اسلام میں صلہ رحمی کی بہت اہمیت ہے، کیوں کہ معاشرے کو امن وسکون کا گہوارہ بنانے میں سب سے بنیادی عمل صلہ رحمی ہے۔ یہ اُخروی نجات کا ضابطہٴ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی دستور العمل بھی ہے۔
اسلام کے اہم مقصد میں سے لوگوں کو آپس میں، باہمی طور پر، جوڑ کر رکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، تاکہ اسلامی معاشرے کی جڑیں مضبوط اور عمارت کو مضبوط بنایا جاسکے، لیکن یہ تبھی ممکن ہو تا ہے جب ہم صلہ رحمی کے اصل مطلب کو سمجھیں او راس کو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کریں۔ صلہ رحمی کا مطلب ہے رشتے داروں کے ساتھ تعلق جوڑنا، یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا، اپنی استطاعت کے بقدر ان کے ساتھ مالی طور پر تعاون کرنا، ان کی خدمت کرنا، ان سے ملاقات کے لیے جانا، ان سے خندہ پیشانی سے ملنا، ان کا احترام کرنا، موقع محل کے مطابق ان کو تحفہ وتحائف دینا۔ الغرض ان سے ہر طریقے سے بہتر تعلقات قائم رکھنا۔ صلہ رحمی اتنی اہم معاشرتی قدر ہے کہ تمام شریعتوں میں اس کا مستقل حکم رہا ہے او رتمام اُمتوں پر یہ واجب رہی ہے، جب اولاد یعقوب علیہ السلام نے توحید کا اقرار کیا تو ان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کے بعد، ان سے عزیزواقارب کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا عہد لیا گیا۔ الله رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں:﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبَیٰ﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:83)
”اور (یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا کہ الله کے سوا( کسی اور کی) عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور قرابت داروں کے ساتھ بھلائی کرنا“۔
﴿وَالَّذِینَ یَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَیَخَافُونَ سُوء َ الْحِسَابِ﴾․ (سورہ رعد، آیت:21)
” اور جو لوگ ان سب (حقوق الله، حقوق الرسول، حقوق العباد اور حقوق قرابت) کو جوڑے رکھتے ہیں، جن کے جوڑے رکھنے کا الله نے حکم فرمایا ہے او راپنے رب کی خشیت میں رہتے ہیں اور برے حساب سے ڈرتے ہیں ( یہی وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا گھر ہے)۔
اسلام میں صلہ رحمی کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنے قول وعمل سے بہترین انداز میں اس کی تعلیم دی۔ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی الله پاک کی خوش نودی کے لیے لوگوں پر خرچ کرتا ہے تو یہ اجر وثواب کی بات ہے، لیکن وہی خرچ اگر اپنے رشتے داروں میں کرتا ہے تو یہ دوہرے اجر کا مستحق ہو گا۔ اسے صدقے کا اجر بھی ملے گا اور صلہ رحمی کا ثواب بھی ملے گا۔ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے صدقہ وخیرات میں رشتے داروں اور قرابت داروں کو ترجیح دینے کا حکم دیا۔ خاص کر خاندان میں سب سے زیادہ حق ماں باپ کا ہے۔
جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ مسلمان ہوئے تو اُن کی والدہ ان سے ناراض ہو گئیں کہ میرا بیٹا مسلمان کیوں ہوا ہے ، اپنے بیٹے سے کہا کہ تم کلمہ چھوڑ دو، ورنہ میں تم سے بولنا چھوڑ دوں گی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی ، وہ ان کی کوئی بات رد نہیں کیا کرتے تھے، لیکن جب انہوں نے یہ سنا تو پریشان ہو گئے او رنبی پاک صلی الله علیہ وسلم سے اس بات کا تذکرہ کیا کہ میری ماں میرے کلمہ پڑھنے کی وجہ سے ناراض ہوگئی ہیں۔ سبحان الله! قربان الله کے نبی پر! انہوں نے پھر بھی اپنی ماں کا احترام کرنے کی تلقین کی۔ جب ماں نے کچھ دن دیکھا کہ بیٹا کلمہ نہیں چھوڑ رہا تو کھلے میدان میں جاکر بیٹھ گئی اور اعلان کر دیا میں تب تک کچھ نہیں کھاؤں گی، نہ پیوں گی جب تک تم کلمہ نہیں چھوڑ دیتے۔ یہ دیکھ کر سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ مزید پریشان ہو گئے، یا الله یہ کیا معاملہ ہو گیا ہے؟؟ اس پر الله رب العزت نے قرآن میں فرمایا کہ والدین کی اطاعت ضروری ہے، لیکن﴿وَإِن جَاہَدَاکَ عَلَیٰ أَن تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا ﴾․(سورہٴ لقمان،آیت:15)
اگر تجھ پر والدین اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے، جس کو تو جانتا بھی نہ ہو تو ان کا کہنا نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ نیکی سے پیش آنا۔ یعنی اگر ماں باپ کفروشرک کا حکم دیں یا شریعت کے خلاف کوئی کام کرنے کا حکم دیں تب ان کی اطاعت لازم نہیں ہے، لیکن اس کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی معاملہ ہو ان کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا، ان کی خدمت واحترام ، حسن سلوک او رتعاون میں کمی نہ آئے، خواہ وہ کافر اور مشرک ہی کیوں نہ ہو۔ اسلام نے اسے مستقل نیکی شمار کیا ہے۔ صلہ رحمی یہ نہیں ہے جو احسان کرے تو بدلے میں اسی کے ساتھ احسان والا معاملہ کیا جائے، بلکہ صلہ رحمی تو یہ ہے جو توڑے اس کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے، اس کے ساتھ بہترین حسن سلوک کے ساتھ تعلق کو جوڑا جائے۔ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے اپنے رشتے داروں کے ساتھ میل جول حقارت کی وجہ سے ترک کیا، تو وہ قیامت کے دن الله کی رحمت سے محروم رہے گا۔ بعض اوقات ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہوتیں، وہ قطع رحمی یعنی رشتے داروں کے ساتھ تعلق توڑنے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ صلہ رحمی اتنا بڑا معاملہ ہے کہ الله نے اپنے نام سے نکالا۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے:عن عبد الرحمن بن عوف قال:سمعت رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- یقول:” قال اللہ تبارک وتعالی: أنا الله، وأنا الرحمن، خلقت الرحم، وشققت لہا من اسمی، من وصلہا وصلتہ، ومن قطعہا بتتہ“․(ابوداؤد، مشکوٰة)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ الله بزرگ وبرتر ارشاد فرماتے ہیں کہ ” میں الله ہوں، میں رحمن ہوں ( یعنی صفت ِ رحمت کے ساتھ متصف ہوں) میں نے رحم یعنی رشتے ناطے کو پیدا کیا ہے او راس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمن سے نکالا ہے، لہٰذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتے داروں کے حقوق پورے کرے گا تو میں بھی اس کو ( اپنی خاص رحمت کے ساتھ ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا، یعنی رشتے داروں کے حقوق ادا نہیں کرے گا، میں بھی اس کو ( اپنی خاص رحمت سے) جدا کروں گا۔ لہٰذا رحمن کی رحمت کا تقاضا ہے کہ صلہ رحمی کی جائے۔ دو چیزیں قیامت کے دن الله سے اپنے بندے کے لیے جھگڑا کریں گی: صلہ رحمی اور قرآن۔ اور بعض جگہوں میں روزہ بھی آیا ہے۔ خاندانی زندگی کے بارے میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی یہی تعلیم تھی کہ رشتوں میں جوڑ پیدا کرو، آپس میں میل جول رکھو، درگزر والا معاملہ کرو، تعاون علی البر پر عمل کرو۔ یہی نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔