حضرت سلمان فارسی ؓ

حضرت سلمان فارسی ؓ

مولانا معین الدین ندوی

نام ونسب

نسبی تعلق اصفہان کے آب الملک کے خاندان سے تھا، مجوسی نام مابہ تھا، اسلام کے بعد سلمان رکھا گیا اور بارگاہ نبوت سے سلمان الخیر لقب ملا، ابو عبدالله کنیت ہے، سلسلہ نسب یہ ہے، مابہ ابن بوذخشان بن مورسلان بن بہیوان بن فیروزبن سہرک۔

قبل اسلام

آپ کے والد اصفہان کے ”جی“ نامی قریہ کے باشندہ اور وہاں کے زمین دار وکاشت کار تھے، ان کو حضرت سلمان رضی الله عنہ سے اس قدر محبت تھی کہ ان کو لڑکیوں کی طرح گھر کی چار دیوار سے نکلنے نہ دیتے تھے، آتش کدہ کی دیکھ بھال ان ہی کے متعلق کر رکھی تھی، چوں کہ مذہبی جذبہ ان میں ابتدا سے تھا، اس لیے جب تک آتش پرست رہے اس وقت تک آتش پرستی میں سخت غلو رہا اور نہایت سخت مجاہدات کیے، شب وروز آگ کی نگرانی میں مشغول رہتے تھے، حتی کہ ان کا شمار ان پجاریوں میں ہو گیا تھا، جو کسی وقت آگ کو بجھنے نہیں دیتے ہیں۔

مجوسیت سے نفرت اور عیسائیت کا میلان

ان کے والد کا ذریعہ معاش زمین تھی، اس لیے زراعت کی نگرانی وہ بذات خود کرتے تھے، ایک دن وہ گھر کی مرمت میں مشغولیت کی وجہ سے کھیت خود نہ جاسکے او راس کی دیکھ بھال کے لیے سلمان کو بھیج دیا، ان کو راستہ میں ایک گرجا ملا، اس وقت اس میں عبادت ہو رہی تھی، نماز کی آواز سن کر دیکھنے کے لیے گرجے میں چلے گئے، نماز کے نظارہ سے اُن کے دل پر خاص اثر ہوا او رمزید حالات کی جستجو ہوئی اور عیسائیوں کا طریقہ عبادت اس قدر بھایا کہ بے ساختہ زبان سے نکل گیا کہ ” یہ مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے“۔ چناں چہ کھیتوں کا خیال چھوڑ کر اسی میں محوہوگئے، عبادت ختم ہونے کے بعد عیسائیوں سے پوچھا کہ اس مذہب کا سرچشمہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا شام میں، پتہ پوچھ کر گھر واپس آئے۔ باپ نے پوچھا اب تک کہاں رہے؟ جواب د یا”کچھ لوگ گرجے میں عبادت کر رہے تھے ،مجھ کو ان کا طریقہ ایسا بھلا معلوم ہوا کہ غروب آفتاب تک وہیں رہا“ باپ نے کہا” وہ مذہب تمہارے مذہب کا پاسنگ بھی نہیں“ جواب دیا ”بخدا! وہ مذہب ہمارے مذہب سے کہیں برتر ہے“ اس جواب سے ان کے باپ کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ کہیں یہ خیال تبدیل مذہب کی صورت میں نہ ظاہر ہو، اس لیے بیڑیاں پہنا کر مقید کر دیا، مگر ان کے دل میں تلاش حق کی تڑپ تھی، اس لیے عیسائیوں کے پاس کہلا بھیجا کہ جب شام کے تاجر آئیں تو مجھ کو اطلاع دینا، چناں چہ جب وہ آئے تو ان کو خبر دی، انہوں نے کہا جب واپس ہوں تو مجھ کو بتانا، چناں چہ جب کاروان تجارت لوٹنے لگا تو ان کو خبر کی گئی، یہ بیڑیوں کی قید سے نکل کر ان کے ساتھ ہو گئے، شام پہنچ کر دریافت کیا کہ یہاں سب سے بڑا مذہبی شخص کون ہے؟ لوگوں نے بشپ کا پتہ دیا، اس سے جاکر کہا”مجھ کو تمہارا مذہب بہت پسند ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس رہ کر مذہبی تعلیم حاصل کروں اور مجھ کو اس مذہب میں داخل کر لو۔“

تبدیلی مذہب

چناں چہ مجوسیت کے آتش کدہ سے نکل کر ”آسمانی بادشاہت“ کی پناہ میں آئے، مگر یہ بشپ بڑا بد اعمال اور بد اخلاق تھا، لوگوں کو صدقہ کرنے کی تلقین کرتا، جب وہ دیتے تو اس کو فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنے کے بجائے خود لے لیتا، اس طریقہ سے اس کے پاس سونے اورچاندی کے سات مٹکے جمع ہو گئے، حضرت سلمان رضی الله عنہ اس کی حرص وآزکو دیکھ دیکھ کر پیچ وتاب کھاتے تھے، مگر زبان سے کچھ نہ کہہ سکتے تھے، اتفاق سے وہ مرگیا، عیسائی شان وشوکت کے ساتھ اس کی تجہیز وتکفین کرنے کو جمع ہوئے، اس وقت انہوں نے اس کا سارا اعمال نامہ لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا، لوگوں نے پوچھا، تم کو کیسے معلوم ہوا؟ انہوں نے ان کو لے جاکراندوختہ خزانہ کے پاس کھڑا کر دیا، تلاشی لی تو واقعی سات مٹکے سونے چاندی سے بھرے ہوئے برآمد ہوئے، عیسائیوں نے اس کی سزا میں نعش دفن کرنے کے بجائے صلیب پر لٹکا کر سنگسار کی، اس کی جگہ دوسرا بشپ مقرر ہوا، یہ بڑا عابد وزاہد اورتارک الدنیا تھا، شب وروز عبادت الہٰی میں مشغول رہتا تھا، اس لیے حضرت سلمان رضی الله عنہ اس سے بہت مانوس ہو گئے اور دلی محبت کرنے لگے اور آخر تک اس کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس سے کہا میں آپ کے پاس عرصہ تک نہایت لطف ومحبت کے ساتھ رہا ،اب آپ کا وقت آخر ہے، اس لیے آئندہ کے لیے مجھ کو کیا ہدایت ہوتی ہے؟ اس نے کہا میرے علم میں کوئی ایسا عیسائی نہیں ہے جو مذہب عیسوی کا سچا پیرو ہو، سچے لوگ مرکھپ گئے او رموجودہ عیسائیوں نے مذہب کو بہت کچھ بدل دیا ہے اور بہتیرے اصول تو سرے سے چھوڑ ہی دیے ہیں ، ہاں! موصل میں فلاں شخص دین حق کا سچا پیرو ہے، تم جاکر اس سے ملاقات کرو۔

موصل کا سفر

چناں چہ اس بشپ کی موت کے بعد حق کی جستجو میں وہ موصل پہنچے اورتلاش کرکے اس سے ملے او رپورا واقعہ بیان کیا کہ فلاں پادری نے مجھ کوہدایت کی تھی کہ آپ کے یہاں ابھی تک حق کا سرچشمہ اُبلتا ہے اور میں آپ سے مل کر اپنی تشنگی فروکروں، اس نے ان کو ٹھہرالیا، پہلے پادری کے بیان کے مطابق یہ پادری درحقیقت بڑا متقی او رپاک باز تھا، اس لیے سلمان رضی الله عنہ نے آئندہ کے متعلق اس سے بھی وصیت کی خواہش کی، اس نے نصیبین میں ایک شخص کا پتہ بتایا۔

نصیبین کا سفر

چناں چہ اس کی موت کے بعد وہ نصیبین پہنچے او رپادری سے مل کر دوسرے پادری کی وصیت بتائی، یہ اسقف بھی پہلے دونوں اسقفوں کی طرح بڑا عابد وزاہد تھا، سلمان یہاں مقیم ہو کر اس سے روحانی تسکین حاصل کرنے لگے، ابھی کچھ ہی دن اس کی صحبت سے فیض اٹھایا تھا کہ اس کا وقت بھی آپہنچا، حضرت سلمان رضی الله عنہ نے گزشتہ اسقفوں کی طرح اس سے بھی آئندہ کے متعلق مشورہ طلب کیا، اس نے عموریہ میں گوہر مقصود کا پتہ بتایا۔

عموریہ کا سفر

چناں چہ اس کی موت کے بعد انہوں نے عموریہ کا سفر کیا اور وہاں کے اسقف سے مل کر پیام سنایا اور اس کے پاس مقیم ہو گئے، کچھ بکریاں خرید لیں، ان سے مادی غذا حاصل کرتے تھے اور صبر وشکر کے ساتھ روحانی غذا اسقف سے حاصل کرنے لگے، جب اس کا پیمانہ حیات بھی لبریز ہو گیا، تو حضرت سلمان نے اس کو اپنی پوری سرگزشت سنائی کہ اتنے مراتب طے کرتا ہوا آپ کے پاس پہنچا تھا، آپ بھی آخرت کا سفر کرنے کو آمادہ ہیں، اس لیے میرا کوئی سامان کرتے جائیے، اس نے کہا بیٹا! میں تمہارے لیے کیا ساماں کروں؟ آج دنیا میں کوئی شخص ایسا باقی نہیں ہے جس سے ملنے کا تم کو مشورہ دوں، البتہ اب اس نبی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے، جو ریگستان عرب سے اٹھ کر دین ابراہیم کو زندہ کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کرے گا، اس کی علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کرے گا اورصدقہ اپنے لیے حرام سمجھے گا، اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہو گی، اگر تم اس سے مل سکو تو ضرور ملنا۔

اسقف کی بشارت اور عرب کا سفر

اس اسقف کے مرنے کے بعدسلمان عرصہ تک عموریہ میں رہے، کچھ دنوں بعد بنو کلب کے تاجر ادھر سے گزے ، سلمان نے ان سے کہا کہ اگر تم مجھ کو عرب پہنچا دو تو میں اپنی گائیں او ربکریاں تمہاری نذر کردوں گا، وہ لوگ تیار ہو گئے اور زبان ِ حال سے یہ شعر #
          چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
          پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
پڑھتے ہوئے ساتھ ہو لیے۔

غلامی

لیکن ان عربوں نے وادی القریٰ میں پہنچ کر دھوکا دیا او ران کو ایک یہودی کے ہاتھ غلام بنا کر فروخت کر ڈالا، مگر یہاں کھجور کے درخت نظر آئے، جس سے یہ تو آس بندھی کہ شاید یہی وہ منزل مقصود ہو، جس کا اسقف نے پتہ دیا تھا، تھوڑے دن ہی قیام کیا تھا کہ یہ امید بھی منقطع ہو گئی، آقا کا چچازاد بھائی مدینہ سے ملنے آیا، اس نے سلمان رضی الله عنہ کو اس کے ہاتھ بیچ دیا۔

غلامی اور مدینہ کا سفر

وہ اپنے ساتھ مدینہ لے چلا اور سلمان غلامی در غلامی سہتے ہوئے مدینہ پہنچے، ہاتف غیب تسکین دے رہا تھاکہ یہ غلامی نہیں ہے #
          اسی سے ہو گی ترے غم کدہ کی آبادی
          تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

درحقیقت اس غلامی پر جو کسی کی آستان ِ ناز تک پہنچانے کا ذریعہ بن جائے ہزاروں آزادیاں قربان ہیں، جو جوں محبوب کی منزل قریب ہوتی جاتی تھی، کشش بڑھتی جاتی تھی اور آثار وعلامات بتاتے تھے کہ شاید مقصود کی جلوہ گاہ یہی ہے، اب ان کو پورا یقین ہوگیا اور دیدار جمال کی آرزو میں یہاں دن کاٹنے لگے۔

اس وقت آفتاب رسالت مکہ پر توافگن ہو چکا تھا، لیکن جو روستم کے بادلوں میں چھپا تھا، سلمان رضی الله عنہ کو آقا کی خدمت سے اتنا وقت نہ ملتا تھا کہخوداس کا پتہ لگاتے، آخر انتظار کرتے کرتے وہ یوم مسعود بھی آیا کہ مکہ کا آفتاب عالم تاب مدینہ کے اُفق طلوع ہوا، حرمان نصیب سلمان رضی الله عنہ کی شب ہجر تمام ہوئی اور صبح امید کا اجالا پھیلا، یعنی سرور عالم صلی الله علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے، سلمان رضی الله عنہ کھجور کے درخت پر چڑھے کچھ درست کر رہے تھے، آقا نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے چچا زادبھائی نے آکر کہاخدا بنی قیلہ کو غارت کرے! سب کے سب قبا میں ایک شخص کے پاس جمع ہیں، جو مکہ سے آیا ہے، لوگ اس کو نبی سمجھتے ہیں۔ سلمان رضی الله عنہ کے کانوں تک اس خبر کا پہنچنا تھا کہ یارائے ضبط باقی نہ رہا، صبر وشکیب کا دامن چھوٹ گیا، بدن میں سنسناہٹ پیدا ہو گئی اور قریب تھا کہ کھجور کے درخت سے فرش زمین پر آجائیں، اسی مدہوشی میں جلد از جلد درخت سے نیچے اترے اور بدحواسی میں بے تحاشا پوچھنے لگے تم کیا کہتے ہو؟ آقا نے اس سوال پر گھونسہ مار کر ڈانٹا کہ تم کو اس سے کیا غرض؟ تم اپنا کام کرو، اس وقت سلمان رضی الله عنہ خاموش ہو گئے۔

اسلام

لیکن اب صبر کسے تھا؟! کھانے کی چیزیں پاس تھیں، ان کو لے کر دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں نے سنا ہے کہ آپ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں او رکچھ غریب الدیار او راہل حاجت آپ کے ساتھ ہیں، میرے پاس چیزیں صدقہ کے لیے رکھی تھیں، آپ لوگوں سے زیادہ اس کا کون مستحق ہو سکتا ہے،اس کو قبول فرمائیے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کو کھانے کا حکم دیا، مگر خود نوش نہ فرمایا، اس طریقہ سے سلمان رضی الله عنہ کو نبوت کی ایک علامت کا مشاہدہ ہو گیا کہ وہ صدقہ نہیں قبول کرتا، دوسرے دن پھر ہدیہ لے کر حاضر ہوئے او رعرض کیا کہ آپ نے صدقہ کی چیزیں نہیں نوش فرمائی تھیں، آج ہدیہ قبول فرمائیے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہدیہ قبول کیا، خود بھی نوش فرمایا اور دوسروں کو بھی دیا، اسی طریقہ سے دوسری نشانی یعنی مہرنبوت کی بھی زیارت کی اور باچشم پرنم آپ کی طرف بوسہ دینے کو جھکے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سامنے آؤ، سلمان نے سامنے آکر ساری سرگزشت سنائی، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو یہ دل چسپ داستان اتنی پسند آئی کہ اپنے تمام اصحاب کو سنوائی۔

اسلام

حضرت سلمان رضی الله عنہ اتنے مرحلوں کے بعد دین حق سے ہم آغوش ہوئے اور گوہر مقصود سے دامن بھر کر آقا کے گھر واپس آئے۔

آزادی

غلامی کی مشغولیت کے باعث فرائض مذہبی ادانہ کر سکتے تھے،جس کی بنا پر غزوہٴ بدر واحد میں شریک نہ ہوسکے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آقا کو معاوضہ دے کر آزادی حاصل کر لو، تین سو کھجور کے درختوں اور چالیس اُوقیہ سونے پر معاملہ طے ہوا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے عام مسلمانوں سے سفارش فرمائی کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، سب نے حسب حیثیت کھجور کے درخت دیے، اس طریقہ سے تین سو درخت ان کو مل گئے اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی مدد سے انہوں نے ان کو بٹھایا اور زمین وغیرہ ہموارکرکے ایک شرط پوری کر دی، سونے کی آدائیگی کا سامان خدا نے اس طرح کر دیا کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو کسی غزوہ میں مرغی کے انڈے کے برابر سونا مل گیا، آپ نے سلمان رضی الله عنہ کو دے دیا، یہ وزن میں ٹھیک چالیس اُوقیہ تھا، اس لیے گلو خلاصی حاصل کی اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے لگے۔ (قبل از اسلام سے آزادی تک کے کل حالات مسنداحمد بن حنبل :5/44-41 کی مختلف روایات سے ماخوذ ہیں )

مواخاة

غلامی سے آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگے، اس وقت بالکل غریب الدیار تھے، کوئی شناسا نہ تھا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے مکی مہاجرین کی طرح ان کی حضرت ابودرداء رضی الله عنہ سے مواخاة کرادی۔ (بخاری:2/898)

غزوات

بدر واحد کی لڑائیاں ان کی غلامی کے زمانہ میں ختم ہوچکی تھیں، آزادی کے بعد پہلا غزوہ خندق پیش آیا، اس میں انہوں نے اپنے حسن تدبیر سے پہلی دونوں لڑائیوں کی عدم شرکت کی تلافی کر دی، غزوہ خندق میں تمام عرب کا ٹڈی دل اس ارادہ سے امنڈآیا تھا کہ مسلمانوں کا کامل استیصال کر دے او رحملہ خود مدینہ پر تھا، جس کی کسی سمت نہ قلعہ تھا، نہ فصیل تھی، مقابلہ بڑا سخت تھا، ایک طرف قبائل عرب کا عظیم الشان متحدہ لشکر تھا، دوسری طرف مٹھی بھر مسلمان تھے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے عام مسلمانوں سے مشورہ کیا، سلمان فارسی چوں کہ ایران کی صف آرائیاں دیکھے ہوئے تھے، اس لیے جنگی اصولوں سے اچھی طرح واقف تھے، انہوں نے مشورہ دیا کہ اس انبوہ کا کھلے میدان میں مقابلہ کرنا مناسب نہیں ہے، مدینہ کے چاروں طرف خندقیں کھود کر شہر کو محفوظ کر دینا چاہیے، یہتدبیر مسلمانوں کو بہت پسند آئی۔ ( ابن سعد جزء3، قسم:1/47) اور اس پر عمل کیا گیا خندق کی کھدائی میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم بہ نفس نفیس شریک تھے او رمٹی ڈھوتے ڈھوتے شکم مبارک مٹی سے اٹ گیا تھا اور رجزیہ اشعار زبان پر جاری تھے۔ ( بخاری،ج 2، کتاب المغازی، غزوہ خندق)

ذیقعدہ5ھ میں طرفین میں جنگ شروع ہوئی عربوں کو اس طریقہ جنگ سے واقفیت نہ تھی وہ اس ارادے سے آئے تھے کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، مگر یہاں آکر دیکھا کہ ان کے اور مدینہ کے بیچ میں خندق کی فصیل ہے،21،22 دن تک مسلسل محاصرہ قائم رہا، مگر شہر تک پہنچنا ان کو نصیب نہ ہوا اور آخر کار ناکام لوٹ گئے۔

خندق کے علاوہ حضرت سلمان رضی الله عنہ تمام لڑائیوں میں شریک رہے ۔ ( مسند احمد حنبل:5/44) اور غزوہ خندق کے بعد سے کوئی غزوہ ایسا نہیں ہوا، جس میں شریک ہوکر دادشجاعت نہ دی ہو۔(اسد الغابہ:2/330)

عہد صدیقی اور عراق

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرصہ تک حضرت سلمان رضی الله عنہ مدینہ میں رہے او رغالباً عہد صدیقی کے آخر یا عہد فاروقی کی ابتدا میں انہوں نے عراق کی او ران کے اسلامی بھائی ابو درداء رضی الله عنہ نے شام کی سکونت اختیار کر لی، یہاں اقامت کے بعد ابودرداء رضی الله عنہ کو خدا نے مال واولاد سے بہت نوازا اور نہوں نے سلمان رضی الله عنہ کو خط لکھا کہ ”تم سے چھٹنے کے بعد خدا نے مجھ کو مال ودولت اور اہل وعیال سے سرفراز کیا اور ارض مقدس کی سکونت کا شرف حاصل ہوا“ انہوں نے جواب دیا کہ ”یاد رکھو! مال واولاد کی کثرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے، بھلائی اس میں ہے کہ تمہارا حلم زیادہ ہو اور تمہارا علم تم کو نفع پہنچائے، محض ارض مقدس کا قیام کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، جب تک تمہارا عمل اس قابل نہ ہو اور عمل بھی اس طرح ہو کہ گویا خدا تم کو دیکھ رہا ہے او رتم اپنے کو مردہ سمجھو“۔ (اسد الغابہ:2/331)

عہد فاروقی

سلمان رضی الله عنہ ایران کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور چوں کہ خود ایرانی تھے، اس لیے فتوحات میں بہت قیمتی امداد پہنچائی، مگر اصول اسلام کو ہمیشہ پیش نظرر کھا، ایک ایرانی قصر کے محاصرہ کے وقت حملے سے پیشتر محصورین کو سمجھا دیا کہ میں بھی تمہارا ہم قوم تھا، لیکن خدانے مجھ کو اسلام سے نوازا۔ تم لوگ اسلام لا کر ہجرت کرکے ہم میں مل جاؤ تو تم کو اہل عرب کے حقوق دیے جائیں گے اور جو قانون ان کے لیے ہے وہی تم پر جاری کیا جائے گا او راگر اسلام نہیں قبول کرتے اور صرف جزیہ منظور کرتے ہو تو ذمیوں کے حقوق تم کو ملیں گے او ران کا قانون تم نافذ کیا جائے گا، تین دن تک برابر تبلیغ کا فرض ادا کرتے رہے جب اس کا کوئی اثر نہ ہوا تو حملہ کا حکم دیا او رمسلمانوں نے قصر مذکور بزورشمشیر فتح کر لیا۔ ( مسند احمد بن حنبل:5/441)

فتح جلولا میں بھی شریک تھے اور وہاں مشک کی ایک تھیلی ہاتھ آئی تھی، جو وفات کے وقت کام میں لائے۔ ( ابن سعد جزو4 ق:1/66)

گورنری

حضرت عمر رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں مدائن کی حکومت پر سرفراز تھے، اس کی تفصیل آئندہ عادات واخلاق کے تذکرہ میں آئے گی۔

حضرت سلمان رضی الله عنہ مقربین بارگاہ نبوی میں تھے، اس لیے حضرت عمر رضی الله عنہ ان کا بہت احترام کرتے تھے، ایک دفعہ حضرت سلمان رضی الله عنہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے پاس گئے، اس وقت وہ ایک گدے پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے، حضرت سلمان رضی الله عنہ کو دیکھ کر گدا ان کی طرف بڑھا دیا۔ (مستدرک حاکم:3/559) (جاری)

بہشت کے باسی سے متعلق