حضرت خباب بن ارت رضی الله عنہ

حضرت خباب بن ارت رضی الله عنہ

مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی

نام ونسب
خباب نام، ابوعبدالله کنیت، نسب نامہ یہ ہے، خباب بن ارت بن جندلہ بن سعد بن خزیمہ بن کعب بن سعد بن زید مناة بن تمیم، زمانہ جاہلیت میں غلام بنا کر مکہ میں فروخت کیے گئے۔ (اسد الغابہ:2/106)

اسلام
حضرت خباب رضی الله عنہ ان خوش نصیب بزرگوں میں ہیں جو دعوت ِ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ میں، یعنی زید بن ارقم رضی الله عنہ کے گھر میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے پناہ گزین ہونے سے قبل مشرف باسلام ہوئے۔ (ابن سعد، ج3قسم1ص:116)

ابتلا وآزمائش
ان کے اسلام قبول کرنے کے زمانہ میں اسلام کا اظہار تعزیرات مکہ میں ایسا شدید جرم تھا جس کی سزا میں مال ودولت، ننگ وناموس ہر چیز سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا، لیکن حضرت خباب رضی الله عنہ نے اس کی مطلق پروا نہ کی اور ببانگ دہل اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ (اسد الغابہ :2/116) یہ غلام تھے، ان کا کوئی بھی حامی ومدد گار نہ تھا، اس لیے کفار نے ان کو مشق ستم بنا لیا او ران کو بڑی درد ناک سزائیں دیتے تھے، ننگی پیٹھ دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا کر سینہ پر ایک بھاری پتھر رکھ کر ایک آدمی اوپر سے مسلتا اور وہ اس وقت تک ان انگاروں پر کباب ہوتے رہتے، جب تک خود زخموں کی رطوبت آگ کو نہ بجھاتی۔(ابن سعد،ج3قسم1ص:117) لیکن اس سختی کے باوجود زبان کلمہ حق سے نہ پھرتی، رحمة العالمین صلی الله علیہ وسلم اس کسمپرسی کی حالت میں تالیف قلب فرماتے تھے، لیکن ان کا آقا اتنا سنگ دل تھا کہ وہ ان کے لیے اتنا سہارا بھی نہ برداشت کرسکا اور اس کی سزا میں لوہا آگ میں تپا کر ان کا سرداغا۔(اسد الغابہ:2/106) انہوں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے کہا کہ میرے لیے بارگاہ ایزدی میں دعا فرمائیے کہ وہ مجھ کو اس عذاب سے نجات دے، آپ نے دعا فرمائی کہ ”خدایا! خباب کی مدد کر“۔

جب اس جسمانی سزا سے بھی آتش انتقام سرد نہ پڑی تو مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کی، عاص بن وائل کے ذمہ ان کا قرض تھا، وہ جب تقاضا کرتے تو جواب دیتا کہ جب تک محمد صلی الله علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوگے، اس وقت تک نہیں مل سکتا، یہ جواب دیتے کہ جب تک تم مر کر دوبارہ زندہ نہ ہوگئے، میں محمد صلی الله علیہ وسلم سے الگ نہیں ہوسکتا۔ وہ کہتا اچھا میں مر کر زندہ ہوں گا او رمجھ کو مال اور اولاد ملے گی، اس وقت تمہارا قرض دوں گا، ( اس سے مسلمانوں کے اس عقیدے پر تعریض تھی کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ملے گی ) اس واقعہ پر کلام الله کی یہ آیت نازل ہوئی۔

﴿أَفَرَأَیْْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِآیَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَیَنَّ مَالاً وَوَلَداً، أَاطَّلَعَ الْغَیْْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَہْداً، کَلَّا سَنَکْتُبُ مَا یَقُولُ وَنَمُدُّ لَہُ مِنَ الْعَذَابِ مَدّاً، وَنَرِثُہُ مَا یَقُولُ وَیَأْتِیْنَا فَرْداً﴾ ․(مریم:80-77)
” اے محمد(صلی الله علیہ وسلم) ! کیا تم نے اس شخص کے حال پر نظر کی جس نے ہماری آیات سے کفر کیا او رکہا ( قیامت میں بھی) مجھ کو مال اور اولاد ملے گی، کیا اس کو غیب کی خبر ہوگئی یا اس نے خدائے رحمن سے عہد لیا ہے؟ ہر گز نہیں، یہ جو کچھ کہتا ہے ہم اس کو لکھ لیتے ہیں اور اس کے عذاب میں ڈھیل دیتے چلے جائیں گے اور جو کچھ وہ کہتا ہے اس کے ہم وارث ہوں گے اور یہ تنہا ہمارے سامنے لایا جائے گا۔“(بخاری، کتاب التفسیر ،باب قولہ :﴿ونرثہ مایقول﴾․

ہجرت ومواخات
حضرت خباب رضی الله عنہ مدتوں نہایت صبر واستقلال کے ساتھ یہ تمام مصیبتیں جھیلتے رہے، پھر جب ہجرت کی اجازت ملی تو ہجرت کرکے مدینہ آگئے، ہجرت بھی تکلیف ومصائب کے خوف سے نہ کی تھی، بلکہ خالصتاً لوجہ الله ہجرت کی تھی۔ (مسند ابن حنبل :5/109) مدینہ آنے کے بعد آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان میں اور خراش بن صمہ غلام تمیم کے درمیان مواخات کر ادی۔ (اسد الغابہ:1/107)

غزوات
مدینہ آنے کے بعد شروع سے آخر تک تمام غزوات میں شریک رہے۔ (ابن سعد جز3ق1ص:17)

خلافت فاروقی
حضرت عمر رضی الله عنہ ان کے فضائل کی وجہ سے ان کا بہت احترام کرتے تھے، ایک دن یہ ان سے ملنے گئے تو حضرت عمر رضی الله عنہ نے ان کو اپنے گدھے پر بٹھایا اور لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ان کے علاوہ صرف ایک شخص اور ہے جو اس پر بیٹھنے کا مستحق ہے۔ حضرت خباب رضی الله عنہ نے پوچھا امیر المومنین! وہ کون ہے؟ فرمایا بلال رضی الله عنہ، آپ نے عرض کیا، وہ میرے برابر کیوں کر مستحق ہو سکتے ہیں، مشرکین میں ان کے بہت سے مدد گار تھے، لیکن میرا پوچھنے والا سوائے خدا کے کوئی نہ تھا ۔اس کے بعد اپنا استحقاق بتاتے ہوئے اپنے مصائب کی داستان سنائی۔ (مستدرک حاکم ج:3، تدکرہ خباب بن ارت رضی الله عنہ)

علالت ووفات
37ھ میں کوفہ میں بیمار پڑے، علاج سے افاقہ ہونے کے بجائے مرض اور بڑھ گیا، اس کی طوالت او رتکلیف سے گھبرا کر کہنے لگے کہ اگر خدا نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے موت کی دعا کرنے کی ممانعت نہ کی ہوتی تو میں دعا کرتا۔ جب حالت زیادہ نازک ہوئی اور کفن لایا گیا تو اسے دیکھ کر آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے، فرمانے لگے، آہ! حمزہ(رضی الله عنہ) کو پورا کفن بھی میسر نہ تھا، ایک معمولی چھوٹی سی چادر میں کفنائے گئے کہ اگر پیر ڈھانکا جاتا تو سرکھل جاتا اور سر ڈھانکا جاتا تھا تو پاؤں کھل جاتا تھا، آخر میں سر ڈھانک کر اذخر(ایک قسم کی گھاس) سے پاؤں چھپائے گئے۔

کچھ لوگ عیادت کرنے کو آئے او رکہا ابو عبدالله! تم کو خوش ہونا چاہیے، کل تک اپنے ساتھیوں سے مل جاؤ گے، یہ سن کر رقت طاری ہو گئی، فرمایا کہ میں موت سے نہیں گھبراتا۔ تم لوگوں نے ایسے لوگوں کو یاد دلایا جو اس دنیا سے اجر کے مستحق اٹھے، مجھ کو خوف ہے کہ کہیں ثواب آخرت کے بدلہ میں مجھ کو یہ دنیا نہ ملی ہو۔ (ابن سعد جز3ق1،ص:118)

وصیت اور وفات
کوفہ والے عموماً اپنے مردوں کو شہر کے اندر دفن کرتے تھے، لیکن انہوں نے وصیت کر دی تھی کہ مجھ کو بیرون شہر دفن کرنا، اس وصیت کے مطابق ان کو شہر کے باہر دفن کیا گیا، آپ پہلے صحابی ہیں جن کی قبر سے کوفہ کے باہر ویرانہ کی آبادی ہوئی، وفات کے وقت بہتر سال کی عمر تھی، حضرت علی رضی الله عنہ جنگ صفین سے واپس ہو رہے تھے کہ حضرت خباب رضی الله عنہ کی وفات کی اطلاع ملی، چناں چہ آپ ہی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ (مستدرک حاکم:3/382) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ37ھ میں وفات پائی، ایک روایت یہ بھی ہے کہ 19ھ میں مدینہ میں پیوندخاک ہوئے او رحضرت عمر رضی الله عنہ نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔

ذریعہ معاش
زمانہ جہالت میں اور اس کے بعد عرصہ تک تلواریں بنا کر کسب معاش کرتے رہے، اسلام کا ابتلائی زمانہ بہت عسرت میں بسر ہوا، لیکن کچھ دنوں کے بعد خدا نے فارغ البال کیا او راتنی دولت ملی کہ پھر کسی پیشہ وغیرہ کی احتیاج باقی نہیں رہی، وفات کے وقت چالیس ہزار درہم پس انداز تھے۔ (ابن سعدج3ق1 تذکرہٴ خباب رضی الله عنہ)

فضل وکمال
خباب رضی الله عنہ کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے اقوال واعمال کی بڑی جستجو رہتی تھی اور وہ کبھی کبھی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی لاعلمی میں رات رات بھر آپ کے طریقہ عبادت کو دیکھتے اور صبح کو اس کے متعلق استفسار کرتے، ایک مرتبہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ساری رات نماز پڑھی، یہ پوری رات دیکھتے رہے اور صبح کو آکر پوچھا ، فدیت بابی وامی، یا رسول الله ! رات کو آپ نے ایسی نماز پڑھی کہ اس سے قبل کبھی نہ پڑھی تھی، فرمایا وہ بیم ورجا کی نماز تھی، میں نے بارگاہ ایزدی میں تین چیزوں کی دعا کی تھی، دو مقبول ہوئیں اور ایک نامقبول۔ ایک دعا یہ تھی کہ خدا مسلمانوں کو اس عذاب سے نہ ہلاک کرے جس سے گزشتہ امتیں ہلاک ہوئیں او رمیرے دشمنوں کو مجھ پر غالب نہ کرے، یہ دونوں دعائیں قبول ہو گئیں، لیکن تیسری دعا قبول نہیں ہوئی۔ ( مسند احمد بن حنبل:5/108)

ان کی روایات کی مجموعی تعداد33 ہے، ان میں سے3 متفق علیہ ہیں اور 2 میں امام بخاری او رایک میں مسلم منفرد ہیں(تہذیب الکمال، تذکرہ خباب بن ارت رضی الله عنہ) صحابہ او رتابعین میں جن بزرگوں نے ان سے حدیثیں سنی ہیں، ان کے نام حسب ذیل ہیں۔

آپ کے صاحب زادہ عبدالله اور ابو امامہ باہلی، ابو معمر عبدالله بن شخیر، قیس ابن ابی حازم، مسروق بن اجدع اور علقمہ بن قیس وغیرہ۔ (تہذیب التہذیب:3/133)