سید الشہداء حضرت حمزہؓ

سید الشہداء حضرت حمزہؓ

مفتی محمد عبدالله قاسمی

یوں تو تمام صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم شجاعت و بہادری، استقلال وپامردی اور عزیمت وجوان مردی کی مجسم تصویر تھے اور شر پسند کفار ومشرکین سے مقابلے کا پختہ عزم رکھتے تھے، لیکن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بابرکت شخصیت اس حوالہ سے نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتی ہے، آپ رضی اللہ عنہ کی مثال کواکب صحابہ میں اس ماہ وانجم کی تھی جس سے بھٹکے ہوئے لوگ راہ پاتے ہیں ، گلشن جہاد میں اس گل سرسبد کی تھی جس کی مہک مشام جاں کو معطر کرتی ہے، کاروان جہاد میں اس میر کارواں کی تھی جس کے سایہ میں مجاہدین کا حوصلہ فزوں ہوتا تھا،آپ رضی اللہ عنہ کی اقدامی کارروائیوں میں اس بجلی کی کڑک تھی جس کی وجہ سے دشمنوں کے دلوں میں رعب اور خوف چھا جاتا تھا، آپ کی فضا میں لہرانے والی تلوار سے فریق مخالف کانپتا اور تھراتا تھا، آپ کے بے باکانہ اور جرأت مندانہ اقدامات موجودہ حالات میں ہم کسل مندوں کے لیے ہمت افزا اور حوصلہ بخش ہیں، خوف وبزدلی کے خاتمہ کے لیے سامان تریاق ہیں، مرد مومن کے اندرون میں چھپی ہوئی شجاعت و جواں مردی کی چنگاری کو شعلہ بنانے والے ہیں، ضرورت ہے کہ ہم ان کے ایمان افروز واقعات کا غور سے مطالعہ کریں اور ان کے فطری نہج پر اپنی زندگیوں کو استوار کرنے کی کوشش کریں۔

گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ قریش کے بڑے غیور اور حوصلہ مند نوجوانوں میں سے تھے، مظلوم اور ستائے ہوئے لوگوں کی پناہ گاہ تھے، ظلم شعار اور شرپسند عناصر پر بجلی بن کر کوندتے تھے اور سربرآوردہ لوگوں کا سامنا کرنے اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے، چناں چہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا، اور ہدایت و توحید کی ضیاپاش کرنوں سے مکی سماج کو منور کرنا شروع کیا، تو کفر وشرک کے علم برداروں نے اس کی علانیہ طور پر مخالفت کی اور منصوبہ بند طریقہ پر ان کے فولادی ہاتھوں نے داعی اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے آفاقی اور عالم گیر مشن کا گلا گھوٹنے کی کوشش کی، اس ناپاک اور مذموم منصوبہ کے پیچھے ابوجہل اور اس کے ہم نوا لوگ تھے، ابوجہل صفا پہاڑی کے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب گیا اور اس دریدہ دہن نے جی بھر کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا، طعن و تشنیع کی، اور شان اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں بڑی گستاخی کی،کفار ومشرکین …جو اس عارضی زندگی پر اپنی جان نچھاور کرتے ہیں اور مرنے کے بعد کی پائیدار زندگی پر یقین نہیں رکھتے ہیں… کی عادتیں ایسی ہی سطحی اور گھٹیا ہوتی ہیں، وہ حق وصداقت کے علم برداروں کے بارے میں نازیبا الفاظ اور گستاخانہ تبصروں کے ذریعہ اپنی اسلام دشمنی کا اظہار کرتے ہیں، ابوجہل مرچکا ہے، اور پیوند خاک ہوکر نشان عبرت بن چکا ہے؛ لیکن اس کے کردار کی جھلک ہر دور میں آپ کو نظر آئے گی، آپ سماج میں نظر دوڑائیے اس کی چلتی پھرتی تصویر دکھائی دے گی، خاص طور سے موجودہ دور، جب کہ سوشل میڈیا کا دور ہے، ترسیل وابلاغ کے ذرائع ہر ایک کو میسر ہیں، اپنی بات دوسروں تک ؛ بلکہ دنیا کے چپہ چپہ تک پہنچانے کی سہولیات ہر کس و ناکس کو حاصل ہے، ایسے میں بہت سے ابوجہل معاشرہ انسانی میں ظہور پذیر ہورہے ہیں اور اپنی دریدہ دہنی اور دشنام طرازی سے معاشرے کی فضا کو مکدر کررہے ہیں،وقت گزرنے کے ساتھ بہت سے نفرتی کیڑے جنم لے رہے ہیں، جو اپنے زہر آلود اثرات سے سماج کو کمزور کررہے ہیں اور نسل نو کے دل ودماغ میں زہر بھر رہے ہیں، قربان جائیے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ نے ابوجہل کی اس گستاخانہ حرکتوں پر صبر وتحمل سے کام لیا، اور اپنے طرز عمل سے جواب آں غزل کا رنگ پیدا ہونے نہیں دیا، اخلاق کا یہ اعلی نمونہ ہر مومن کو پیش کرنا چاہیے،جاہلوں اور نادانوں سے الجھنا اور ان سے بحث کرنا ایک مرد مومن کو زیب نہیں دیتا، وہ تو جہالت سے پیش آنے والوں سے راستہ کتراکر اپنے بلند اور آفاقی نصب العین کی تکمیل میں لگا رہتا ہے اور مندرجہ ذیل آیت کی مجسم تصویر ہوتاہے: ﴿وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا﴾․(الفرقان)

اور جب جاہل لوگ ان سے جاہلانہ خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں۔
سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جب شام کو شکار کرکے لوٹتے ہیں تو عبداللہ بن جدعان کی باندی… جو سارا ماجرا بچشم خود دیکھتی ہے…حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو پورا واقعہ بتلاتی ہے، اپنے بھتیجے کے ساتھ ابوجہل کی اس اوچھی حرکت کو سن کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی رگ حمیت پھڑک اٹھتی ہے، گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لینے کے لیے خون جوش مارنے لگتا ہے اور سیدھا ابوجہل کے پاس پہنچتے ہیں، وہ اپنے احباب ہم خیال کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوتاہے، لہو ولعب اور تمسخر و دل لگی میں مشغول ہوتا ہے، یکایک عاشق حضرت امیر حمزہ مجلس کو چیرتے ہوئے پہنچتے ہیں اور اس گستاخ رسول کے قریب پہنچ کر اتنی زور سے اس کے سر پر کمان دے مارتے ہیں کہ وہ لہولہان ہوجاتا ہے اور اس کا سر شدید زخمی ہوجاتا ہے، اور اس گستاخ رسول سے کہتے ہیں کہ تمہاری یہ جرأت کہ میرے بھتیجے کو گالی دو اور اسے برا بھلا کہو، لو اب میں ان ہی کے دین کو اختیار کرتا ہوں اور وہی کہتا ہوں جو وہ کہتے ہیں۔ ابوجہل جس نے کچھ دیر پہلے شان اقدس میں گستاخی کی تھی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جی بھر کر برا بھلا کہا تھا، اب وہ سید الشہداء کے سامنے بھیگی بلی بنا ہوا تھا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے سامنے اس کی زبان گنگ ہو گئی تھی، ابوجہل کے قبیلے کے کچھ لوگ بدلہ لینے کے لیے اٹھے؛ لیکن ابوجہل نے بھانپ لیا کہ اس بے باک اور نڈر شخص سے مقابلہ کرنا ان گیڈروں کے بس کی بات نہیں ہے ، وہ مقابلے پر آجائیں اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ انہیں چاروں شانے چت کر دیں تو یہ مزید اس کے لیے اور اس کے قبیلے کے لیے ذلت و رسوائی کا سامان ہوگا؛ اس لیے اس نے اپنے لوگوں کو بدلہ لینے سے منع کر دیا اور کہنے لگا کہ اس میں میری ہی غلطی تھی کہ میں نے ان کے بھتیجے کو برا بھلا کہا اور اس پر ناحق زیادتی کی۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا دفاع ابو عمارہ حضرت حمزہ رضی اللہ نے اس زمانے میں کیا تھا جب کہ وہ دامن اسلام سے وابستہ نہیں ہوئے تھے؛ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظمت و احترام کے تاب ناک نقوش نے ان کو متاثر کیا تھا اور غیر محسوس طریقے پر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نشے نے ان کو بے خود کر دیا تھا ،اسی بے خودی اور بے قراری کا اظہار ابوجہل کے ناموس رسالت پر حملہ کرنے پر ہوا تھا ، اور واقعہ بھی یہی ہے کہ جو آدمی پاکیزہ طبیعت اور حسن مزاج کا حامل ہوتا ہے وہ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن و تاب ناک زندگی کو دیکھے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا غیر جانب داری سے مطالعہ کرے اور اس حوالہ سے تعصب و ہٹ دھرمی کا ثبوت نہ دے تو وہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تیر نیم کش سے خود کو بچا لے یہ مشکل ہوتا ہے، اسی مضمون کو کسی شاعر نے کچھ اس طرح اپنے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے:
        ہم کسی دین سے ہوں قائل کردار تو ہیں
        ہم ثنا خواں شہ حیدر کرار تو ہیں
        نام لیوا ہیں محمد کے پرستار تو ہیں
        یعنی مجبور بہ احمد مختار تو ہیں
        عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
        صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
جب ایک غیر مسلم (حمزہ انہوں نے ایمان قبول کرنے سے پہلے شاتم رسول کو سبق سکھایا تھا) کے عشق رسول کا یہ حال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و جاں نثاری کا یہ عالم ہے تو ایک مومن صادق کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسا گہرا تعلق ہونا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایک سچے عاشق رسول کا کیا جذبہ ہونا چاہیے؟ آج اگر کسی انسان کے متعلق منفی تبصرے کیے جائیں، اس کے عیوب و نقائص کو منظر عام پر لایا جائے تو وہ مضطرب اور پریشان ہو جاتا ہے، اپنی عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کرتا ہے، کبھی جوش انتقام سے مغلوب ہو کر فریق مخالف کو سبق سکھانے سے بھی گریز نہیں کرتا، آخر کیا وجہ ہے کہ سرور دوعالم، رحمت مجسم، شہنشاہ دو جہاں، نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا تبصرہ کیے جاتے ہیں؛ لیکن ہمارے دلوں میں درد وکرب نہیں اٹھتا، ہمارے اندرون میں اس کی خلش اور کسک نہیں اٹھتی، شاتم رسول کے بارے میں ہماری زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں، ہمارے قلم کی روشنائی خشک ہو جاتی ہے؟! امام مالک رحمة اللہ علیہ سے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : اگر وہ زندہ ہو تو پوری امت کو ڈوب مرنا چاہیے ۔ اس لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور ناموس رسالت کو تاتار کرنے والے بد بختوں کے حوالے سے یہ واضح لائحہ عمل فراہم کرتا ہے۔

غزوہ بدر میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شجاعت و بہادری
غزوہ بدر اسلامی غزوات کے مابین گل سرسبد کی حیثیت رکھتا ہے، مجاہدین اسلام کی داستان جہد وعزیمت آج بھی اپنے جلو میں عجیب تابانی اور ضیا گستری رکھتی ہے اور جوش و ولولہ کو بڑھانے کا کام کرتی ہے، صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوہ بدر میں سرفروشانہ کوشش آج بھی کافروں کے مابین صف ماتم بچھاتی ہیں، اور ایوان کفر میں زلزلہ برپا کرتی ہیں، اس تاریخ ساز معرکہ میں جن صحابہ کرام نے اپنی بہادری اور جواں مردی کے تاب ناک نقوش چھوڑے ہیں ان میں ایک مرکزی کردار سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے اس خون ریز معرکہ میں کافروں کے اوپر شیر کی طرح حملہ کیا اور جو کافر بھی آپ کے مقابلے پر آیا آپ نے اسے بلا جھجک خون میں نہلا دیا، جب کسی آشفتہ سر بہادر نے آپ رضی اللہ عنہ سے ٹکرانے کی کوشش کی وہ پاش پاش ہو گیا، اسلامی کارواں کا یہ مرد مجاہد کافروں کے لشکر پر آندھی بن کر ٹوٹا اور مشرکین کی صفوں کی صفوں کو کاٹ کر رکھ دیا، آپ کے دستار پر شتر مرغ کی کلغی تھی اور دونوں ہاتھ میں تلواریں تھی، آپ کفار ومشرکین کی صف میں جدھر گھستے لشکر کے اس حصے میں ایک طوفان برپا ہوجاتا اور موت کا رقص جاری ہونے لگتا، بالآخر کافروں کو ہزیمت ناک شکست ہوئی اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے ، کسی نے پوچھا یہ شتر مرغ کی کلغی لگائے ہوئے کون تھا؟ لوگوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا تو وہ کہنے لگا کہ آج ہم کو سب سے زیادہ نقصان اسی نے پہنچایا ہے۔

غزوہ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شجاعت و جوان مردی اور شہادت
بدر کے میدان میں کافروں کو ذلت آمیز شکست ہوئی اور ان کے بڑے قد آور سردار اور رہ نما مارے گئے تو اس واقعہ نے کافروں کو مشتعل اور چراغ پا کر دیا اور ان کی حمیت و غیرت کے لیے تازیانے کا کام کیا، چناں چہ وہ پوری تیاری کے ساتھ جدید قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر دوبارہ مسلمانوں سے مقابلے کے لیے نکل کھڑے ہوئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے مشاورت کے بعد دشمنوں کا سامنا کرنے کے لیے نکلے،کوہ احد میں اسلامی لشکر اور کفار کے لشکر کا آمنا سامنا ہوا ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بڑی بہادری اور جانثاری کے ساتھ کافروں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے لگے اور کافروں کے ٹڈی دل لشکر میں گھس کر کشتوں کے پشتے لگادیے، ایک مرد مجاہد کا یہی حال ہوتا ہے، دشمن خدا سے ایک بہادر شیر کی مانند پنجہ آزمائی کرتا ہے اور اس پر قابو پالینے کے بعد ذرہ برابر نرمی سے کام نہیں لیتا، مسلمانوں کے مقابلہ میں آنے والے اور ان کی عزت وآبرو سے کھلواڑ کرنے والوں کا یہی حال ہونا چاہیے اور انہیں کسی قیمت پر بخشنا نہیں چاہیے، چوں کہ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر میں چن چن کر بڑے بڑے رہ نماؤں کو تہہ تیغ کیا تھا اور ان کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کیا تھا؛ اس لیے سارے مشرکین اس مرد مجاہد کے خون کے سب سے زیادہ پیاسے تھے، چناں چہ جبیر بن مطعم نے اپنے چچا طعیمہ بن عدی کا انتقام لینے کے لیے ایک وحشی غلام کو تیار کیا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے پر آزادی کا لالچ دیا،یہ وحشی غلام اس مرد مجاہد سے بدلہ لینے ایک چٹان کے پیچھے گھات میں بیٹھ گیا اور جوں ہی یہ مرد مجاہد اس چٹان کے قریب سے گزرا تو اس نے نشانہ تاک کر ایسا نیزہ مارا کہ وہ آپ کے جسم کے آر پار ہو گیا اور اس کاری ضرب سے نڈھال ہوکر آپ گر پڑے اور شہید ہو گئے، اس طرح یہ مجاہد ہزار داستان ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا؛ لیکن اپنے پیچھے شجاعت وبہادری اور حوصلہ و جواں مردی کے تاب ناک نقوش چھوڑ گیا،امت مسلمہ پر کفار و مشرکین کے رعب ودبدبہ کی دھوپ میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی دلیرانہ زندگی سایہ کی حیثیت رکھتی ہے،یہی دلیرانہ اور جرأت مندانہ موقف خوش گوار اور صالح انقلاب کا ضامن ہے ، اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ بحال ہونے کا جلی عنوان ہے۔