ہمارا بڑا المیہ

ہمارا بڑا المیہ

عبید اللہ خالد

انسان کی دنیا میں آمد کا مقصد الله تعالیٰ طاعت اور عبادت وبندگی ہے۔اسی عظیم مقصد کی تعلیم وتربیت کے لیے انبیاء کرام مبعوث ہوئے اور انہوں نے خالق اور پروردگار کے ساتھ لوگوں کا تعلق جوڑنے کی کوشش وسعی کی، انہیں اپنے خالق ومالک کی پہچان کروائی، توحید کا درس دیا، احکام شرع کی تعلیم دی اور ان کے قلوب واذہان کا تزکیہ فرمایا۔ انہیں اس بات کی تعلیم دی کہ یہ دنیا فانی اور زوال پذیر ہے، اس کے بعد عالم آخرت ہے جو لازوال نعمتوں سے مالا مال ہے، لہٰذا دنیا کی رنگینیوں میں انسان کو کھونا نہیں چاہیے اور نہ حد سے زیادہ اس میں انہماک اختیار کرنا چاہیے، بلکہ بقدر ضرورت اور بقدر کفاف استفادہ کرنا چاہیے۔ طاقت کے حصول یا طاقت کے نشے میں مست ہو کر خدا فراموشی اور مخلوق خدا پر ظلم وزیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ خاتم النبیین محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی جو انبیاء کے مبارک سلسلے کی آخری کڑی ہیں اسی تعلیم وتربیت کا درس دیا اور لوگوں کے سامنے اپنا اسوہٴ حسنہ پیش فرمایا۔ آپ کی محنت او رتعلیم وتربیت کے نتیجے میں صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی مقدس اور پاکیزہ جماعت تیار ہوئی، جن کے دل دنیا کی حرص ولالچ او رمحبت سے پاک تھے۔ وہ دنیا سے بقدر ضرورت استفادہ کیا کرتے تھے اور دنیا کو دین پر ترجیح نہیں دیتے تھے۔ انہیں حضرات کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ” وہ ایسے گھروں میں( الله تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں) جن کے بارے میں الله تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان کا ادب کیا جائے اور ان میں الله تعالیٰ کا نام لیا جائے، ان مسجدوں میں ایسے لوگ صبح وشام الله تعالیٰ کی پاکی (نمازوں میں ) بیان کرتے ہیں، جن کو تجارت اور خرید وفروخت الله کی یاد سے غفلت میں نہیں ڈالتی۔ وہ ایسے دن کی پکڑ سے ڈرتے ہیں جس میں بہت سے دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔“

قرآن وحدیث میں دنیا کی بے وقعتی، بے ثباتی اور دنیاوی حرص ولالچ کی قباحت ومذمت بار بار بیان کی گئی ہے۔جس کا مقصد دنیا میں انہماک اور زیادہ مشغولیت سے اجتناب کی تعلیم دینا ہے، تاکہ انسان الله تعالیٰ کی یاد، عبادت وطاعت، حقوق الله اور حقوق العباد کی ادائیگی سے غافل نہ ہو جائے۔

ایک حدیث میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”دینار کا غلام ملعون ہے اور درہم کا غلام ملعون ہے۔“ (ترمذی شریف)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مال ودولت اور روپے پیسے کی محبت میں اس طرح گرفتار ہو جائے کہ اس کی وجہ سے الله تعالیٰ کی عبادت، طاعت او ربندگی سے دوری اختیار کرلے تو وہ مال وزر اور دینار ودرہم کا غلام ہے، لہٰذا ایسا شخص تمام بھلائیوں سے محروم، رحمت خداوندی سے دور اوراندہٴ درگاہ خدا وندی ہے۔

ایک اور حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”دنیاوی اسباب وسامان اور کمانے کے ذرائع کو اس طرح اختیار نہ کرو کہ وہ دنیا کی طرف رغبت کا سبب بن جائیں“۔ (سنن ترمذی، شعب الایمان للبیہقی)

لیکن ہمارا آج کا بڑا المیہ جو وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے یہ ہے کہ ہم دنیا کے دھندوں او رمال وزر کے حصول میں اس حد تک مشغول ہو گئے ہیں کہ خدا فراموشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ الله تعالیٰ کی عبادت وبندگی، حقوق الله اور حقوق العباد کی ادائیگی سے غافل ہیں اور اسی میں عام ابتلاء ہے۔ الله تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو او رہمیں صرف دنیا میں انہماک اختیار کرنے سے مامون ومحفوظ فرمائے۔

وماتوفیقی إلا بالله علیہ توکلت وإلیہ أنیب