اسرائیل کی فرعونیت

idara letterhead universal2c

اسرائیل کی فرعونیت

عبید اللہ خالد

جب سے یہ دنیا وجود میں آ ئی ہے او ر الله تعالیٰ نے حضرت انسان کو وجود عطا فرما کر اس دنیا میں بھیجا ہے اس وقت سے حق وباطل کی کش مکش جار ی ہے۔ شیطان اور اس کے حواریوں کی یہ کوشش رہتی ہے کہ انسان کو راہ حق سے ہٹا کر باطل کی راہ پر لگا دے او راپنے خالق حقیقی کا نافرمان بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناکام ونامراد بنا دے او رجہنم کا مستحق ٹھہرا دے، جب کہ اس کے مقابلے میں راہِ حق کی طرف راہ نمائی کے لیے الله تعالیٰ نے انبیاء کا سلسلہ جاری فرمایا، جو انسانیت کی صراط مستقیم کی طرف راہ نمائی کرتے رہے او رانہیں جنت کا راستہ دکھاتے رہے۔ دنیا میں ظاہری اعتبار سے حق وباطل میں سے ہر ایک کو غلبہ اور تسلط حاصل ہوتا رہا، حق کی یہ فطرت ہے کہ وہ ہر ایک کو اس کا حق دیتا ہے اور حقوق کا پورا خیال کرتاہے، جب کہ باطل کی سرشت میں سرکشی، عناد، ظلم وتعدی، مکروفریب او رجبر وبربریت ہے۔ چناں چہ دنیاکی تاریخ میں یہ دونوں امر نمایاں طور پرنظر آئیں گے۔

حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کے واقعہ کو لے لیجیے ۔ الله تعالیٰ نے فرعون کو حکومت واختیار اور ہر طرح کی ظاہری دولت دی تھی، لیکن وہ راہ راست سے بھٹکا ہوا تھا اور﴿أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلَیٰ﴾کا دعوے دار تھا اور اپنی سلطنت وحکومت کی بقا کے لیے ہرناجائز امر اور ظلم وجبر کرنے کے لیے تیار تھا، اُس وقت مصر میں بنی اسرائیل حق کو ماننے والی قوم تھی اور الله تعالیٰ کی عبادت کیا کرتی تھی، جب فرعون کو نجومیوں کے ذریعے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو اس سلطنت کے زوال کا سبب بنے گا تو اس نے حکومت واقتدار کے نشہ میں مبتلا ہو کر بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے بچوں کو قتل کرنا شروع کر دیا اور ظلم وبربریت کی انتہاء کر دی۔

لیکن الله تعالیٰ کا جو حکم ہونے والا تھا وہ ہو کر رہا اور الله تعالیٰ نے اس بچے کی اس کے گھر میں پرورش کروائی اور وہی بچہ بالآخر حق کا علم بردار ہوا اور الله تعالیٰ کی طرف سے نبی بن کر آیا، لیکن چوں کہ سرکشی اور ظلم فرعون کی سرشت کا حصہ بن چکا تھا، لہٰذا وہ بنی اسرائیل پر ظلم کرنے سے باز نہ آیا اور اس نے ظلم وبربریت کو اسی طرح جاری رکھا۔آخر کارناکام ونامراد ہوا اور رہتی دنیا تک کے لیے نشان عبرت بنا۔

یہودی قوم، جو انبیاء کی نام لیوا ہے، راہ راست سے بھٹکنے کی وجہ سے طویل عرصہ سے ظلم وسرکشی کا استعارہ بنی ہوئی ہے، جب تک اس کے پاس اختیار نہیں تھا تو بھی اس کی مقدور بھر کوشش دنیا میں فساد اور ظلم وجبر کو رواج دینے کی رہی اور جب طویل سازشی منصوبوں کے ذریعے اختیار آیا، جس کی بنیاد بھی ظلم وستم پر تھی تو اس نے مزید ڈھٹائی کے ساتھ ظلم وستم کا بازار گرم کر دیا اور ظلم وجبر کی خوفناک اور شرمناک مثالیں قائم کرنا شروع کر دیں۔

یہ ظالم و جابر قوم ایک عرصہ سے فلسطین کے باسیوں کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے اور ان کے چھوٹوں بڑوں، مردوں، عورتوں اوربوڑھوں بچوں سب کو قتل کررہی ہے اور ان پر آتش وآہن کی بارش برسا رہی ہے، اپنی ناجائز ریاست کی حفاظت کے نام پر ظلم کی حدود کو عبو رکیا ہوا ہے۔ یہ وہ فرعونی راستہ ہے جو ہر دور کا ظالم وجابر اختیار کرتا رہا ہے، اور آج یہودیت اسی راہ پر گام زن ہے۔ لیکن الله تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے، اس کی نگری میں دیرہے، اندھیر نہیں۔ وقت کے اس فرعون کا انجام بھی ان شاء الله اپنے پیش روؤں سے مختلف نہیں ہو گا اور ان شاء الله یہ قوم ضرور نشان عبرت بنے گی۔

الله تعالیٰ اہل فلسطین کی مدد ونصرت فرمائے اور انہیں اس ظالم وجابر اور غاصب قوم سے نجات عطا فرمائے۔ آمین یا رب العلمین․

سنگ میل سے متعلق