اصلاح احوال کی ضرورت

اصلاح احوال کی ضرورت

عبید اللہ خالد

ہمارا ملک پاکستان اس وقت انتہائی تشویشناک حالات سے گزر رہا ہے، جب سے یہ مملکت خداداد وجود میں آئی ہے، اس کا نظم ونسق ایسے لوگوں اورافراد کے ہاتھوں میں رہا ہے جو اہل علم، اہل الله اور دینی تربیت گاہوں کے ماحول سے گزر کر نہیں آئے تھے اور پھر وقت کے ساتھ اس صورت حال میں مزید ابتری آتی رہی اورعوام وخواص سب کا یہ ذہن بن گیا کہ جس طرح ممکن ہو ملکی مال و دولت کو ہتھیا لیا جائے او راپنی ذاتی تجوریوں اور بینک اکاؤنٹس کو بھر دیا جائے، اس سے کرپشن کاناسور پیداہوا، جو چند مستثنیات کے علاوہ حکومت کے ہر چھوٹے بڑے ادارے اور ہر عام وخاص ملازم کی ملازمت کا حصہ بن گیا، اس صورت حال کی بظاہر اصلاح کی صورت نظر نہیں آتی، جب تک کہ اوپر سے نیچے تک حکومتی نظم ونسق چلانے والے افراد کی اصلاح احوال کا نظام نہ بنا دیا جائے، دنیا کی حرص وحوص انسان کو اندھا بنا دیتی ہے اور اس کی زیب وزینت انسان کو فتنے میں مبتلا کر دیتی ہے، جب تک کہ انسان کو دنیا میں رہنے اور اس سے استفادہ کرنے کا وہ طر یقہ نہ آتا ہو جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سکھلایا ہے۔ احادیث میں دنیا کی مذمت بھی آئی ہے اور اسے آخرت کی کھیتی بھی قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا اسے برتنے میں شریعت کا پاس ولحاظ ضروری ہے۔ وگرنہ یہ انسان کو دھوکا دیتی ہے اور اسے نقصان اور خسارے کے گڑھے میں ڈال کر جہنم کا ایندھن بنا دیتی ہے۔ ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ و سلم نے اسے ایک مثال سے سمجھایا ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ( ایک دن) رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (صحابہ کرام رضی الله عنہم اور ان کے ذریعہ عام مسلمانوں کو مخاطب کرکے) فرمایا کہ:” اپنی وفات کے بعد تمہارے بارہ میں مجھے جن چیزوں کا خوف ہے( کہ تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے) اُن میں سے ایک چیز دنیا کی تروتازگی اور زیب وزینت بھی ہے ( جو ملکی فتوحات واقتدار کی صورت میں ) تم کوحاصل ہوگی۔“ یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول الله! کیا بھلائی اپنے ساتھ برائی بھی لائے گی؟ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم ( یہ سن) کر خاموش رہے (اور انتظار کرتے رہے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے وحی آجائے توجواب دیں) یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ( تھوڑی دیر کے بعد) حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے چہرہٴ انور سے پسینہ پونچھا (جو نزول وحی کے وقت آتا تھا) اور فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے جس نے سوال کیا تھا؟ گویا آپ صلی الله علیہ وسلم نے سائل کے سوال کی تحسین فرمائی اور اس کے بعد فرمایا:”حقیقت یہ ہے کہ بھلائی اپنے ساتھ برائی نہیں لاتی ، موسم بہار جو سبزہ اُگاتا ہے (وہ حقیقت میں تو بھلائی وفائدہ کی چیز ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کوئی نقصان وبرائی لے کر زمین کے پیٹ سے نہیں اُگتا مگر) وہ جانور کو اس کا پیٹ پھلا کر مار دیتا ہے یا ( اگر وہ مرتا نہیں تو ) مرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے ( یعنی جو جانور اس سبزہ کو کھانے میں حد سے تجاوز کر جاتا ہے وہ اس سبزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے فعل یعنی زیادہ کھانے کی وجہ سے ضررو ہلاکت میں مبتلا ہو جاتا ہے ) یہ کہ کھانے والے جانور نے اس سبزہ کو اس طرح کھایا کہ ( جب بسیار خوری کی وجہ سے) اس کی دونوں کو کھیں پھول گئیں تو وہ سورج کے سامنے بیٹھ گیا( جیسا کہ جانور کی عادت ہوتی ہے کہ جب بدہضمی کی وجہ سے سے اس کا پیٹ پھول جاتا ہے تو وہ دھوپ میں بیٹھ جاتا ہے اور اس کا پیٹ گرمی پا کر نرم ہو جاتا ہے او راس میں جو کچھ ہوتا ہے باہر نکل آتا ہے ) او رپھر ( جب) پتلا گوبر اور پیشاب کرکے (اس نے اپنا پیٹ ہلکا کر لیا تو ) چراگاہ کی طرف چلا گیا اور سبزہ چرنے لگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا یہ مال وزر بڑا سر سبز، تروتازہ او رنرم ودل کش ہے ( کہ بظاہر آنکھوں کو بہت بھاتا ہے، طبیعت کو بہت اچھا لگتا ہے جس کی وجہ سے دل چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ حاصل ہو) لہٰذا جو شخص دنیا کے مال وزر کو حق کے ساتھ ( یعنی بوقت ضرورت او رجائز وسائل وذرائع سے) حاصل کرے اور اس کو اس کے حق میں (یعنی اس کے اچھے مصارف میں کہ خواہ واجب ہوں یا مستحب) خرچ کرے تو وہ مال وزر اس کے حق میں (دین کا) بہترین مدد گار ثابت ہوتا ہے او رجو شخص اس مال وزر کو حق کے بغیر یعنی ناجائز طور پر حاصل کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا رہتا ہے اور شکم سیر نہیں ہوتا اور وہ مال وزر قیامت کے دن اس کے بارے میں ( اس کے اسراف اور اس کی حرص وطمع کا) گواہ ہو گا۔ (متفق علیہ)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو مال ودولت کے حصول میں جائز وناجائز کی تمیز کرنی چاہیے، اسے ناجائز طریقوں سے حاصل نہیں کرنا چاہیے اور دنیا کی حرص وحوس میں اپنی زندگی برباد نہیں کرنی چاہیے الله تعالیٰ ہمارا او رہمارے ملک وقوم کا حامی وناصر ہو اور ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!