یہ کائنات جب سے وجود میں آئی ہے تو اس کے ساتھ ہی الله تعالیٰ نے اپنے احکام وقوانین کی تبلیغ کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کے مبارک سلسلے کو بھی وجود عطا فرمایا، دنیا کے سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام الله تعالیٰ کے سب سے پہلے نبی اور رسول ہیں، انہوں نے انسانیت کو الله تعالیٰ کی ربوبیت والوہیت اور توحید کا درس دیا، ان کو رہن سہن کے وہ طور طریقے سکھلائے جو الله تعالیٰ کی خوش نودی کا باعث ہوں اور معصیت وگناہ والے کاموں سے انسانیت کو روکا او رمنع کیا، انبیاء کا یہ سلسلہ ہر دو رمیں جاری رہا او رمختلف ادوار اور زمانوں میں انبیاء اور رسل مبعوث ہوتے رہے، جن میں بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء او ررسول بھی ہیں او رانہوں نے الله تعالیٰ کی ربوبیت والوہیت اور توحید کے بیان کے سلسلے میں بڑے مصائب ومشکلات کا سامنا کیا، لیکن الله تعالیٰ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونے دیا۔ سب سے آخر میں خاتم الانبیاء اور سید الرسل جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس دنیا میں انسانوں کی فلاح وبہبود اور دنیا وآخرت کی کام یابی وکام رانی کے لیے الله تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے۔ آپ کو کتاب ہدایت قرآن مجید کی صورت میں عطا کی گئی ہے ، جوبڑی عظمت والی اور پُر اثر کتاب ہے۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿لَوْ أَنزَلْنَا ہَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَیٰ جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللَّہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ ﴾
یعنی ” اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے (اور اس میں سمجھنے کا مادہ رکھ دیتے اور شہوات کا مادہ نہ رکھتے تو (اے مخاطب) تو اس کو دیکھتا کہ خدا کے خوف سے دَب جاتا اور پھٹ جاتا (یعنی قرآن فی نفسہ ا ایسا موثر اور قوی الاثر ہے، مگر انسان میں بوجہ غلبہٴ شہوات کے قابلیت فاسد ہوگئی جس کے سبب تاثر نہیں ہوتا) او ران مضامین عجیبہ کو ہم لوگوں کے ( نفع کے) لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سوچیں ( اور منتفع ہوں)۔
اس طاقت ور اور قوی الأثر کتاب کو الله تعالیٰ نے صرف نازل ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خودلی ہے۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ ﴾
یعنی ہم نے قرآن مجید نازل کیا ہے او رہم ہی اس کے محافظ (اور نگہبان) ہیں( کہ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتا)۔ قرآن مجید کا ایک معجزہ تو اس کا اعجاز ہے کہ اس کی فصاحت وبلاغت او رجامعیت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا اور یہ ایک ایسا معجزہ ہے کہ جس کو اہل علم ہی سمجھ سکتے ہیں اور دوسرا معجزہ اس کا من جانب الله محفوظ ہونا ہے کہ اس میں ذرا برابر بھی کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتا اور یہ دوسرا معجزہ ایسا ہے کہ اس کو جاہل اور ان پڑھ آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔ قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت او رتاثیر اتنی زیادہ تھی کہ کفار قریش کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ کوئی یہ کلام سن نہ پائے، وگرنہ وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا، اس لیے وہ اسے جادو قرار دیتے تھے اور لوگوں کو اس کے سننے سے منع کرتے تھے، لیکن جو شخص بھی اس کوسن لیتا تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتاکہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے، کتنے لوگ ہیں جو صرف قرآن مجید سن کر اسلام لے آئے، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ بہت معروف ہے کہ انہوں نے اپنی بہن سے سورہ طہٰ کی آیات سنیں تو وہ اسلام لے آئے، عقبہ اولیٰ میں بنو خزرج کے وفد نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کی اور آپ نے ان کے سامنے قرآن مجید کی چند آیات تلاوت کیں تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا، یہی حال پورے مدینہ منورہ کا ہوا کہ قرآن مجید وہاں گھر گھر پہنچا توانہوں نے اسلام قبول کر لیا، اس لیے کہا جاتا ہے کہ مدینہ منورہ قرآن مجید کے ذریعے فتح ہوا۔
لیکن ایسے شقی القلب لوگ اس دور نبو ی میں بھی موجود تھے جنہوں نے نہ صرف اسلام قبول نہیں کیا، بلکہ اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلام کی مخالفت ودشمنی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور آج بھی ایسے بدبختوں کی کمی نہیں ہے ۔ اس وقت یورپ اور پوری دنیا میں اسلام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے لیکن اس یورپ ہی میں ایسے بد بخت اور شقی القلب لوگ بھی موجود ہیں جو پیغمبر اسلام اور قرآن مجید کی توہین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کرکے ان کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں اور قرآن مجید کو جلا کر اپنے دل کے بغض وکینہ اور شقاوت کو ظاہر کر رہے ہیں۔سویڈن اور ڈنمارک میں پیش آنے والے حالیہ واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں اور یہ واقعات پہلی مرتبہ پیش نہیں آئے بلکہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ پیش آچکے ہیں۔ لیکن یہ ان لوگوں کی اپنی بدبختی ہے جواس طرح کی حرکات کا ارتکاب کررہے ہیں، یہ ان کی بھول ہے کہ اس طرح کی ناشائستہ حرکات کے ارتکاب سے وہ اسلام کا راستہ روک سکیں گے، کیوں کہ #
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا