگرمی دکھلائیں او رکوئی حرکت ایسی نہ کریں جس سے خاوند کا دل ٹوٹے اوربیوی سے بیزار ہو جائے، جس سے اس تعلق کی غرض وغایت ہی فوت ہو جائے، جیسے بد مزاجی، درشت کلامی، سرکشی اور نافرمانی اور شوہر کے مال میں خیانت یا مال کو بجائے شوہر کے گھر بار پر خرچ کرنے کے، اس کی اجازت کے بغیر اپنے میکے پر صرف کرنے لگے، جو بلاشبہ خیانت ہو گی اور خاوند کے لیے بددلی اور بیزاری کا باعث ہو گا ، جس سے یقینا اس تعلق کی خوش گواری اورآخر کار نفس تعلق ہی کی بقا میں خلل پڑجائے گا، جس کے اثرات پورے گھرانے پر پڑنا قدرتی امر ہے ،اسی بنا پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ انتہائی بات فرما دی کہ اگر میں غیر الله کے لیے کسی کوسجدہ کا حکم دیتا تو بیویوں کو حکم دیتا کہ وہ شوہر وں کو سجدہ کیا کریں، چوں کہ غیر الله کو سجدہ کرنا شرک اور قطعی حرام ہے، اس لیے یہ امر نہیں کیا ،مگر اس سے اطاعتِ شوہر کی انتہائی تاکید برآمد ہوتی ہے کہ حرام اطاعت کے سوائے کوئی بھی اطاعت ایسی نہیں ہے، جس کے لیے بیوی مامور نہ ہو، اس لیے احادیث میں فرمایا کہ اگر شب میں بیوی خاوند کے ساتھ سرکشی برتتی ہے تو تمام ملائکہ اس پرلعنت کرتے ہیں ،یہی صورت دن کی بھی ہوتی ہے۔

بہرحال یہ دو باتیں اطاعت شوہر، ملاطفت زوجہ وہ ہیں جن کے بغیر زندگی آگے نہیں بڑھ سکتی، ان دونوں باتوں کا تعلق کسی ظاہری نمائش یا زینت پر نہیں رکھا گیا، بلکہ ایک ایسی حقیقت پر رکھا گیا جو لافانی او رجادوانی ہے، مثلاً اگر خاوند کی ملاطفت کا تعلق عورت کے ظاہری حسن وجمال، مال ودولت اور عرض وجاہت وعزت سے ہے تو یہ تمام چیزیں دنیا ہی میں پائیدار نہیں ہیں، چہ جائیکہ آخرت میں کار آمد ونافع ثابت ہوں ،اس لیے کہ جب یہ کم یا گم ہوں تو شوہر کی ملاطفت ختم ہو جائے گی او رتعلقات میں کشیدگی، بلکہ آخر کار انقطاع تعلق تک نوبت پہنچے گی او راگر اس تعلق کی بنیاد عورت کی دین داری پر رکھی جائے تو دین سدا بہار اور دنیا کے بعد آخرت تک ساتھ جانے والا ہے، اس لیے اس پر مبنی شدہ تعلق بھی دائمی اور مضبوط اور خوش گوار رہے گا، جس میں کوئی عارضی چیز خلل انداز نہ ہوگی، اس لیے حدیث نبوی میں ان امور کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ :”تنکح المرأة لاربع: لما لھا وجمالھا ولحسبھا ولدینھا، فاظفر بذات الدین“․

عورت سے نکاح (بظاہر اسباب، چار وجوہ سے کیا جاتا ہے، اس کے مال دار ہونے کی وجہ سے، اس کے خوب صورت ہونے کی وجہ سے، اس کی عرفی عزت ووجاہت کی وجہ سے، اس کی دین داری کی وجہ سے۔ سو تم ان تمام امور میں دین داری کو ترجیح دو۔

ظاہر ہے کہ مال وجمال اور عرفی حیثیت آنی جانی چیزیں ہیں، اگر بیوی پر لطف وشفقت ان کی بناء پر ہے تو اوّل تو یہ لطف وشفقت نہیں، بلکہ خود غرضی ہے او رجس حد تک ہے بھی تو اس کے زوال سے تعلق زائل ہو جائے گا او رگھریلو زندگی میں ناچاقی او ربیزاری رونما ہو جائے گی، جس سے گھر کے تباہ ہونے کی صورت پیدا ہو گی، لیکن اگر نکاح کا مبنی عورت کی دین داری ہے، جو خاوند کے بھی دین دار ہونے کی کھلی علامت ہے اور لطف وشفقت اس بنا پر ہو گا تو اس کی بنیاد خوف خدا پر ہوگی اور آدمی محسوس کرے گا کہ جب خدا نے اسے میرے ذمے لگا دیا تو حسب اوامر خداوندی اس کے ساتھ لطف وکرم کا برتاؤ کروں ،خواہ وہ حسین وجمیل ہو یا نہ ہو، مال دار ہو یا نہ ہو، صاحب جاہ و منزلت ہو یا نہ ہو۔

ظاہر ہے کہ اس جذبہ سے یہ ملاطفت و شفقت عین دین ہو گی اور مرتے دم تک قائم رہے گی۔ ہاں! اگر حق تعالیٰ دین دار ی کے ساتھ ساتھ حسن وجمال، مال ومنال بھی جمع فرما دیں تو یہ سونے پر سہاگہ ہے ،لیکن یہ امور تعلق کی بنیاد بنانے کے قابل نہیں ہیں کیوں کہ ہر آن قابل زوال اور اختلال ہیں۔ بہرحال نکاح کے تعلق میں پختگی او رپائیداری ان دو ہی امور سے آتی ہے، شوہر کی اطاعت اور زوجہ کی دل داری

دوسری بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ زوجہ کوئی باندی نہیں ہوتی، بلکہ شریک حیات اور رفیقہٴ زندگی ہوتی ہے، اس لیے اس کے ساتھ اونچ نیچ کا برتاؤ کسی طرح بھی جائز نہیں، وہ قابل احترام بنائی گئی ہے نہ کہ مورد تذلیل واہانت چناں چہ عرب ممالک میں آج بھی اگر عورت سامنے آجائے تو ”حرمة“کہہ کر لوگ توقیر کے ساتھ اسے راستہ دیتے ہیں۔ نیز اگراس کی حرمت وعزت باقی نہ رہے تو گھر والے، بلکہ اولاد تک بھی اس کی عزت نہیں کرسکتے، اس لیے شریعت نے جہاں مرد کو عورت پر حقوق دیے ہیں، اسی طرح عورت کو بھی مرد پر حقوق دیے ہیں، تاکہ وہ معاشرہ میں باعزت رہے چناں چہ قرآنِ حکیم نے ارشاد فرمایا﴿وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ﴾ اور عورتوں کے بھی حقوق (مردپر) اسی طرح ہیں جس طرح (مرد کے حقوق) عورت پر ہیں۔

مثلاً اگر مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے تو عورت کو بھی خلع کا حق سونپا گیا ہے۔ اگر نزاع باہمی ہے تو مرد اور عورت دونوں کو اپنے اپنے افراد کو حکم منتخب کرنے کا برابری کے ساتھ حق دیا گیا ہے ،جو اس کی واضح دلیل ہے کہ عورت کو لاوارث بنا کر مرد کے سپرد نہیں کیا جاتا، بلکہ باعزت او رباحقوق بنا کر دیا ہے، پس اگر بیوی کو اطاعت کا ذمہ دار بنایا گیا ہے تومرد کو دل دار ی کا تو یہ دونوں کے منصب کا تقاضا ہے، کوئی اونچ نیچ پیش نظر نہیں خلاصہ یہ کہ معاشرتی مساوات کے ساتھ شوہر کی شفقت واعانت اور زوجہ کی فرماں برداری ہی سے گھریلو زندگی کی گاڑی رواں دواں ہوسکتی ہے، جس کا اسلام نے راستہ بتلا دیا ہے کہ وہ دین او ردینی جذبات کی پائیداری اور شرعی معاشرت کی پابندی کے سوا دوسرا نہیں ہے، اس لیے شوہر اور زوجہ کے مطالعہ میں ایسی کتابیں رہنی چاہییں جن میں زوجیت کے حقوق اور اسلامی معاشرة رہن سہن اور باہمی تعلقات کے خوش گواری کے طریقے واضح ہوں او ر وہ بکثرت شائع شدہ ہیں، جیسے حضرت تھانوی کی بہشتی زیور یا حقوق الزوجین یا حقوق المعاشرة وغیرہ وغیرہ۔
امید ہے کہ احقر کی شرکت وحاضری نکاح سے یہ پیغام زیادہ نافع ہو گا، شرکت تو وقتی چیز رہتی اور یہ دوامی دستور العمل ہو گا۔

والله الموفق وھو المستعان․