فلسطین کا قضیہ صرف اہل فلسطین یا اہل عرب کا قضیہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا قضیہ ہے، فلسطین پر سازش اور مکروفریب کے ذریعے ناجائز قبضہ کرکے اسرائیل کے نام سے ظالم وجابر ریاست کو وجود دیا گیا، اور امت مسلمہ کے قبلہ اول پر قبضہ کیا گیا، جب سے اس ناجائز ریاست کے خدوخال قائم ہوئے ہیں اس وقت سے فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ ہر وقت کے ظلم وجبر سے تنگ آکر بالآخر اہل فلسطین نے موت یا آزادی میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے لیے ”طوفان اقصیٰ “کے نام سے7/اکتوبر کو جہادی حملے کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں اسرائیل نے امریکاوبرطانیہ کی سرپرستی میں غزہ کے مسلمانوں پر آتش وآہن کی بارش برسا کر ظلم وستم کی انتہا کر دی، لیکن الحمدلله اس کا یہ ظلم وستم فلسطین کے مسلمانوں او رمجاہدین کیہمت وحوصلے پست نہیں کر سکا، بلکہ ان کا حوصلہ بڑھاہے اور الله تعالیٰ کی مدد ونصرت سے انہوں نے طاقت وغرور کے نشہ میں مبتلا صہیونی ریاست کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ اس صورت حال میں پوری انسانیت خصوصاً امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرے، جس فرد سے جو مدد بھی ممکن ہو وہ اسے بروئے کار لائے، ریاست کی سطح پر تعاون ممکن ہو تو وہ کیا جائے، اگر جانی تعاون ہو سکتا ہو تو وہ کیا جائے اور مالی تعاون ہو سکتا ہو تو وہ کیا جائے، وگرنہ کم ازکم ان کے حق میں دعا تو ہر آدمی کرسکتا ہے اور دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔ مسلمان آپس میں جسد واحد کی مانند ہیں او ران پر ایک دوسرے کی مدد ونصرت لازم ہے۔ ایک روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :
”(اے مخاطب) تو مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے سے رحم کا معاملہ کرنے، ایک دوسرے سے محبت وتعلق رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی ومعاونت کا سلوک کرنے میں ایسا پائے گا جیسا کہ بدن کا حال ہے کہ بدن کا کوئی عضو دُکھتا ہے تو بدن کے باقی اعضاء اس ایک عضو کی وجہ سے ایک دوسرے کو پکارتے ہیں اور بیداری وبخار کے تعب ودرد میں سارا جسم شریک ہوتا ہے۔“ ( بخاری ومسلم)
ایک اور روایت میں ارشاد ہے کہ : ” مسلمان، مسلمان کے لیے ایک مکان کی مانند ہے ( یعنی سارے مسلمان مضبوطی وطاقت حاصل کرنے کے اعتبار سے اس مکان کی طرح ہیں ) جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط رکھتا ہے، یہ کہہ کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں د اخل کیا۔“ ( بخاری ومسلم)
ایک اور روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : ” ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا دینی بھائی ہے ( لہٰذا اس دینی اخوت کا تقاضا ہے کہ ) کوئی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم نہ کرے اور اس کو کسی ہلاکت میں مبتلا نہ کرے اور نہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کو اس کے دشمن کے ہاتھوں میں چھوڑے بلکہ اس دشمن کے مقابلہ پر اس کی مدد واعانت کرے اور ( یاد رکھو) جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کی سعی وکشش کرتا ہے تو الله تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرتا ہے، جو شخص کسی مسلمان بھائی کے غم کو دور کرتا ہے ( خواہ غم اور تکلیف کم ہو یا زیادہ ) تو الله تعالیٰ اس کو قیامت کے دن غموں میں سے ایک بڑے غم سے نجات دے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کے بدن یا اس کے عیب کو ڈھانکتا ہے تو الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب ڈھانکے گا۔ (بخاری ومسلم)
الله تعالیٰ ہمیں اہل فلسطین کی مدد ونصرت کی توفیق عطا فرمائے، ظالم کے ہاتھ کو حتی الوسع روکنے کی ہمت عنایت فرمائے اور اہل فلسطین کو ان کے نیک کاز میں کام یاب وکامران فرمائے۔
وما توفیقي إلا بالله، علیہ توکلت وإلیہ أنیب․