اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کو مختلف رشتوں کی لڑی میں پرویا ہوا ہے ،ہر رشتہ اپنی خاص نوعیت اورالگ جہت سے انفرادی شان رکھتا ہے، رشتوں کے نگینے میں جڑی ہوئی اس زندگی کا حسن ان تعلقات کو نبھانا ہے، جس سے حیاتِ مستعار گل و گلزار ہوتی ہے اور انسان خود کو معاشرے سے جڑا ہوا ایک کام یاب اور مکمل فرد تصور کرتا ہے ،اگر اس کے بر عکس معمولی باتوں کو بنیاد بنا کر اور غلط فہمیوں کا شکار ہو کررشتوں میں دراڑیں ڈال دی جائیں توزندگی کا مزا پھیکا پڑ جاتا ہے اور اداسیاں اور تنہایاں جنم لیتی ہیں۔یہ ایک المیہ ہے کہ مفاد پرستی اور خود غرضی کے دور میں رشتوں کے تقدس کی پامالی تقریباََہر خاندان کا حصہ بن چکی ہے،بیگانے اپنوں سے عزیزترہیں اور مطلب کے بغیر علیک سلیک کے رسمی تعلق سے زیادہ کسی قریب سے قریب تر رشتے کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔
قرآن و سنت کی ابدی تعلیمات میں صلہ رحمی اور تعلق داری کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے، جس کا اندازہ ان ارشاداتِ ربانیہ اور فرامینِ نبویہ سے ہوتا ہے جو بڑی کثرت سے اس سلسلہ میں وارد ہیں۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالی نے اہل ِایمان کے اوصاف ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:وہ ایسے لوگ ہیں جو ان رشتوں کو جوڑتے ہیں جن کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ (الرعد) حضرت عبد الرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اللہ ہوں ، میں رحمن ہوں،میں نے رحم یعنی رشتے ناطے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام (رحم) کو اپنے نام (رحمن ) سے نکالا ہے ،لہذا جو شخص اس کو جوڑے گا میں بھی اس کو جوڑوں گا اور جو اس کو توڑے گا میں بھی اس کو توڑوں گا۔
صلہ رحمی کرنے سے جہاں اخروی فائدہ ہو گا کہ جنت میں داخلہ نصیب ہو گا وہیں یہ مبارک عمل بہت سے دنیوی فوائد کے حصول کا بھی ذریعہ ہے ،حضرت انس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے: جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی عمر دراز ہو اس کو چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ایک حدیث میں صلہ رحمی کو باران ِ رحمت کے حصول کا ذریعہ بتایا گیا ہے ،چناں چہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کی روایت سے ارشادِ نبوی ہے:بے شک رحمت (کی بارش ) اس قوم پر نازل نہیں ہوتی جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا ہو ۔
صلہ رحمی کے حوالہ سے بہت سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں ،ان کے خیال میں صلہ رحمی کا مفہوم یہ ہے کہ جو رشتہ دار اچھا سلوک کرے صرف اسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور جو برے طریقے سے پیش آئے اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کیا جائے ،یہ بات شریعت کی منشا کے بالکل برعکس ہے،اسلامی تعلیمات یہ بتاتی ہیں کہ برا سلوک کرنے والے سے بھی حسنِ اخلاق سے پیش آیا جائے ،حضرت ابوہریرة نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں :تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ اس سے آسان حساب لے گا اور اسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ !وہ کون سی صفات ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر،جوتجھ پرظلم کرے تو اس کو معاف کر اور جو تجھ سے تعلق توڑے تو اس سے تعلق جوڑ۔
جس طرح صلہ رحمی کرنے پرقرآن و سنت میں دنیوی اور اخروی انعامات کاوعدہ ہے اسی طرح جو شخص اہم دینی ہدایت کو نظر انداز کر دے اوررشتوں کا لحاظ نہ کرے اس کے متعلق شریعت میں سخت وعیدات بھی بیان کی گئی ہیں ،حضرت جبیر بن مطعم آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادبیان کرتے ہیں:قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔قطع رحمی ایسا ناپسندیدہ عمل ہے کہ اس کے مرتکب کو دنیا میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے،حضرت ابوبکرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالی اس کے ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دے اور آخرت میں بھی اس کی سزا دینے کے لیے کھڑا کر لے،ہاں! دو گناہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں ،ایک زنا کرنا اور دوسرا ناطہ توڑنا ہے۔
ایک مسلمان اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کے ناطے ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم رشتوں کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے زندگی گزاریں،خاندانی نظام کو قائم رکھنے اور اس کے اتفاق و اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے اگر جھکنا بھی پڑ جائے اور الزام اپنے سر لینا بھی پڑ جائے تواس سے دریغ نہ کریں ،جو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اپنے حق سے دست بردار ہو جاتا ہے اللہ تعالی کی مدد اس کے شاملِ حال ہو جاتی ہے۔صرف یہی نہیں ہم رشتوں کو تنازعات کی بھینٹ چڑھنے سے بچائیں، بلکہ جن خاندانوں میں قطع تعلقی ہو چکی ہے اور انہوں نے ایک دوسرے پر اپنے دروازے بند کر لیے ہیں ان میں بھی مصالحت کا کردار ادا کر کے اس بکھرے ہوئے خاندانی شیرازے کو یکجا کرنے کی کوشش کریں،روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کروانا بہت ہی مبارک اور خدا تعالی کے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔