یہ جامع قرآن ہیں عثمان غنیؓ ہیں

یہ جامع قرآن ہیں عثمان غنیؓ ہیں

عبدالرشید طلحہ نعمانی#

خلیفہٴ ثالث سیدنا عثمان  کی شخصیت تاریخ اسلام کی وہ عبقری اورنایاب شخصیت ہے جن کا دور ِ خلافت بے مثال اصلاحات، رفاہی مہمات اور اہم دینی خدمات سے عبارت ہے ۔خود آپ کی ذات والا صفات کو جہاں حافظ قرآن،کاتب ِقرآن، جامع قرآن، ناشرِ قرآن، کامل الحیاء والایمان، صاحب النبی فی الجنان، ذوالنورین اور ذو الہجرتین ہونے کا شرف حاصل ہے ، وہیں آپ کا شمار السابقون الاولون اور عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے ؛ جن کی صاف وشفاف زندگی کے مختلف النوع گوشوں میں عمدہ سیرت، اعلیٰ کردار اور مثالی اخلاق کے ایسے غیر فانی اور لاثانی نقوش ہیں کہ ایک کوتاہ علم تاریخ نویس اس کے ہر ہر پہلو کو اجاگر کرنے سے عاجز وقاصر ہے ، بالخصوص آپ کا عہد ِخلافت اور واقعہ شہادت تاریخ اسلام کا وہ معرکہ آرا حصہ ہے کہ دریدہ قلم موٴر خین اور جانب دارارباب صحافت تو درکنار محتاط اور ثقہ مصنفین بھی حضرت عثمان  پر کیے جانے والے اعتراضات کا اس طرح جواب دیتے ہیں کہ گویا معذرت کررہے ہوں ۔

اس حوالے سے پروفیسر خلیق احمد نظامی کا رقم کردہ یہ اقتباس بڑا ہی چشم کشا ثابت ہوگا ،موصوف ارقام فرماتے ہیں :”حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اور موٴرخین دونوں نے حضرت عثمان  کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے، ان کے عہد کے فتنوں کے جائزے میں الجھ کران کی سیرت وکارناموں کے بہت سے پہلو نظروں سے اوجھل ہورہے ہیں ، ان کی عہد کے فتوحات تاریخ اسلام کا ایک شان دارباب ہیں، انہوں نے آرمینیہ، آذر بائیجان، ایشیائے کوچک، ترکستان، کابل، سندھ، قبرص، اسپین وغیرہ میں عربوں کے سیاسی اقتدار کے لیے راہیں ہموار کردی تھیں، ان ہی کے زمانہ میں بحری طاقت منظم ہوئی، بیشتر نظام حکومت کے معاملات میں گو وہ حضرت عمر کے نقش قدم پر چلے، لیکن طبیعت کی نرمی اور غیر معمولی حلم سے مخالفین نے فائدہ اٹھا کر ہر طرف سازشوں کا جال بچھادیا(پیش لفظ عثمان ذوالنورین )

تفویض ِ خلافت سے قبل آپ کی اہم ترین خدمات پر ایک نظر
سیدنا عثمان  نے ابتدائی زمانہ اسلام ہی میں اسلام قبو ل کرلیا تھا، کچھ ہی عرصہ بعد آپ کا نکاح آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی صاحب زادی حضرت رقیہ سے ہوگیا ،بعد ازاں 5/نبوی میں آپ کو ہجرت حبشہ کا شرف بھی حاصل ہوا، اس طرح راہ اسلام میں اپنا آبائی وطن ترک کرکے حبشہ روانہ ہوگئے ، پھر جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت فرمائی تو آپ بھی مدینہ چلے آئے، جہاں آپ نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے گراں قدر کارہائے نمایاں انجام دیے ۔

بئررومہ
مدینہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کو میٹھے پانی کی بڑی تکلیف تھی، شہر مدینہ میں رومہ کے نام سے میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا، حضرت عثمان  نے 35ہزار درہم کے عوض یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا، جس پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی۔

مسجد نبوی کی توسیع
مسجد نبوی کے رقبہ میں پہلا اضافہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ایماء پر حضرت عثمان  ہی نے فرمایا تھا اور مسجد سے متصل ایک قطعہ زمین بروایت تاریخ ابن کثیر 25 ہزار درہم میں خرید کر مسجد میں شامل فرمادیا، بعد ازاں اپنے عہد خلافت میں بھی مسجد نبوی کی تعمیر وتوسیع میں نمایاں حصہ لیا اور خصوصی توجہ فرمائی۔

سفارت ونمائندگی رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم
6ہجری کے دوران واقعہ حدیبیہ کے نازک موقع پر حضرت عثمان ہی تھے جنہوں نے سفارت کے فرائض انجام دیے اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے نمائندے کی حیثیت سے آپ کا پیغام قریش تک پہنچایا اور اس سلسلہ میں اپنی جان تک کی پروا نہ فرمائی، اسی موقع پر آپ  کے قتل کی افواہ اڑائی گئی تو نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے آپ کا قصاص لینے کے لیے ایک درخت کے نیچے حضرات صحابہ  سے بیعت لی اور اس میں ایک دست مبارک کو حضرت عثمان کا ہاتھ قراردیا، تاریخ اسلام میں اس بیعت کا نام بیعت الرضوان یا بیعت الشجرہ ہے ، خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنے والوں کے لیے اپنی رضا اور خوش نودی کا اعلان فرمایا۔

سخاوت وفیاضی
حضرت عثمان کو جہاں اللہ نے ثروت ودولت سے سرفراز فرمایا وہیں آپ کے دل میں سخاوت وفیاضی کا قابل قدر جذبہ بھی خو ب خوب پیدا فرمایا، یوں تو ساری عمر آپ نے اپنا مال بڑی دریا دلی سے راہ اسلام میں خرچ فرمایا، تاہم غزوہ تبوک میں آپ کا مالی انفاق حد سے بڑھ گیا، علی اختلاف الروایاتدوسو اوقیہ چاندی اور دوسو اونٹ (مغازی رسول صلی الله علیہ وسلم للواقدی) ستر ہزار درہم (زرقانی وسیرت النبی صلی الله علیہ وسلم) ایک ہزار اونٹ، ستر ہزار گھوڑے اور ایک ہزار نقد دینار(انساب الاشراف بلاذری)آپ نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پیش فرمائے ، آپ صلی الله علیہ وسلم اس سخاوت سے اتنا خوش ہوئے کہ اپنے دست اقدس سے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کرتے اور فرماتے :ماضر عثمان ما عمل بعد ھذا الیوم․

خلافت اور فتوحات عثمانی
امیرالموٴمنین، خلیفة المسلمین سیدنا عمر فاروق  کی شہادت کے بعد4/ محرم الحرام 24ھ بروز دوشنبہ، حضرت عثمان  مسند نشین خلافت ہوئے اور کم وبیش بارہ سالہ قلیل عرصہ میں 44/لاکھ مربع میل کے وسیع وعریض خطے پر اسلامی سلطنت قائم کرنے اور نظامِ خلافت جاری رکھنے کا وہ لازوال کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے ۔

حضرت عمر نے اپنے عہد زریں میں جن عظیم الشان فتوحات کا سلسلہ شروع فرمایا تھا، حضرت عثمان نے نہ صرف یہ کہ ان فتوحات کو جاری رکھا؛ بلکہ ان میں غیر معمولی توسیع فرمائی، جو فتوحات نامکمل رہ گئی تھیں انہیں مکمل کیا، جہاں کہیں بغاوت ہوئی اس کا علی الفور تدارک کر کے حکومت میں استحکام پیدا کیا، پھر ایک ماہر جرنیل کی حیثیت سے مجاہدین ِاسلام کے لیے بحری جنگ کی تربیت کا لائحہ عمل تیار کیا ؛جس کے بعد جنگی بیڑے بنائے گئے ، بحری جنگ کے حربے سکھائے گئے ، اس طرح بحیرہ ٴروم کی موجوں پر تاریخِ اسلام کا پہلا بحری بیڑہ پرچم اسلام کو لہراتے ہوئے کود پڑا اور رومیوں پر اس طرح شب خوں مارا کہ ان کی قوت وسطوت کے سفینے ڈبودیے، جس کے نتیجہ میں فرانس ویورپ کے کئی ممالک اسلام کے آفاقی نظام سے واقف ہوئے اور سندھ، مکران، طبرستان وکابل سمیت متعدد ایشیائی ممالک حلقہ بگوشِ ِاسلام ہوئے ، ان سب کے باوجود حضرت عثمان تمام صوبوں کے گورنر، قاضی اور عمال کی چھان پھٹک کر کے نہایت زیرک اور محنتی حاکم مقرر کرتے اور آپ کا طریقہ تھا کہ ہر تین ماہ یا چھ ماہ بعد گورنروں اور حاکموں کے نام ہدایات جاری کرتے ، انہیں اپنے فرض منصبی سے آگاہ کرتے اور رعایا کے ساتھ عدل وانصاف کا امرفرماتے ، خود امیرالموٴمنین کی سادگی اور بے نفسی کا یہ عالم تھا کہ ابن سعد فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو اس حالت میں دیکھا کہ دوپہر کے وقت مسجد نبوی کے صحن میں کچی اینٹ کا تکیہ سرکے نیچے رکھے ہوئے آرام فرمارہے ہیں ، میں نے گھر جاکر اپنے والد سے دریافت کیا کہ ایسا حسین وجمیل شخص اس حالت میں کو ن تھا؟والد نے کہا کہ وہ امیر الموٴمنین سیدنا عثمان غنی  تھے (ابن کثیر  )۔

علاوہ ازیں انتظامی ورفاہی شعبوں کا اجراء، ہر علاقہ میں منصف عدالتوں کا قیام، شاہ راہوں اور مسافرخانوں کی مستقل تعمیر، مالیاتی نظام میں باقاعدگی کا اہتمام اور ان جیسے ان گنت کارنامے ہیں جو عہد عثمانی میں تاریخی یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

مختصر یہ کہ عہد ِعثمانی کے ابتدائی چھ سال پے درپے فتوحات، کام یابی وکام رانی، فتح مندی وظفر یابی کے جلی عنوان سے عبارت ہے ؛مگر دور ثانی جو پانچ چھ برس پر مشتمل ہے ، سخت انتشار وپراگندگی اور فتنہ وفساد کا دور ہے ،جسے اسلامی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔

بغاوت کے بنیادی عناصر اور آپ کی مظلومانہ شہادت
حضرت عثمان کا عہد ِخلافت سرمایہ کی بہتات اور اس کی عادلانہ تقسیم کا آئینہ دار تھا، آپ کو ایک طرف بیرونی محاذ پر رومیوں سے سابقہ پڑا تو دوسری طرف اندرونی محاذ پر دولت کے فتنے سے سابقہ پیش آیا ،آپ کے عہد زریں میں اسلامی فتوحات کا تانتا بندھ گیا، یوں دیار ِعرب کے صحراوٴں ، ایران کے لالہ زار وں اور روم کے جزیروں سے خمس وخراج وغیرہ کی صورت میں دولت کے انبار لگاتار اور سلسلہ وار مدینہ منور ہ پہنچتے رہے ، جس کی وجہ سے خوش حالی عام ہوگئی، دولت کی فراوانی نے عیش پرست نوجوانوں کو طاوٴس ورباب کی لعنت میں گرفتار کردیا، رومیوں اور ایرانیوں سے اختلاط کے باعث عیش وعشرت اور تکلفات کے طور طریقے عربوں میں بھی رائج ہونے لگے توحضرت عثمان یہ بے راہ روی برداشت نہ کرسکے اور بلاخوف لومة لائم اپنے کمانڈروں کو حکم جاری فرمایا کہ حکم شرعی کے پیش نظر حدود اور دیگر تعذیری سزائیں نافذ کی جائیں۔ اس طرح جب امیر زادوں کی سرکوبی کی گئی تو وہ اپنے قبیلوں سمیت حضرت عثمان کے مخالف ہوگئے ، داخلی محاذ پر بے چینی اور اضطراب کی یہ پہلی لہر تھی، جو دھیرے دھیرے تیز آندھی کی شکل اختیار کرگئی، دوسری طرف حضرت عثمان نے رومیوں کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے خلاف زبردست کارروائی کرتے ہوئے بحری جنگ کا آغاز فرمایا اور آناً فاناً انہیں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا، انہیں شکست خوردہ رومیوں اور ایرانیوں نے مسلمانوں کے خلاف گھات لگاکر رئیس المنافقین عبداللہ بن سبا کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع کردیا اور حضرت عثمان کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرنے لگے ، کوفہ میں جگہ جگہ اپنے اڈے قائم کیے ، خفیہ طور پر مختلف علاقوں میں لوگوں کو ورغلانا شروع کیا، پھر انجام کا ر اقربا پروری اور بیت المال میں خیانت کا جھوٹا الزام لگاکر اسلام کے پرشکوہ قصر ِخلافت کو مسمار کرنے کی زبردست سازش رچی، داخلی وخارجی محاذ پر یہ سرکش لہریں رفتہ رفتہ بے قابو ہوگئیں اور اس طرح موجیں مارنے لگیں کہ اپنے عہد کا سب سے بڑا خلیفہ عادل اپنے ہی گھر میں، تلاوت ِقرآن کے دوران، چالیس دن سے بھوکا اور پیاسا ہونے کی حالت میں انتہائی سفاکی اوربے رحمی کے ساتھ شہید کردیا گیا،انا للہ وانا الیہ راجعون․

المختصر
سیدنا عثمانکی حیات طیبہ بے شمار اسباق کا مجموعہ ہے، جس میں اسلام اور اہل اسلام کے تئیں ایثار وقربانی، قانون شکنی کے خلاف غیرت وحمیت، دیار ِرسول کی حرمت وحفاظت، قرآن مجید کی نشرواشاعت، امن عامہ کا اہتمام، دولت کی منصفانہ تقسیم، سچائی وبہادری، سخاوت وکرم گستری وغیرہ جیسے جلی عناوین کو بنیاد ی حیثیت حاصل ہے، جن سے عبرت پذیری وسبق آموزی، بلکہ ہر ایک پر عمل آوری امت کی اہم ترین ضرورت ہے ، خاص کر اس باہمی اتفاق واتحاد، الفت ومحبت، ہم دردی وروداری کی جس کے تحفظ وبقا کے لیے خلیفہ ثالث نے مظلومانہ شہادت کو توبخوشی منظورکرلیا ؛مگر مدینہ منورہ کی پر امن فضا میں اختلاف وانتشار کوہرگز پسند نہیں فرمایا، جن کی بارگاہ میں ماہر القادری نے یوں نذرانہٴ عقیدت پیش کیا ہے #
        یہ جامع قرآن ہیں عثمانِ غنی ہیں
        اللہ کے مقبول ہیں محبوبِ نبی ہیں
        ایمان وحیا، جود وسخا ہو کہ مروت
        دیباچہ اخلاق کا عنوان یہی ہیں
        جس روز خلیفہ کو خود امت نے کیا قتل
        اس روز سے اخوت کی حدیں ٹوٹ گئی ہیں
        اے جانِ وفا یثرب وحبشہ کے مہاجر
        راہیں تیرے قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہی ہیں