حضرت جعفر طیار رضی الله عنہ

حضرت جعفر طیار رضی الله عنہ

مولانا معین الدین ندوی

نام ، نسب
جعفر نام، ابو عبدالله کنیت، والد کا نام عبدالمناف(ابوطالب) اور والدہ کا نام فاطمہ تھا، شجرہٴ نسب یہ ہے۔ جعفر بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی القرشی الہاشمی۔

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ابن عم او رحضرت علی کرم الله وجہہ کے سگے بھائی تھے او رعمر میں ان سے تقریباً دس (10) سال بڑے تھے۔

اسلام
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ایک روز حضرت علی رضی الله عنہ کے ساتھ مشغول عبادت تھے، خاندان ِ ہاشم کے سردار ابو طالب نے اپنے دو عزیزوں کو بارگاہ صمدیت میں سر بسجود دیکھا تو دل میں خاص اثر ہوا، اپنے صاحب زادہ حضرت جعفر رضی الله عنہ کی طرف دیکھ کر کہا: ”جعفر! تم بھی اپنے ابن عم کے پہلو میں کھڑے ہو جاؤ“۔ حضرت جعفر رضی الله عنہ نے بائیں طرف کھڑے ہو کر نماز ادا کی، ان کو خدائے لایزال کی عبادت وپرستش میں ایسا مزہ ملا کہ وہ بہت جلد، یعنی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے زید بن ارقم رضی الله عنہ کے گھر میں پناہ گزیں ہونے کے قبل، ہمیشہ کے لیے اس کے پرستاروں میں داخل ہوئے۔ اس وقت تک اکتیں بتیس آدمی اس سعادت سے مشرف ہوئے تھے۔

ہجرت ِ حبش
مشرکین مکہ کی ستم آرائیوں سے تنگ آکر جب مسلمانوں کی جماعت نے حبش کی راہ لی تو حضرت جعفر رضی الله عنہ بھی اس کے ساتھ ہو گئے، لیکن قریش نے یہاں بھی چین لینے نہ دیا، نجاشی کے دربار میں مکہ سے گراں قدر تحائف کے ساتھ ایک وفد آیا او راس نے درباری پادریوں کو تائید پر آمادہ کرکے نجاشی سے درخواست کی کہ ”ہماری قوم کے چند ناسمجھ نوجوان اپنے آبائی مذہب سے برگشتہ ہو کر حضور کے قلم روئے حکومت میں چلے آئے ہیں، انہوں نے ایک ایسا نرالا مذہب ایجاد کیا ہے جس کو پہلے کوئی جانتا بھی نہ تھا، ہم کو ان کے بزرگوں اور رشتہ داروں نے بھیجا ہے کہ حضور ان لوگوں کو ہمارے ساتھ واپس کر دیں“۔ درباریوں نے بھی بلند آہنگی کے ساتھ اس مطالبہ کی تائید کی، نجاشی نے مسلمانوں کو بلا کر پوچھا کہ ”وہ کون سا نیا مذہب ہے جس کے لیے تم لوگوں نے اپنا خاندانی مذہب چھوڑ دیا ہے؟“

حضرت جعفر رضی الله عنہ کی دربار ِ حبش میں اسلام پر تقریر
مسلمانوں نے نجاشی سے گفت گو کے لیے اپنی طرف سے حضرت جعفر رضی الله عنہ کو منتخب کیا، انہوں نے اس طرح تقریر کی: ”بادشاہ سلامت! ہماری قوم نہایت جاہل تھی، ہم بت پوجتے تھے ،مردار کھاتے تھے، بد کاریاں کرتے تھے، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو ستاتے تھے، طاقت ور کم زوروں کوکھا جاتا تھا، غرض ہم اسی بدبختی میں تھے کہ خدا نے خود ہی ہماری جماعت میں سے، ایک شخص کو ہمارے پاس رسول بنا کر بھیجا، ہم اس کی شرافت ، راستی، دیانت داری اور پاک بازی سے اچھی طرح آگاہ تھے، اس نے ہم کو شرک وبت پرستی سے روک کر توحید کی دعوت دی، راست بازی، امانت داری، ہمسایہ اور رشتہ داروں سے محبت کا سبق ہم کوسکھایا اور ہم سے کہا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں، بے وجہ دنیا میں خوں ریزی نہ کریں، بت پرستی چھوڑ دیں، ایک خدا پر ایمان لائیں، نماز پڑھیں، روزے رکھیں، زکوٰة دیں، ہم اس پر ایمان لائے او راس کی تعلیم پر چلے، ہم نے بتوں کو پوجنا چھوڑا، صرف ایک خدا کی پرستش کی اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا، اس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی، اس نے طرح طرح سے ظلم وتشدد کرکے ہم کو پھر بت پرستی او رجاہلیت کے برے کاموں میں مبتلا کرنا چاہا، یہاں تک کہ ہم لوگ ان کے ظلم وستم سے تنگ آکر آپ کی حکومت میں چلے آئے۔“

نجاشی نے کہا:”تمہارے نبی پر جو کتاب نازل ہوئی اس کو کہیں سے پڑھ کر سناؤ“۔ حضرت جعفر رضی الله عنہ نے سورہٴ مریم کی چند آیتیں تلاوت کیں تو نجاشی پر ایک خاص کیفیت طاری ہو گئی۔ اس نے کہا: ”خدا کی قسم! یہ اور تورات ایک ہی چراغ کے پر توہیں“ اور قریش کے سفیروں سے مخاطب ہو کر کہا: ”والله! میں ان کو کبھی واپس جانے نہ دوں گا“۔

سفرائے قریش نے ایک دفعہ پھر کوشش کی اور دوسرے روز دربار میں باریاب ہو کر عرض کی:”حضور! کچھ یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ان لوگوں کا کیا خیال ہے؟“ نجاشی نے جواب دینے کے لیے مسلمانوں کو بلایا، ان لوگوں کو سخت تردد تھا کہ کیا جواب دیں۔ حضرت جعفر رضی الله عنہ نے کہا کچھ بھی ہو، خدا اور سول نے جو کچھ بتایا ہے ،ہم اس سے انحراف نہیں کریں گے، غرض دربار میں پہنچے تو نجاشی نے پوچھا:”حضرت عیسیٰ علیہ لاسلام کی نسبت تمہارا کیا اعتقاد ہے؟“ حضرت جعفر رضی الله عنہ نے کہا:”ہم ان کو خدا کا بندہ، پیغمبر اور اس کی روح مانتے ہیں“۔ نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کرکہا:”والله جو کچھ تم نے کہا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اس سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں ہیں“۔ یہ سن کر دربار کے پادری، جو ابن الله کا عقیدہ رکھتے تھے، نہایت برہم ہوئے، نتھنوں سے خرخراہٹ کی آوازیں آنے لگیں، لیکن نجاشی نے کچھ پروا نہ کی اور قریش کی سفارت ناکام واپس آئی ۔

حبش سے مدینہ
حضرت جعفر رضی الله عنہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے مدینہ کی ہجرت کے چھ سال بعد تک حبش ہی میں رہے، 7ھ میں وہ حبش سیمدینہ آئے، یہ وہ زمانہ تھا کہ خیبر فتح ہو گیا تھا وار مسلمان اس کی خوشی منارہے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے ان دورافتادہ بھائیوں کی واپسی کی دوہری خوشی حاصل ہوئی، حضرت جعفر رضی الله عنہ سامنے آئے تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کو گلے سے لگایا اور پیشانی چوم کر فرمایا:” میں نہیں جانتا کہ مجھ کو جعفر کے آنے سے زیادہ خوشی ہوئی یا خیبر کی فتح سے“۔ (طبقات ابن سعد، جلد4 ،قسم اوّل، ص123۔ مختصراً بخاری ذکر غزوہ خیبر میں ہے)

حضرت جعفر رضی الله عنہ کی واپسی کو ابھی ایک سال بھی گزرنے نہ پایا تھا کہ ان کے امتحان کا وقت آگیا۔

غزوہٴ موتہ
جمادی الاولیٰ8ھ میں موتہ پر فوج کشی ہوئی، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فوج کا علم حضرت زید بن حارثہ رضی الله عنہ کو عطا کرکے فرمایا کہ ”اگر زید شہید ہوں تو جعفر (رضی الله عنہ ) اور اگر جعفر (رضی الله عنہ) بھی شہید ہوں تو عبدالله بن رواحہ (رضی الله عنہ) اس جماعت کے امیرہوں گے“۔(بخاری ،کتاب المغازی، باب غزوہ موتہ)
چوں کہ حضرت جعفر رضی الله عنہ کو اپنے مخصوص تعلقات کی بنا پر متوقع تھے کہ شرفت امارت ان ہی کوحاصل ہوگا، اس لیے انہوں نے کھڑے ہو کر عرض کی یا رسول الله ! میرا کبھی یہ خیال نہ تھاکہ آپ زید (رضی الله عنہ ) کو مجھ پر امیر بنائیں گے“۔ ارشاد ہوا:” اس کو جانے دو، تم نہیں جان سکتے کہ بہتری کس میں ہے “۔ (طبقات ابن سعد، قسم اوّل:3/32) آں حضرت صلی الله علیہ وسلم اس غروہ کے انجام ونتیجہ سے آگاہ تھے، اس لیے فرمایا کہ اگر زید (رضی الله عنہ) شہید ہوں تو جعفر علم سنبھالیں، اگر وہ بھی شہید ہوں تو عبدالله بن رواحہ(رضی الله عنہ) ان کی جگہ لیں۔ (طبقات ابن سعد ،حصہ مغازی، غزوہ ٴ موتہ)

شہادت
موتہ پہنچ کر معرکہ کا ر زار گرم ہوا، تین ہزار غازیان ِ دین کے مقابلہ میں غنیم کا ایک لاکھ ٹڈی دل لشکر تھا، امیر فوج حضرت زید رضی الله عنہ شہید ہوئے تو حضرت جعفر رضی الله عنہ گھوڑے سے کود پڑے اور علم کو سنبھال کر غنیم کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھے ، دشمنوں کا ہر طرف سے نرغہ تھا، تیغ وتبر، تیروسنان کی بارش ہورہی تھی، یہاں تک کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی ہو گیا، دونوں ہاتھ بھی یکے بعد دیگر شہید ہوئے ،مگر اس جاں باز نے اس حالت میں بھی توحید کے جھنڈے کو سرنگوں ہونے نہ دیا۔ (اسد الغابہ:1/288) بالآخر شہید ہو کر گرے تو عبدالله بن رواحہ رضی الله عنہ نے او ران کے بعد حضرت خالد سیف الله رضی الله عنہ نے علم ہاتھ میں لیا اور مسلمانوں کو بچا لائے۔ (طبقات ابن سعد،حصہ مغازی)

حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما اس جنگ میں شریک تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے جعفر کی لاش کو تلاش کرکے دیکھا تو صرف سامنے کی طر ف پچاس زخم تھے، تمام بدن کے زخموں کا شمار تو نوے سے بھی متجاوز تھا۔ (بخاری، باب غزوہٴ موتہ) لیکن ان میں سے کوئی زخم پشت پر نہ تھا۔ (بخاری، باب غزوہ موتہ)

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا حزن وملال
میدان ِ جنگ میں جو کچھ ہو رہا تھا، خدا کے حکم سے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی الله عنہ وغیرہ کی شہادت کا حال بیان فرما دیا، اس وقت آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اورروئے انور پر حزن وملال کے آثار نمایں تھے۔ (اسد الغابہ:1/288)

حضرت جعفر رضی الله عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں آٹا گوندھ چکی تھی اور لڑکوں کو نہلا دکھلا کر صاف کپڑے پہنا رہی تھی کے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا جعفر (رضی الله عنہ ) کے بچوں کو لاؤ، میں نے ان کو حاضر خدمت کیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے آبدیدہ ہو کر ان کو پیار فرمایا، میں نے کہا میری ماں باپ فدا ہوں، حضور آبدیدہ کیوں ہیں؟ کیا جعفر اور ان کے ساتھیوں کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے فرمایا: ہاں ! وہ شہید ہو گئے۔ یہ سن کر میں چیخنے چلانے لگی، محلہ کی عورتیں میرے ارد گرد جمع ہو گئیں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے او رازواج مطہرات رضی الله عہن سے فرمایا کہ آلِ جعفر کا خیال رکھنا، آج وہ اپنے ہوش میں نہیں ہیں۔(مستدرک حاکم:3/209)

سیدہٴ جنت حضرت فاطمہ زہر رضی الله عنہا کو بھی اپنے عم محترم کی مفارقت کاشدید غم تھا، شہادت کی خبر سن کر بادیدہٴ تر واعماہ! واعماہ! کہتے ہوئے بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئیں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک! جعفر(رضی الله عنہ) جیسے شخص پر رونے والیوں کو رونا چاہیے“۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو عرصہ تک شدید غم رہا، یہاں تک کہ روح الامین نے یہ بشارت دی کہ ”خدا نے جعفر رضی الله عنہ کو دو کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلہ میں دو نئے باز وعنایت کیے ہیں، جن سے وہ ملائکہ جنت کے ساتھ مصرفِ پرواز رہتے ہیں“۔ (مستدرک حاکم:3/209) چناں دوالجناحین اورطیاران کا لقب ہو گیا۔

فضائل ومحاسن
حضرت جعفر رضی الله عنہ کشادہ دست وفیاض تھے، غرباء ومساکین کو کھانا کھلانے میں ان کو خاص لطف حاصل ہوتا تھا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ان کو ابوا لمساکین کے نام سے یاد فرمایا کرتے تھے، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں اکثربھوک کے باعث پیٹ کو کنکروں سے دبائے رکھتاتھا اور آیت یاد بھی رہتی تو اس کو لوگوں سے پوچھتا پھرتا کہ شاید کوئی مجھ اپنے گھر لے جائے او رکچھ کھلائے، لیکن میں نے جعفر (رضی الله عنہ) کو مسکینوں کے حق میں سب سے بہتر پایا، وہ ہم لوگوں (اصحاب صفہ) کو اپنے گھر لے جاتے تھے اور جو کچھ ہوتا تھا، سامنے لا کر رکھ دیتے تھے، یہاں تک کہ بعض اوقات گھی یا شہد کا خالی مشکیزہ تک لا دیتے اوراس کو پھاڑ کر ہمارے سامنے رکھ دیتے او رہم اس کو چاٹ لیتے تھے۔ (صحیح بخاری، مناقب حضرت جعفر رضی الله عنہ)

حضرت جعفر رضی الله عنہ کے فضائل ومناقب کا پایہ نہایت بلند تھا، خود آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کرتے تھے کہ ”جعفر (رضی الله عنہ )! تم میری صورت وسیرت دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو۔ (صحیح بخاری منقابی حضرت جعفر رضی الله عنہ ) آں حضرت صلی الله علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ ”مجھ سے پہلے جس قدر نبی گذرے ہیں ان کو صرف سات رفیق دیئے گئے تھے، لیکن میرے رفقائے خاص کی تعداد چودہ ہے، ان میں سے ایک جعفر (رضی الله عنہ ) بھی ہیں “۔ ( جامع ترمذی مناقب اہل بیت) حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ”رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد جعفر رضی الله عنہ سب سے افضل ہیں“۔( جامع ترمذی، مناقب حضرت جعفر رضی الله عنہ ) حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ ان کے صاحب زادہ کو سلام کرتے تو کہتے:”السلام علیک یا ابن ذی الجناحین“․(صحیح بخاری، غزوہ موتہ) حضرت عبدا لله بن جعفر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں حضرت علی رضی الله عنہ سے کچھ مانگتا تو وہ انکار کردیتے، لیکن جب اپنے والد جعفر رضی الله عنہ کا واسطہ دیتا تو بغیر کچھ دیے نہ رہتے۔

ازواج واولاد
بیویوں کی صحیح تعداد نہیں معلوم، آپ کی بیوی اسماء سے تین صاحب زادے تھے، عبدالله، محمد اور عون، ان میں صرف عبدالله سے نسل چلی۔