رنگ ونسل کے امتیاز کو بالائے طاق رکھ کر اور دین دمذہب کی تفریق سے بالاتر ہو کر دکھی انسانیت کی خدمت او رمجبور ولا چار لوگوں کی مدد کرنا مسلم معاشرے کی خوب صورت روایت او راسلامی تعلیمات کا اہم ترین شعبہ ہے، یہی وہ وصفِ خاص ہے جو مذہب ِ اسلام کو ادیان ِ عالم سے ممتاز کرتا ہے، قرآن وسنت میں اس کی بہت تاکید آئی ہے او راس عمل پر بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن کریم میں بار ی تعالیٰ نے اس امت کو ”خیر ِ امت“ کا خطاب دیا اور اس منفرد اعزاز کی وجہ یہ ارشاد فرمائی کہ ”تم لوگوں کی نفع رسانی کے لیے نکالے گئے ہو ۔“ (آل عمران:110)
ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے: لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔ حضرت ابن ِ عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اورنہ اس کو بے یار ومدد گار چھوڑتا ہے، جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں مشغول ہوتا ہے الله تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جاتے ہیں او رجس شخص نے کسی مسلمان سے کوئی پریشانی دور کی تو الله تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کے غم کو دور کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کے عیب کو چھپایا الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا۔
جو شخص بیواؤں، یتیموں، مسکینوں ، مسافروں او رکسی بھی طرح کے مستحقین کی خدمت میں پیش پیش رہتا ہے اور ان کے کام آکر اسے دلی خوشی اور قلبی اطمینان محسوس ہوتا ہے، ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کا قرب ِ خاص حاصل ہوتا ہے اورالله تعالیٰ اسے اپنا محبوب بنا لیتے ہیں، چنا ں چہ حضرت ِ انس سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مخلوق الله تعالیٰ کا کنبہ ہے، لہٰذا الله کے نزدیک ساری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔ ایک اورحدیث میں ہے کہ الله تعالیٰ اپنے جس بندے سے محبت فرماتے ہیں، اس کے بارے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ہدایت فرماتے ہیں کہ زمین میں اعلان کرو کہ میں اس بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو تو لوگوں کے دلوں میں بھی اس کی محبت گھر کر جاتی ہے۔ یہی وجہ سے کہ آدمیت کی بے لوث خدمت کرنے والا لوگوں کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے، کام یابیاں اس کے قدم چومتی ہیں اور اسے معاشر ے میں باوقار، بلند ہمت اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
کسی شخص کی حاجت وضرورت پوری کرنے کے دو طریقے ہیں، ایک یہ کہ پہلے اپنی ضرورت کو پورا کیا جائے، پھر اگر کچھبچ جائے تو دوسرے کی مدد کر دی جائے، یہ خدمت کا ادنیٰ درجہ ہے اور اس کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کرکے اپنے حاجت مند بھائی کا احساس کیا جائے، اس کو ”ایثار“ کہا جاتا ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ایثار اورقربانی کا پہلو بہت نمایاں تھا، چناں چہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم پر فاقوں کا دور دورہ تھا او رکئی کئی دن کھانے کو نہیں ملتا تھا، ان مشکل حالات میں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم دوسروں کیضروریات کو پورا کرتے تھے، حضرت بلال رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے خزانچی تھے او رنبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آنے والے سائلین کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی اجازت سے عنایت فرماتے تھے، جب دینے کو کچھ نہ ہوتا تو کسی سے قرض پکڑ کر دے دیتے تھے، پھر کہیں سے کچھ مال آتا تو اس سے قرض ادا فرما دیتے تھے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی تئیس سالہ جدوجہد کے نتیجہ میں جو جماعت تیار کی، اس نے ایسا خوب صورت ماحول تشکیل دیا تھا جس میں دوسروں کی ضرورت کو مقدم سمجھا جاتا تھا، ان نفوس قدسیہ کے اس قابل ِ قدرجذبے کی حق تعالیٰ نے اپنی ازلی وابدی اور لاریب وبے عیب کتاب میں یوں تعریف فرمائی:﴿یُؤْثِرُونَ عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ﴾․ (الحشر:9)
ترجمہ:” وہ(دوسروں کو) اپنی جان پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ ان پر فاقہ ہی کیوں نہ ہو۔“
احادیث طیبات میں صحابہ کرام رضی الله عنہ کے ایثار کے بہت سے واقعات موجود ہیں۔ ایک انصاری صحابی کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے پاس کسی نے بکرے کی سری بھیجی، انہیں اس کی ضرورت بھی تھی،لیکن انہوں نے ایک دوسرے شخص کو مستحق خیال کرتے ہوئے ان کی طرف بھیج دی، ان دوسرے صاحب نے تیسرے شخص کو ضرورت مند خیال کرتے ہوئے ان کے یہاں بھیج دی، یوں چلتے چلتے یہ سری ساتویں گھر پہنچ گئی، اس ساتویں شخص نے ایک اور شخص کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے گھر بھیج دی، اتفاق ایسا ہوا کہ یہ وہی شخص تھا جس نے سب سے پہلے سری بھیجی تھی۔ ایک صحابی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک جنگ میں اپنے چچازاد بھائی کا حال معلوم کرنے کے لیے نکلا او رساتھ پانی بھی لے گیا، میں نے دیکھا کہ میرا چچا زاد بھائی شدید زخمی حالت میں پڑا تھا، میں نے جھٹ سے اسے پانی پیش کیا تو اچانک ساتھ پڑے ایک اور زخمی نے پانی مانگ لیا، میرے چچا زاد بھائی نے اشارے سے کہا کہ اس کو دے دو، اس کے پاس پانی لے کر پہنچا تو ایک تیسرا شخص زخموں سے کراہ رہا تھا، اس دوسرے شخص نے اس کو پانی دینے کا اشارہ کیا، میں اس کے پاس پانی لے کر پہنچا تو وہ دم توڑ چکا تھا، دوسرے شخص کے پاس آیا تو وہ بھی الله کو پیارا ہو چکا تھا، آخر میں اپنے چچا زاد بھائی کے قریب پہنچا تو ان کی روح بھی پرواز کرچکی تھی۔
رہتی دنیا تک کوئی ایثار اور قربانی کی ایسی مثالیں پیش نہیں کرسکتا۔ اگر آج ہمیں اپنی معاشرتی زندگی کو خوش گوار بنانا ہے او راپنے مستقبل کو درخشاں کرنا ہے تو ہمیں اپنے تاب ناک ماضی کی تابندہ روایات کو پھر سے زندہ کرنا ہو گا او راپنے اکابر واسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خدمت ِ خلق کا مبارک جذبہ لے کر میدان ِ عمل میں اترنا ہو گا۔