حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رحمة الله علیہ

حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رحمة الله علیہ

حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رحمة الله علیہ

یہ دنیا حادث اور زوال پذیر ہے اور اس میں پیش آمدہ حالات وواقعات یہ گواہی دینے کے لیے کافی ہیں کہ یہ فانی ہے اور اس میں آنے والے ہر جاندار نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس دنیا میں آنے والی مخلوق میں سب سے افضل وارفع الله تعالیٰ کے انبیاء تھے، لیکن وہ بھی اپنا اجل مسمی پورا کرکے الله تعالیٰ کے حکم سے اس دار فانی سے دار البقاء کی طرف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منتقل ہو گئے، اسی طرح انبیاء کے بعد اس دنیا میں سب سے برگزیدہ شخصیات صحابہ کرام رضی الله عنہم اور اولیاء الله رحمہم الله تھے وہ بھی مذکورہ قانون قدرت کے تحت بالآخر اس فانی جہاں سے کوچ کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔

بہرحال دنیا میں انسانوں کی آمد ورفت کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا، لیکن ان انسانوں میں وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جو خود بھی اس فانی دنیا میں الله تعالیٰ کے احکام کے مطابق ایام زیست گزارتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی بھی خیرو بھلائی اورنیکی کے کاموں کی طرف راہ نمائی کر تے ہیں، انہیں پاک طینت اور برگزیدہ شخصیات میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر مرکزیہ، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم وشیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رحمة الله علیہ بھی تھے۔

آپ جامعة العلوم الاسلامیہ میں درس نظامی کے سب سے پہلے طالب علم تھے اور درجہ سابعہ ودورہٴ حدیث آپ نے وہیں پڑھا ۔محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمة الله علیہ سے آپ کو خصوصی شرف تلّمذ اور خصوصی تعلق حاصل تھا ۔سفر وحضر میں خادم کی حیثیت سے ہمیشہ ساتھ رہتے اور حضرت بنوری ہی کی رفاقت میں آپ نے سب سے پہلے حج کی سعادت حاصل کی، عمدہ صلاحیت واستعداد کی بنا پر آپ کو دوران تعلیم حضرت بنوری رحمة الله علیہ نے جامعة العلوم الاسلامیہ میں استاد مقرر فرمایا۔

1997ء میں مولانا ڈاکٹر حبیب الله مختار رحمة الله علیہ کی شہادت کے بعد رئیس الجامعہ کے لیے آپ کا انتخاب ہوا،2004ء میں مفتی نظام الدین شہید رحمة الله علیہ کی شہادت کے بعد آپ شیخ الحدیث کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے،جب کہ 2015ء میں حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی رحمة الله علیہ کی وفات کے بعد آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ منتخب ہوئے، آپ کو عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا اور اردو وعربی دونوں زبانوں میں آپ نے کئی کتابیں تصنیف کیں، جب کہ عربی تکلم وتحریر سیکھنے کے لیے آپ کی مشہور کتاب ”الطریقة العصریة“ عرصہ دراز سے وفاق المدارس کے نصاب میں شامل ہے۔

آپ کی شخصیت اہل علم کے ہاں غیر متنازع تھی اور سب چھوٹے بڑے آپ کا احترام کرتے تھے، آپ کا وجود مسعود اُمت مسلمہ کے لیے خیرو برکت کا باعث تھا، ایسی شخصیات کی وفات پر اُمت کو دعاؤں اور استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ایسے حضرات کی دعاؤں، برکات، محنتوں اور کاوشوں کی وجہ سے اُمت بہت سارے فتنوں سے محفوظ رہتی ہے۔ ان کی وفات کسی ایک خاندان یا ادارے کا نقصان نہیں بلکہ پور ی اُمت کا نقصان ہے۔ الله تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے او رجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!