مبارک ہو

idara letterhead universal2c

مبارک ہو

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

”مبارک ہو“ ایک ایسا جملہ ہے جو ہم دن رات بے شمار مواقع پر استعمال کرتے ہیں، شادی بیاہ ہو یا خوشی کی دوسری تقریبات، بچے کی ولادت ہو یا عقیقہ، امتحان میں کام یابی ہو یا ملازمت کا حصول ، کوئی تجارتی فائدہ حاصل ہوا ہو یا کوئی عہدہ ومنصب ، غرض ہر خوشی کے موقع پر یہ جملہ بے ساختہ زبانوں پر آتا ہے اور اسی کے ذریعے دوسرے کی خوشی میں اپنی شرکت کا اظہار کیا جاتا ہے۔

لیکن یہ جملہ اتنی کثرت سے ایک رسمی جملے کے طور استعمال ہونے لگا ہے کہ اب وہ اپنی معنوی اہمیت کھو بیٹھا ہے او راب ہمیں اس کا صرف محل استعمال یا درہ گیا ہے، اس کے ٹھیک ٹھیک معنی یاد نہیں رہے، کم از کم ان کا دھیان نہیں رہا۔

”مبارک ہو“ در حقیقت ایک دعا ہے او راس کا مفہوم یہ ہے کہ خوشی کا جو سبب تمہیں حاصل ہوا ہے، الله اس میں برکت عطا کرے۔

”برکت“ کیا چیز ہے؟ آج مادّی اسباب ووسائل کی اُڈھیر بن میں اس سوال کا جواب اتنا دھندلایا گیا ہے کہ بہت کم لوگ اس سے واقف رہ گئے ہیں، اس لیے کہ اس کی تشریح کے لیے تھوڑی سی تفصیل اور وضاحت درکار ہے۔

اس دنیا میں راحت وآرام کے جتنے مادی وسائل کی تلاش میں ہم دن رات سرگرداں ہیں وہ راحت وآرام کے وسائل واسباب ضروری ہیں، لیکن بذات خود راحت وآرام نہیں ہیں،خواہ وہ روپیہ پیسہ ہو، زمین جائیداد ہو، کوٹھی بنگلے ہوں، نوکر چاکر ہوں، کاریں اور ہوائی جہاز ہوں، بیوی بچے اور عزیز رشتہ دار ہوں، یہ سب چیزیں راحت وآرام یاسکون واطمینان حاصل کرنے کا ذریعہ تو ہیں، لیکن ان میں لازمی طور پر ہمیشہ آرام پہنچانے اور سکون عطا کرنے کی بذات خود طاقت نہیں ہے، لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ جس شخص کو یہ تمام چیزیں میسر ہوں، اسے ہر حال میں ان کا آرام ضرور نصیب ہو، کتنے لوگ ہیں جن کے پاس روپے پیسے کی ریل پیل ہے، جو عالی شان کوٹھیوں میں رہتے اور پر شکوہ کاروں میں سفر کرتے ہیں، لیکن ان تمام اسباب راحت کے باوجود ان کی اندرونی زندگی میں جھانک کر دیکھیے تو انہیں آرام وسکون میسر نہیں، وہ کسی ایسے کرب میں مبتلا ہیں جس نے مال ودولت کے ان مظاہر کو ان کے حق میں بے کار بنا کر رکھ دیا ہے۔

ایک شخص کے دستر خوان پر انواع واقسام کے قیمتی کھانے چنے ہوئے ہیں، تازہ اور لذیذ پھلوں کا انتخاب مہیا ہے، صاف ستھرے برتن سجے ہوئے ہیں، ماحول پر کیف، خوش بو سے معطر ہے، تو لذت کے سارے اسباب بظاہر موجو دہیں، لیکن اگر اس کا معدہ خراب ہو تو لذت کے یہ سارے اسباب مل کر بھی اسے لذت عطا نہیں کرسکتے، اگر معدہ بھی ٹھیک ہے ،لیکن کوئی شدید ذہنی پریشانی لاحق ہے، جس نے بھوک اڑا رکھی ہے تو یہ تمام لذیذ کھانے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں او راسے لذت کی نعمت عطا نہیں کرسکتے۔

ایک شخص کے پاس رہنے کا عالی شان مکان ہے، اس کی خواب گاہ آرام وراحت کے جدید ترین سازوسامان سے آراستہ ہے، انتہائی دل کش مسہری پر نرم وگداز بستر بچھا ہوا ہے، گرمی کو دور کرنے کے لیے کمرے میں ائیر کنڈیشن چل رہا ہے، لیکن جب وہ اس خواب آور ماحول میں پہنچ کر بستر پر لیٹتا ہے تو نیند غائب ہے، ہزاروں جتن کرنے کے بعد بھی وہ سو نہیں سکتا اور ساری رات بستر پر کروٹیں بدل کر گزار دیتا ہے، اس شخص کے پاس آرام و آسائش کے ظاہری اسباب پوری طرح موجود تھے، لیکن اسے آرام نہ مل سکا اور پوری رات آنکھوں میں کاٹنی پڑی۔

دوسری طرف ایک محنت کش مزدوریا کسان ہے، دو چار پانچ گھنٹے کی مشقت اٹھانے کے بعد جب کھانے کے لیے اپنی گٹھڑی کھولتا ہے تو بظاہر اس میں صبح کی پکی ہوئی معمولی ساگ روٹی ہے، لیکن اس کا معدہ صحت مند اور اس کی بھوک بھرپور ہے، اسے یقینا اس بھوک کے عالم میں ساگ روٹی سے وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو بیمار معدے کے دولت مند شخص کو انواع واقسام کے کھانوں میں نصیب نہ ہوسکی، پھر جب رات کے وقت وہ کھلے آسمان کے نیچے اپنی کھردری چار پائی پر پہنچتا ہے تو نیند سے اس کی آنکھیں بوجھل ہیں اور وہ اس ننگی چارپائی پر لیٹتے ہی دنیا ومافیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور آٹھ گھنٹے کی بھرپور نیند لے کر صبح کو چاق وچوبند اٹھتا ہے، اس کے پاس نہ مسہری تھی نہ گداز بستر تھا، نہ ائیر کنڈیشز کمرہ تھا، نہ روم اسپرے کی کی مہک تھی، لیکن اس کھرّی چار پائی پر بھی اسے وہ راحت میسر آگئی جو اس دولت مند کو ایئر کنڈیشز خواب گاہ میں بھی میسر نہیں آتی تھی۔

اس کی دسیوں مثالیں روز مرہ زندگی میں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں، جن میں ایک شخص لذت او ر راحت کے سارے اسباب سے لیس ہونے کے باوجود لذت اور راحت سے محروم ہوتاہے اور دوسرا شخص بہت معمولی سازوسامان رکھنے کے باوجود اس سے کہیں زیادہ ذہنی سکون اوراطمینان سے سرشار۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا میں راحت وآسائش کے جتنے وسائل ہیں ان سے واقعةً لذت اور راحت حاصل ہونا کچھ ایسے عوامل پر موقوف ہے جو انسان کی قدرت او راختیار سے باہر ہیں، انسان روپیہ خرچ کرکے راحت کے اسباب تو خرید سکتا ہے، لیکن وہ عوامل پیسے سے نہیں خریدے جاسکتے، جن کی وجہ سے ان اسباب میں حقیقی راحت وآرام عطا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔

انسان دن رات ایک کرکے دولت کما سکتا ہے، بنگلے بنا سکتا ہے، کاریں خرید سکتا ہے ، ملیں کھڑی کر سکتا ہے، لیکن ان چیزوں سے حقیقی لطف اور واقعی آرام حاصل کرنے کے لیے جو صحت درکار ہے، جن پر سکون گھریلو تعلقات کی ضرورت ہے اور جو ذ ہنی سکون ناگزیر ہے، وہ نہ تو روپے پیسے کے بل پر حاصل کیا جاسکتا ہے، نہ اسے کوئی مشین تیار کرسکتی ہے، وہ کلی طور پر انسان کی حدودِ اختیار سے ماورا ہے، وہ خالصةً الله تعالیٰ کی عطا ہے اور اس عطا میں اس کا کوئی شریک نہیں، وہ اگر چاہے تو پھونس کے جھونپڑے کو جنت بنا دے اور اگرچاہے تو یہ چیزیں سلب کرکے عالی شان محل کو انگاروں کے فرش میں تبدیل کر دے۔

الله تعالیٰ کی یہ عطا جو بلا شرکت غیرے اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، اسی کا نام برکت ہے، ”برکت“ حاصل ہو تو تھوڑی سی چیز بھی کافی ہو جاتی ہے او راس سے مطلوبہ فائدہ حاصل ہو جاتا ہے اور ”برکت“ مفقود ہو تو دولت کے ڈھیر بھی انسان کو فائدہ نہیں پہنچاسکتے، اسی”برکت“ کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر دنیا کے کسی ساز وسامان سے وقتی طور پر کچھ راحت مل بھی رہی ہے تو اس کا نجام بھی بخیر ہو، اگر ایک ڈاکو لاکھوں روپیہ لوٹ کر تین دن تک خوب مزے اڑائے اور چوتھے دن جیل میں پہنچ جائے تو وہ تین دن کے مزے کس کام کے؟ لہٰذا دنیا کا ہر لطف ، لذت اور آرام اس وقت قابل قدر ہے جب اس کا انجام کسی بڑی تکلیف کی صورت میں ظاہر نہ ہو اور ”برکت“ کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے۔

اب ”برکت“ دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہوئی، ایک یہ کہ راحت کا جو ظاہری سبب ہمیں نظر آرہا ہے، وہ واقعتا لذت یا آرام پہنچائے اور کوئی ایسی حالت پیدا نہ ہو، جو اس کا مزہ کراکراکر ڈالے، دوسرے یہ کہ اس کا انجام بھی بخیر ہو۔ اور اس سے حاصل ہونے والی لذت یا آرام کا نتیجہ خراب نہ ہو۔

لہٰذا جب کسی خوشی کا سبب حاصل ہوتاہے او رہم اسے مبارک باد دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ خوشی کے اس سبب میں برکت پیدا کرے، یعنی وہ تمہارے لیے حقیقی خوشی او ر راحت کا باعث بنے اور بالآخر دنیا اور آخرت میں اس کا انجام بھی درست ہو۔

جب کسی کی شادی کے موقع پر ہم اس سے کہتے ہیں کہ ”مبارک ہو“ تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اگرچہ تم نے اپنی سی کوشش کرکے اپنے لیے بہتر رشتہ ڈھونڈا ہے، لیکن اس رشتے کی کام یابی کچھ اَن دیکھے حالات پر موقوف ہے، جو تمہارے اختیار سے باہر ہیں اور صرف ا لله تعالیٰ کے اختیار میں ہیں، ہم اسی سے دعا کرتے ہیں کہ یہ رشتہ دنیا اور آخرت دونوں میں کام یاب ثابت ہو۔

جب کوئی شخص گاڑی خریدتا ہے اور ہم اسے مبارک باد دیتے ہیں تو اس میں یہ اعتراف پنہاں ہے کہ یہ گاڑی اگرچہ بظاہر آرام دہ ہے، لیکن یہ بات غیر اختیاری حالات ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ واقعی آرام پہنچا ئے گی یا روز بروز گیرج میں کھڑی رہ کر ایک نیا دردِ سر پیدا کرے گی، یہ غیر اختیاری حالات چوں کہ الله تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں، اس لیے اسی سے دعا ہے کہ وہ اس گاڑی میں برکت پیدا کرکے، حالات کو ایسا ساز گار بنا دے کہ یہ گاڑی واقعی تمہیں آرام پہنچائے او راس کا انجام بھی بخیر ہو۔

اس تشریح سے یہ بات واضح ہوئی ہو گی کہ مبارک باد کے ہر فقرے میں ہم ہر بار یہ اعتراف کرتے ہیں کہ دنیا کے ہر آرام دہ ساز وسامان اور خوشی کے ہر واقعے میں اصل اہمیت ”برکت“ کو حاصل ہے، وہ ہے تو سب کچھ ہے اور وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں اور ساتھ ہی یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ”برکت“ کا حصول ہمارے اختیار میں نہیں، بلکہ الله تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ لیکن چوں کہ مبارک باد کے فقرے میں ہم صرف ایک رسم پوری کرنے کے لیے بے سوچے سمجھے بولتیرہتے ہیں، اس لیے ان جیتے جاگتے حقائق کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا اور ”مبارک باد“ کا فقرہ درحقیقت ”برکت“ کی جس اہمیت کا اعتراف ہے، اپنی عملی زندگی میں ہم نے ”برکت“ کو اتنا ہی غیراہم قرار دے رکھا ہے، چوں کہ ”برکت“ ایسی چیز نہیں جو گنتی میں آسکے، یا جسے مادّی پیمانوں سے ناپاجاسکے، اس لیے ہماری ساری دوڑ دھوپ راحت ولذت کے اسباب حاصل کرنے پر تو صرف ہو رہی ہے، لیکن ان اسباب میں ”برکت“ پیدا ہونے کی طرف ہمیں مطلق توجہ نہیں، اگر ہوتی تو ہم یہ سوچے بغیر نہ رہتے کہ ”برکت“ خالصةً الله تعالیٰ ہی کی عطا ہے ، تو وہ ایسے ساز وسامان میں کیسے پیدا ہوسکتی ہے جو اس کی نافرمانی کرکے حاصل کیا گیا ہو؟ جس سے اس کے بندوں کے حقوق پامال ہوئے ہوں اور جس کی بنیاد ہی ظلم او رناانصافی پر اٹھی ہو؟

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم مال ودولت اور ساز وسامان کی گنتی بڑھانے میں دن رات منہمک ہیں، لیکن یہ حساب لگانے کی ہمیں فرصت نہیں کہ گنتی کے اس اضافے نے حقیقی راحت میں کتنا اضافہ کیا؟ اگر ایک شخص دوسروں کے حقوق پامال کرکے رشوت کا گناہ عظیم اپنے سر لے کر دس بیس ہزار روپے گھر لے آیا تو وہ اس بات پر مگن ہے کہ میں نے اپنی دولت میں اضافہ کر لیا، لیکن اگرچند ہی دنوں کے عرصے میں حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ اس سے زیادہ روپے کسی ہسپتال کا بل ادا کرنے یا کسی مقدمہ بازی میں خرچ کرنے پڑتے تو یہ حساب کوئی نہیں لگاتاکہ انجام کار مجھے درد سری کے سوا کیا ملا؟ او راگر دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر یہ رقم نہ لاتا تو کچھ بعید نہ تھا کہ میری حلال کمائی کے تھوڑے پیسوں سے ہی مجھے وہ راحت مل جاتی جو اس بڑی رقم سے نہیں مل سکی۔

بعض مرتبہ دلوں میں یہ خیال پیداہوتا ہے کہ ہم تو بہت ظالم اوربد دیانت لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ بڑے مزے کی زندگی گزار رہے ہیں اور ظلم اور بد دیانتی نے ان کی لذت وراحت میں کوئی کمی نہیں کی۔ لیکن اول تو بسا اوقات یہ بات سوچتے وقت ہم ایک بار پھر وہی غلطی کرتے ہیں کہ اسباب راحت ہی کو راحت سمجھ بیٹھتے ہیں، یعنی کسی بد دیانت شخص کا شان دار بنگلہ اور خوب صورت کار اور رہنے بسنے کا قیمتی سامان دیکھ کر یہ فرض کر لیتے ہیں کہ و ہ بڑے مزے میں ہو گا، حالاں کہ لذت وراحت تو در حقیقت ایک اندرونی کیفیت کا نام ہے، جس کا سراغ کوٹھی بنگلے سے نہیں لگایا جاسکتا، جب تک کوئی شخص اس کے سینے میں اتر کر نہ دیکھے اسے ٹھیک ٹھیک پتہ نہیں چل سکتا کہ اس کے دل پر کیا گزر رہی ہے؟ دنیا بھر میں خودکشی کرنے والوں کا اوسط ان گھرانوں میں زیادہ ہے جو کھاتے پیتے کہلاتے ہیں او رجن کے پاس اسباب راحت میں کوئی خاص کمی نہیں ہے، خود میرے ذاتی تجربے میں ایسی اَن گنت مثالیں ہیں کہ محفلوں میں قہقہے لگانے والے دولت مند افراد نے جب تنہائی کے وقت اپنا دل میرے سامنے کھول کر رکھا تو وہ دکھوں سے چور اور زخموں سے چھلنی تھا۔

دوسرے یہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ برکت کے مفہوم میں صرف وقتی راحت ہی داخل نہیں، بلکہ اس راحت کاانجام بخیر ہونا بھی ضرور ی ہے، لہٰذا اگر کسی بد دیانت شخص کو بالفرض وقتی راحت میسر آبھی جائے تو بالآخر اس کا انجام کبھی درست نہیں ہو سکتا، اکثر بد دیانتی کی سزا اس دنیا میں مل جاتی ہے اور اس بری طرح سے ملتی ہے کہ وہ راحت اس کے آگے کالعدم ہو جاتی ہے، بعض اوقات انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ میں اپنے کس فعل کی سزا بھگت رہا ہوں، لیکن در حقیقت اس کی زندگی میں آنے والے مضائب خود اسی کے اعمال کی سزا ہوتے ہیں اور بالآخر آخرت میں تو ظلم وزیادتی کی سزا ملنی ہی ملنی ہے، جس سے کوئی مفر ممکن نہیں، جب تک ظلم وتکبّر کا نشہ چڑھا ہوا ہے، انسان اپنے انجام سے غافل ہے، لیکن جس روز موت دروازے پر دستک دے کر، یہ نشہ اتار دے گی تو آنکھیں بند ہوتے ہی وہ دہکتے ہوئے انگارے نظر آجائیں گے جنہیں دولت کے ڈھیر سمجھ کر، وہ ان کی خاطر حق وانصاف کا خون کرتا رہا، قرآن کریم نے یہی حقیقت ان الفاظ میں یاد دلائی ہے:﴿إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَیٰ ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا﴾․ (سورة النساء، آیت:10)

”جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ نگل رہے ہیں اور یقینا وہ دہکتی آگ میں داخل ہو کر رہیں گے۔“