حضرت مقداد بن عمرو رضی الله عنہ

حضرت مقداد بن عمرو رضی الله عنہ

مولانا معین الدین ندوی

مقداد نام، ابو الاسود کنیت، عمر وکندی کے لخت جگر تھے، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: مقداد بن عمرو بن ثعلبہ بن مالک بن ربیعہ بن ثمامہ بن مطرودالنہرانی۔

حضرت مقداد رضی الله عنہ دراصل بہراء کے رہنے والے تھے، چوں کہ ان کے خاندان کے ایک ممبر نے کسی ہمسایہ قبیلہ میں خوں ریزی کی تھی اس لیے انتقام کے خوف سے کندہ چلے آئے تھے، لیکن یہاں بھی یہی مصیبت پیش آئی، بالآخر مکہ آکر آباد ہوئے اور اسود بن عبد یغوث کے خاندان سے حلیفانہ تعلق پیدا کر لیا، جس نے محبت سے ان کو اپنا متنبی کر لیا تھا، چناں چہ عمرو کے بجائے اسود ہی کے انتساب سے مشہور ہوئے۔ ( اسد الغابہ، تذکرہٴ مقداد بن عمرو رضی الله عنہ)

اسلام

وہ مکہ میں ابھی اچھی طرح تو طن گزین بھی نہ ہونے پائے تھے کہ صدائے توحید کانوں میں آئی اور رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی دعوت وتبلیغ نے ان کو اسلام کا شیدائی بنا دیا، یہ وہ پر آشوب زمانہ تھا کہ علانیہ ایک کو ایک کہنا قلمر وشرک میں شدید ترین جرم خیال کیا جاتا تھا، لیکن حضرت مقداد رضی الله عنہ نے اپنی بے بسی وغریب الوطنی کے باوجود اخفائے حق گوارا نہ کیا، چناں چہ وہ ان سات بزرگوں کی صف میں نظر آتے ہیں جنہوں نے ابتدا ہی میں اپنے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ ( اسد الغابہ، تذکرہٴ مقداد بن عمرو رضی الله عنہ)

ہجرت

اس حق پسندی کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ طرح طرح کے مصائب اور گوناگوں مظالم کا نشانہ بنا لیے گئے، یہاں تک کہ پیمانہ صبر وتحمل لبریز ہو گیا اورمکہ چھوڑ کر عازم حبش ہوئے۔ ( طبقات ابن سعد ،قسم اول ،جزء ثالث، ص:114)
کچھ دنوں کے بعد سر زمین حبش سے واپس آئے تو مدینہ کی طرف ہجرت کی تیاریاں ہو رہی تھیں، لیکن وہ ایک عرصہ تک اپنی بعض دشواریوں کے باعث مدینہ جانے سے مجبور رہے، یہاں تک کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے او رکفر واسلام میں فوجی چھیڑ چھاڑ کا آغاز ہوا، تو یہ اور حضرت عتبہ بن غزوان رضی الله عنہ ایک قریشی جاسوسی دستہ فوج کے ہم راہ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، عکرمہ بن ابی جہل اس کا امیر عسکر تھا، راہ میں مجاہدین اسلام کی ایک جماعت سے مڈ بھیڑ ہوئی، حضرت عبیدہ بن الحارث رضی الله عنہ اس کے افسر تھے، یہ دونوں موقع پاکر مسلمانوں سے مل گئے اور مدینہ پہنچ کے حضرت کلثوم بن ہدم رضی الله عنہ کے مہمان ہوئے۔ ( اسد الغابہ، تذکرہ مقداد بن عمرو رضی الله عنہ)

رسول الله صلی الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو بنی عدیلہ کے محلہ میں مستقل سکونت کے لیے زمین مرحمت فرمائی، کیوں کہ حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ کی دعوت پر انہوں نے اسی حصہ میں رہنا پسند کیا تھا۔ ( طبقات ابن سعد، قسم اول، جزء ثالث، ص:114)

غزوات

2ھ سے شرک وتوحید میں باقاعدہ معرکہ آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور مشرکین قریش کا ایک خوف ناک سیلاب میدان ِ بدر کی طرف امنڈ آیا، چوں کہ جان نثارانِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے لیے یہ اوّلین آزمائش تھی، اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پہلے مشورہ طلب کر کے اس قلیل لیکن اولو العزم جماعت کا امتحان لینا چاہا، چناں چہ سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنی صداقت شعاری کا جوہر دکھایا، پھر ان کے بعد حضرت عمررضی الله عنہ نے ایک تقریر میں اپنے خلوص ووفاشعاری کا اظہار کیا، لیکن حضرت مقداد رضی الله عنہ نے جس جوش ودارفتگی کے ساتھ اپنی فدویت وجاں نثاری کا ثبوت دیا، اس نے یکا یک تمام فدائیوں کے جذبہ سرفروشی میں ہیجان پیدا کر دیا، انہوں نے عرض کی ” ہم قوم موسی کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ ” تو اور تیرا خدا جا کر لڑے“ بلکہ ہم آپ کے دائیں، بائیں، آگے او رپیچھے اپنی جاں بازی کے جوہر دکھائیں گے“۔ ( بخاری، کتاب المغازی، باب غزوہ ٴ بدر)
قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اگر آپ ہم کو برک غماد تک لے چلیں گے تو ہم آپ کے ساتھ جاکر لڑیں گے۔ ( سیرت ابن ہشام، جلد اول ، ص:352)

اس سادہ لیکن پر جوش اظہارِ فدویت سے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم اس قدر خوش ہوئے کہ فرط ِ انبساط سے چہرہٴ مبارک چمک اٹھا۔ (بخاری، باب غزوہٴ بدر)

حضرت مقداد رضی الله تیراندازی، نیزہ باری اور شہسواری میں کمال رکھتے تھے، جنگ بدر میں صرف یہی یکہ وتنہا شہسوار تھے، جو اپنے تیزرفتار گھوڑے کو مہمیز کر رہے تھے، محدثین واصحاب ِ سیر کا عام طور پر اتفاق ہے کہ اس جنگ میں ان کے سوا او رکسی کے پاس گھوڑا نہ تھا، غزوہ بدر کے علاوہ احد، خندق او رتمام دوسرے مشہور معرکوں میں پامردی وجاں بازی کے ساتھ شریک کار زار تھے۔ ( مستدرک حاکم :3/348)

فتح مصر

20ھ میں جب مصر پر فوج کشی ہوئی او رحضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہ امیر عسکر نے دربار خلافت سے مزید کمک طلب کی تو حضرت عمر رضی الله عنہ نے دس ہزار سپاہی اور چار افسر جن میں سے ایک حضرت مقداد رضی الله عنہ بھی تھے ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا اور لکھا کہ ان افسروں میں سے ہر ایک دشمن کے ایک ہزار سپاہیوں کے برابر ہے، چناں چہ اس کمک کے پہنچتے ہی جنگ کی حالت بدل گئی او رنہایت قلیل عرصہ میں تمام سر زمین فراعنہ فرزندان ِ توحید کا ورثہ بن گئی۔ (مقریزی:1/65)

وفات

حضرت مقداد رضی الله عنہ عظیم البطن تھے، ایام پیری میں یہ مرض زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوا تو ان کے ایک رومی غلام نے اس پر عمل جراحی کیا، جو غلطی سے ناکام رہا، بالآخر وہ خوف وندامت کے باعث روپوش ہو گیا اور انہوں نے اسی حالت میں مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر مقام جرف میں داعی جنت کو لبیک کہا، یہ 33ھ میں خلیفہ ثالث کا عہد تھا، خود امیر المومنین رضی الله عنہ نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور لاش مدینہ لا کر بقیع کے گورِ غریباں میں دفن کی گئی، انہوں نے کم وبیش ستر برس کی عمر پائی۔ (اصابہ:3/455)

اخلاق

حضرت مقداد رضی الله عنہ گونا گوں محاسن اخلاق کے مظہراتم تھے، انہوں نے غروہٴ بدر کے موقع پر جس فدویت کا اظہار کیا وہ تمام صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے لیے باعث رشک تھا، حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما فرمایا کرتے تھے، ” کاش! میں اس وقت جنگ میں شریک ہونے کے لائق ہوتا او ریہ جملے میری زبان سے ادا ہوتے“۔ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ” میں جنگ بدر میں مقداد بن اسود ( رضی الله عنہ ) کے ساتھ تھا، حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس جنم میں ان کے ساتھ ہونا اس قدر محبوب ہے کہ تمام دنیا اس کے آگے ہیچ ہے۔ “ ( بخاری، کتاب المغازی، غزوہٴ بدر)

سپاہیانہ سادگی، صاف گوئی او رملنساری کے ساتھ زندہ دلی اورحاضر جوابی نے ان کی صحبت کو نہایت دل چسپ بنا دیا تھا، ایک دفعہ وہ کسی صراف کی دکان پر بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے ان کے بلغمی تن وتوش پر طعنہ زن ہو کر کہا”ابو الاسود! خدا نے تم کو جہاد میں شریک ہونے سے معاف کر دیا ہے۔“ برجستہ بولے ” نہیں انفروا اخفافا وثقالا کا حکم اس سے منکر ہے۔“ ( طبقات ابن سعد، قسم اوّل:3/115)

وہ نہایت صاف گو اور سادہ مزاج تھے، ایک دفعہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ نے ان سے کہا کہ تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ سادگی کے ساتھ بولے” تم اپنی لڑکی سے بیاہ دو“۔ حضرت عبدالرحمن رضی الله عنہ اس بے باکی وصاف گوئی پر سخت برہم ہوئے او ربرا بھلا کہنے لگے، حضرت مقداد رضی الله عنہ نے ان کی اس برہمی کی شکایت دربار ِ نبوت میں پیش کی تو ارشاد ہوا، اگر کسی کو انکار ہے تو ہونے دو ،میں تم کو اپنی بنت عم سے بیاہ دوں گا، چناں چہ اس کے بعد ہی حضرت ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رضی الله عنہا ان کے عقد نکاح میں آئیں۔ (اصابہ:3/454)

آغاز اسلام کی عسرت وناداری نے ان کوحد درجہ جفاکش وقانع بنا دیا تھا، فرماتے ہیں کہ جب میں ہجرت کرکے مدینہ آیا، تو یہاں میرے رہنے سہنے او رکھانے پینے کا کوئی سہارا نہ تھا، بھوک سے حالت تباہ تھی، بالآخر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ کو اور میرے دونوں ساتھیوں کو اپنے میزبان کلثوم بن ہدم رضی الله عنہ کے گھر میں جگہ دی، آپ رضی الله عنہ کے پاس اس وقت صرف چار بکریاں تھی، جن کے دودھ پر ہم لوگوں کا گزارا تھا، ایک دفعہ رات کے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور دیرتک تشریف نہ لائے، میں نے خیال کیا کہ آج کسی انصاری نے دعوت دی ہو گی اور آپ آسودہ ہو کر تشریف لائیں گے، اس خیال کے آتے ہی میں نے اٹھ کر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا، لیکن پھر خیال آیا کہ اگر یہ قیاس غلط ثابت ہوا تو بڑی ندامت ہوگی، غرض میں اس شش وپنج میں تھا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے اور دودھ کی طرف بڑھے، دیکھا تو پیالہ خالی تھا، مجھے اس غلطی پر سخت ندامت ہوئی، خصوصاً جب کہ آپ نے کچھ کہنے کے لیے دونوں ہاتھ اٹھائے تو میرے خوف وہراس کی کوئی انتہا نہ تھی اور اندیشہ ہوا کہ عنقریب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی بد دعا سے ہماری دنیا وآخرت تباہ ہو جائے گی، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اللھم اطعم مں اطعمنی، واسق من سقانی“․

”خدایا! جو مجھے کھلائے اس کو کھلا اور جو مجھے سیراب کرے اس کو سیراب کر۔“ اس دعا سے کچھ ہمت بڑھی، اُٹھ کر بکریوں کے پاس گیا کہ شاید کچھ دودھ نکل آئے، لیکن خدا کی قدرت جس تھن پر ہاتھ پڑا وہ دودھ سے لبریزنظر آیا، غرض کافی مقدار میں دودھ خدمت بابرکت میں پیش کیا، آپ نے پوچھا ” کیا تم لوگ پی چکے ہو؟“ عرض کی یا رسول الله ! آپ پہلے نوش فرمالیں تو پھر مفصل واقعہ عرض کروں۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے خوب سیر ہو کر نوش فرمایا تو مجھے اپنی گزشتہ غلطی دندامت پر بے اختیار ہنسی آگئی، آپ نے پوچھا ”اباالاسود! یہ کیا ہے؟“ میں نے تمام واقعہ بیان کیا تو ارشاد ہوا:

”یہ خدا کی رحمت تھی، تم نے اپنے دونوں ساتھیوں کو کیوں بیدار نہ کر دیا کہ وہ بھی اس سے مستفیض ہوتے۔“ ( مسند احمد بن حنبل:6/4)

خوشامدانہ مداحی سے سخت متنفر تھے، ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے دربار میں چند آدمیوں نے ان کے رو برو تعریف وتوصیف شروع کی، حضرت مقداد رضی الله عنہ اس تملق اور چاپلوسی پر اس قدر برہم ہوئے کہ ان کے منھ پر خاک ڈالنے لگے، حضرت عثمان رضی الله عنہ نے فرمایا: ”مقداد! یہ کیا ہے؟“ بولے ” رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا ہے کہ خوشامدیوں کے منھ میں خاک بھردو“۔ (ایضاً،ص:5)

ایک دفعہ ایک تابعی نے ان کے پاس آ کر کہا” مبارک ہیں آپ کی آنکھیں، جنہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی ہے، کاش! میں بھی اس زمانہ میں ہوتا“۔ حضرت مقداد رضی الله عنہ ان پر سخت برہم ہوئے، لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ یہ برہمی کی کیا بات تھی؟ بولے ”حاضر کو غائب کی تمنا عبث ہے، جن لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہے، ان میں بہت سے ایسے ہیں جن کو ایمان نہ لانے کے باعث خدا نے جہنم واصل کر دیا، اس کو کیا معلوم کہ وہ اس وقت کس گروہ میں ہوتا؟ تم لوگوں کو خدا کا شکر کرنا چاہیے کہ بغیر امتحان وآزمائش رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم سے مستفیض ہوئے۔ (ایضاً)

کسی شخص کے متعلق اچھی یا بری رائے قائم کرنے میں نہایت محتاط تھے، فرمایا کرتے تھے کہ میں صرف نتائج پر نظر رکھتا ہوں، خصوصاً جب سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ انسان کا دل نہایت تغیر پذیر ہے۔ (مسند احمد بن حنبل:6/5)

جاگیر وذریعہ معاش

تجارت اصلی ذریعہ معاش تھی، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو خیبر میں جاگیر بھی مرحمت فرمائی تھی، جس کو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے اپنے عہد حکومت میں ان کے ورثاء سے ایک لاکھ درہم میں خرید لیا تھا۔(طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جزء ثالث،ص:115)

حلیہ

حضرت مقداد رضی الله عنہ طویل القامت، عظیم البطن وفربہ اندام تھے، سر کے بال گھنے، ابروپیوستہ اور ڈاڑھی نہایت موزوں وخوب صورت تھی۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل، جزء ثالث،ص:115)

اولاد

حضرت ضباعہ بنت زیبر رضی الله عنہا سے ایک لڑکی کریمہ نام یاد گار چھوڑی۔ (طبقات ابن سعد ،قسم اوّل، جزء ثالث،ص:115)

بہشت کے باسی سے متعلق