حضرت اسامہ بن زیدؓ

حضرت اسامہ بن زیدؓ

مولانا معین الدین ندوی

نام ونسب

اسامہ نام، ابو محمد کنیت، حِبّ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ،یعنی محبوب ِ رسول لقب، والد کا نام زید تھا، اسامہ بن زید بن حارثہ بن شرحبیل بن کعب بن عبدالعزی بن زید امرا القیس بن عامر بن نعمان بن عامر بن عبدود بن عوف بن کنانہ بن بکر بن عوف بن عذرہ بن زیداللات بن رفیدہ بن ثور بن کلب بن وبرہ کلبی۔

پیدائش ،اسلام اورہجرت

7/ بعثت میں مکہ میں پیدا ہوئے، ان کے والد زید رضی الله عنہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے محبوب غلام او رمنھ بولے بیٹے تھے او ران کی ماں برکہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی کھلائی تھیں، اس لیے ان کو ماں اورباپ دونوں کی طرف سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی محبوبیت کا شرف ورثہ میں ملا تھا، انہوں نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کے گہوارہ میں پرورش پائی تھی، اس لیے ان کی زندگی کا کوئی حصہ کفر وشرک کی آلودگیوں سے ملوث نہ ہوا، ہجرت کا شرف آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حاصل کیا۔ (ایضاً،ص:43)

غزوات

ہجرت عظمیٰ کے بعد مغازی اور سرایا کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، لیکن ابتدائی لڑائیوں میں کم سنی کے باعث شریک نہ ہو سکے، سریہ حرقہ سے میدان جنگ میں آنے کی ابتدا معلوم ہوتی ہے۔ (گو اس کی تصریح نہیں ملتی لیکن قیاس یہی چاہتا ہے۔) صحیح بخاری اور حدیث کی دوسری کتابوں میں اس سریہ کا نام سریہ حرقات لکھا ہے۔ اہل سیر کہتے ہیں کہ یہ وہی سریہ ہے جس کے امیر غالب لیثی تھے اور جو7ھ میں واقع ہوا تھا، لیکن حاکم نے اکلیل میں لکھا ہے کہ یہ دوسرا سریہ تھا، جو8 میں ہوا، ان دونوں سریوں کے الگ الگ ہونے کی اس امر سے بھی شہادت ملتی ہے کہ سریہ غالب کے امیر حضرت غالب رضی الله عنہ تھے اور اس سریہ حرقہ میں امارت وقیادت اسامہ کے ہاتھ میں معلوم ہوتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت سے اشارةً ظاہر ہوتا ہے اورحاکم نے اکیل میں اس کی تصریح کی ہے، یہ سریہ 7ھ یا 8ھ کا واقعہ ہے، اس وقت ان کی عمر زیادہ سے زیادہ 14،15 سال کی تھی، مگر ان کی فطری استعداد وصلاحیت نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے اس سریہ کی سرداری کا شرف حاصل کیا، مگر نا آزمودہ کار تھے، اس لیے بعض فاش غلطیاں ہو گئیں، جن کو وہ خود اپنی زبان سے بیان کرتے تھے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو حرقہ کی طرف بھیجا تھا، صبح کو دشمنوں سے مقابلہ ہوا، دشمن ہزیمت کھا کر بھاگ گئے، میں نے او رایک انصاری نے ایک شخص کا تعاقب کیا، جب وہ زد میں آگیا تو لا الہ الا الله پکاراٹھا، اس کے اس اعلان پر انصاری نے ہاتھ روک لیا، مگر میں نے نیزوں سے کام تمام کر دیا، واپسی کے بعد آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو واقعہ معلوم ہوا تو فرمایا کہ اسامہ! تم نے ایک شخص کو کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد بھی قتل کر دیا؟! میں نے عرض کیا، اس نے اپنے بچاؤ کے لیے ایسا کیا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ عذر ناقابل قبول سمجھا او ربار بار اس جملہ کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ مجھ کو اتنی ندامت ہوئی کہ دل میں کہنے لگا، کاش! آج سے پہلے اسلام نہ لایا ہوتا۔ ( بخاری ،ج2، کتاب المغازی، باب بعث النبی صلی الله علیہ وسلم اسامہ بن زیدرضی الله عنہما)

دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ ”اے اسامہ! تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھا؟“ یعنی ظاہری اسلام کے لیے زبان کا اقرار کافی ہے، اس سریہ کے متعلق ایک یمانی کی روایت ہے کہ یہ اسامہ کے میدان ِ جنگ میں قدم رکھنے کا پہلا موقع تھا، اس سے معلوم ہوا کہ اس کے قبل کسی غزوہ میں نہیں شریک ہوئے اور اس سے ان کی جنگ آزمائی کی ابتدا ہوئی۔

فتح مکہ

فتح مکہ اسلام کی فتح وشکست کا آخری معرکہ تھا، اسامہ اس میں شریک تھے اور فتح مکہ کے بعد بیت الله میں اس شان سے داخل ہوئے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے ساتھ سوار تھے اور حضرت بلال وعثمان بن طلحہ جلو میں تھے، خانہ کعبہ کھلنے کے بعد چاروں آدمی ساتھ داخل ہوئے ،ان کے داخلہ کے بعد دروازہ بند کر لیا گیا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان)

امارت سریہ

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ایک سے زائد سریے اسامہ رضی الله عنہ کی سرگردگی میں بھیجے، ان میں سب سے اہم وہ سریہ تھا، جس میں ان کو اجلہ صحابہ پر شرف امارت عطا ہوا، اس کا واقعہ یہ ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے سفیر حضرت حارث بن عمیر ازدی رضی الله عنہ شاہ بصری کے دربار سے سفارت کی خدمت انجام دے کر واپس آرہے تھے کہ مقام موتہ میں شرحبیل بن عمرو غسانی نے ان کو شہید کر دیا،آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس کے انتقام میں حضرت زید کی زیر قیادت ایک سریہ روانہ کیا، لیکن یہ بھی شہید ہوئے او ران کے ساتھ اکابر صحابہ میں حضرت جعفر طیار رضی الله عنہ اور حضرت عبدالله بن رواحہ رضی الله عنہ نے بھی جام شہادت پیا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو ان بزرگوں کی شہادت کا بڑا قلق ہوا، چناں چہ اپنی وفات کے کچھ دنوں پہلے ان شہدا کے انتقام کے لیے ایک اور سریہ روانہ کیا اور چوں کہ حضرت اسامہ رضی الله عنہ کے والد حضرت زید  شہید ہوئے تھے، اس لیے اس سریہ کا امیر حضرت اسامہ رضی الله عنہ کو بنایا، اس میں ان کی دلدہی بھی مدنظر تھی اور والد کی شہادت کی وجہ سے انتقام کا جو جذبہ ان میں ہو سکتا تھا وہ دوسرے میں ممکن نہ تھا۔

چناں چہ صفر11ھ میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے سریہ کی تیاری کا حکم دیا او رحضرت اسامہ رضی الله عنہ کو بلا کر اس کے متعلق ضروری ہدایات فرمائیں، لیکن ابھی یہ سریہ روانہ نہ ہوا تھا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی بیماری کی علامات شروع ہو گئیں، مگر آپ پر حضرت زید او رجعفر رضی الله عنہما کی شہادت کا اتنا اثر تھا کہ اس کی روانگی ملتوی نہ فرمائی اور اسی بیماری کی حالت میں اپنے دست مبارک سے علم مرحمت فرمایا اور سریہ روانہ ہو گیا، پہلی منزل مقام جرف میں کی، اس سریہ میں حضرت عمر، ابوعبیدہ بن جراح، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید اور قتادہ بن نعمان رضی الله عنہم اجمعین جیسے کبار صحابہ سب حضرت اسامہ رضی الله عنہ کی ماتحتی میں تھے، بعض لوگوں کو یہ ناگوار ہوا اور انہوں نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک لڑکے کو مہاجرین اوّلین پر امیر بنایا ہے، آپ کو اس کی خبر ہوئی تو اس سے بہت تکلیف پہنچی او راسی بیماری کی حالت میں، سر میں پٹی باندھے ہوئے، نکلے او رمنبر پر چڑھ کر ایک مختصر تقریر فرمائی کہ ”اسامہ بن زید کو امیر بنانے میں بعض لوگوں نے جو نکتہ چینیاں کی ہیں، اس کی اطلاع مجھ کو ملی،اسامہ کی امارت پر یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، تم لوگ اس سے پہلے اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کر چکے ہو، خدا کی قسم! وہ افسری کا سزا وار تھا اور اس کے بعد اس کا لڑکا افسری کا سزا وار ہے۔“ وہ مجھ کو بہت محبوب تھا اور یہ بھی ہر حسن ظن کے لائق ہے، اس لیے تم لوگ اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آیا کرو کہ وہ تمہارے بہتر لوگوں میں ہے، اس تقریر کے بعد آپ کا شانہ اقدس میں تشریف لے گئے۔

اس سریہ کی پہلی منزل گاہ جرف مدینہ کے قریب ہی تھی، اس لیے جانے والوں کا سلسلہ برابر جاری تھا، لوگ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آتے اور رخصت ہو کر جاتے تھے، اسامہ رضی الله عنہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو بیمار چھوڑ کر گئے تھے، اس لیے وہ بھی دیکھنے آجاتے تھے، اتوار کے دن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا مرض زیادہ بڑھ گیا، اسامہ رضی الله عنہ منزل گاہ سے مزاج پرسی کے لیے آئے، اس وقت آپ پر غفلت طاری تھی، اسامہ رضی الله عنہ نے آکر بوسہ دیا، آپ بالکل خاموش تھے، تاہم حضرت اسامہ رضی الله عنہ کی دعا کے لیے دست مبارک آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اورحضرت اسامہ رضی الله عنہ پر رکھتے تھے، حضرت اسامہ رضی الله عنہ دیکھ کر واپس گئے اور دوسرے دن صبح کو پھر دیکھنے آئے، اس دن افاقہ تھا، آپ نے اسامہ کو روانگی کا حکم دیا، چناں چہ انہوں نے فوج کو کوچ کاحکم دے دیا ،لیکن قبل اس کے کہ حضرت اسامہ رضی الله عنہ جرف سے روانہ ہوں، ان کی ماں ام ایمن رضی الله عنہا کا آدمی ملا،”رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا وقت آخر ہے، فوراً مدینہ چلے آؤ“ چناں چہ حضرت اسامہ،حضرت عمر اورحضرت ابوعبیدہ رضی الله عنہم اسی وقت مدینہ پہنچے، اس وقت آں حضرت صلی الله علیہ وسلم اس دنیائے فانی کو چھوڑ رہے تھے، آپ کی وفات کے بعد پوری فوج جرف سے مدینہ آگئی اور یہ مہم اس وقت ملتوی ہو گئی اور اسامہ بن زید رضی الله عنہا آں حضرت کی تجہیز وتکفین میں مشغول ہو گئے او رجسم مبارک کو قبر انور میں اتارنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔(طبقات ابن سعد، حصہ مغازی،ص:137-136، جسم مطہر کو قبر میں اتارنے کا واقعہ طبقات ج2 ،ق2 ،ص:67 میں ہے، مختصر اً اسی سریہ کا ذکر بخاری کتاب المغازی باب غزوہ زید بن حارثہ، باب بعث النبی صلی الله علیہ وسلم اسامہ بن زید میں بھی ہے۔)

چوں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم آخر وقت تک برابر اسامہ رضی الله عنہ کو روانگی کی تاکید فرماتے رہے تھے، اس لیے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے مسند خلافت پر قدم رکھتے ہی حضرت اسامہ رضی الله عنہ کو روانگی کا حکم دیا اوربریدہ بن حصیب رضی الله عنہ علم کو لے کر جرف پہنچ گئے، لیکن اسی درمیان میں ارتداد کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا، لوگوں نے حضرت ابوبکر رضی الله عنہ سے کہا کہ فی الحال اس مہم کو روک دیجیے۔ خود حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے عرض کیا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے مجھ کو سکون کی حالت میں بھیجا تھا، مگر اب حالات دوسرے ہیں، اس لیے فی الحال یہ مہم ملتوی کر دیجیے، لیکن آپ نے جواب دیا کہ خواہ مجھ کو پرندے نوچ کھائیں، لیکن میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حکم کو پورا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ( تاریخ الخلفاء سیوطی،ص:71) بہرحال آپ اس مہم کو روکنے پر آمادہ نہ ہوئے اور فوج کی روانگی کا حکم دیا۔

پہلی مرتبہ گو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی فہمائش سے لوگوں نے حضرت اسامہ رضی الله عنہ کی امارت منظور کر لی تھی، لیکن دوبارہ جب حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے حضرت اسامہ رضی الله عنہ کو روانگی کا حکم دیا تو انصار کی جماعت نے آپ کے پاس حضرت عمر رضی الله عنہ کو بھیجا کہ اسامہ رضی الله عنہ کے بجائے کسی مسن اور معمر شخص کو امارت کا عہدہ دیا جائے، یہ پیام سن کر آپ بہت برہم ہوئے اور فرمایا، ابن خطاب! جس شخص کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے امیر بنایا ہے، تم مجھ سے اس کے معزول کرنے کی خواہش کرتے ہو؟! او ربلا کسی قسم کی تبدیلی کے بعینہ وہی فوج روانہ کی او رتھوڑی دور خود پیادہ پار خصت کرنے کے لیے گئے، حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے عرض کیا اے خلیفہ رسول! آپ سوار ہو کر چلیں، ورنہ ہم لوگ سواریوں سے اتر پڑیں گے، فرمایا نہ مجھ کو سوار ہونے کی ضرورت ہے، نہ تم کو اترنے کی، میرے پیروں کو خدا کی راہ میں غبار آلود ہونے دو۔(تاریخ الخلفاء،ص:71) غرض حضرت ابوبکر رضی الله عنہ نے اس شان سے جیش اسامہ کو رخصت کیا، اور حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے منزل مقصود پر پہنچ کر دشمنوں سے نہایت کام یاب مقابلہ کیا اور اپنے والد بزرگوار کے قاتل کو واصل جہنم کیا او رحضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی خدمت میں فتح کا مژدہ بھیجا، آپ اس فتح سے اس قدر مسرور ہوئے کہ حضرت اسامہ رضی الله عنہ کی واپسی پر مہاجرین وانصار کو لے کر مدینہ سے باہرسے باہر ان کے استقبال کو نکلے،حضرت اسامہ رضی الله عنہ نہایت شان دار طریقہ سے مدینہ میں داخل ہوئے۔ آگے آگے بریدہ بن حصیب پرچم لہرا رہے تھے او راس کے پیچھے حضرت اسامہ رضی الله عنہ اپنے والد کے سبحہ نامی گھوڑے پر سوار تھے، مدینہ آتے ہی انہوں نے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھی او رنماز پڑھ کر گھر گئے۔ (ابن سعد، حصہ مغازی، ص:137)

عہد فاروقی

حضرت اسامہ رضی الله عنہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو محبوب تھے، اس لیے آپ کے جانشین بھی ان کا بہت لحاظ رکھتے تھے، حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنی زمانہ خلافت میں ہمیشہ ان کا خیال رکھا، چناں چہ جب آپ نے تمام صحابہ رضی الله عنہم کے وظائف مقرر کیے تو اپنے صاحب زادہ عبدالله رضی الله عنہ کا ڈھائی ہزار او راسامہ رضی الله عنہ کا تین ہزار مقرر کیا، عبدالله رضی الله عنہ نے عرض کی اس تفریق کا کیا سبب ہے جب کہ میں تمام غزوات میں اسامہ رضی الله عنہ کے دوش وبدوش رہا اور آپ ان کے والد زید رضی الله عنہ سے کبھی پیچھے نہ رہے؟ فرمایا یہ سچ ہے، لیکن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ان کو تم سے او ران کے والد کو تمہارے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ (مستدرک حاکم :3/559)

عہد عثمانی

حضرت عثمان رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں فتنہ وفساد کے خیال سے ملکی معاملات میں علانیہ کوئی حصہ نہیں لیا، لیکن ایک خیر خواہ مسلمان کی حیثیت سے قیام نظم او رانسداد مفاسد پر حضرت عثمان رضی الله عنہ سے خفیہ طور پر گفت گو کرتے تھے، لوگوں نے خواہش ظاہر کی کہ آپ حضرت عثمان رضی الله عنہ سے فتنوں کے فرو کرنے کے متعلق گفت گو کیجیے، جواب دیا، تم لوگ علانیہ مجھ کو درمیان میں ڈالنا چاہتے ہو اور میں ان سے خفیہ گفت گو کرتا ہوں کہ مبادا میری گفت گو سے نیا فتنہ نہ اٹھ کھڑا ہواور اس کی ساری ذمہ داری مجھ پر عائد ہو جائے۔ (بخاری :1/462)

عہد معاویہ وعلی رضی الله عنہما

حضرت عثمان رضی الله عنہ کی شہادت کے بعد جب زیادہ شورش بڑھی تو اسامہ بالکل علیحدہ ہو گئے۔ ( اصابہ:1/29) حضرت علی او رامیر معاویہ رضی الله عنہما کی معرکہ آرائیوں میں بالکل کنارہ کش رہے اور حضرت علی رضی الله عنہ کے پاس کہلا بھیجا کہ اگر آپ شیر کی داڑھ میں گھستے تو میں بھی بخوشی گھس جاتا، لیکن اس معاملہ میں حصہ لینا پسند نہیں کرتا۔ (بخاری:2/1053) گو وہ مسلمانوں کی خوں ریزی کے خوف سے ان لڑائیوں میں غیرجانب دار تھے، تاہم حضرت علی رضی الله عنہ کو حق پر جانتے تھے اور آخر دم تک اس غیر جانب داری پرکف افسوس ملتے تھے، ابراہیم کی روایت ہے کہ حضرت اسامہ رضی الله عنہ حضرت علی رضی الله عنہ کی امداد نہ کرنے پر اس درجہ نادم رہے کہ آخر میں توبہ کی۔ (استیعاب:1/29)

وفات

امیرمعاویہ رضی الله عنہ کے آخر زمانہ امارت54ھ میں مدینہ میں وفات پائی۔ (ایضاً(اس وقت ساٹھ سال کی عمر تھی۔

اہل وعیال

حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے متعدد شادیاں کیں اور کثرت سے اولادیں ہوئیں، پہلی شادی14 سال کی عمر میں خود آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے زینب بنت حنظلہ کے ساتھ کر دی تھی، مگر اسامہ نے ان کو طلاق دے دی، دوسری شادی نعیم بن عبدالله النحام نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ایما سے اپنے یہاں کر دی، ان کے بطن سے ابراہیم بن اسامہ تھے، اس کے علاوہ خودحضرت اسامہ رضی الله عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں، ان سے حسب ذیل اولادیں ہوئیں:

نام بیوی نام اولاد
ہند بنت فاکہہ ……
درہ بنت عدی محمد، ہندہ
فاطمہ بنت قیس جبیر، زید، عائشہ
ام حکم بنت عتبہ ……
بنت ابی ہمدان سہمی ……
برزہ بنت ربعی حسن، حسین

ذریعہ معاش

دربارِ خلافت سے 3 ہزار وظیفہ ملتا تھا، اس کے علاوہ وادی القری میں کچھ جائیداد تھی، جس کے انتظام کے لیے اکثر جایا کرتے تھے۔ (ابن سعد، جز4، قسم اوّل،ص:50)

فضائل اخلاق

بہت سے فضائل بیشتر صحابہ رضی الله عنہم میں مشترک ہیں، لیکن اکابر صحابہ رضی الله عنہم میں منفرد طور پر بعض مخصوص فضائل ایسے ہیں جو ان کی خصوصیات شمار کیے جاتے ہیں، مثلاً ابن عمر رضی الله عنہما اور ابو ذر غفاری رضی الله عنہ کی اکثر صفات میں اشتراک ہے، لیکن عبدالله بن عمر رضی الله عنہما کا علم وفضل اور ابو ذر غفاری رضی الله عنہ کا زہد وتقویٰ ایک کو دوسرے سے ممتاز کرتا تھا اور یہی صفات ان کی زندگی کے روشن ابواب کہے جاسکتے ہیں، اسی طرح اسامہ بن زید رضی الله عنہما کی بارگاہ نبوت میں پذیرائی او ران کی محبوبیت ان کا مخصوص طغرائے امتیاز تھا، جو بلا استثنا کسی صحابی کو حاصل نہ تھا۔

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے بارہا اپنی زبان مبارک سے اس کا اظہار فرمایا ہے اور حضرت اسامہ رضی الله عنہ کے ساتھ آپ کا طرز عمل بھی اس کا شاہد ہے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو اپنے متعلقین میں حضرت حسنین رضی الله عنہما سے زیادہ کسی سے محبت نہ تھی، لیکن اسامہ بن زید رضی الله عنہما وہ شخص ہیں جو اس محبت میں بھی شریک وسہیم تھے، آں حضرت صلی الله علیہ و سلم ایک زانو پر اسامہ رضی الله عنہ کو بٹھاتے او رایک پر حسن رضی الله عنہ کو اور دونوں کو ملا کر فرماتے کہ خدایا !میں ان دونوں پر رحم کرتا ہوں اس لیے تو بھی ان دونوں پر رحم فرما۔(مسند احمد بن حنبل:5/205) دوسری روایت میں ہے کہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں اس لیے تو بھی محبت فرما۔ ( بخاری، جلد1 کتاب المناقب، اسامہ بن زید رضی الله عنہما) حضرت ابن عباس رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسامہ رضی الله عنہ مجھ کو سب لوگوں میں محبوب تر ہے۔ (مستدرک:3/596)

ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ اس کا باپ مجھ کو سب سے زیادہ محبوب تھا، اب یہ سب سے عزیز ہے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب بعث اسامہ رضی الله عنہ)

ایک مرتبہ اسامہ رضی الله عنہ چوکھٹ پر گر پڑے اور پیشانی پر زخم آگیا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی الله عنہما سے فرمایا کہ اس کا خون صاف کردو، آپ کو کراہت معلوم ہوئی تو خود اٹھ کر صاف کرکے لعاب دہن لگایا۔(ابن سعد، جز4 ،ق1،ص:43)

کبھی کبھی وفور محبت میں مزاح بھی فرماتے تھے، ایک مرتبہ اسامہ رضی الله عنہ کا شانہ نبوی صلی الله علیہ وسلم میں بیٹھے تھے، حضرت عائشہ رضی الله عنہا بھی تشریف فرما تھیں، آپ اسامہ رضی الله عنہ کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ اگر یہ بیٹی ہوتے تو میں ان کو خوب زیور پہناتا او ربناؤ سنگار کرتا، تاکہ ان کا چرچا ہوتا او رہر جگہ سے پیام آتے۔ (ابن سعد، جز4،ق1،ص:43)

بارگاہِ نبوت میں اسامہ رضی الله عنہ کے رسوخ کا اس سے اندازہ ہو گا کہ جب کوئی ایسی سفارش آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے کرنی ہوتی، جس میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہما جھجکتیں تو وہ اسامہ رضی الله عنہ کے سپرد کی جاتی، حضرت عائشہ رضی الله عنہم فرماتی ہیں کہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، لوگوں نے کہا اس کے بارے میں کون شخص آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے سفارش پر آمادہ ہوتا ہے؟ اسامہ کے علاوہ کسی کی ہمت نہ پڑی، انہوں نے جا کر آپ سے گفت گو کی، لیکن حدود الله کا معاملہ تھا، اس لیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے نہ سنی، بلکہ آپ کو ناگوار ہوا اور فرمایا اگر بنی اسرائیل میں کوئی شریف آدمی چوری کرتا تھا، تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اورایک معمولی آدمی اس کا مرتکب ہوتا تھا تو اس کے ہاتھ کاٹتے تھے، خدا کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ (رضی الله عنہا) بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا۔ (بخاری ،ج1، کتاب المناقب، ذکر اسامہ رضی الله عنہ وطبقات ابن سعد)

اسامہ رضی الله عنہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے محرم راز اورمعتمد علیہ تھے او ران کی حیثیت اہل بیت میں ممبر خاندان کی تھی، آپ اہم سے اہم او رنازک سے نازک خانگی امور تک میں بھی ان سے مشورہ لیتے تھے، افک جیسے نازک او راہم معاملہ میں ،جس میں منافقین نے ناموس نبوت پر حرف لانا چاہا تھا اور جس کی صفائی خود زبان وحی والہام نے دی، اسامہ رضی الله عنہ بھی حضرت علی رضی الله عنہ کے ساتھ شریک مشورہ تھے، چناں چہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جب افک والوں نے اتہام لگایا تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے علی او راسامہ بن زید رضی الله عنہما سے اپنی اہل خانہ کی علیحدگی کے بارہ میں مشورہ کیا اور ان سے حالات دریافت کیے۔(بخاری، جلد1 ،کتاب الشہادات، وج2 ، کتاب الاعتصام، باب قولہ تعالیٰ :﴿وامرھم شوری بینھم﴾)

چوں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم حضرت اسامہ رضی الله عنہ کو محبوب رکھتے تھے، اس لیے صحابہ کرام رضی الله عنہم بھی ان کو بہت مانتے تھے، حضرت عمر رضی الله عنہ کا واقعہ اوپر گزر چکا ہے، صحابہ کرام رضی الله عنہم نہ صرف حضرت اسامہ رضی الله عنہ بلکہ ان کی اولاد تک کا احترام کرتے تھے، ایک دن ابن عمر رضی الله عنہما نے ایک شخص کو مسجد کے گوشہ میں دیکھا، لوگوں سے کہا، دیکھو کون شخص ہے؟ کسی نے کہا ابو عبدالرحمن !تم اس کو نہیں پہچانتے؟ یہ اسامہ رضی الله عنہ کے بیٹے محمد ہیں، آپ نے یہ سن کر سر جھکا لیا اور زمین کرید کر کہنے لگے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ان کو دیکھتے تو محبوب رکھتے۔ (بخاری ،ج1، کتاب المناقب ،ذکر اسامہ رضی الله عنہ)

اس غیر معمولی محبت کی وجہ سے قدرة ًکچھ منافق حضرت اسامہ رضی الله عنہ کے حاسد بھی پیدا ہو گئے تھے، یہ لوگ حضرت اسامہ رضی الله عنہ کو ذلیل اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو کبیدہ خاطر کرنے کے لیے کہتے کہ اسامہ زید رضی الله عنہ کے نطفہ سے نہیں ہیں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو اس سے تکلیف پہنچتی، لیکن ان کے خاموش کرنے کا کوئی طریقہ نہ تھا، عربوں میں قیافہ شناسی کا ملکہ بہت تھا، قائف کی بات عام طور پر ہم پایہ وحی سمجھی جاتی تھی، اتفاق سے ایک دن مجززمدلجی ، جن کو قیافہ شناسی میں خاص مہارت تھی، آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت زید اوراسامہ رضی الله عنہما دونوں سر سے پیر تک ایک چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے، صرف پاؤں کھلے ہوئے تھے، انہوں نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ قدم ایک دوسرے سے پیدا ہیں، یہ سن کر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو بہت مسرت ہوئی، آپ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ہنستے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا تم کو کچھ معلوم ہے، مجزز نے ابھی اسامہ رضی الله عنہ کے پاؤں دیکھ کر کہاکہ یہ قدم ایک دوسرے سے پیدا ہیں، اس واقعہ میں یہ بات لحاظ رکھنے کے قابل ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو قائف کے کہنے پر محض اس وجہ سے مسرت ہوئی کہ اس سے دشمنوں کی زبان بند ہو گئی ،ورنہ شان نبوت اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کاہنوں، منجموں اور قائفوں کی بات کا یقین کرے۔

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس جو چیز اچھی اور بیش قیمت ہوتی اس کوحضرت اسامہ رضی الله عنہ کو دیتے، ذی یزن نے حالت شرک میں حکیم بن حزام رضی الله عنہ کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں ہدیةً ایک بیش قیمت حلہ پیش کیا، آپ نے فرمایا میں مشرک کا ہدیہ نہیں قبول کرتا، لیکن اب چوں کہ تم لاچکے ہو اس لیے قیمتاً لے لوں گا، چناں چہ پچاس دینار میں خرید لیا او رایک مرتبہ پہن کر اسامہ کو دے دیا۔ (ابن سعد، جز4 ،قسم اوّل، ص:45)
دحیہ کلبی رضی الله عنہ نے کتان کا کپڑا آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو ہدیہ دیا تھا، آپ نے اسامہ رضی الله عنہ کو پہنا دیا، انہوں نے اپنی بیوی کو دے دیا، ایک دن آپ نے پوچھا، کتان کیوں نہیں پہنتے؟ عرض کیا یا رسول الله! بیوی کو دے دیا، فرمایا اچھا، اس سے کہہ دو کہ نیچے سینہ بند پہن لے، ورنہ بدن دکھائے دے گا۔ (ابن سعد، جز4، ق1،ص:45)غرض آپ اپنے اہل وعیال اور حضرت اسامہ رضی الله عنہ میں کوئی تفریق نہیں کرتے تھے۔ (ابن سعد، جز4،ق:1،ص:45)

فضل وکمال

اس لحاظ سے کہ حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے دامن تربیت میں پرورش پائی تھی ، آپ کو سراپا علم ہونا چاہیے تھا، لیکن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی عمر صرف اٹھارہ سال یا زیادہ سے زیادہ بیس سال کی تھی، اس لیے سن شعور کو پہنچنے کے بعد صحبت نبوی صلی الله علیہ وسلم سے فیض یاب ہونے کا زیادہ موقع نہ ملا، تاہم اس مدت میں جو کچھ بھی آپ نے حاصل کرلیا، اس کو کم نہیں کہا جاسکتا، اقوال نبی صلی الله علیہ وسلم کا کافی ذخیرہ ان کے سینہ میں محفوظ تھا، بعض مرتبہ کبار صحابہ رضی الله عنہم کو جس چیز کا علم نہ ہوتا، اس میں وہ ان کی طرف رجوع کرتے، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کو جب طاعون کے متعلق کوئی حکم نہ ملا تو آپ نے حضرت اسامہ رضی الله عنہ سے دریافت کیا کہ تم نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے طاعون کے بارہ میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ طاعون ایک قسم کا عذاب ہے، جو بنی اسرائیل کے ایک خاص طبقہ پر بھیجا گیا تھا، اس لیے جب تم سنو کہ فلاں جگہ طاعون پھیلا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور خود تمہارے یہاں یہ وبا پھیلے وہاں سے بھاگنے کی نیت سے نہ نکلو۔ (بخاری:1/494)

آپ کے عمل سے دوسرے لوگ سند لاتے تھے، حضرت میمونہ رضی الله عنہا نے اپنے ایک عزیز کا ازار بہت نیچا دیکھا تو اس کو ملامت کی، انہوں نے کہا میں نے اسامہ بن زید رضی الله عنہما کو نیچا ازار پہنے دیکھا ہے، میمونہ رضی الله عنہا نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو، یہ ممکن ہے کہ ان کا پیٹ بھاری تھا، اس لیے اس پر نہ ٹھہرتا رہا ہو اور نیچے کھسک جاتا ہو۔ (ابن سعد جزو 4 ق1ص:49)

آپ کی ذات سے حدیث کا معتدبہ حصہ اشاعت پذیر ہوا، ان کی مرویات کی تعداد128 ہے، جن میں سے 15 متفق علیہ ہیں، ان کے علاوہ مزید دو دو بخاری اور مسلم میں ہیں۔ ( تہذیب الکمال:2/26) حسن، محمد ابن عباس، ابوہریرہ، کریب، ابو عثمان نہدی، عمروبن عثمان بن عفان، ابووائل، عامر بن سعد، حسن بصری، وغیرہم نے آپ سے روایتیں کی ہیں۔

اخلاق وعادات

چوں کہ اسامہ رضی الله عنہ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے دامن تربیت میں پرورش پائی تھی اس لیے ان پر قدرة تعلیمات نبوی کا خاصا اثر پڑا تھا۔(تہذیب الکمال:2/26)

خدمت رسول صلی الله علیہ وسلم

کاشانہ نبوی میں کثرت سے آتے جاتے تھے اوراکثر سفر میں بھی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا تھا، اس لیے خدمت نبی صلی الله علیہ وسلم کا زیادہ موقع ملتا تھا، اکثر وضو وغیرہ کے وقت پانی ڈالنے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:1/208)

پابندی سنت

سنت کی پابندی شدت سے کرتے تھے، آخر عمر میں جب کہ قوی ریاضت جسمانی کے متحمل نہ تھے، اس وقت بھی مسنون روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے، ایک مرتبہ ایک غلام نے کہا اب آپ کی عمر ضعف وناتوانی کی ہے، آپ کیوں دو شنبہ اور پنجشنبہ کے روزے کا التزام کرتے ہیں؟ کہا آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ان دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔

اطاعت والدین

والدین کی خوش نودی کا بہت زیادہ لحاظ رکھتے تھے او را س میں بڑی مالی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے، محمد بن سیرین روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں کھجور کے درختوں کی قیمت ایک ہزار تک پہنچ گئی تھی، اس زمانہ میں حضرت اسامہ رضی الله عنہ نے ایک درخت کی پیڑی کھوکھلی کرکے اس کا مغز نکالا، لوگوں نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟ آج کل درختوں کی قیمت اس قدر بڑھی ہوئی ہے او رتم اس کو ضائع کرتے ہو؟ کہا میری ماں نے فرمائش کی تھی اور وہ جس چیز کی فرمائش کرتی ہے، اگر اس کا حصول میرے امکان میں ہوتا ہے تو اس کو میں ضرور پوری کرتا ہوں۔ (ابن سعد، جزو4 ،ق1،ص:49)

بہشت کے باسی سے متعلق