ذوالحجہ اسلامی مہینوں میں اس حوالے سے بہت اہم مہینہ ہے کہ اس میں ایک تو قربانی جیسی عظیم عبادت سر انجام دی جاتی ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ،اسلام کا عظیم شعار او رمحبت الہٰی کا مظہر ہے، دوسرا اس مہینے میں حج جیسی اہم عبادت انجام دی جاتی ہے، جس میں اہل اسلام اجتماعی صورت میں مناسک حج بجا لاتے ہیں اور یہ عشق ووارفتگی کی کیفیت کا عظیم مظہر ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ کے آخر میں سن دس ہجری میں اس اہم فریضے کو اپنے صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ ادا فرمایا، اس حج میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے 9ذوالحجہ کو میدان عرفات میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اسے خطبہ حجة الوداع کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، اس خطبے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے مختلف احکام اور حقوق بیان فرمائے اور معاشرے کو پرامن بنانے کے لیے کئی اصول بیان فرمائے۔ اسے انسانی حقوق کا عالمی منشور بھی کہا جاسکتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے معاشرے کو پرامن بنانے کے لیے تئیس سال جو کاوشیں کی تھیں اس خطبے میں آپ نے ان کا خلاصہ اور نچوڑ بیان فرما دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس خطبے کو خود بھی بہت اہم فرمایا کہ ہو سکتا ہے اس کے بعد میری آپ سے ملاقات نہ ہوسکے، لہٰذا میری ان باتوں کو توجہ سے سنو اور حرز جان بنا لو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ کی ابتدا تقوی کی وصیت کے ساتھ فرمائی، مسلمانوں کی جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ کی تاکید فرمائی اور اس کی حرمت کو بیان فرمایا کہ جس طرح یوم حج، ماہ حج، بلد حرام یعنی مکة المکرمہ محترم ومقدس ہیں، اسی طرح مسلمان کی جان ومال اور عزت وآبرو بھی مقدس ومحترم ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے امانت کی ادائیگی کی تاکید فرمائی کہ خیانت وبد دیانتی استحصال اور سلب حقوق کا ذریعہ ہیں اور اس سے عداوت ودشمنی جنم لیتی ہے، لہٰذا مانت کا پاس ولحاظ ضرور ی ہے۔ آپ نے جاہلانہ رسموں اور دور جاہلیت کی دشمنیوں کے خاتمے کا اعلان فرمایا اوراس سلسلے میں سب سے پہلے اپنے خاندان کے ایک بچے کے خون کو معاف فرمایا ، دور جاہلیت کے سود کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور اپنے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کے سارے سود کو ختم فرمادیا۔عورتوں کے حقوق کی تاکید فرمائی او ران سے متعلق خیر کی وصیت فرمائی، نیز مردوں کے حقوق بھی بیان فرمائے اور عورتوں کو شوہر کی عزت وآبرو او رجان ومال کے تحفظ کا پابند بنایا او رانہیں آوارہ بننے سے منع فرمایا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسلامی کیلنڈر کی تصحیح فرمائی، ختم نبوت کا اعلان فرمایا، قرآن وسنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی تاکید فرمائی، اسلامی اخوت کو بیان فرمایا اور ایک دوسرے پر ظلم وزیادتی سے منع فرمایا۔ شیطان کو خوش کرنے سے منع فرمایا کہ وہ اس خطے میں بت پرستی سے تو مایوس ہو گیا ہے، لہٰذا تم گناہوں سے بھی اجتناب کرو کہ تمہارے گناہ کے ارتکاب سے بھی شیطان خوش ہوتا ہے، آخر میں آپ نے اپنی ذمہ داری یعنی رسالت کی ادائیگی کے سلسلے میں صحابہ سے سوال کیا، سب نے بیک زبان ہو کر کہا کہ آپ نے خدا کے پیغام کو ہم تک پہنچا دیا ہے، پھر آپ نے اس پر الله تعالیٰ کو گواہ بنایا اور یہ جملہ تین بار ارشاد فرمایا۔ اس خطبے میں آپ نے پوری انسانیت کی راہ نمائی فرمائی اور معاشرے کے امن وسکون سے متعلق امور کو بیان فرمایا کہ ان امور کو اختیار کرکے دنیا امن وسکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔