اس وقت ہمارے ملک کی دِگر گوں صورت حال کسی سے مخفی نہیں، اگر اس کا صحیح اور ٹھیک جائزہ لیا جائے تو اس کی بنیادی وجہ بد انتظامی، بد دیانتی اورکرپشن ہے، رشوت اور کمیشن خوری یہاں کی انتظامیہ کے ہر چھوٹے بڑے ملازم کے رگ وپے میں رچ بس گئی ہے، چاہے وہ سیاست دان ہوں یا بیوروکریٹ حکومت کے مال اور سرکاری خزانے کو انتہائی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ ہڑپ کرتے ہیں اوراپنی ذاتی ملکیت سے بھی زیادہ اس پراپنا حق سمجھتے ہیں، یہ کسی ایک فرد کی بات نہیں بلکہ ملک کی مجموعی صورت حال اسی طرح کی ہے۔ جس نے اس ملک کا معاشی اعتبار سے بیڑا غرق کر دیا ہے اور وطن عزیز معاشی اعتبار سے انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے۔
قرآن وحدیث میں خیانت وبدیانتی سے متعلق انتہائی سخت وعیدیں آئی ہیں، سورہٴ آل عمران میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:﴿وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّیٰ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ﴾
․
ترجمہ:یعنی” اور کسی نبی سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیزلے کر آئے گا، جو اس نے خیانت کرکے لی ہو گی، پھر ہر شخص کو اس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہو گا“۔
ایک اور آیت میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:﴿وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِینَ ، الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ ، وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ﴾․
ترجمہ:یعنی” بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کر لیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں او رجب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔“
اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بد دیانتی اور خیانت کا ارتکاب کرتی تھی اور ناپ تول میں کمی کیا کرتی تھی۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کو اس حرکت بد سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا ” اور ناپ تول میں کمی مت کیا کرو۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ خوش حال ہو اور مجھے تم پر ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تمہیں چاروں طرف سے گھیر لے گا۔ اے میری قوم! ناپ تول پوری پوری طرح کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر مت دو اور ( شرک اورلوگوں کے حقوق میں کمی کرکے ) زمین میں فساد مت مچاؤ، (لوگوں کے حقوق ادا کرنے کے بعد) الله کا دیا ہوا جو کچھ (حلال مال) بچ جائے وہ تمہارے لیے ( اس حرام کمائی سے) بدرجہا بہتر ہے۔“
نیز کرپشن، بدعنوانی ،خیانت وبددیانتی، لوگوں کے مالوں او رحکومتی خزانے کے ناجائز استعمال پر مختلف احادیث میں مذمت وارد ہوئی ہے۔ ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر (مال غنیمت/ سرکاری خزانہ میں) خیانت کا تذکرہ فرمایا، پس اس کو اور اس کے معاملہ کو بڑا بتلایا، فرمایا” قیامت کے دن میں تم میں سے کسی ایک کو ایسا ہر گز نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر منمناتی بکری ہو، اس کی گردن پر ہنہناتا گھوڑا ہو، وہ کہے گا:”یا رسول الله أغثنی“
( اے الله کے رسول! میری مدد فرمائیے) تو میں کہوں گا میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (میں کسی کو ایسا ہر گز نہ پاؤں کہ) اس کی گردن پر سونے، چاندی کا بوجھ ہو، پھر وہ کہے : ”یا رسول الله أغثني“
(اے الله کے رسول! میری مدد فرمائیے) تو میں کہوں: میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (میں کسی کو ایسا ہر گز نہ پاؤں کہ ) اس کی گردن پر لہراتے کپڑے ہوں، پھر وہ کہے:” یارسول الله أغثني“
( اے الله کے رسول! میری مدد فرمائیے) تو میں کہوں: میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں، تحقیق میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔(بخاری ومسلم)
آج ہمارا معاشرہ خیانت وبددیانتی، کرپشن، بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ، چوری، ڈکیتی نجانے اس طرح کے کتنے ناجائز امور کا شکار ہو چکا ہے، بلکہ گندگی کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ ان برائیوں سے پاک ہو جائے تو کوئی بعید نہیں کہ ہمارے ملک وقوم پر الله تعالیٰ کی رحمتوں کی بارش ہو اور ہمارا ملک عزیز معاشی مشکلات کے بھنور سے خیروعافیت کے ساتھ نکل آئے۔ الله تعالیٰ ہمارے ملک وقوم کی حالت پر رحم فرمائے اور اسے ہر طرح کی بیماریوں سے پاک وصاف فرمائے۔ آمین یا رب العالمین․