پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا او رمسلمانوں نے اس کے قیام کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔ البتہ یہاں حکومت روز اول سے چند خاندانوں اور ایسے اشرافیہ کے ہاتھ میں رہی جو مغربی نظام تعلیم کے پروردہ تھے اور اسے اس ملک کے مقاصد وجود سے کوئی سروکار نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد اپنی ذاتی تجوریوں کو بھرنا او رمال ودولت کا زیادہ سے زیادہ جمع کرنا تھا اور مال وزر کی حرص وہوس میں مبتلا اس طبقے کو ملک وملت کے مفاد سے کوئی غرض نہیں تھی، اس کا نتیجہ ہے کہ آج یہ مملکت خداداد امن ومعیشت کے حوالے سے انتہائی دگرگوں صورت حال سے گزر رہی ہے، یہاں امن وامان کی صورت حال بھی مخدوش ہے اور معیشت بھی انتہائی ڈانواں ڈول صورت حال سے دو چار ہے۔ جب کہ یہ دونوں چیزیں کسی مملکت کے استحکام کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور اس کے بقا اور وجود کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ظاہری اسباب میں امن کے بغیر معیشت اور معیشت کے بغیر امن ممکن نہیں ہے۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لیے جو دعا فرمائی اس میں امن ومعیشت دونوں کا ذکر فرمایا بلکہ امن کو معیشت پر مقدم فرمایا کہ جب امن ہو گا تومعیشت کا استحکام وجود میں آئے گا اور لوگ خوش حال زندگی بسر کرسکیں گے۔ چناں چہ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اجْعَلْ ہَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَہْلَہُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْہُم بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَن کَفَرَ فَأُمَتِّعُہُ قَلِیلًا ثُمَّ أَضْطَرُّہُ إِلَیٰ عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ﴾․(سورہ بقرہ،آیت:126)
یعنی اور(وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا تھا کہ :”اے میرے پروردگار! اس کو ایک پُر امن شہر بنا دیجیے، اور اس کے باشندوں میں سے جو الله اور یوم آخرت پر ایمان لائیں انہیں قسم قسم کے پھلوں سے رزق عطا فرمائیے۔ الله تعالیٰ نے کہا:” اور جو کفر کرے گا اس کو بھی میں کچھ عرصہ کے لیے لطف اٹھانے کا موقع دوں گا، (مگر) پھر اسے دوزخ کے عذاب کی طرف کھینچ لے جاؤں گا۔ اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔“
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی برکت سے الله تعالیٰ نے بلد حرام یعنی مکہ مکرمہ کو یہ دونوں چیزیں عطا فرمائیں کہ اس کو امن والا شہر بھی بنایا یہاں تک کہ وہاں کا شکار بھی مامون ہوتا ہے اور وہاں کی معیشت کوبھی مضبوط ومستحکم بنایا یہاں تک کہ پوری دنیا کی عمدہ اشیاء اور پھل وغیرہ مکہ مکرمہ میں پیدا نہ ہونے کے باوجود وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امن اور معیشت کا استحکام دو بنیادی امور ہیں اور کسی ملک، شہر اور علاقے کے وجود وبقا اور استحکام کے لیے ان دونوں کو انتہائی اہمیت حاصل ہے، اگر امن نہ ہو تو احکام شرعیہ پر بھی پورے طور پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے بلکہ پورا نظام زندگی متأثر ہو جاتا ہے، یہی حال معیشت کا بھی ہے۔ چناں چہ اس وقت ملک وملت کی صورت حال سب کے سامنے ہے کہ ان دونوں چیزوں کے مخدوش ہونے کی وجہ سے ہر شخص متأثر ہے اور پورا نظام زندگی درہم برہم نظر آتا ہے۔ الله تعالیٰ ہمارے ملک وملت کی حالت پر رحم فرمائے، اسے امن کا گہوارہ بنائے او رمعاشی استحکام عطا فرمائے۔ آمین یا رب العٰلمین․