حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ

حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ

مولانا شاہ معین الدین ندوی

نام، نسب، خاندان
سعید نام، ابو الاعور کنیت، والد کا نام زید اور والدہ کا نام فاطمہ بنت بعجہ تھا، سلسلہ نسب یہ ہے ، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبدالله بن قرظ بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی القرشی العدوی۔

حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ کا سلسلہ نسب کعب بن لوی پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے اورنفیل پر حضرت عمر رضی الله عنہ سے مل جاتا ہے، حضرت سعید رضی الله عنہ کے والد زید اُن سعادت مند بزرگوں میں تھے جن کی آنکھوں نے اسلام سے پہلے ہی کفر وشرک کے ظلمت کدہ میں توحید کا جلوہ دیکھا تھا او رہر قسم کے فسق وفجور یہاں تک کہ مشرکین کے ذبیحہ سے بھی محترز رہے تھے، چناں چہ ایک دفعہ ان سے اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے قبل بعثت وادیٴ بلدح ( تنعیم کی راہ میں ایک مقام کا نام تھا۔ فتح الباری :7/180) میں ملاقات ہوئی، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے انکار فرمایا، پھر انہوں نے بھی انکار کیا اورکہا: ”میں تمہارے بتوں کا چڑھایا ہوا ذبیحہ نہیں کھاتا“۔ (بخار ی، باب حدیث زید)

زید کا دل کفر وشرک سے متنفر ہوا تو جستجو ئے حق میں دور دراز ممالک کی خاک چھانی اور شام پہنچ کر ایک یہودی عالم سے مقصود کی رہبری چاہی، اس نے کہا اگر خدا کے غضب میں حصہ لینا ہے تو ہمارا مذہب حاضر ہے، زید نے کہا: ” میں اسی سے بھاگا ہوں، پھر اس میں گرفتار نہیں ہو سکتا، البتہ کوئی دوسرا مذہب بتا سکتے ہو تو بتاؤ، اس نے دین حنیف کا پتہ دیا، انہوں نے پوچھا:”دین حنیف کیا ہے؟“ بولا:”دین حنیف حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مذہب ہے، جو نہ یہودی تھے نہ عیسائی، بلکہ صرف خدائے واحد کی پرستش کرتے تھے۔“ یہاں سے بڑھے تو ایک عیسائی عالم سے چارہ خواہ ہوئے، اس نے کہا:”اگر خدا کی لعنت کا طوق چاہتے ہو تو ہمارا مذہب موجودہے۔“ زید نے کہا:” خدا را کوئی ایسا مذہب بتاؤ جس میں نہ خدا کا غضب ہو نہ لعنت ،میں ان دونوں سے بھاگتا ہوں“ بولا میرے خیال میں ایسا مذہب صرف دین حنیف ہے، غرض جب ہر جگہ سے دین ابراہیم ( علیہ السلام) کا پتہ ملا تو شام سے واپس ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا:”خدایا! تجھے گواہ بناتا ہوں کہ اب میں دین حنیف کا پیرو ہوں۔“ (بخاری، باب حدیث زید میں مفصل قصہ مذکور ہے)

زید کو اس کفرستان میں اپنے موحد ہونے کا نہایت فخر تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی بڑی صاحب زادی حضرت اسماء رضی الله عنہا کا بیان ہے کہ میں نے ایک دفعہ زید کو دیکھا کہ کعبہ سے پشت ٹیک کر کہہ رہے تھے:”اے گروہ قریش! خدا کی قسم !میرے سوا تم میں کوئی بھی دین ابراہیم(علیہ السلام) پر قائم نہیں ہے“۔ (ایضاً)

ایام جاہلیت میں اہل عرب عموماً اپنی لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، لیکن خدائے واحد کے اس تنہا پرستار کو ان معصوم ہستیوں کے بچانے میں خاص لطف حاصل ہوتا تھا اور جب کوئی ظالم باپ اپنی بے گناہ بچی کے حلق پر چھری پھیرنا چاہتا تو اس کی کفالت اپنے ذمہ لے لیتے او رجب جوان ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے:”جی چاہے لے لو یا میری ہی کفالت میں رہنے دو“۔ (ایضاً)

اسلام
جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دین حنیف کو زیادہ مکمل صورت میں دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور دعوت ِ توحید شروع کی تو گو اس وقت اس کے سچے شیدائی زید صفحہ ہستی پر موجو دنہ تھے، تاہم ان کے فرزند سعید رضی الله عنہ کے لیے یہ آواز بالکل مانوس تھی، انہوں نے جوش کے ساتھ لبیک کہا او راپنی نیک بخت بیوی کے ساتھ حلقہ بگوش ِ اسلام ہوئے۔

حضرت سعید رضی الله عنہ کی بیوی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا حضرت عمر رضی الله عنہ کی حقیقی بہن تھیں، لیکن وہ خود اس وقت تک اسلام کی حقیقت سے نا آشنا تھے، بہن او ربہنوئی کی تبدیل مذہب کا حال سن کر نہایت برا فروختہ ہوئے اور دونوں میاں بیوی کو اس قدر مارا کہ لہولہان ہو گئے۔ (طبقات ابن سعد، قسم اول جز:3/192)
          من ز جاناں گرچہ صد اندوہ جان خواہم کشید
          تانہ پنداری کہ خود را بر کراں خواہم کشید

یہاں تک کہ ان بزرگوں کی اسی استقامت واستقلال نے خود حضرت عمر رضی الله عنہ کو بھی اسلام کی حقانیت کا جلوہ دکھا دیا او ربالآخر عمر بن الخطاب سے فاروقِ اعظم بنا دیا۔

ہجرت اور غزوات
حضرت سعید رضی الله عنہ مہاجرین اوّلین کے ساتھ مدینہ پہنچے اورحضرت رفاہ بنعبدالمنذر انصاری رضی الله عنہ کے مہمان ہوئے، کچھ دنوں کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان میں او رحضرت رافع بن مالک انصاری رضی الله عنہ میں بھائی چارہ کرا دیا۔ ( طبقات ابن سعد حصہ بدر یین، ترجمہ سعید بن زید رضی الله عنہ)

2ھ میں قریش مکہ کا وہ مشہور قافلہ جس کی وجہ سے جنگ بدر پیش آئی، ملک شام سے آرہا تھا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اور حضرت طلحہ رضی الله عنہ کو اس تجسس پر مامور فرمایا، یہ دونوں حدودِ شام میں تجبار پہنچ کر کشد جہنی کے مہمان ہوئے او رجب قافلہ وہاں سے آگے بڑھا تو نظر بچا کر تیزی کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے کہ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کو پوری کیفیت سے مطلع کریں، لیکن قافلہ نے کچھ سن گن پا کر ساحلی راستہ اختیار کیا او رکفار قریش کی ایک بڑی جمعیت کے ،جو اس کی مدد کے لیے آئی تھی اور پرستارانِ حق کے درمیان، بدر کے میدان میں وہ مشہور معرکہ پیش آیا جس نے اسلام کو ہمیشہ کے لیے سر بلند کر دیا۔

غرض جس وقت حضرت سعید رضی الله عنہ مدینہ پہنچے اس وقت غازیان ِ دین فاتحانہ سرور وانبساط کے ساتھ میدان جنگ سے واپس آرہے تھے، چوں کہ یہ بھی ایک خدمت پر مامور تھے ،اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو بدر کے مال ِ غنیمت میں حصہ مرحمت فرمایا اور جہاد کے ثواب سے بھی بہرہ ور ہونے کی بشارت دی۔ (طبقات ابن سعد، تذکرہ سعید بن زید رضی الله عنہ)

حضرت سعید رضی الله عنہ جنگ بدر کے سوا تمام غزوات میں مردانگی وشجاعت کے ساتھ آں حضرت صلی الله علیہ وسلمکے ساتھ ہم رکاب رہے، لیکن افسوس ہے کہ کسی غزوہ کے متعلق کوئی تفصیلی واقعہ نہیں ملتا۔

عہد فاروقی میں جب شام پر باقاعدہ فوج کشی ہوئی تو حضرت سعید رضی الله عنہ حضرت ابوعبیدہ رضی الله عنہ کے ماتحت پیدل فوج کی افسری پر متعین ہوئے، دشمن کا محاصرہ اور یرموک کی فیصلہ کن جنگ میں نمایاں شجاعت وجاں بازی کے ساتھ شریک کار زار تھے، اثنائے جنگ میں حضرت ابو عبیدہ رضی الله عنہ نے ان کو دمشق کی گورنری پر مامور کیا، لیکن شوق جہاد نے اس سے بیزار کر دیا، حضرت ابوعبیدہ رضی الله عنہ کو لکھاکہ میں ایسا ایثار نہیں کرسکتا کہ آپ لوگ جہاد کریں او رمیں اس سے محروم رہوں ،اس لیے خط پہنچنے کے ساتھ ہی کسی کو میری جگہ بھیج دیجیے۔ میں عنقریب آپ کے پاس پہنچتا ہوں۔ حضرت ابوعبیدہ رضی الله عنہ نے مجبور ہو کر حضرت یزید بن ابی سفیان رضی الله عنہ کو دمشق پر متعین کیا او رحضرت سعید رضی الله عنہ پھر میدان رزم میں پہنچ گئے۔

وفات
فتح شام کے بعد حضرت سعید رضی الله عنہ کی تمام زندگی نہایت سکون وخاموشی سے بسر ہوئی، یہاں تک کہ 50ھ یا51ھ میں ستر برس تک اس سرائے فانی میں رہ کر رحلت گزین عالم جاوداں ہوئے، چوں کہ ناوح مدینہ میں بمقام عقیق آپ کا مستقل مسکن تھا، اس لیے وہیں وفات پائی، جمعہ کا دن تھا۔ عبدالله بن عمر رضی الله عنہا نماز جمعہ کی تیاری کر رہے تھے کہ وفات کی خبر سنی، اسی وقت عقیق کی طرف روانہ ہوگئے، حضرتسعد بن وقاص رضی الله عنہ نے غسل دیا، حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہا نے نمازِ جنارہ پڑھائی اور مدینہ لا کر سپرد خاک کیا۔ انا لله وانا إلیہ راجعون (طبقات ابن سعد، حصہ بدریین، تذکرہ سعید بن زید رضی الله عنہ)

ذاتی حالات او راخلاق وعادات
حضرت سعید رضی الله عنہ کا دل دنیاوی جاہ وحشمت سے مستغنی تھا، صرف مقام عقیق کی جاگیر پر گذر اوقات تھی ، آخر میں حضرت عثمان رضی الله عنہ نے عراق میں بھی ایک جاگیر دی تھی۔

امیر معاویہ رضی الله عنہ کے عہد میں اروی نام ایک عورت نے، جس کی زمین ان کی جاگیر سے ملی ہوئی تھی، مدینہ کے عامل مروان بن حکم کے دربار میں شکایت کی کہ انہوں نے اس کی کچھ زمین دبالی ہے، مروان نے تحقیقات کے لیے دو آدمی متعین کیے، حضرت سعید رضی الله عنہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے کہا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”جو اپنے مال کے آگے قتل ہو وہ شہید ہے۔“ پھر مروان سے کہا:” کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے؟ حالاں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ”اگر کوئی شخص کسی کی ایک بالشت زمین بھی ظلم وزبردستی سے لے گا تو ویسی ویسی سات زمینیں قیامت میں اس کے گلے کا ہار ہوں گی“۔ مروان نے قسم کھانے کو کہا تو یہ اپنی زمین سے باز آگئے او راس عورت کے حق میں بد عا کے طور پر فرمایا:”اے خدا! اگر یہ جھوٹی ہے تو اندھی ہو کر مرے اور اس کے گھر کا کنواں خود اس کے لیے قبر بنے“۔ خدا کی قدرت بد دعا کا تیر ٹھیک نشانہ پر لگا، وہ عورت بہت جلد بصارت کی نعمت سے محروم ہو گئی او رایک روز گھر کے کنویں میں گر کرراہی عدم ہوئی، چناں چہ یہ واقعہ اہل مدینہ کے لیے ضرب مثل ہوگیا اور وہ عموماً یہ بد دعا دینے لگے۔اعماک الله کما اعمی اروی․

حضرت سعید رضی الله عنہ کے سامنے بہت سے انقلابات برپا ہوئے، بیسیوں خانہ جنگیاں پیش آئیں اور گو وہ اپنے زہد واتقاء کے باعث ان جھگڑوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہے، تاہم جس کی نسبت جو رائے رکھتے تھے اس کو آزادی کے ساتھ ظاہر کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے، حضرت عثمان رضی الله عنہ شہید ہوئے تو وہ عموماً کوفہ کی مسجد میں فرمایا کرتے تھے:”تم لوگوں نے عثمان (رضی الله عنہ) کے ساتھ جو سلوک کیا، اس سے اگر کوہ ِ احد متزلزل ہو جائے تو کچھ عجب نہیں“۔ (بخاری ،باب بنیان الکعبہ، باب اسلام سعید بن زید رضی الله عنہ)

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ امیر معاویہ رضی الله عنہ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، ایک روز وہ جامع مسجد میں عوام کے ایک حلقہ میں بیٹھے تھے کہ حضرت سعید بن زید رضی الله عنہ داخل ہوئے تو انہوں نے نہایت تعظیم وتکریم کے ساتھ ان کا استقبال کیا او راپنے پاس بٹھایا، اسی اثناء میں ایک دوسرا آدمی اندر آیا اورحضرت علی رضی الله عنہ کی شان میں ناملائم کلمات استعمال کرنے لگا، حضرت سعید رضی الله عنہ سے ضبط نہ ہو سکا، بولے:”مغیرہ! لوگ تمہارے سامنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جان نثاروں کو گالیاں دیتے ہیں اور تم منع نہیں کرتے، اس کے بعد اصحاب عشرہ رضی الله عنہم سے آٹھ آدمیوں کا نام لے کر فرمایا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان کو جنت کی بشارت دی ہے او راگر چاہوں تو میں نویں آدمی کا نام بھی لے سکتا ہوں، لوگوں نے اصرار کیا تو فرمایا: نواں میں ہوں“۔ (مسند:1/187)

حضرت سعید رضی الله عنہ کے حالات کتب میں بہت کم ہیں، تاہم وہ بالاتفاق ان صحابہ کرام رضی الله عنہم میں تھے جو آسمان ِ اسلام کے مہر وماہ ہیں، وہ لڑائیوں میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے آگے رہتے تھے اورنماز میں پیچھے۔ ( اسعد الغابہ، ترجمہ سعید بن زید رضی الله عنہ )

حلیہ یہ تھا قدلمبا، بال بڑے بڑے او رگھنے۔

اہل وعیال
حضرت سعید رضی الله عنہ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کی تھیں، بیویوں کے نام یہ ہیں: فاطمہ ( ام الجمیل) جلیسہ بنت سوید، امامہ بنت الدجیح، حزمہ بنت قیس، ام الاسود، ضمح بنت الاصبغ ،بنت قربہ، ام خالد، ام بشیر بنت ابی مسعود انصاری۔

ان بیویوں نیز لونڈیوں کے بطن سے زیادہ کثرت کے ساتھ اولاد ہوئی، لیکن ان سے اکثر لاولد ہوئی ،جن لڑکیوں اورلڑکوں کے معلوم ہوسکے، وہ علیحدہ علیحدہ درج ذیل ہیں:

لڑکے
عبدالرحمن اکبر، عبدالرحمن اصغر، عبدالله اکبر، عبدالله اصغر، عمر اکبر، عمر اصغر، محمد اسود، زید، طلحہ، خالد، ابراہیم اکبر، ابراہیم اصغیر۔

لڑکیاں
عاتکہ، ام موسیٰ، ام الحسن، ام سلمیٰ، ام حبیب کبری، ام حبیب صغریٰ، ام زید کبریٰ، ام زید صغری، ام سعید، ام سلمہ، حفصہ، ام خالد، عائشہ، زینب، ام عبدالحولاء، ام صالح۔ (طبقات ابن سعد جزو ثالث سے ازواج واولاد کی تمام تفصیل ماخوذ ہے۔)