حضرت ابو ذر غفاری رضی الله عنہ

حضرت ابو ذر غفاری رضی الله عنہ

مولانامعین الدین ندوی

نام ونسب

جندب نام، ابو ذر کنیت، ”مسیح الاسلام“ لقب، سلسلہ نسب یہ ہے، جندب بن جنادہ بن قیس بن عمرو بن ملیل بن صعیر بن حزام بن غفار بن ملیل بن حمزہ بن بکر بن عبد مناة بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرک غفاری، ماں کا نام رملہ تھا اور قبیلہ بنی غفار سے تعلق رکھتی تھی۔

قبل از اسلام

حضرت ابو ذر رضی الله عنہ کا قبیلہ بنو غفار رہزنی کیا کرتاتھا، جاہلیت میں ابو ذر رضی الله عنہ کا بھی یہی پیشہ تھا اور وہ نہایت مشہور رہزن تھے، تن تنہا نہایت جرأت اور دلیری سے قبائل کو لوٹتے تھے، لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کی زندگی میں دفعةً انقلاب ہوا اور ایسا سخت ہوا کہ رہزنی یکلخت ترک کرکے ہمہ تن خدا پرستی کی طرف مائل ہوگئے، چناں چہ ظہور اسلام سے پہلے جب سارا عرب ضلالت میں مبتلا تھا وہ خدا کی پرستش کرتے تھے۔ ابومعشر راوی ہیں کہ ابو ذر رضی الله عنہ جاہلیت ہی سے موحد تھے، خدا کے سوا کسی کو معبود نہیں سمجھتے تھے اور بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے، ان کی خدا پرستی عام طور پر لوگوں میں مشہو رتھی، چناں چہ جس شخص نے ان کو سب سے پہلے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ظہور کی اطلاع دی، اس کے الفاظ یہ تھے کہ ”ابو ذر !مکہ میں تمہاری طرح ایک شخص لا الہ الا الله کہتا ہے“۔ ( ابن ،سعد جز4 ق1 ص:163)

ابوذر رضی الله عنہ کی خدا پرستی صرف اعتراف توحید تک محدود نہ تھی، بلکہ جس طرح بن پڑتا تھا نماز بھی پڑھتے تھے، وہ خو دکہتے تھے کہ میں آں حضرت صلی الله علیہ و سلم سے ملنے کے تین سا ل قبل سے نماز پڑھتا تھا، لوگوں نے پوچھا کس کی نماز پڑھتے تھے؟ کہا خدا کی، پھر پوچھا ”کس طرف رخ کرتے تھے؟“ جواب دیا”جس طرف خدا پھیر دیتا“۔ (ابن سعدو جز4ق1ص:163 و مسلم، اسلام ابی ذر رضی الله عنہ) ﴿اینما تولوا فثم وجہ الله﴾ #
          ہر جا کنیم سجدہ بآں آستان رسید
          اسلام کی تلاش میں پہلی آزمائش

چوں کہ ابو ذر رضی الله عنہ جاہلیت ہی سے راہ حق کے متلاشی تھے، اس لیے حق کی پکار سنتے ہی لبیک کہا اور اس وقت دعوت ِ حق کا جواب دیاجب چار آدمیوں کے سوا ساری دنیا کی زبانیں اس اعلان ِ حق سے خاموش تھیں، اس اعتبار سے اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے، ان کے اسلام کا واقعہ خاص اہمیت رکھتا ہے، یہ دل چسپ داستان خود ان کی زبان سے مروی ہے، ان کا بیان ہے کہ جب میں قبیلہ غفار میں تھا تو مجھ کو معلوم ہوا کہ مکہ میں کسی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے، میں نے اپنے بھائی کو واقعہ کی تحقیق کے لیے بھیجا ،وہ واپس آئے تو میں نے پوچھا، کہو کیا خبر لائے؟ انہوں نے کہا” خدا کی قسم! یہ شخص نیکیوں کی تعلیم دیتا ہے او ربرائیوں سے روکتا ہے، اس قدر مجمل بیان سے میری تشفی نہیں ہوئی، اس لیے میں خود سفر کا مختصرسامان لے کر مکہ چل کھڑا ہوا، وہاں پہنچا تو یہ دقت پیش آئی کہ میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کو پہچانتا نہ تھا اور کسی سے پوچھنا بھی مصلحت نہ تھی، اس لیے خانہ کعبہ میں جاکر ٹھہر گیا اور زمزم کے پانی پر بسر کرنے لگا، اتفاق سے ایک دن علی رضی الله عنہ گزرے، انہوں نے پوچھا تم مسافر معلوم ہوتے ہو؟ میں نے کہا ہاں! وہ مجھ کو اپنے گھر لے گئے، لیکن مجھ سے ان کی کوئی گفت گو نہیں ہوئی، صبح اٹھ کر میں پھر کعبہ گیا کہ لوگوں سے اپنے مقصود کا پتہ دریافت کروں، کیوں کہ ابھی تک آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے حالات سے بے خبر تھا، اتفاق سے پھر علی رضی الله عنہ گزرے اور پوچھا کہ ”اب تک تم کو اپنا ٹھکانہ نہیں معلوم ہوا؟“ میں نے کہا نہیں، وہ پھر دوبارہ مجھ کو اپنے ساتھ لے چلے اور اس مرتبہ انہوں نے پوچھا، کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا اگر آپ اس کو راز میں رکھیں تو عرض کروں، فرمایا مطمئن رہو، میں نے کہا، میں نے سنا تھا کہ یہاں کسی نے نبوت کا دعوی کیا ہے، پہلے اس خبر کی تصدیق او راس شخص کے حالات دریافت کرنے کے لیے میں نے اپنے بھائی کو بھیجا، مگر وہ کوئی تشفی بخش خبر نہ لایا، اس لیے اب میں خود اس سے ملنے آیا ہوں، حضرت علی رضی الله عنہ نے فرمایا تم نے نیکی کا راستہ پالیا، سیدھے میرے ساتھ چلے آؤ ،جس مکان میں میں جاؤں تم بھی میرے ساتھ چلے آنا، راستہ میں اگر کوئی خطرہ پیش آئے گا تو میں جو تادرست کرنے کے بہانے سے دیوار کی طرف ہٹ جاؤں گا او رتم بڑھے چلے جانا، چناں چہ میں حسب ہدایت ان کے ساتھ ہو لیا اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکر عرض کیا، یا رسول الله! میرے سامنے اسلام پیش کیجیے، آپ نے اسلام پیش کیا اور میں اسلام کے عقیدت مندوں میں شامل ہو گیا، قبول اسلام کے بعد آپ نے فرمایا، ابو ذر!ا بھی تم اس کو پوشیدہ رکھو او راپنے گھر لوٹ جاؤ، میرے ظہور کے بعد واپس آنا، میں نے قسم کھا کرکہا میں اسلام کو چھپا نہیں سکتا، ابھی لوگوں کے سامنے پکار کر اعلان کروں گا، یہ کہہ کر مسجد میں آیا، یہاں قریش کا مجمع تھا، میں نے سب کو مخاطب کرکے کہا کہ قریشیو! میں شہادت دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی الله علیہ وسلم اس کے بندہ اور رسول ہیں۔ یہ سن کاان لوگوں نے للکارا کہ اس بے دین کو لینا، اس آواز کے ساتھ ہی چاروں طرف سے لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑے او رمارتے مارتے بے دم کر دیا، یہ دردناک منظر دیکھ کر حضرت عباس رضی الله عنہ سے ضبط نہ ہو سکا، وہ مجھ کو بچانے کے لیے میرے اوپر گر پڑے او ران لوگوں سے کہا کہ تم لوگ ایک غفاری کی جان لینا چاہتے ہو، حالاں کہ یہ قبیلہ تمہاری تجارت کی گزر گاہ ہے؟ یہ سن کر سب ہٹ گئے، لیکن اسلام کا وہ نشہ نہ تھا جس کا خمار قریش کے غیظ وغضب کی ترشی سے اتر جاتا، دوسرے دن پھر اس حق گو کی زبان پر نعرہ مستانہ تھا #
          در عجائبہائے طور عشق حکمتہا کم است
          عشق را با مصلحت اندیشی مجنون چہ کار

اور پھر وہی مسجد تھی، وہی صنا دید قریش کا مجمع تھا اور وہی ان کی ستم آرائی تھی۔(مستدرک حاکم :3/339-338، وبخاری، باب بنیان الکعبہ، ومسلم ج:2 فضائل ابی ذر رضی الله عنہ)

مسلم، فضائل ابی ذر رضی الله عنہ میں ان کے اسلام کے بارہ میں دو روایتیں ہیں، ایک یہی مذکورہ بالا روایت، اس روایت کے راوی حضرت ابن عباس رضی الله عنہما ہیں، دوسری روایت خود ان سے مروی ہے، لیکن دونوں روایتوں کے واقعات باہم مختلف ہیں، ان کی زبانی جو روایت منقول ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ اپنے وطن سے اپنے بھائی اُنیس رضی الله عنہ اوروالدہ کو لے کر اپنے ماموں کے یہاں گئے، کچھ دنوں کے بعد ان سے خفا ہو کر چلے گئے، اتفاق سے ایک مرتبہ انیس رضی الله عنہ کسی ضرورت سے مکہ گئے، وہاں سے لوٹ کر ابو ذر رضی الله عنہ سے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے واقعات بیان کیے، آپ کے اوصاف سن کر وہ خود تحقیقات کے لیے مکہ پہنچے او رایک شخص سے آپ کا پتہ پوچھا، پوچھتے ہی ہر طرف سے مشرکین ان پر ٹوٹ پڑے او رمارتے مارتے بے دم کر دیا، لیکن یہ نہ ہٹے، تیسرے دن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی، وہ ان کو اپنے ساتھ لے گئے اور یہ مشرف با سلام ہوئے، ہم نے جو صورت واقعہ نقل کی ہے وہ چوں کہ بخاری، مسلم اور مستدرک تینوں میں ہے، اس لیے اس کو ترجیح دی۔

مراجعت وطن

کچھ دن مکہ میں قیام کے بعد آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کو ان کے گھر واپس کر دیا اور فرمایا کہ عنقریب یثرب ہجرت کرنے والا ہوں، اس لیے بہتر یہ ہے کہ تم اپنی قوم میں جا کر اسلام کی تبلیغ کرو، شاید خدا ان کو فائدہ بخشے او راس صلہ میں تمہیں بھی اجر ملے، انہوں نے آپ کے حسب ارشاد روانگی کی تیاری شروع کر دی اور وطن کا سفر کرنے سے قبل اپنے بھائی انیس رضی الله عنہ سے ملے، انہوں نے پوچھا کیا کرکے آئے؟ جواب دیا اعتراف صداقت کر کے اسلام کا حلقہ بگوش ہو گیا ہوں، سن کر وہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، اس کے بعد دونوں وطن پہنچے اور دعوتِ حق میں اپنا وقت صرف کرنے لگے، آدھا قبیلہ تو اسی وقت مسلمان ہو گیا اور آدھا ہجرت کے بعد مسلمان ہوا۔(صحیح مسلم، فضائل ابی ذر رضی الله عنہ، ومسند احمدبن حنبل:5/174)

ہجرت ومواخاة

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی مدینہ کی تشریف آوری کے بعد بھی عرصہ تک ابو ذر رضی الله عنہ بنی غفار میں رہے او ربدر، احد، خندق وغیرہ کے غزوات ہونے کے بعد ہجرت کرکے مدینہ آئے، اسی بنا پر مواخاة میں اختلاف ہے، محمد بن اسحق راوی ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ابو ذر اور منذر بن عمرو رضی الله عنہما کے درمیان مواخاة کرائی تھی، لیکن واقدی کا قول ہے کہ ابو ذر رضی الله عنہ آیت میراث کے نزول کے بعد مدینہ آئے او راس آیت کے بعد مواخاة کا طریقہ باقی نہ رہا تھا۔ (ابن سعد جزو4،ق1،ص:166)

مدینہ کا قیام

مدینہ کے قیام میں ان کا سارا وقت آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں گزرتا تھا اور ان کا کا محبوب مشغلہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت تھی، خود کہتے ہیں کہ میں پہلے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا، اس سے فراغت کے بعد پھر آکر مسجد میں آرام کرتا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل:5/174)

چوں کہ ہجرت کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، اس لیے مہاجرین زیادہ تر اسی میں مشغول رہتے تھے، حضرت ابو ذر رضی الله عنہ کی غزوات میں شرکت کی تفصیل نہیں ملی، صرف غروہٴ تبوک کی شرکت کا پتہ چلتا ہے، عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم تبوک کے لیے نکلے تو بہت سے لوگ بچھڑنے لگے ( کیوں کہ یہ قحط سالی کا زمانہ تھا) جب کوئی شخص بچھڑتا تو لوگ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو بتاتے کہ یا رسول الله ! فلاں شخص نہیں آیا۔ آپ فرماتے جانے دو، اگر اس کی نیت اچھی ہے تو عنقریب خدا اس کو تم سے ملا دے گا، ورنہ خدا نے اس کو تم سے چھڑا کر اس کی طرف سے راحت دے دی، یہاں تک کہ ابو ذر رضی الله عنہ کا نام لیا گیا کہ وہ بھی بچھڑ گئے، واقعہ یہ تھا کہ ان کا اونٹ سست ہو گیا تھا، اس کو پہلے چلانے کی کوشش کی ،جب نہ چلا تو اس پر سے سازوسامان اتا رکر پیٹھ پر لادا او رپا پیادہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے عقب سے روانہ ہو گئے او راگلی منزل پر جاکر مل گئے، ایک شخص نے دور سے آتا دیکھ کرکہا یا رسول الله ! وہ راستہ پر کوئی شخص آرہا ہے، آپ نے فرمایا، ابو ذر ہوں گے۔ لوگوں نے بغور دیکھ کر پہچانا اور عرض کیا، یا رسول الله! خدا کی قسم ابو ذر ہیں، آپ نے فرمایا، خدا ابو ذر پر رحم کرے، وہ تنہا چلتے ہیں، تنہا مریں گے اور قیامت کے دن تنہا اُٹھیں گے۔ (مستدرک حاکم جلد3 تذکرہ ابو ذر غفاری رضی الله عنتہ )

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی دوسری پیشن گوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی، آئندہ واقعات میں اس کی تفصیل آئے گی، اس واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ قحط کے زمانے میں بھی جب بہتوں کے ارادے متزلزل ہو گئے پیچھے نہ ہٹے او راپنا سامان پیٹھ پر لاد کرپاپیادہ میدان جہاد میں پہنچے تو ان غزوات میں جن میں اس قسم کی دشواریاں نہ تھی، یقینا شریک ہوئے ہوں گے پھرو ہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے خدام میں تھے، اس لیے ان لڑائیوں میں جن میں آپ نے بہ نفس نفیس شرکت فرمائی ہو گی، ان میں ابو ذر رضی الله عنہ بھی یقینا ہم رکاب رہے ہوں گے، خصوصاً جب کہ یہ معلوم ہے کہ ان کوجہاد کے ساتھ غیر معمولی شغف تھا۔ (تذکرہ الحفاظ:1/15)

اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ جب تمام مسلمانوں کی تلواریں اپنے جوہر دکھا رہی ہوں، اس وقت ان کی تلوار نیام میں رہی ہو، فتح مکہ کے بعد جب اسلامی افواج کا مظاہرہ ہو رہا تھا، تو سب سے آگے ان ہی کے قبیلہ کا پرچم تھا۔

عہد شیخین

حضرت ابو ذر رضی الله عنہ فطرة فقیر منش، زہد پیشہ، تارک الدنیا اورعزلت پسند تھے، اسی لیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کو ” مسیح الاسلام“ کا لقب دیا تھا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد انہوں نے دنیا سے ہی قطع تعلق کر لیا، لیکن قیام دیار محبوب ہی میں رہا، وفات نبوی سے دل ٹوٹ چکا تھا، اس لیے عہد صدیقی میں کسی چیز میں کوئی حصہ نہیں لیا، حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی وفات نے اور بھی شکستہ خاطر کر دیا، گلشن مدینہ ویرانہ نظر آنے لگا، اس لیے مدینہ چھوڑ کر شام کی غربت اختیار کر لی۔ (استیعاب :1/83)

عہد عثمانی

اسلام کی اصل سادگی شیخین رضی الله عنہما کے عہد تک قائم رہی، پھر جب فتوحات کی کثرت کے ساتھ مال ودولت کی فر اوانی ہوئی تو قدرةً سادگی کی جگہ تمدنی تکلفات شروع ہو گئے، چناں چہ عہد عثمانی میں ہی امراء میں شاہانہ شان وشوکت کی ابتدا ہو چکی تھی، ان کااثر عام مسلمانوں پر بھی پڑا اور ان میں عہد نبوت کی سادگی کے بجائے عیش وتنعم کے تکلفات پیدا ہونے لگے، شام میں رومیوں کے اثر نے ان کو اور زیادہ فروغ دیا، دولت وثروت نے خزانوں کی صورت اختیار کی، جگہ جگہ قصروایوان بننے لگے، زرق برق پوشاکیں پہنی جانے لگیں، حضرت ابو ذر رضی الله عنہ لوگوں میں وہی عہد نبوت کی سادگی چاہتے تھے او راپنی طرح سب کے دلوں کو مال ودولت کی محبت سے خالی دیکھنا چاہتے تھے، ان کے متوکلانہ مذہب میں کل کے لیے آج اٹھا رکھنا جائز نہ تھا، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ مسلمان کو اس کا حق نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو بھوکا اور ننگا دیکھ کر بھی اپنے لیے دولت کا خزانہ جمع کرے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ وغیرہ امرائے شام یہ سمجھتے تھے کہ خدانے اہل دولت پر زکوٰة کا جو فرض عائد کیا ہے، اس کو ادا کرنے کے بعدد ولت جمع کرنے کا مسلمانوں کو اختیار ہے، اس اختلاف رائے نے بڑھتے بڑھتے نزاع کی صورت اختیار کر لی، حضرت ابو ذر رضی الله عنہ نہایت بے باکی کے ساتھ ان امراء پر اعتراض کرتے تھے او ران کے طمطراق، دولت وحشمت اور ساز وسامان پر نکتہ چینیاں کرتے تھے او ران کے زائد از ضرورت دولت جمع کر لینے پر ان کو قرآن پاک کی اس آیت کا مورد ٹھہراتے:﴿وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا یُنفِقُونَہَا فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیمٍ﴾․ (توبہ)

”جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کی راہ میں صرف نہیں کرتے ان کو درد ناک عداب کی خوش خبری سنا دو“۔

اس آیت پاک سے پہلے یہود ونصاریٰ کا ذکر ہے، امیر معاویہ رضی الله عنہ کہتے تھے کہ اس آیت کا تعلق بھی ان ہی لوگوں سے ہے، حضرت ابو ذررضی الله عنہ اس کو مسلمانوں اور غیر مسلم … دونوں سے متعلق سمجھتے تھے، دوسرا اختلاف یہ تھا کہ حضرت ابو ذر رضی الله عنہ خدا کی راہ میں نہ دینے کا مطلب یہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنا کل مال راہِ خدا میں نہیں دیتے اور امیر معاویہ وغیرہ کا خیال تھاکہ وہ حکم صرف زکوٰة کے متعلق ہے، بہرحال حضرت ابو ذررضی الله عنہ نے اپنے خیال کے مطابق بڑی سختی سے طعن وتشنیع شروع کر دی، امیر معاویہ رضی الله عنہ کو خیال پیدا ہوا کہ اگر یہ جذبہ یوں ہی بڑھتا رہا تو عجب نہیں کہ شام میں کوئی فتنہ اٹھ کھڑا ہو، اس لیے انہوں نے حضرت عثمان رضی الله عنہ کو اس صورت حال کی اطلاع دی او رکہلا بھیجا کہ ان کو مدینہ بلا لیا جائے، حضرت عثمان رضی الله عنہ نے ان کو مدینہ بلا لیا اور ایک دن ان کے سامنے حضرت کعب رحمة الله علیہ سے پوچھا کہ اس شخص کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے جو مال جمع کرتا ہے، لیکن اس کی زکوٰة بھی دیتا ہے، اس کو خدا کی راہ میں بھی خرچ کرتا ہے، کعب رحمة الله علیہ نے کہا ایسے شخص کے بارہ میں مجھ کو بھلائی کی امید ہے، یہ سن کر ابو ذر رضی الله عنہ بگڑ گئے او رکعب رحمة الله علیہ پر ڈنڈا اٹھا کر بولے یہودی عورت کے بچے! تو اس کو کیا سمجھ سکتا ہے؟ قیامت کے دن ایسے شخص کے قلب تک کو بچھو ڈسیں گے۔(حلیة الاولیاء، ابونعیم:1/160)

اس لیے حضرت عثمان رضی الله عنہ نے آخر میں مجبور ہو کر آپ سے کہا کہ آپ میرے پاس رہیے، دودھ والی اونٹنیاں صبح شام دروازہ پر حاضر کی جائیں گی، لیکن اس بے نیاز نے جواب دیا کہ مجھ کو تمہاری دنیا کی مطلق ضرورت نہیں۔ یہ کہہ کر واپس چلے آئے۔

ربذہ کا قیام

لیکن اب مدینہ بھی پہلا مدینہ باقی نہیں رہ گیا تھا، لوگ آ آ کر حضرت ابو ذر رضی الله عنہ کو تعجب سے دیکھتے تھے، جہاں وہ جاتے ہر جگہ ہجوم ہو جاتا، اس سے حضرت ابو ذر رضی الله عنہ کو تکلیف ہوتی، مکہ کے قریب ربذہ نامی ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، حضرت عثمان رضی الله عنہ نے ان سے کہا یا اُنہوں نے خو دربذہ میں قیام کرنے کی خواہش کی۔ (ابن سعد، جلد4،ق1، ص:167-166)

بہرحال اپنی بیوی کو لے کر ربذہ چلے گئے، یہاں کے لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور بنو ثعلبہ کے شیخ او راس کی بیوی نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے نہلایا، عراقیوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے آکر عرض کیا کہ اس شخص(عثمان رضی الله عنہ) نے آپ کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے، اگر آپ اس کے خلاف علم بلند کریں تو ہم لوگ آپ کی حمایت پر تیار ہیں، آپ نے فرمایا کہ مسلمانو! اس معاملہ میں تم دخل نہ دو، اپنے حاکم کو ذلیل نہ کرو، کیوں کہ جس نے اپنے حاکم کو ذلیل کیا اس کی توبہ قبول نہیں ہوسکتی، اگر عثمان ( رضی الله عنہ ) مجھ کو سولی پر بھی چڑھا دیتے تو مجھ کو عذر نہ ہوتا او ر میں اسی میں اپنی بھلائی سمجھتا، اگر وہ ربذہ کے بجائے ایک اُفق سے دوسرے اُفق یا مشرق سے مغرب میں بھیج دیتے تب بھی میں سر تسلیم خم کر دیتا اور میں اپنی اچھائی سمجھتا او راگر وہ کہیں نہ بھیجتے او رمجھ کو میری قیام گاہ ہی میں لوٹا دیتے تو بھی مجھ کو کوئی عذر نہ ہوتا اوراس میں بھی میں اپنی سعادت سمجھتا۔ (طبقات، جز4،قسم1، ص:167)

وفات

حضرت ابو ذر رضی الله عنہ کی وفات کا واقعہ بھی نہایت حسرت انگیز ہے،31ھ میں ربذہ کے ویرانہ میں وفات پائی، ان کی حرم محترم وفات کے حالات بیان کرتی ہیں کہ جب ابو ذر رضی الله عنہ کی حالت زیادہ خراب ہوئی تو میں رونے لگی، پوچھا کیوں روتی ہو میں نے کہا کہ تم ایک صحرا میں سفر آخرت کر رہے ہو، یہاں میرے اور تمہارے استعمالی کپڑوں کے علاوہ کوئی ایسا کپڑا نہیں ہے جو تمہارے کفن کے کام آئے، فرمایا رونا موقوف کرو، میں تم کو ایک خوش خبری سناتا ہوں، میں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس مسلمان کے دو یا تین لڑکے مرچکے ہوں وہ آگ سے بچانے کے لیے کافی ہیں، آپ نے چند آدمیوں کے سامنے جن میں ایک میں بھی تھا، یہ فرمایا کہ تم میں سے ایک شخص صحرا میں مرے گا اور اس کی موت کے وقت وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت پہنچ جائے گی، میرے علاوہ ان میں سب آبادی میں مرچکے ہیں، اب صرف میں باقی رہ گیا ہوں، اس لیے وہ شخص یقینا میں ہی ہوں اور بحلف کہتا ہوں کہ نہ میں نے تم سے جھوٹ بیان کیا ہے اور نہ کہنے والے نے جھوٹ کہا ہے، اس لیے گزر گاہ پر جاکر دیکھو، یہ غیبی امداد ضرور آتی ہو گی۔ میں نے کہا اب تو حجاج بھی واپس جاچکے او رراستہ بند ہو چکا ،فرمایا نہیں جاکر دیکھو، چناں چہ میں ایک طرف دوڑ کر ٹیلے پر چڑھ کر دیکھنے جاتی تھی اور دوسری طرف بھاگ کر ان کی تیمار داری کرتی تھی، اس دوڑ دھوپ اور تلاش وانتظار کا سلسلہ جاری تھا کہ دور سے کچھ سوار آتے دکھائی دیے ، میں نے اشارہ کیا، وہ لوگ نہایت تیزی سے آکر میر ے پاس ٹھہر گئے اور ابو ذر رضی الله عنہ کے متعلق دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہے، میں نے کہا ابو ذر رضی الله عنہ، پوچھا آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے صحابی ہیں؟ میں نے کہا ہاں! وہ لوگ فدیتہ بابی وامی کہہ کر ابو ذر رضی الله عنہ کے پاس گئے ، پہلے ابو ذر رضی الله عنہ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی پیشین گوئی سنائی ،پھر وصیت کی کہ اگر میر ی بیوی یا میرے پاس کفن بھر کا کپڑا نکلے تو اس کپڑے میں مجھ کو کفنانا اور قسم دلائی کہ تم میں سے جو شخص حکومت کا ادنی عہدہ دار بھی ہو، وہ مجھ کو نہ کفنائے، اتفاق سے ایک انصاری نوجوان کے علاوہ ان میں سے ہر شخص کسی نہ کسی خدمت پر مامور رہ چکا تھا، چناں چہ انصاری نے کہا کہ چچا میرے پاس ایک چادر ہے، اس کے علاوہ دو کپڑے اور ہیں جو خاص میری والدہ کے ہاتھ کے کتے ہوئے ہیں، ان ہی میں آپ کو کفناؤں گا، فرمایا ہاں تم ہی کفنانا۔ ( مستدرک حاکم:4/345 ،ومسند احمد بن حنبل :5/166)

اس وصیت کے بعد وفات پائی، متعدد روایتوں کے باہم ملانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ یمنی تھے اور کوفہ سے آرہے تھے، ان ہی کے ساتھ مشہور صحابی عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ بھی تھے، جو عراق جارہے تھے، بہرحال اس انصاری نوجوان نے ان کو کفنایا اور عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ (مستدرک حاکم:4/346)

حلیہ

قد دراز، رنگ سیاہی مائل، داڑھی گھنی، سر اور داڑھی دونوں کے بال سفید۔ (ابن سعد، جز4 ،قسم اوّل،ص:169)

ترکہ

فقیروں کے کلبہ احزان میں کیا تھا، صرف تین گدھے، دو مادہ اورایک نر، چند بکریاں، کچھ سواریاں، یہ ساری کائنات تھی۔

فضل وکمال

حضرت ابو ذر رضی الله عنہ خدمت نبوی کے بڑے حاضر باش تھے، ہر وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں رہتے اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے استفادہ او رتحصیل علم میں بڑے حریص تھے اور ہر چیز کے متعلق سوالات کیا کرتے تھے، چناں چہ تمام اصول وفروع، ایمان او راحسان، رویت باری، خدا کے نزدیک پسندیدہ کلمات، لیلة القدر وغیرہ ہر چیز، حتی کہ نمازمیں کنکری چھونے تک کے بارہ میں پوچھا۔ ( حلیةالاولیاء ابو نعیم،ص:169)

اسی ذوق وشوق او رتلاش وجستجو نے آپ کو علم کا دریا بنا دیا تھا، حضرت علی رضی الله عنہ جو علم وعمل کے مجمع البحرین تھے، فرماتے تھے کہ ”ابوذر (رضی الله عنہ) نے اتنا علم محفوظ کر لیا ہے کہ لوگ اس کے حاصل کرنے سے عاجز تھے اور اس تھیلی کو اس طرح سے بند کر دیا کہ اس میں کچھ بھی کم نہ ہوا۔ استیعاب:2/665 وتذکرہٴ الحفاظ ترجمہ ابو ذر رضی الله عنہ)

حضرت عمر رضی الله عنہ جیسے صاحب کمال آپ کو علم میں عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ کے برابر سمجھتے تھے۔ ( تذکرہٴ الحفاظ:1/15)

جو اپنی وسعت علم کے لحاظ سے حبر الامة کہلاتے تھے۔

حدیث

کلام حبیب ہونے کی حیثیت سے قدرة آپ کو حدیث سے خاص ذوق تھا، آپ کی مرویات کی تعداد281 ہے، ان میں 12 متفق علیہ ہیں اور 2 میں بخاری اور 7 میں مسلم منفرد ہیں۔ (تہذیب الکمال،ص:449)

یہ تعداد حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ وغیرہ کی مرویات کے مقابلہ میں بہت کم ہے، اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ حضرت ابو ذر رضی الله عنہ خاموش، تنہائی پسند اور کم آمیز تھے، اس لیے ان کے علم کی اشاعت نہ ہو سکی، ورنہ صحابہ میں انس بن مالک رضی الله عنہ اور عبدالله بن عباس رضی الله عنہما جیسے بزرگ ان سے استفادہ کرتے تھے، عام رواة میں خالدبن وہبان، زید بن وہب جہنی، خرشہ بن حر، جبیر بن احنف بن قیس، عبدالله بن صامت، زید بن ذبیان، عبدالله بن شقیق، عمرو بن میمونہ، عبدالله بن غنم، قیس بن عباد، مرثد بن مالک بن زبید وغیرہم نے ان سے روایتیں کی ہیں۔(تفصیل کے لیے دیکھو تہذیب التہذیب:2/90)

افتا میں صداقت

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد مدینہ میں جو جماعت صاحب علم وافتا تھی، اس میں ان کا نام نامی بھی تھا۔ (اعلام الموقعین:1/113)

مگر ان کے فتاوے کی تعداد بہت کم ہے، فتوی میں وہ کسی کی مطلق رورعایت نہ کرتے اور بلاکسی خوف وہراس کے جو سچی بات ہوتی وہ کہہ دیتے تھے، ایک شخص نے آکر ان سے فتویٰ پوچھا کہ ” عثمان رضی الله عنہ کے محصلوں نے صدقہ میں اضافہ کر دیا ہے، ایسی حالت میں کیا ہم بقدر زیادتی مال چھپا سکتے ہیں؟“ فرمایا نہیں ” ان سے کہو کہ جوواجبی ہو اس کو لے لیں او رجو ناجائز ہو، اس کو واپس کر دیں، اگر اس کے بعد بھی وہ زیادہ لیں تو قیامت کے دن وہ زیادتی تمہاری میزان میں کام آئے گی، ان کا یہ فتویٰ ایک قریشی نوجوان کھڑا سن رہا تھا، وہ بولا آپ کیوں فتویٰ دیتے ہیں؟ کیا آپ کو امیر المومنین نے فتوی دینے سے منع نہیں کیا ہے ؟ فرمایا کیا تم میرے نگہبان ہو؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میری گردن پر تلوار بھی رکھ دو اور مجھ کو یقین ہو جائے کہ گردن کٹنے کے قبل جو کچھ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے سنا سکوں گا تو یقینا سنا دوں گا۔ ( تذکرة الحفاظ:1/12)

اخلاق وعادات

حضرت ابو ذر رضی الله عنہ ان محرمان خاص میں تھے جن کو بارگاہِ نبوت میں خاص تقرب حاصل تھا، اس لیے آپ کے ہر فعل وعمل پر خلق نبوی کا بہت گہرا پر تو پڑا تھا، صحابہ کرام رضی الله عنہم میں دو قسم کے لوگ تھے، ایک وہ جنہوں نے دین ودنیا دونوں کو پوری طرح حاصل کیا، دوسرے وہ جنہوں نے دنیا کو ٹھکرا دیا اورمحض آخرت کی نعمتوں پر قناعت کی، حضرت ابو ذر رضی الله عنہ اسی دوسری صنف میں تھے، وہ زہد وورع، حق گوئی وحق پرستی، توکل وقناعت، استغنا وبے نیازی میں تمام صحابہ سے ممتاز تھے، یہ وہ وقت تھا جب قیصر وکسریٰ کے خزانے دارالخلافہ میں لدے چلے آرہے تھے، جگہ جگہ قصر وایوان بن رہے تھے، عیش وتنعم کے سامان ہو رہے تھے، مگران میں سے کوئی چیز بھی رضوان الہٰی کے اس طالب کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکی، زر وجواہر کے ڈھیران کی نگاہ میں خزف ریزوں سے زیادہ وقعت نہ رکھتے تھے، زر نقدکبھی جمع نہیں کیا، ضرورت سے جو فاضل بچتا، اس کو اسی وقت خرچ کر دیتے تھے، چار ہزار وظیفہ مقرر تھا، جب وہ ملتا تو خادم کو بلاتے او رایک سال کے اخراجات کا اندازہ لگا کر چیزیں خرید لیتے، اس سے جتنی رقم فاضل بچتی اس کو لوگوں میں تقسیم کر دیتے اور فرماتے کہ جوشخص سونا چاندی تھیلیوں میں محفوظ رکھتا ہے وہ گویا انگارے رکھتا ہے۔ (ابن سعد، جز4، قسم1ص،169)

یہ بھی فرماتے تھے کہ میرے دوست صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ جو شخص بھی سونا چاندی تھیلیوں میں محفوظ کرتا ہے ، وہ جب تک اس کو خدا کی راہ میں نہ خرچ کر دے اس کے لیے آگ کا انگارہ رہے گا۔ (حلیة الاولیاء ابو نعیم:1/163)

اس پر نہ صرف خود عامل تھے، بلکہ چاہتے تھے کہ دنیا اسی رنگ میں رنگ جائے اور اس عقیدے میں یہاں تک متشدد تھے کہ بڑے لوگوں سے ملنا تک گوارا نہ کرتے، ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ جو بڑے رتبہ کے صحابی او رمرتبہ میں آپ سے کم نہ تھے، جب عراق کی گورنری کے زمانہ میں ان سے ملے تو قدیم تعلقات کی بنا پر ان سے چمٹ گئے، انہوں نے کہا ” دور رہو“ وہ بھائی بھائی کہہ کرلپکتے تھے اور وہ یہ کہہ کر ہٹاتے تھے کہ تم اس عہدہ کے بعد میرے بھائی نہیں رہے، اس کے بعد پھر ابو موسیٰ رضی الله عنہ ملے تو پھر محبت کے جذبہ سے مجبور ہو کر بھائی بھائی کہہ کر دوڑے، حضرت ابو ذر رضی الله عنہ کا پھر وہی جواب تھا ” ابھی دور رہو“۔ اس کے بعد سوالات شروع کیے کہ تم لوگوں کے عامل بنائے گئے ہو ؟انہوں نے کہا ہاں، پوچھا تم نے بڑی عمارت تو نہیں بنائی، زراعت تو نہیں کرتے، گلے تو نہیں رکھتے، انہوں نے کہا نہیں، بولے ہاں! اب تم میرے بھا ئی ہو۔(ابن سعد، جر4 ،قسم:1/869)

ایک مرتبہ ابو ذر رضی الله عنہ حضرت ابو درداء انصاری رضی الله عنہ کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ ابودرداء رضی الله عنہ گھر بنوارہے ہیں، یہ دیکھ کر کہا، ابو درداء! تم لوگوں کی گردنوں پرپتھر اٹھواتے ہو اور ابو دردا رضی الله عنہ نے جواب دیا کہ نہیں، گھر بنوا رہا ہوں، ابو ذر رضی الله عنہ نے پھر وہی فقرہ دہرایا، حضرت ابو ذر رضی الله عنہ نے کہا برادر! شاید اس سے آپ کو کچھ ناگواری پیدا ہو گئی ہے، حضرت ابو ذر رضی الله عنہ نے فرمایا اگر میں تم کو اس کے بجائے تمہارے گھر کے پاخانہ میں بھی دیکھتا تو اس کے مقابلہ میں زیادہ پسند کرتا۔ (حلیة الاولیاء، ابو نعیم:1/163)

سادگی

اس فقیرانہ زندگی کے باعث ان کی زندگی بالکل سادہ تھی اور ان چند چیزوں کے علاوہ، جو ایک جان دار کی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں، کبھی کوئی ساز وسامان نہیں رکھا، ابو مروان نے ان کو ایک پشمینہ کی چادر باندھے نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا کہ ابو ذر ! کیا اس چادر کے علاوہ تمہارے پاس اورکوئی کپڑا نہیں؟ فرمایا اگر او رکوئی کپڑا ہو تا تو میرے پاس دیکھتے۔ انہوں نے کہا کچھ دن ہوئے تمہارے پاس دو کپڑے تھے، فرمایا ہاں، مگر وہ دونوں اپنے سے زیادہ حاجت مند کو دے دیے، انہوں نے کہا تم کو خود اس کی حاجت تھی، فرمایا خدا تم کو معاف کرے، تم دنیا کو بڑھانا چاہتے ہو، تم کو نظر نہیں آتا کہ ایک چادر میں باندھے ہوئے ہوں، دوسری مسجد کے لیے ہے، میرے پاس کچھ بکریاں ہیں، جن کا دودھ پیتا ہوں، کچھ خچر ہیں، جو باربرداری کے کام آتے ہیں، ایک خادم کھانا پکا کر کھلا دیتا ہے، اس سے زیادہ او رکیا نعمتیں درکار ہیں؟! (ابن سعد جزو4 قسم:1/173)

عبدالله بن خراش کا بیان ہے کہ میں نے ربذہ میں حضرت ابو ذر رضی الله عنہ کو دیکھا وہ سایہ میں ایک صوفہ کے نمدے پر بیٹھے تھے، ان کی بیوی بڑی سیاہ فام تھیں، ان سے ایک شخص نے کہا کہ آپ کی کوئی اولاد زندہ نہیں رہی، انہوں نے جواب دیاکہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے اس دارالفنا میں اولاد کو لے کر، دارالبقا میں اس کو ذخیرہ آخرت بنایا، لوگوں نے کہا کہ کاش! آپ کوئی دوسری بیوی کر لیتے، انہوں نے جواب دیا کہ ایسی عورت سے شادی کرنا مجھے زیادہ پسند ہے جو مجھ میں تواضع پیدا کرے، بہ نسبت اس کے کہ جو مجھ میں ترفع پیدا کرے۔(حلیة الاولیاء، ابو نعیم:1/163)

جعفر بن زبرقان کہتے ہیں کہ مجھ سے غالب بن عبدالرحمن بیان کرتے تھے کہ میں ایک شخص سے ملا، جو ابو ذر رضی الله عنہ کے ساتھ بیت المقدس میں نماز پڑھا کرتا تھا ،وہ کہتا تھا کہ ابوذر رضی الله عنہ کا پورا اثات البیت جمع کیا جاتا تو بھی اس شخص ( ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے) کی چادر کی قیمت کے برابر نہ نکلتا، جعفر نے اس کو مہران بن میمون سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ان کا کل اثاثہ دو درہم سے زیادہ کا نہ تھا۔ ( ابن سعد، جز4 ،قسم:1/170)

لوگ ان کی خدمت کرنا چاہتے تھے، مگر وہ اس کو قبول نہ کرتے تھے، ایک مرتبہ حبیب بن مسلمہ فہری رضی الله عنہ والی شام نے ان کی خدمت میں تین سو اشرفیاں بھیجیں کہ وہ ان کو اپنی ضروریات میں صرف کریں، انہوں نے اسی وقت واپس کرا دیا او رکہا کہ ان کو میرے علاوہ کوئی دوسرا شخص خدا کے معاملہ میں دھوکہ کھانے والا نہیں ملا، ہم کو صرف سر چھپانے کے لیے سایہ، دودھ پینے کے لیے بکریاں او رخدمت کے لیے ایک لونڈی چاہیے، اس کے ماسوا جو کچھ ہو گا وہ زائد از ضرورت ہے۔ ( حلیة الاولیاء ،ابو نعیم:1/162)

آپ فرماتے تھے کہ لوگ موت کے لیے پیدا ہوتے ہیں، ویران ہونے کے لیے آبادیاں بساتے ہیں، فنا ہونے والی چیزوں کی حرص وطمع کرتے ہیں او رباقی او رپائندہ چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں ،دو ناپسندیدہ چیزیں موت اور فقر میرے لیے کس قدر خوش آئند ہیں۔(ایضاً،ص:162)

زہد وتقویٰ

ان کی زندگی شروع سے آخر تک سرتا پا زہد وتقویٰ تھی، جس پہلو پرنظر ڈالی جائے زہد وتقویٰ کا عجیب وغریب نمونہ نظر آئے گا، اس فقیرانہ زندگی کو دیکھ کر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ”میری امت میں سے ابو ذر رضی الله عنہ میں عیسی بن مریم علیہ السلام جیسا زہد ہے۔ (اسد الغابہ:5/187)

یہی زہد کی زندگی آخر دم تک قائم رہی، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے عہد نبوت کے بعد سے لوگوں میں بہت کچھ تبدیلی پیدا ہوگئی تھی، لیکن حضرت ابو ذر غفاری رضی الله عنہ شروع سے اخیر تک ایک رنگ پر قائم رہے۔ ( اصابہ:7/62)

جب عہد رسالت کا مقدس دور ختم ہوا اور لوگ دنیا سے ملوث ہونے لگے تو تنہا نشینی اختیار کر لی، عمران بن حطان راوی ہیں کہ میں ایک مرتبہ ابو ذر رضی الله عنہ کے پاس گیا، وہ مسجد میں تنہا بیٹھے ہوئے تھے، میں نے کہا ابو ذر ( رضی الله عنہ) !تنہائی کیوں اختیار کر لی؟ فرمایا میں نے آں حضرت سے سنا ہے کہ تنہائی برے ہم نشین سے بہتر ہے۔ (مستدرک:3/343)

اسی وجہ سے وہ دنیا سے بہت دور بھاگتے تھے، ابی اسماء رحبی راوی ہیں کہ میں ابو ذر رضی الله عنہ کے پاس ربذہ گیا ،ان کی بیوی کو سخت خستہ حال دیکھا۔ فرمانے لگے کہ یہ عورت مجھ سے کہتی ہیں کہ عراق جا، اگر میں عراق جاؤں تو عراق والے میرے سامنے دنیا پیش کریں گے اور میرے دوست (آں حضرت صلی الله علیہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا ہے کہ جہنم کے پل کے سامنے پیر پھسلانے والا راستہ ہے اور تم لوگوں کو اس پر سے گزرنا ہے“ اس لیے بوجھ کی گراں باری سے ہلکا رہنا چاہیے۔ ( ابن سعد جز4 ق1،ص:174)

فرمان رسول صلی الله علیہ وسلم کا پاس

حضرت ابو ذر رضی الله عنہ ارشاد نبوی کو ہر لمحہ پیش نظر رکھتے تھے اوراس سے سرمو تجاوز نہ کرتے تھے، بات بات میں فرماتے تھے کہ :عہد اليَّ خلیلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یا سمعت خلیلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم․ میرے دوست رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے یہ وعدہ لیا ہے یا میں نے اپنے دوست صلی الله علیہ و سلم کو یہ کہتے سنا۔ ایک مرتبہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے امارت کی خواہش ظاہر کی، آپ نے فرمایا تم ناتواں ہو اور امارت ایسا بار امانت ہے کہ اگر اس کے حقوق کی پوری نگہداشت نہ کی جائے تو آخرت میں اس کے لیے رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (ایضا، ص:170)

اسی فرمان کے بعد پھر انہوں نے کبھی امارت کی خواہش نہیں کی، ان کی خدمت میں کسی نے دو چادریں پیش کیں، انہوں نے ایک ازار بنایا اورایک چھوٹی کملی اوڑھ لی اور دوسری غلام کو دے دی، گھر سے نکلے تو لوگوں نے کہا کہ اگر آپ دونوں چادریں خود استعمال کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا، فرمایا یہ صحیح ہے، لیکن میں نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو تم کھاتے پہنتے ہو وہی اپنے اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ پہناؤ۔ ( ابن سعد، جز4،ق1/170)

ایک مرتبہ آں حضرت صلی الله علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارے اوپر ایسے امراء حکم ران ہوں گے جو اپنا حصہ زیادہ لیں گے، اس وقت تم کیا کرو گے؟ عرض کی تلوار سے کام لوں گا، فرمایا میں تم کو اس سے بہتر مشہور دیتا ہوں، ایسے وقت صبر کرنا، یہاں تک کہ مجھ سے مل جاؤ ۔( ابن سعد، جز4،ق:1/166)

اس مشورہ پر انہوں نے اس سختی سے عمل کیا کہ جب وہ زمانہ آیا تو تنہا نشینی اختیار کر لی او رکسی چیز میں کوئی حصہ نہیں لیا۔

ایک مرتبہ وہ مسجد میں لیٹے تھے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے او رفرمایا” ابو ذر ! جب تم اس سے نکالے جاؤ گے تو کیا کرو گے؟“ عرض کی” مسجد نبوی یا اپنے گھر چلا جاؤں گا“۔ اگر اس سے بھی نکالے گئے تو کیا طریقہ اختیار کر وگے؟ عرض کی ”تلوار نکالوں گا“ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تین مرتبہ فرمایا کہ ” ابو ذر! خدا تمہاری مغفرت کرے ، تلوار نہ نکالنا، بلکہ جہاں وہ لے جانا چاہیں چلے جانا“۔ چناں چہ جب ربذہ میں رہنے کا حکم ملا تو اس فرمان کے مطابق بلا کسی عذر کے چلے گئے او روہاں حبشی غلام کے پیچھے نماز پڑھی، ہر چند اس نے آپ کو بڑھانا چاہا، مگر آپ نے جواب دیا کہ میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کر رہاہوں۔ ( مسند ابن حنبل:5/44 وابن سعد)

حب ِ رسول صلی الله علیہ وسلم

ابو ذر رضی الله عنہ کو ذات نبوی صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ جو شیفتگی تھی، اس کا اظہار لفظوں میں نہیں ہو سکتا، ایک مرتبہ آپ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول الله ! آدمی کسی ایک جماعت سے محبت کرتا ہے، لیکن اس کے جیسے اعمال کی طاقت نہیں رکھتا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو ذر! تم جس شخص سے محبت رکھتے ہو اس کے ساتھ ہو“۔ عرض کیا میں خدا او راس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں، فرمایا تم یقینا اسی کے ساتھ ہو، جس سے محبت رکھتے ہو۔ (ابوداؤد:2/212)

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد جب آپ صلی الله علیہ وسلم کا نام زبان پر آجاتا تو آنسوؤں کا دریا امنڈ آتا، احنف بن قیس روایت کرتے ہیں کہ میں نے بیت المقدس میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مسلسل سجدے کر رہا ہے، جس سے میرے دل پر ایک خاص اثر ہوا، جب میں دوبارہ لوٹ کر گیا تو پوچھا کہ آپ بتاسکتے ہیں کہ میں نے جفت نماز پڑھی یا طاق؟ اس نے کہا اگر میں لاعلم ہوں تو خدا ضرور جانتا ہے، اس کے بعد کہا کہ میرے دوست ابو القاسم صلی الله علیہ و سلم نے مجھ کو خبر دی ہے“۔ صرف اس قدر زبان سے نکلا تھاکہ رونے لگے، پھر کہا کہ ” میرے دوست ابو القاسم صلی الله علیہ و سلم نے مجھ کو خبر دی ہے“۔ ابھی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ پھر آنسو امنڈ آئے، آخر میں سنبھل کر کہا کہ ” میرے دوست ابو القاسم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو بندہ خدا کا سجدہ کرتا ہے، خدا اس کا ایک درجہ بلندکرکے اس کی بدی کو مٹا کر نیکی لکھتا ہے“۔ میں نے پوچھا آپ کون ہیں؟ فرمایا” ابو ذر، رسول الله صلی الله علیہ و سلم کا صحابی“ یہ سن کر میں اپنی تقصیر پر بہت نادم ہوا۔ (مسند احمد بن حنبل:5/164)

بارگاہِ نبوی صلی الله علیہ و سلم میں پذیرائی

حریم نبوت میں ان کی نیاز مندیاں بہت مقبول تھیں، جب یہ مجلس میں موجود ہوتے تو سب سے پہلے ان ہی کو تخاطب کا شرف حاصل ہوتا او راگر موجود نہ ہوتے تو تلاش ہوتی، جب ملاقات ہوتی تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم مصافحہ فرماتے۔ (اصابہ:5/62)

یہ محبت ویگانگت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ آں حضرت صلی الله علیہ و سلم اپنے اسرار تک ان سے نہ چھپاتے تھے اور یہ بھی راز داری کا پوری طرح فرض ادا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان سے کسی نے کہا کہ میں آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کی بعض باتیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہو، فرمایا”اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کا کوئی راز ہو گا تو نہ بتاؤں گا۔“ (مسند احمد بن حنبل:5/162)

یہی یگانگت آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کے آخر لمحہ حیات تک قائم رہی، چناں چہ مرض الموت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو بلوا بھیجا، یہ جب حاضر خدمت ہوئے اس وقت آں حضرت صلی الله علیہ وسلم لیٹے ہوئے تھے، ابو ذر رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اوپر جھک گئے اورمحبوب ِ عالم صلی الله علیہ و سلم نے ہاتھ بڑھا کر چمٹا لیا۔ ( ایضاً)

نہ معلوم یہ نگاہ ِ واپسیں کیا کام کر گئی کہ آخر دم تک وارفتگی کا عالم طاری رہا۔

آں حضرت صلی الله علیہ و سلم جو چیز اپنے لیے پسند فرماتے تھے وہی ابو ذر رضی الله عنہ کے لیے بھی پسند فرماتے تھے کہ یہی آئین محبت ہے، ایک مرتبہ انہوں نے امارت کی خواہش کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ابو ذر ! تم ناتواں ہو اور میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں“۔ (ابن سعد، جز4 ،قسم :1/170)

خلیفہ کی اطاعت

اگرچہ ابو ذر رضی الله عنہ حق پسند طبیعت رکھتے تھے، پھر بھی اختلاف امت کے خیال سے کسی چیز میں خلیفہ وقت کے حکم سے سرتابی نہ کرتے تھے۔ اوپر گزر چکا ہے کہ ربذہ کے قیام کے زمانہ میں عراقیوں کی خواہش کے باوجود حضرت عثمان رضی الله عنہ کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر مجھ پر حبشی بھی امیر بنایاجائے تو بھی اس کی اطاعت کروں گا اور اس کو عملاً کرکے دکھایا، چناں چہ جب وہ ربذہ جاکر مقیم ہوئے تو اتفاق سے اس وقت یہاں کا امیر ایک حبشی تھا، جب ابوذر رضی الله عنہ پہنچے او رنماز کے وقت جماعت کھڑی ہوئی تو وہ ان کے ادب کے خیال سے پیچھے ہٹ گیا، انہوں نے فرمایا ” تم ہی نماز پڑھاؤ، تم گوحبشی غلام ہو، لیکن مجھ کو حکم ملا ہے کہ خواہ حبشی ہی امیر کیوں نہ ہو، مگر اس کی اطاعت کرنا“۔ خلیفہ وقت کا عمل خواہ ان کے نزدیک غلط ہی کیوں نہ ہوتا، اس کی مخالفت نہ کرتے تھے، بلکہ خود بھی وہی کرتے، حضرت عثمان رضی الله عنہ کے دورِ خلافت میں حج کو گئے، کسی نے آکر اطلاع دی کہ منی میں عثمان رضی الله عنہ نے چار رکعتیں نماز پڑھیں، آپ کو بہت ناگوار ہوا اور درشت الفاظ استعمال کرکے فرمایاکہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم، ابو بکر او رعمر رضی الله عنہما کے ساتھ نماز پڑھی ہے، یہ سب دو رکعت پڑھتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے امامت کی، مگر خود بھی چار رکعتیں پڑھائیں، لوگوں نے کہا آپ نے امیر المومنین پر اعتراض کیا، لیکن خود بھی چار رکعتیں پڑھائیں۔ فرمایا کہ اختلاف بری چیز ہے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد امرا ہوں گے، ان کی تذلیل نہ کرنا اور جو شخص ان کی تذلیل کا ارادہ کرے گا، اس نے گویا اسلام کی حبل متین اپنی گردن سے نکال دی اور توبہ کا دروازہ پنے لیے بندکر لیا۔ (مسند احمد بن حنبل:5/165) لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آپ امراو خلفاء کی تمام جا وبیجا باتوں کو مان لیتے تھے، امیر معاویہ رضی الله عنہ کی لغزشوں پر نہایت سختی سے نکتہ چینی کرتے تھے، بلکہ برا بھلا تک کہتے تھے۔

حق گوئی

خدا کے معاملہ میں لومة لائم کی مطلق پروانہ کرتے تھے، حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے تھے کہ آج میرے اور ابو ذر رضی الله عنہ کے علاوہ کوئی ایسا شخص باقی نہیں ہے جو خدا کے معاملہ میں لومة لائم کا خوف نہ کرتا ہو۔ (تذکر ة الحفاظ، تذکرہٴ ابو ذر رضی الله عنہ ) ان کی حق گوئی کی شہادت خود زبان وحی والہام نے دی ہے، چناں چہ آں حضرت صلی الله علیہ و سلم نے ایک موقعہ پر ارشاد فرمایا کہ آسمان کے نیچے او رزمین کے اوپر ابو ذر رضی الله عنہ سے زیادہ سچا کوئی نہیں ہے۔۔ (مسند احمد بن حنبل:5/156)

مہمان نوازی او رحق جوار

آپ کی غذا زیادہ تر بکریوں کا دودھ تھا، لیکن اس میں بھی مہمانوں اور پڑوسیوں کوشریک کرتے تھے، عمیلہ فزاری روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے ایک شخص اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتا تھا کہ ابو ذر رضی الله عنہ دودھ دوھ کر پہلے مہمانوں اور پڑوسیوں کو پلاتے تھے، ایک مرتبہ دودھ اور کھجوریں لے کر پڑوسیوں او رمہمانوں کے سامنے پیش کرکے معذرت کرنے لگے کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، اگر ہوتا تو پیش کرتا، چناں چہ جو کچھ تھا سب دوسروں کو کھلا دیا اور خود بھوکے سو رہے۔ ( ابن سعد، ج4،ص:174)

خوش اخلاقی

عموماً زہاد متقشفین کے مزاج میں ایک طرح کی خشکی ہوتی ہے، لیکن مسیح الاسلام کی ذات اس سے مستثنیٰ تھی، ان کا اخلاق بدویوں تک کو مسحور کر لیتا تھا، ایک بدوی کا بیان ہے کہ میں ابو ذر کے ساتھ رہا ہوں، ان کی تمام اخلاقی خوبیاں تعجب انگیز تھیں۔ (ایضا،ص:174)

وہ جن اخلاقی اصول پر عمل پیرا تھے ان کو خود سناتے تھے کہ ”میرے دوست صلی الله علیہ وسلم نے مجھے سات وصیتیں کی ہیں،مساکین کی محبت او ران سے ملنا جلنا، اپنے سے کمتر کو دیکھنا او ربلند تر کو نہ دیکھنا، کسی سے سوال نہ کرنا، صلہ رحمی کرنا، حق بولنا، خواہ تلخ ہی کیوں نہ ہو، خدا کے معاملہ میں کسی کی ملامت کا خوف نہ کرنا، لاحول ولا قوة کا ورد کثرت سے کرنا۔ (ابن سعد ج4 ،ق:1/168)

بہشت کے باسی سے متعلق