قول و قرار میں پختگی اور واقعہ کے مطابق بات کرنے کو صدق اور سچائی کہتے ہیں،سچائی ایسی خوبی ہے جس کی اہمیت و افادیت صرف اسلام ہی نہیں ،تمام آسمانی و غیر آسمانی مذاہب میں میں بھی مسلّم ہے،ادیان ِ عالم میں سے کوئی بھی دین کذب بیانی اور خلاف ِ واقعہ بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔اس کی اہمیت کا انداز ہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود رب العالمین نے اپنی ذات کو وصف ِ صدق کے ساتھ متصف فرمایا ہے،چناں چہ ارشاد ِ باری تعالی ہے: اللہ سے زیادہ سچی بات کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے!(النساء)سچائی کے وصف ِ عظیم ہونے پر یہ بات بھی مہر ِ تصدیق ثبت کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف ِ مبارکہ میں سب سے مشہور وصف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاسچا اور امانتدار ہونا ہے ،مکہ کے لوگ کافر و مشرک جانی دشمن ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کے عالی القابات سے پکارتے تھے ۔سچائی اور راست گوئی خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کا شعار ہے۔قرآن ِ کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جد ِ امجد سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :یقیناََ وہ (حضرت ابراہیم علیہ السلام )سچے نبی تھے۔(سورة مریم)
سچائی کے فضائل
قرآن و سنت میں سچ بولنے پر بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں اور سچ بولنے والے کا بڑا مرتبہ اور مقام بیان کیا گیا ہے،اللہ تعالی نے سچائی اختیار کرنے والوں کودنیا اور آخرت میں انعام یافتہ طبقات میں شمار کیا ہے،دنیا میں ان کے انعام یافتہ ہونے کے متعلق ارشاد ِ خداوندی ہے: وہ لوگ جن پر اللہ نے انعام کیا وہ انبیاء، صدیقین ،شہداء اور صالحین ہیں۔(النساء) اور آخرت میں ان کے بارے میں ارشاد ہے: جس دن سچوں کو ان کی سچائی نفع دے گی،ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ، ان میں ہمیشہ رہیں گے ،اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس (اللہ) سے راضی ہوئے،یہ بڑی کام یابی ہے۔(المائدہ)حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم اپنی جانوں کی طرف سے مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔سب سے پہلی بات یہ فرمائی: جب بولو تو سچ بولو۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آنحضرت سلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:تم سچ کو لازم پکڑو، کیوں کہ سچ نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور بے شک نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔
سچائی کے دنیوی فوائد و ثمرات
سچ بولنے پر جہاں اخروی فائدہ حاصل ہو گا کہ آدمی حصول ِ جنت کا حق دار ٹھہرے گا وہیں دنیا میں بھی اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک اہم فائدہ یہ ہو گا کہ سچ بو لنے سے فلاح و نجات اس کا مقدر ٹھہرے گی اور یہ سچ اس کے لیے مشکلات کے بھنور سے نکلنے میں معاون و مددگار ثابت ہو گا،جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:بے شک سچ نجات دیتا ہے اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ورنہ اگر جھوٹ بولا تو اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے مزید بیسیوں جھوٹ بولنے پڑیں گے اور بالاخرپھر بھی انسان جھوٹاثابت ہو جائے گا، جھوٹا ثابت نہ بھی ہو تو مشکوک ضرور ٹھہرے گااور اگر پہلی ہی بار سچ بول دے گا توعافیت و نجات پا جائے گا۔ سچائی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سچ بولنے والے کے کاروبار میں ترقی ہوتی ہے اور اس پر رزق کے دروازے کھلتے ہیں،معاملات صاف شفاف رکھنے کی وجہ سے گاہکوں کا اعتماد اس پر بحال ہو تا ہے اور وہ اس سے خریداری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جھوٹ کی مذمت
سچ کی ضد جھوٹ ہے ،جھوٹ خلاف ِ واقعہ اور حقیقت کے برعکس بات کرنے کو کہتے ہیں،یہ مرض بھی ہمارے معاشرے میں عام ہے ،بات بات پر جھوٹ بولنا اور معمولی مسئلے پر کذب بیانی کرنا ہمارا شعار بن چکا ہے،سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس کو کوئی بڑا گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا حالاں کہ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور بدترین اخلاقی بیماری ہے، جو کہ سچے موٴمن کی شان کے خلاف ہے،حضرت صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیاموٴمن بزدل ہو سکتا ہے؟ فرمایا:ہاں،پھر پوچھا گیا:کیا موٴمن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ فرمایا:نہیں۔ جھوٹے شخص سے اللہ تعالیٰ شدید نفرت کرتے ہیں ،اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جھوٹے شخص پر لعنت فرمائی ہے اور فرشنے بھی ایسے شخص کو سخت ناپسند کرتے ہیں،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کے منھ کی بدبو سے موٴکل فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے۔ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ بولنے کو منافقین کی علامت قرار دیا ہے، یعنی جو آدمی جھوٹ کواپنا شیوہ بنا لیتا ہے وہ اعتقاداََ اگرچہ مسلمان رہتا ہے، لیکن عملاََ منافقین کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے ۔ ان فرامین ِ الہیہ اور ارشادات ِ نبویہ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جھوٹ کتنا بڑا قابلِ مذمت عمل اور کتنی قبیح حرکت ہے اور اس سے بچنا کس قدر ضروری ہے۔معاشرے میں کذب بیانی اور دروغ گوئی کی بہت سی صورتیں رائج ہیں ،شریعت نے جہاں عمومی انداز میں جھوٹ کی قباحت کو بیان کیا وہیں ہر صورت کی برائی کو انفرادی طور پر بھی ذکر فرمایا، تاکہ ان سے بچنا آسان ہو،ان صورتوں کو ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔
جھوٹی قسم کھانا
قسم کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اپنی بات کے سچ ہونے پر ضامن بنایا جائے،اب اگر کوئی شخص حقیقت میں جھوٹا ہو اور اللہ تعالی کے مبارک نام کا حوالہ دے کراس جھوٹ کو سچ کے دامن میں چھپانا چاہے تو اندازہ کیجیے کہ یہ خدا تعالیٰ جیسی علیم و خبیر ذات کے سامنے کتنی بڑی جسارت ہے ؟!اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ جھوٹی قسم کھانے والے کو دنیا میں سزا ضرور دیتے ہیں،ابن ِ حجر عسقلانی نے شرح بخاری میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ کچھ لوگوں نے بیت اللہ کا غلاف پکڑ کر فریق ِ مخالف کے سامنے جھوٹی قسم کھائی اور بری ہو گئے،تھوڑا آگے جا کر وہ سانس لینے کے لیے ایک چٹان کے نیچے بیٹھے،اچانک وہ چٹان ان پر آگری اور وہ سب وہیں ہلاک ہو گئے۔
جھوٹی گواہی دینا
جھوٹی گواہی دینا بھی جھوٹ کی بدترین قسم ہے،اگر خدانخواستہ کسی کی جھوٹی گواہی کی بنیاد پر قاضی نے غلط فیصلہ کر دیا، جس سے صاحب ِ حق ،حق سے محروم ہو گیا اور غیر مستحق کو حق مل گیا تو اس حق کے چھیننے میں یہ جھوٹی گواہی دینے والا برابر کا شریک سمجھا جائے گا،جیسا کہ حضرت ابن ِ عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مسلمان کا مال ہلاک ہو گیایا کسی کا خون بہہ گیاتو اس نے (اپنے اوپر)جہنم کو واجب کر لیا۔قرآن ِ کریم میں اس بات کی خصوصی تاکید کی گئی ہے کہ حقیت کے بر عکس گواہی نہ دی جائے، چناں چہ ارشاد ِ باری تعالی ہے:اور(حقیقی مومن وہ ہیں ) جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔(الفرقان)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اورجھوٹی گواہی دینا ہے۔
بچے سے جھوٹ بولنا
بچے من کے سچے ہوتے ہیں ،جو بات ان کے دل میں ہوتی ہے وہی ان کی زبان پر بھی ہوتی ہے، جب یہ خود کسی سے جھوٹ نہیں بولتے تو شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی جھوٹ نہ بولا جائے۔حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے بلایا،اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے،میری والدہ نے کہا :آ!میں تجھے دیتی ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :تم نے اسے کیا چیز دینے کا ارادہ کیا ہے؟انہوں نے کہا :میں نے کھجور دینے کا ارادہ کیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اگر تو اسے کھجور نہ دیتی تو تیرے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔
مذاق میں جھوٹ بولنا
جس طرح سنجیدگی میں جھوٹ بولنا حرام ہے اسی طرح مذاق میں بھی جھوٹ بولنا حرام ہے،بلکہ مذاق میں جھوٹ بولنے کا گناہ سنجیدگی کی حالت میں بولے گئے جھوٹ سے زیادہ سنگین ہے ،اس لیے کہ عام حالات میں جھوٹ بولنے پر ایک بار لعنت ہے، لیکن مذاق میں جھوٹ بولنے والے پر یک لخت تین بار بد دعا کی گئی ہے،حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو جھوٹی بات کرے، تاکہ لوگ اس پر ہنسیں ،بربادی ہے اس شخص کے لیے،بربادی ہے اس شخص کے لیے۔ہماری عام معاشرتی زندگی میں جو ایسے لطیفے سنانے کا رواج ہے جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے بچنا ضروری ہے۔
ظاہری حالت کے برعکس خود کو ظاہر کرنا
اگر کسی کے پاس کوئی چیز ذاتی طور پر موجود نہ ہو اور وہ اس کو اپنی ملکیت ظاہر کرے تو یہ بھی جھوٹ ہی کی ایک شاخ ہے،حضرت اسماء بنت ِ ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ!میری ایک سوکن ہے،اگرمیں جھوٹ موٹ(اسے جلانے کے لیے) کہہ دوں کہ شوہر نے مجھے یہ چیز دی ہے اور حقیقت میں نہ دی ہو توکیا یہ گناہ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:اس کی مثال ایسے ہے جیسے جھوٹ کے دو کپڑے پہن لیے ہوں۔
جھوٹ کی جائز صورتیں
شریعت نے بعض صورتوں میں ظاہراََخلاف ِ حقیقت بات کرنے کی اجازت دی ہے،ایسے تین مواقع کا حدیث ِ مبارک میں ذکر آتا ہے،چناں چہ ام حمید رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس شخص نے جھوٹ نہیں بولا جس نے دو آدمیوں کے درمیان صلح کرائی۔یعنی معاملات سنوارنے کے لیے دو ناراض لوگوں کی طرف بھلی بات منسوب کی،دوسری حدیث میں ہے کہ جس نے بیوی کو منانے کے لیے جھوٹ بولا یا جنگ میں دشمن کے حوصلے پسپا کرنے کے لیے جھوٹ بولا۔