حضرت سلمان فارسی ؓ

حضرت سلمان فارسی ؓ

مولانا معین الدین ندوی            (آخری قسط)

علالت

حضرت عثمان رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں بیمار پڑے، سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ عیادت کو گئے، سلمان رضی الله عنہ رونے لگے، سعد رضی الله عنہ نے کہا، ابو عبدالله! رونے کا کون سا مقام ہے؟ آں حضرت صلی الله علیہ و سلم تم سے خوش دنیا سے گئے، تم ان سے حوض کوثر پر ملو گے، بچھڑے ہوئے ساتھیوں سے ملاقات ہوگی، کہا خدا کی قسم! میں موت سے نہیں گھبراتا اور نہ دنیا کی حرص باقی ہے، رونا یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عہد کیا تھا کہ ہمارا دنیاوی سازوسامان ایک مسافر کے زادِ راہ سے زیادہ نہ ہونا چاہیے، حالاں کہ میرے گرداس قدر سانپ (اسباب) جمع ہیں، سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کل سامان جس کو سانپ سے تعبیر کیا تھا، ایک بڑے پیالے، ایک لگن اور ایک تسلہ سے زیادہ نہ تھا، اس کے بعد سعد نے خواہش کی کہ مجھ کو کوئی نصیحت کیجیے، فرمایا کہ کسی کام کا قصد کرتے وقت، فیصلہ کرتے وقت، تقسیم کرتے وقت خدا کو یاد رکھا کرو۔ ( ابن سعد جز،4 قسم2،ص:65)

اسی بیماری کے دوران میں او راحباب نے بھی نصیحت ووصیت کی خواہش کی، فرمایا تم میں سے جس سے ہوسکے اس کی کوشش کرے کہ وہ حج، عمرہ، جہاد یا قرآن پڑھتے ہوئے جان دے اور فسق وفجور اور خیانت کی حالت میں نہ مرے۔ ( ابن سعد جز،5 ق2،ص:65)

وقت آخر ہوا تو اپنی بیوی سے مشک کی تھیلی منگائی او راپنے ہاتھ سے پانی میں گھول کر اپنے چاروں طرف چھڑکوایا اور سب کو اپنے پاس سے ہٹا دیا، جب لوگ تھوڑی دیر کے بعد گئے تو دیکھا کہ مرغ روح قفس خاکی سے چھوٹ کر شاخِ طوبیٰ پر پہنچ چکا تھا۔ ( ابن سعد جز، 4ق2ص:66)

فضل وکمال

حضرت سلمان رضی الله عنہ کے وقت کا بڑا حصہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں گزرتا تھا، اس لیے آپ علوم ومعارف سے کافی بہرہ ور ہوئے، حضرت علی رضی الله عنہ سے آپ کے مبلغ علم کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ ان کو علم اوّل اور علم آخر سب کا علم تھا اور وہ ایسا دریا تھے جو پایابی سے نا آشنا رہا، وہ ہمارے اہل بیت میں تھے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ” وہ علم وحکمت میں لقمان حکیم کے برابر تھے۔“ (استیعاب:3/573) علم اوّل سے مراد کتب سابقہ کا علم اور علم آخر سے مقصود آخری کتاب الہٰی یعنی قرآن کا علم ہے او راہل بیت میں اس طرح ان کا شمار ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے قربت اختصاص کی بنا پر اوراس لیے کہ عربوں میں ان کا کوئی خاندان نہ تھا، ان کو اعزازاً اپنے اہل بیت میں داخل کر لیا تھا۔

حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ، جو خود بہت بڑے عالم اورصاحب کمال صحابیتھے، ان کے کمال علم کے معترف تھے، چناں چہ ایک مرتبہ اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ چار آدمیوں سے علم حاصل کرنا، ان چاروں میں ایک سلمان رضی الله عنہ کا نام بھی تھا۔ (ابن سعد جز2 قسم:1/61) ایک موقع پر خود زبان نبوت نے ان کے علم وفضل کی ان الفاظ میں تصدیق کی ہے کہ سلمان رضی الله عنہ علم سے لبریز ہیں۔ ( ایضاً) صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں کہ سلمان رضی الله عنہ فضلائے صحابہ رضی الله عنہم میں تھے۔ ( اسد الغابہ:2/331) آپ کی کوششوں سے حدیث کا کافی حصہ اشاعت پذیر ہوا، آپ کی مرویات کی تعداد 60 ہے، ان میں سے تین حدیثیں متفق علیہ ہیں، ان کے علاوہ ایک میں مسلم اور تین میں بخاری منفرد ہیں۔ (تہذیب الکمال، ص:147)

ابو سعید خدری، ابوالطفیل، ابن عباس، اوس بن مالک اور ابن عجزہ وغیرہ رضی الله عنہم آپ کے زمرہ تلامذہ میں ہیں۔ (تہذیب التہذیب:4/138)

گو حضرت سلمان رضی الله عنہ کا علم بہت وسیع تھا، تاہم حدیث بیان کرنے میں بہت محتاط تھے، اس لیے ان کی مرویات کی تعداد60 سے متجاوز نہ ہو سکی، حضرت حذیفہ رضی الله عنہ مدائن میں لوگوں سے بعض ایسی باتیں بیان کرتے تھے جو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے غصہ کی حالت میں کسی کے متعلق فرمائی تھیں، لوگ ان کی تصدیق کے لیے حضرت سلمان رضی الله عنہ کے پاس آئے، آپ نے صرف اس قدر جواب دیا کہ حذیفہ رضی الله عنہ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ لوگوں نے حضرت حذیفہ رضی الله عنہ سے آکر کہا کہ ہم نے آپ کی بیان کردہ حدیث حضرت سلمان رضی الله عنہ کو سنائی، وہ نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ تردید، حضرت حذیفہ رضی الله عنہ نے سلمان رضی ا لله عنہ سے کہا کہ جو کچھ تم نے آں حضرت صلی الله علیہ و سلم سے سنا ہے اس کی تصدیق کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا بعض اوقات آں حضرت صلی الله علیہ و سلم لوگوں کو کچھ غصہ میں کہہ دیتے تھے اور بعض اوقات خوش ہو کر کچھ فرما دیتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ تم ان باتوں کو بیان کرکے کسی کو کسی کا دوست اور کسی کو کسی کا دشمن بنا دوگے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ خدا وندا !غصہ کی حالت میں اگر کسی کے متعلق کوئی برا کلمہ نکل جائے تو اس کو اس کے حق میں خیر کر دینا ؟پھر ان سے کہا، تم اس قسم کی باتوں سے باز آؤ، نہیں تو میں عمر رضی الله عنہ کو آگاہ کر دوں گا۔ (ابوداؤد:2/169)

چوں کہ وہ اسلام سے قبل عرصہ تک نصرانی رہ چکے تھے، اس لیے عیسائی مذہب کے متعلق کافی معلومات رکھتے تھے، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے تھے کہ ” سلمان دو کتابوں کا علم رکھتے ہیں، کلام الله اور انجیل“ مذہب عیسوی کے مسائل محض پادریوں کی زبانی نہیں سنے تھے، بلکہ خود انجیل کا مطالعہ کیا تھا، چناں چہ ایک مرتبہ آں حضرت صلی الله علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میں نے توراة میں دیکھا ہے کہ کھانے کے بعد وضو کرنے سے برکت ہوتی ہے ۔ ( مسند احمد بن حنبل:5/41)

عام حالات، قرب ِ بارگاہ نبوی

حضرت سلمان رضی الله عنہ صحابہ کرام  کے اس خاص زمرہ میں تھے جن کو بارگاہ ِ نبوی میں مخصوص تقرب حاصل تھا، چناں چہ صحابہ کرام کے علاوہ کم لوگ ایسے تھے جو بارگاہِ نبوت کی پذیرائی میں حضرت سلمان رضی الله عنہ کی ہمسری کرسکتے ہوں، غزوہ خندق کے موقع پر جب مہاجرین وانصار علیحدہ علیحدہ جمع ہوئے تو مہاجرین کہتے تھے کہ سلمان ہمارے زمرہ میں ہیں، انصار کہتے تھے کہ ہمار ی جماعت میں ہیں۔ ( مستدرک حاکم:3/598) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ سلمان کی شب کی تنہائی کی صحبت آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس اتنی لمبی ہوتی تھی کہ ہم لوگوں کو (ازواج) خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ ہمارے حصوں کی رات بھی اس نشست میں نہ گزر جائے۔ انس بن مالک رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ”جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے، علی، عمار اور سلمان کی“ ۔(جامع ترمذی، مناقب سلمان) آپ کے قرب کی آخری مثال یہ ہے کہ ایک موقع پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ جیسے فدائی اسلام اور جلیل القدر صحابی سے حضرت سلمان رضی الله عنہ او ران کے رفقاء کے بارہ میں رنجیدہ ہو گئے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ابو سفیان  چند آدمیوں کے ساتھ حضرتصہیب، بلال اور سلمان رضی الله عنہم کے پاس سے گزرے، ان تینوں بزرگوں نے کہا کہ خدا کی کوئی تلوار خدا کے دشمن (ابو سفیان) کی گردن پر نہیں پڑی؟! حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ تم لوگ سردار قریش کی شان میں ایسا کلمہ زبان سے نکالتے ہو اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے آکر بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ شاید تم نے ان لوگوں کو ناراض کر دیا، اگر تم نے ان لوگوں کو ناراض کیا تو گویا خدا کو ناراض کیا، حضرت ابوبکر بہت نادم ہوئے اور آکر ان بزرگوں سے معذرت کی۔ (مسلم:2/262)

اخلاق وعادات

حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ میں مذہبی جذبہ کی شدت فطری تھی، جس طرح آتش پرستی کے زمانہ میں سخت آتش پرست اور نصرانیت کے زمانہ میں عابد وزاہد نصرانی تھے، اسی طرح مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اسلام کا مکمل نمونہ بن گئے، ان کے اصلی فضل وکمال کا میدان یہی ہے۔

زہد وتقویٰ

ان کا زہد وورع اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ، جس کے بعد رہبانیت کی حد شروع ہو جاتی ہے، اس کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ عمر بھر گھرنہیں بنایا، جہاں کہیں دیوار یا درخت کا سایہ مل جاتا، پڑ رہتے، ایک شخص نے اجازت چاہی کہ میں آپ کے لیے مکان بنا دوں؟ فرمایا مجھ کو اس کی حاجت نہیں، وہ پیہم اصرار کرتا تھا، یہ برابر انکار کرتے جاتے تھے، آخر میں اس نے کہا آپ کی مرضی کے مطابق بناؤں گا، فرمایا وہ کیسا، عرض کیا اتنا مختصر کہ اگرکھڑے ہوں تو سرچھت سے مل جائے اور اگر لیٹیں تو پیر دیوار سے لگیں، فرمایا خیر اس میں کوئی مضائقہ نہیں، چناں چہ اس نے ایک جھونپڑی بنا دی۔ (استیعاب:2/572، حیدرآباد)

اس زہد کا اثر زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں تھا، مزخرفاتِ دنیا کو کبھی پاس نہ آنے دیتے تھے، وفات کے وقت گھر کا پورا اثاثہ بیس بائیس درہم سے زیادہ کا نہ تھا، بستر میں معمولی سا بچھونا اور دو اینٹیں تھیں، جن کا تکیہ بناتے تھے، اس پر بھی روتے تھے اور فرماتے تھے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کا سازوسامان ایک مسافر سے زیادہ نہ ہونا چاہیے اور میرا یہ حال ہے!!( مسند احمد بن حنبل:5/439-438) یہ حالت زندگی کے ہر دو رمیں قائم رہی، جب امارت کے عہدہ پر تھے اس وقت بھی کوئی فرق نہ آیا، حسن بیان کرتے ہیں کہ سلمان  جب پانچ ہزار تنخواہ پاتے تھے اور تیس ہزار نفوس پرحکومت کرتے تھے، اس وقت بھی ان کے پاس صرف ایک عبا تھی، جس میں لکڑیاں جمع کرتے تھے اور اس کا آدھا حصہ اوڑھتے اور آدھا بچھاتے تھے۔ (ابن سعدجز،4:1/62)

رہبانیت سے اجتناب

مگر اسلام کی تعلیمات کے خلاف ان کی زندگی راہبانہ نہ تھی، مذہبی تصلب کے ساتھ ساتھ دنیاوی حقوق کا بھی پورا لحاظ رکھتے تھے اور دوسرں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے، ان کے اسلامی بھائی حضرت ابودرداء رضی الله عنہ بڑے عابد وزاہد بزرگ تھے، رات بھر نماز پڑھتے اور دن بھر روزہ رکھتے تھے، ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے، حضرت سلمان ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر جایاکرتے تھے، ایک مرتبہ ابو درداء رضی الله عنہ کی بیوی کو بہت خراب حالت میں دیکھا، پوچھا تم نے یہ کیا صورت بنا رکھی ہے، انہوں نے کہا کس کے لیے بناؤ سنگار کروں؟ تمہارے بھائی کو تو دنیا کی ضرورت باقی نہیں رہی، حضرت ابودارداء اب گھر آئے تو ملنے ملانے کے بعد کھانا منگایا، مگر خود معذرت کی کہ میں روزہ سے ہوں۔ فرمایا جب تک تم نہ کھاؤ گے میں بھی نہ کھاؤں گا، پھر رات کو حضرت سلمان رضی الله عنہ ان کے پاس ہی لیٹے او ران کو دیکھتے رہے، جب وہ عبادت کو اٹھے تو روک کر فرمایا کہ تم پر تمہارے رب، تمہاری آنکھ او رتمہاری بیوی سب کا حق ہے، روزوں کے ساتھ افطار اور شب داری کے ساتھ سونا بھی ضرور ی ہے، اس کے بعد دونوں نے یہ معاملہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا، آپ نے ابودرداء رضی الله عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ سلمان تم سے زیادہ مذہب کے واقف کار ہیں۔ ( استیعاب:2/572)

سادگی

حضرت سلمان رضی الله عنہ کی تصویر حیات میں سادگی بہت غالب تھی، جو ہر زمانہ یکساں قائم رہی، مدائن کی امارت کے زمانہ میں جب کہ شان وشوکت اور خدم وحشم کے تمام لوازم ان کے لیے مہیا ہو سکتے تھے، اس وقت بھی ان کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا، لباس میں ایک عبا او رایک اونچا پائجامہ ہوتا تھا، ایرانی اس ہیئت کو دیکھ کر ” گرگ آمد، گرگ آمد“ کہتے، ایک مرتبہ اسی امارت کے زمانہ میں اس شان سے نکلے کہ سواری میں بلا زین کے گدھا تھا، لباس میں ایک تنگ اور چھوٹی قمیص تھی، جس سے گھٹنے بھی نہ چھپتے تھے، ٹانگیں کھلی ہوئی تھیں، لڑکے اس ہیئت کذائی میں دیکھ کر پیچھے لگ گئے، لوگوں نے یہ طوفان بے تمیزی دیکھا، تو ڈانٹ کر ہٹایا کہ امیر کا پیچھا کیوں کرکرتے ہو؟! ایک مرتبہ ایک دستہ فوج کی سرداری سپرد ہوئی، فوجی امارت کی شان وشوکت کا کیا ذکر، یہاں معمولی سپاہی کی بھی وضع نہ تھی، چناں چہ فوجی نوجوان دیکھ کرہنستے او رکہتے کہ یہی امیر ہیں۔ (ابن سعد جز، 4 ق:1/63-62)

ابو قلابہ راوی ہیں کہ ایک شخص حضرت سلمان کے یہاں گیا، دیکھا کہ وہ بیٹھے آٹا گوندھ رہے ہیں، پوچھا خادم کہاں ہے؟ کہا کام سے بھیجا ہے، مجھ کو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ دو دو کاموں کا بار اس پر ڈالوں۔(ایضاً،ص:64)

اس غیر معمولی سادگی کی وجہ سے لوگوں کو اکثر مزدو رکا دھوکہ ہو جاتا تھا، ایک مرتبہ ایک عبسی نے جانور کے لیے چارہ خریدا، حضرت سلمان کھڑے تھے، ان سے کہا، اس کو گھر تک پہنچا دو، وہ اٹھا کر لے چلے، راستہ میں لوگوں نے دیکھا تو کہنے لگے لائیے ہم پہنچا دیں۔ یہ حال دیکھ کر عبسی نے پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا آں حضرت صلی الله علیہ و سلم کے صحابی ہیں۔ وہ سن کر بہت نادم ہوا او رکہا آپ تکلیف نہ کیجیے، لیکن انہوں نے فرمایا”اس میں مجھے نیت کا ثواب مقصود ہے، اب میں اس بوجھ کو بغیر پہنچائے ہوئے نیچے نہیں رکھ سکتا۔“

فیاضی

فیاضی او رانفاق فی سبیل الله آپ کا نمایاں وصف تھا، آپ کو جس قدر وظیفہ ملتا تھا اس کو کل مستحقین میں تقسیم کر دیتے تھے اور خود چٹائی بُن کر معاش پیدا کرتے تھے اور چٹائی کی آمدنی کا بھی ایک تہائی اصل سرمایہ کے لیے رکھ لیتے، ایک تہائی بال بچوں پر خرچ کرتے اور ایک تہائی خیرات کرتے تھے، ارباب ِ علم کے بڑے قدردان تھے، جب کوئی رقم ہاتھ آجاتی تو حدیث نبوی کے شائقین کو بلا کر کھلا دیتے تھے۔ (ابن سعد، جز4 قسم:1/64)

صدقات سے اجتناب

صدقات سے بہت سخت پرہیز کرتے تھے، اگر کسی چیز میں صدقہ کا ادنیٰ شائبہ ہوتا تو اس سے بھی احتراز کرتے، ایک غلام نے خواہش کی کہ مجھ کو مکاتب بنا دیجیے، فرمایا تمہارے پاس کچھ ہے؟ کہا میں لوگوں سے مانگ کر ادا کر دوں گا، فرمایا تم مجھ کو لوگوں کے ہاتھ دھوؤں کھلانا چاہتے ہو۔ (ایضا،ص:64) ( حالاں کہ اس کا مانگا ان کے لیے صدقہ نہ رہ جاتا)۔

حلیہ

بال گھنے، کان لمبے اور دراز قامت تھے۔ 

بہشت کے باسی سے متعلق