صحابہ کرام رضی الله عنہم کا مقام اور اُسکے تقاضے!

صحابہ کرام رضی الله عنہم کا مقام اور اُسکے تقاضے!

مولانا محمد اعجاز مصطفی

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ․

دین ِ اسلام کا منبع اور سر چشمہ وحی ِ الہٰی ہے ، جو الله تبارک وتعالیٰ کی جانب سے حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم پر نازل کی گئی، خواہ وہ وحی ِ الہٰی قرآن کریم کی صورت میں ہو یا سنت ِ رسول اور احادیث رسول صلی الله علیہ وسلم کی صورت میں ہو۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس وحی ِالہٰی اور دین ِ اسلام کو لینے کے لیے الله تبارک وتعالی ہی نے صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین جیسی مقدس جماعت کو حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کی صحبت، تعلیم اور تلقین کے لیے منتخب فرمایا۔ صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کا اسلام اور شریعت ِ اسلام میں خاص مقام ہے۔ یہ ایک ایسی مقدس جماعت ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور عام اُمت کے درمیان الله تعالیٰ کا عطا کردہ ایک واسطہ ہے۔ اس واسطہ کے بغیر نہ اُمت کو قرآن کریم ہاتھ آسکتا ہے، نہ قرآن کریم کے وہ مضامین جن کو قرآن نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بیان پر یہ کہہ کر چھوڑا ہے:﴿لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ﴾․(النحل:44)…” آپ بیان کریں لوگوں کے لیے وہ چیز جو آپ کی طرف نازل کی گئی۔“ اور نہ ہی رسالت اور اس کی تعلیمات کا کسی کو اس واسطہ کے بغیر علم ہوسکتا ہے۔ صحابہ کرام رضو ان الله تعالیٰ علیہم اجمعین، آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کو دنیا کی ہر چیز، حتیٰ کہ اپنی آل اولاد اور اپنی جان ومال سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیغام کو اپنی جانیں قربان کرکے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلانے والے صحابہ کرا م رضی الله عنہم ہی ہیں۔ قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے لیے ارشاد فرمایا:

﴿وَلَٰکِنَّ اللَّہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیمَانَ وَزَیَّنَہُ فِی قُلُوبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ أُولَٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُونَ﴾․ (الحجرات:7)
ترجمہ:” پر الله نے محبت ڈال دی تمہارے دل میں ایمان کی اورکھبا دیا ( اچھا دکھایا) اس کو تمہارے دلوں میں اور نفرت ڈال دی تمہارے دل میں کفر او رگناہ اور نافرمانی کی ، وہ لوگ وہی ہیں نیک۔“

﴿أُولَٰئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمُ الْإِیمَانَ وَأَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ﴾․(المجادلة:22)
ترجمہ:” ان کے دلوں میں الله نے لکھ دیا ہے ایمان او ران کی مدد کی ہے اپنے غیب کے فیض سے۔“

﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُم بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ﴾․ (التوبة:100)
ترجمہ:” او رجو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مد دکرنے والے او رجو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ، الله راضی ہوا اُن سے اور وہ راضی ہوئے اُس سے۔“

﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوا﴾․(البقرة:137)
ترجمہ:” سواگر وہ بھی ایمان لاویں جس طرح تم ایمان لائے ہدیات پائی انہوں نے بھی۔“

﴿کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾․(آل عمران:110)
ترجمہ:”تم ہو بہتر سب اُمتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں۔“

﴿وَکَذَٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا﴾․(البقرة:143)
ترجمہ:” اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو اُمت معتدل۔“

آیت:5 اور6 کے اصل مخاطب اور پہلے مصداق صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔

﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ﴾․ (الفتح:29)
ترجمہ:”محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر، نرم دل ہیں آپس میں، تو دیکھے ا ن کو رکوع میں اور سجدہ میں، ڈھونڈتے ہیں الله کا فضل اور اس کی خوشی، نشانی ( پہچان، شناخت) ان کی، اُن کے منھ پر ہے سجدہ کے اثر سے۔“

اس آیت میں ﴿وَالَّذِینَ مَعَہُ﴾ عام ہے، اس میں تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم شامل ہیں، اس میں تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم کا تزکیہ اور ان کی مدح وثنا خود مالک ِ کائنات کی طرف سے آئی ہے۔

﴿یَوْمَ لَا یُخْزِی اللَّہُ النَّبِیَّ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ ﴾․(التحریم:8)
ترجمہ:” جس دن کہ الله ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور ان لوگوں کو جو یقین لائے ہیں اس کے ساتھ۔“

﴿قُلْ ہَٰذِہِ سَبِیلِی أَدْعُو إِلَی اللَّہِ عَلَیٰ بَصِیرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی﴾․ (یوسف:108)
ترجمہ: کہہ دے یہ میری راہ ہے، بلاتا ہوں الله کی طرف سمجھ بوجھ کر میں اور جو میرے ساتھ ہے۔“

﴿وَکُلًّا وَعَدَ اللَّہُ الْحُسْنَیٰ﴾․(الحدید:10)
ترجمہ:”اور سب سے وعدہ کیا ہے الله نے خوبی کا۔“

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے:”ان الله نظر فی قلوب العباد فوجد قلب محمد صلی الله علیہ وسلم خیر قلوب العباد، فاصطفاہ لنفسہ، فابتعثہ برسالتہ، ثم نظر فی قلوب العباد بعد قلب محمد صلی الله علیہ وسلم فوجد قلوب اصحابہ خیر قلوب العباد، فجعلھم وزراء نبیہ یقاتلون علی دینہ، فما رایٰ المسلمون حسنا فھو عندالله حسن، وما راؤہ سیئا فھو عند الله سيء․“

ترجمہ:”الله تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد صلی الله علیہ وسلم کے قلب کو ان سب قلوب میں بہتر پایا، ان کو اپنی رسالت کے لیے مقرر کر دیا، پھر قلب محمد صلی الله علیہ وسلم کے بعد دوسرے قلوب پر نظر فرمائی تو اصحاب محمد صلی الله علیہ وسلم کے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا، ان کو اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی صحبت اور دین کی نصرت کے لیے پسند کر لیا…“۔

امام احمد رحمة الله علیہ نے حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:”من کان متأسیا فلیتأس باصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فانھم ابرھذہ الامة قلوبا واعمقھا علما، واقلھا تکلفا، واقومھا ھدیا، واحسنھا حالا، قوم اختارھم الله بصحبة نبیہ وإقامة دینہ، فاعرفوا لہ فضلھم واتبعوا آثارھم، فإنھم کانوا علی الھدی المستقیم․“(شرح السفارینی للدرةالمنیفة، ج:1/124)

ترجمہ:” جو شخص اقتدا کرنا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اقتدا کرے، کیوں کہ یہ حضرات ساری اُمت سے زیادہ اپنے قلوب کے اعتبار سے پاک اور علم کے اعتبار سے گہرے اور تکلیف وبناوٹ سے دور اور عادات کے اعتبار سے معتدل اور حالات کے اعتبار سے بہتر ہیں۔یہ وہ قوم ہے جس کو الله تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اقامت کے لیے پسند فرمایا ہے۔ تو تم ان کی قدر پہچا نو اور اُن کے آثار کا اتباع کرو، کیوں کہ یہی لوگ مستقیم طریق پر ہیں۔“

حضرت عبدالله بن مغفل رضی الله عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”الله الله فی اصحابی، لاتتخذوھم غرضا من بعدي، فمن احبھم فبحبي احبھم ومن ابغضھم فببغضي ابغضھم، ومن اذاھم فقد أذاني ومن اذاني فقد اذی الله، ومن اذی الله فیوشک ان یاخذہ․“ (ترمذی:2/225)

ترجمہ:” الله سے ڈرو، الله سے ڈرو۔ میرے صحابہ کے معاملے میں، میرے بعد ان کو( طعن وتشنیع کا) نشانہ نہ بناؤ، کیوں کہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا او رجس نے ان کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے الله تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی اور جو الله کو ایذا پہنچانا چاہتا ہے تو قریب ہے کہ الله اس کو عذاب میں پکڑلے گا۔“

حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا: لعنة الله علی شرکم․“ (ترمذی:2/225)

”جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کوبُرا کہتے ہیں تو تم ان سے کہو: خدا کی لعنت ہے اس پر جو تم دونوں ( یعنی صحابہ اور تم) میں سے بدتر ہیں۔“

ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کے مقابلے میں بدتر وہی ہے جو اُن کو برا کہنے والا ہے۔ اس حدیث میں صحابی کو برا کہنے والا مستحق لعنت قرار دیا گیا ہے۔

علامہ سفارینی رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں:
”اہل سنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہ کو پاک صاف سمجھے، ان کے لیے عدالت ثابت کرے، ان پر اعتراضات کرنے سے بچے اور ان کی مدح وتوصیف کرے، اس لیے کہ الله سبحانہ وتعالیٰ نے کتاب عزیز کی متعدد آیات میں ان کی مدح وثنا کی ہے۔ اس کے علاوہ اگر الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے صحابہ کی فضیلت میں کوئی بات منقول نہ ہوتی تب بھی ان کی عدالت پر یقین اور پاکیزگی کااعتقاد رکھنا اور اس بات پر ایمان رکھنا ضروری ہوتا کہ وہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد ساری اُمت کے افضل ترین افراد ہیں، اس لیے ان کے تمام حالات اسی کے مقتضی تھے، انہوں نے ہجرت کی، جہاد کیا، دین کی نصرت میں اپنی جان ومال کو قربان کیا، اپنے باپ بیٹوں کی قربانی پیش کی اور دین کے معاملہ میں باہمی خیر خواہی اورایمان ویقین کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا“۔ (عقیدہ سفارینی:2/238)

امام ابوزرعہ عراقی رحمة الله علیہ، جو امام مسلم رحمة الله علیہ کے بڑے اساتذہ میں سے ہیں ، ان کا یہ قول نقل کیا ہے:”إذا رأیت الرجل ینتقص أحداً من أصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم فاعلم أنہ زندیق، وذلک أن القرآن حق، والرسول حق، وماجاء بہ حق، وما أدّٰی ذلک إلینا کلہ إلا الصحابة، فمن جرحھم إنما أراد إبطال الکتاب والسنة، فیکون الجرح بہ ألیق، والحکم علیہ بالزندقة والضلال أقوم وأحق․“(ج:2/389)

”جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) میں سے کسی کی بھی تنقیص کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے، اس لیے کہ قرآن حق ہے، رسول (صلی الله علیہ وسلم) حق ہیں، جو تعلیمات آپ صلی الله علیہ وسلم لے کر آئے وہ حق ہیں اور یہ سب چیزیں ہم تک پہنچانے والے صحابہ کے سوا کوئی نہیں، تو جو شخص ان کو مجروح کرتا ہے وہ کتاب وسنت کو باطل کرنا چاہتا ہے، لہٰذا خود اس کو مجروح کرنا زیادہ مناسب ہے اور اس پر گم راہی اور زندقہ کا حکم لگانا زیادہ قرین ِ انصاف ہے۔“

ان آیات اور احادیث میں صرف یہی نہیں کہ اصحاب ِ رسول کی مدح وثنا اور ان کو رضوان ِ الہٰی اور جنت کی بشارت دی گئی ہے، بلکہ اُمت کو ان کے ادب واحترام او ران کی اقتدا کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ان میں سے کسی کو بُرا کہنے کی سخت وعید فرمائی ہے، ان کی محبت کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی محبت، ان سے بغض کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بغض قرار دیا گیا ہے۔

وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیّدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین․