یہ پہلا سبق ہے کتاب ہدیٰ کا

idara letterhead universal2c

یہ پہلا سبق ہے کتاب ہدیٰ کا

حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی

بچوں کی پرورش وتربیت میں سب سے اہم اور بنیادی وکلیدی عناصر میں سر فہرست بچے کے شعور وفہم اور فکری سطح کے مطابق تعلیم دینا، نصیحت کرنا او راس کی عمر کے مراحل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی ذہنی وجسمانی نشوونما کی جانب توجہ دینا ہے، دنیا کی متمدن اقوام وملل کی تاریخ تربیت اطفال کے مطالعہ میں بین اور واضح انداز میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ دیگر اقوام میں پائے جانے والے تربیت اطفال کے تعلق سے مرتب کیے جانے والے اصول وضوابط کی بنیادوں کے سرے اسلامی تہذیب وتمدن سے ہی مستعار ہیں، اگرچہ اس میں ان کے قومی اختصاصات کی آمیزش کے بھی غالب رنگ وامتزاجات پائے جاتے ہیں، جب کہ امت مسلمہ کی تہذیبی، تمدنی اوراخلاقی اساس کا اصل ماخذ ومرجع کلام الله اور سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہی ہیں، لفظ ”اقرا“ سے اسلام کے آغاز میں دین اسلام کے مکمل ترکیبی عناصر اوراس کے حکم او ررموزمستور ہیں ،جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے، البتہ تعلیم، جس کو ازاول تا آخر تمام مخلوقات عالم میں انسانی علّت تفوق کے سرچشمہٴ عزت وعظمت کی حیثیت حاصل ہے اور ازروئے قرآن:﴿وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَیٰ کَثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا﴾․(سورة الاسراء:70)

ترجمہ:”حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے او رانہیں خشکی اور سمندر دونوں میں سواریاں مہیا کیں او ران کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا ہے او ران کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے۔“

کے ضیا پاش حقائق کے تناظر میں بنی نوع انسانی کو مخلوقات عالم پر کرم واکرام کا اور عظمت وبرتری کا درجہ حاصل ہے ،جو کہ بنی نوع انسانی میں صلاحیت علم او راس کے قبول واستعداد کا ہی مرہون منت ہے ،جس کا آغاز بچے کی پیدائش کے معاً بعد ہی حیات مہد سے ہو جاتا ہے، اس لیے ماں کی پر شفقت آغوش کو بنی نوع انسانی کی تعلیم وتربیت کے لیے اولین ومؤثر ترین درس گاہ قرار دیا گیا ہے ،جس کے اَن مِٹ نقوش انسان کی زندگی کے نہ صرف آخری سانس تک ہی باقی رہتے ہیں، بلکہ اس کے اثرات کا نفوذ طبیعت وفطرت کی صورت میں نسل در نسل جاری وساری رہتا ہے او را س کے مؤثرات مزاج وطبیعت کی تشکیل میں بنیادواساس کی حیثیت رکھتے ہیں اوراس کا دائرہ عمل فرد سے شروع ہو کر خاندان، معاشرے اور قبائلی حیات سے گزرتا ہوا قوموں کے فکر وفلسفے تک پہنچتا ہے، اس سے آگے بڑھیے تو کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح عالم اکبر یعنی کائنات میں رونما ہونے والے تغیرات وحوادث سے عالم اصغر یعنی کہ انسان متأثر ہوتا ہے، بالکل یہی صورت حال اس کے عکس میں بھی پائی جاتی ہے کہ عالم اصغر کی فطرت وطبیعت کے تغیرات عالم اکبر کو متأثر کرتے ہیں، مثلاً ایک انسان کے ذہنی اختلال یا طبیعت کے تلون یا بے سکونی کے نتیجے میں برپا ہونے والی جنگ وجدال اورتباہی وبربادی کا معاملہ ہو یا کسی پر سکون فطرت کے ارتقائی نتائج کی بات ہو ،جب اس کی اکائیت کو تلاش کیا جائے گا تو اس کے سوت ماں کی آغوش میں ملنے والی تربیت وتعلیم گاہ سے ضرور ملیں گے، کیوں کہ فطرت کے رویے اسی اولین درس گاہ میں ڈھلتے ، پلتے اور پروان چڑھتے ہیں، جو بعد میں میسر ماحول کی آمیزش کے ساتھ افکار ونظریات کی صورت اختیار کر جاتے ہیں یا علی سبیل المثال جیسے آم کی گٹھلی میں آم کے مکمل درخت کی مکمل خصوصیات صلاحیت واستعدادا پائی جاتی ہے، جس سے کہ آم کے درخت کے نشو نما کا ظہور ہوتا ہے، تا آنکہ اس سے حاصل ہونے والا پھل جب مکمل غذائی توانائی کے مرحلے میں داخل ہو کر قابل استعما ل بنتا ہے او رانسانی جسم کے امتزاجات وطبیعت کے مطابق اپنی ماہیت کا اثر ونفوذ کرتا ہے، انہیں غذاؤں کی معنوی قوتوں سے رویے اورمزاج وکردار بنتے ہیں، اسی طرح ایک نومولود بچہ ایک مکمل عالم کی صلاحیت اور ذات حق جل مجدہ کی طرف سے وجدانی علم لے کر اس دنیا میں آتا ہے، بلکہ فرق ماہیت کے ساتھ الله تعالیٰ وجدانی علم کی اقدار میں حشرات الارض ، چرند وپرند اورحیوانات بھی کسی نہ کسی درجے میں انسانوں کے ہم رکاب نظر آتے ہیں، اسی لیے دین اسلام نے اپنی تعلیمات میں آغاز سے ہی جابجارزق حلال کی اہمیت پر زور دیا ہے، یہاں تک کہ خالق کائنات اورانسان کے درمیان بلافصل رابطے کی صورت دعا کی قبولیت کا انحصار بھی رزق حلال پر ہی رکھا گیا ہے۔ علی ہذا القیاس جب بلا تخصیص اشیائے عالم کی تربیت ونشو نما میں ذات حق جل مجدہ کے یہ ابدی اصول کار فرما ہیں تو مخلوقات عالم کا سلسلہٴ عروج بنی نوع انسانی کی نشوو نما میں یہ اصول تربیت بدرجہ اولیٰ اور بتمام وکمال کار فرما ہونا عین قرین عقل ہے، جس کا آغاز سن شیر خواری سے ہی ہو جاتا ہے او رمرحلہ بہ مرحلہ اس عالم کے لیے حق تعالیٰ کی سنت تدریج وارتقا کی بنیاد پر پیدائش سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک باقی وقائم رہتا ہے، جیسا کہ ابھی مثال میں بتایا گیا ہے کہ آم کی گٹھلی میں آم کے درخت کی تمام صفات واستعداد وصلاحیتیں پائی جاتی ہیں، اسی طرح بنی نوع انسانی کے شیر خوار بچے کی فطرت وطبیعت میں عقل وشعور ،فہم وفراست، اخذ وقبول، بصیرت وبصارت کی تمام بنیادی صفات موجود ہوتی ہیں، جس کا اشارہ قرآن کریم نے اپنے بلیغ انداز میں اس طرح کیا ہے:﴿وَاللَّہُ أَخْرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَیْئًا وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ﴾․(سورة النحل:78)

ترجمہ:”الله تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو“۔

اگرچہ ایک بچہ اپنے فہم وبیان پر بلحاظ کمسنی اظہار پر قادر نہیں ہوتا، بجزاس کے کہ حق تعالیٰ کے حکم سے بطور معجزہ اس کا ظہور ہو جائے، جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا پالنے میں اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے اپنی والدہ حضرت مریم علیہا السلام پر لگائی جانے والی تہمت کا دفاع کرتے ہوئے:﴿قَالَ إِنِّی عَبْدُ اللَّہِ آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا﴾․(سورة مریم، آیت:30)

ترجمہ:” بچہ بول اٹھا کہ : میں الله کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔“

کہنا ، یہ خرق عادت کا ظہور معجزے کا استثناہے، لیکن بنی نوع انسانی کی عام فطرت وطبیعت سن شیر خواری میں کسی بھی قسم کے جذبات وخیالات کے اظہار سے عاجزو قاصر ہی ہے، اگرچہ اجزائے شعور وعقل میں اخذ وقبول کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں، اسی لیے شریعت مطہرہ نے حکم دیا ہے کہ بچے کو بے شعور وبے عقل سمجھتے ہوئے اس کی موجودگی میں نازیبا گفت گو، غیبت،کذب بیانی، خواہ مذاق ہی کیوں نہ ہو، چغلی، افترا پر دازی اور مذموم حرکات سے گریز واجتناب کیا جائے، کیوں کہ بڑوں کی تمام حرکات وسکنات الفاظ واشارات بچے کے قلب مصفی پر نقش ہو کر اس کی طبیعت وفطرت کی نشوو نما کا حصہ بن رہے ہیں، چناں چہ تعلیم کا اولین مقتضی یہ ہے کہ اپنے اخلاق وکردار کا محاسبہ ہوتا رہے ،کیوں کہ اثرات ومؤثرات کا دائرہ عمل تنہا اس کی ذات وشخصیت تک محدود نہیں ہے، بلکہ لا شعور یطور پر اس کی نسلوں میں منتقل ہو رہا ہے، اسی تناظر میں عربی کی ضرب المثل معروف ہے:”الولد سر لابیہ“ بیٹا باپ کا عکس ہے، جس کا دائرہ عمل عادات واطوار ، فکر ومزاج کو محیط ہوتا ہے، حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے زرّیں وابدی اصول ومسلمات سے مستعار لے کر ہی علمائے نفسیات نے اپنے قوانین تربیت مرتب کیے ہیں، جس میں انہیں نقاط کو بنیادی اساسی اہمیت دی ہے جو کہ دین اسلام کے مسلمات کہلاتے ہیں۔

غرض کہ حاصل یہ نکلتا ہے کہ امن عالم کی بات ہو یا دنیا کی ترقی وارتقا کا معاملہ ،جنگ وجدل ہو یا اخلاق وکردار، غرض کہ بہمہ جہت انسانی رویوں کی ا کائیت کے تمام رموزہائے سر بستہ کا آغاز تربیت اطفال اورمدرسہ آغوش مادر سے ہی مربوط ملے گا، چناں چہ انسانی زندگی مرحلہ وار اپنے آغاز سے انجام کی طرف سر گرم سفر ہوتی ہے، عہد طفولیت سے عہد شباب اورعہد شباب کے بعد عہد کہولت سے گزرتی ہوئی پختہ کاری کی طرف بڑھتی ہے، ہر عہد کے اپنے تقاضے او راپنے مطالبات ہیں، جس کا ظہور فطرت انسانی کی صورت میں اپنے اپنے وقت پر ہوتا ہے، جس کی تفصیل کا اجمال حضرت خطیب الاسلام رحمہ الله سابق مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند کے زبان وبیان میں اس طرح ہے کہ ذات حق جل مجدہ نے اس کائنات کے اندر انسان کو پیدا کیا او راسے زندگی کے ہر دور میں غلام اور فرماں بردار رکھا ہے، گویا انسان بچپن سے لے کر قبر میں جانے تک کسی نہ کسی کی غلامی ضرور کرتا ہے اور اپنی کم فہمی سے اس تصور میں جیتا ہے کہ میں آزاد ہوں، انسانی زندگی کے ان آقاؤں کی تفصیل جاننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ جانا جائے کہ ہماری زندگی کتنے مرحلوں سے گزرتی ہے، زندگی کے مراحل جاننے کے بعد آسانی کے ساتھ آقاؤں کا تعین ہو سکتا ہے۔

اس کائنات رنگ وبو میں قدم رکھتے ہی پہلا مرحلہ بچپن کی زندگی کا ہے او رزندگی کے ہر مرحلے کے کچھ لوازمات، کچھ، خصوصیات اور تقاضے ہوا کرتے ہیں، یہ ممکن نہیں کہ بچپن آئے ،مگر اس کے لوازمات وخصوصیات نہ آئیں ،بچپن آئے گا تو اس کے لوازم بھی ساتھ آئیں گے، زندگی کے اس دور کا آقا بچے کی طبیعت ہے او راہل علم حکماء کا اس حقیقت پر اتفاق ہے کہ طبیعت کے اندر علم نہیں ہوتا ہے ، گویاکہ انسان بچپن کی زندگی میں جاہل حاکم کی نگرانی میں رہتا ہے او راسی کی غلامی کرتا ہے، فطری بات ہے کہ جاہل حاکم اپنے محکوم سے ایسے افعال واعمال کبھی نہیں کرائے گا جس میں علم وآگہی ہو یا فکر وخیال کی بلندی ہو اور جاہل حاکم ایسے ہی کام کرائے گا جس سے کہ قدم قدم پر جہالت نمایاں ہو اور کفالت کا خلاصہ اور تقاضا نفس پروری وخود غرضی ہے، لہٰذا بچوں کی حرکات وسکنات اور بات میں نفس کے تقاضوں کے علاوہ کوئی اور تقاضا نہیں ہوتا ہے، دوسروں کے لیے نہ بچہ کچھ سوچ سکتا ہے، نہ کچھ کر سکتا ہے او را س کے جذبات یہی ہوتے ہیں کہ کھانا ہے تو صرف میرے لیے ہے، پہننا ہے تو صرف میرے لیے ہے، حتی کہ بچہ اپنے ماں باپ اور سگے بہن بھائیوں کو بھی جلدی سے اپنی کوئی چیز دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا، یہ اس لیے کہ حاکم آقا جاہل ہے او رجہالت کا بنیادی تقاضا خود غرضی ہے، چناں چہ جب طبیعت کے اندر خود غرضی ہوتی ہے تو زندگی محدود رہتی ہے، روابط اور تعلقات کم ہوتے ہیں، بچپن کا یہ دور جاہلیت وخود غرضی کا وقت سب پر آتا ہے، عوام پر، خواص پر ،علما ء پر، جہلاء پر، صلحاء پر، صوفیاء پر ، انبیاء پر، ہر ایک زندگی کے اس مرحلے سے گزر کر آگے بڑھتا ہے، البتہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام اور عام لوگوں کے درمیان یہ فرق ہوتا ہے کہ حضرات انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام شروع سے ہی فطرت سلیم کے مالک ہوتے ہیں، انہیں بچپن ہی سے فطرت کی پستی سے بچا لیا جاتا ہے اور ان کا تحفظ من جانب الله ہوتا ہے۔

چناں چہ اگر آپ حضرات انبیاء کے بچپن کی زندگی کو بھی دیکھیں گے تو وہ بھی آپ کو بالکل بے غبار نظر آئے گی۔ حضرت موسی علیہ السلام کے بچپن کا زمانہ ہے، آپ فرعون کی گود میں ہیں اور وہ لوگوں کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے:﴿انا ربکم الاعلی﴾ترجمہ :” میں تمہارا رب اعلی ہوں۔“ (سورة النازعات:24) چوں کہ اس کا یہ دعویٰ غیر حقیقی تھا، اس لیے موسیٰ علیہ السلام کی صالح فطرت اسے بچپن میں بھی گوارا نہ کرسکی، ظاہر ہے کہ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ علیہ السلام اپنے قول سے جواب نہیں دے سکتے تھے، اس لیے انہوں نے اپنے عمل سے جواب دیا کہ ایک ہاتھ سے فرعون کی ڈاڑھی پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے طمانچہ رسید کر دیا، فرعون کو کچھ اندازہ ہوا کہ شاید یہ وہی لڑکا ہے جس کے بارے میں نجومیوں نے خبر دی تھی کہ بنی اسرائیل کا ایک بچہ فرعونی سلطنت کے زوال کا سبب بنے گا، اپنی بیوی سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے گود سے لے لیا کہ ابھی تو یہ بچہ ہے او ربچے اس قسم کی حرکات کیا ہی کرتے ہیں۔

اسی طرح نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام کے بچپن کا زمانہ ہے، عمر تقریباً آٹھ سال ہے، خانہ کعبہ کی تعمیر جدید کا کام چل رہا ہے، سب کے ساتھ مل کر آپ بھی اپنے کاندھوں پر پتھر رکھ کر لا رہے ہیں، پتھر ڈھوتے ڈھوتے آپ کا کندھا سرخ ہو جاتا ہے ، آپ کے چچا ابوطالب نے دیکھا تو سوچا کہ گرمی کی شدت ہے، لاؤ! دوسرے بچوں کی طرح تہبند کھول کر کاندھے پر ڈال دیں! جیسے ہی آپ نے اس مقصد کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا، آپ صلی الله علیہ وسلم پر حیا کی وجہ سے غشی طاری ہو گئی اور ابو طالب نے فوراً اپنا بڑھتا ہوا ہاتھ روک لیا اور ارادہ ترک کر دیا۔ یہ فطرتیں تھیں کہ جن پر باری تعالیٰ کو نبوت کا بوجھ رکھنا تھا چناں چہ طفولیت کے زمانے میں بھی جب ان سے کسی فعل کا صدور ہوتا تھا، تو اس پر دانائی اور سمجھ بوجھ کا ہی غلبہ ہوتا تھا، لیکن یہ استثنا اورتحفظ فطرت کا معاملہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے، ورنہ بچپن کے لوازمات عہد طفولیت کے لیے عام او رجاہل حاکم طبیعت کے زیر اثر ہیں ،جس کو بالفاظ دیگر حیوانی زندگی کہا جاسکتا ہے، اس لیے جو خصوصیات حیوان کے اند رپائی جاتی ہیں وہی انسانی زندگی کے اس دور میں پائی جاتی ہیں، بیل کبھی امتیاز نہیں کرتا ہے کہ یہ کھیت میرے مالک کا یا کسی اور کا ہے، وہ کبھی یہ نہیں پوچھتا ہے کہ اس کا کھانا میرے لیے جائز کہ ناجائز ہے، اسی طرح بچے کی فطرت ہوتی ہے کہ کسی چیز کے اندر اپنے او رغیر کی ہونے میں کوئی فرق نہیں کرتا ہے او ر نہ اس کے نزدیک کوئی چیز حرام ہے، اس کے لیے بس حلال کا ہی مسئلہ ہے، اسی طرح بچے کے اندر ہم دردی یا مروت کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا، دوسرا بچہ اس کے سامنے تڑپ تڑپ کر مر بھی جائے لیکن وہ اس کے حلق میں ایک لقمہ بھی نہیں ڈال سکتا ہے۔ اس دور طفولیت سے گزر کر جوانی کی منزل میں داخل ہوتا ہے تو اب اس کے فکر وشعور اور علم وآگہی میں پختگی آچکی ہوتی ہے اور وہ خیر وشر، اچھے برے اور نفع نقصان کو سمجھنے لگتا ہے۔

اب اس کے سامنے جو بھی چیز آتی ہے وہ اپنی عقل سے اس کے صحیح او رغلط ہونے کا فیصلہ کرتا ہے، اس لیے کہ وہ طبیعت کے اقتدار سے باغی بن کر، عقل کے ہاتھ پر بیعت کرکے، اس کو اپنا حاکم وآقا تسلیم کرتے ہوئے، اپنی باگ ڈور عقل کے ہاتھ میں دے دیتا ہے، اس دور میں بھی انسان غلام ہی رہتا ہے، فرق اتنا ہے کہ اب جاہل طبیعت کے بجائے فاضل عقل کا غلام ہے، جس طرح طبیعت کے کچھ تقاضے او رخصوصیات تھیں ایسے ہی عقل کے بھی اپنے کچھ تقاضے او رخصوصیات ہیں۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے جہالت کے بجائے سمجھ داری کے افعال صادر ہوں، مزاج میں جمال پسندی ہو، تعلقات میں وسعت ہو اور عاقل کی زندگی کا سب سے بڑا مطالبہ اجتماعیت کا ہوتا ہے، جب اجتماعیت پیدا ہو گئی تو پھر ممکن نہیں کہ ایک عاقل خالص خود غرضانہ زندگی گزار سکے۔

انسان زندگی کے اس مرحلے میں صرف اپنی لیے ہی نہیں، بلکہ دوسروں کے لیے بھی کچھ کرنا چاہتا ہے، اب اس کی حالت بچوں جیسی نہیں ہو گی کہ اگر وہ کھانا کھارہا ہے اور دوسرا بچہ بھی اس کے پاس آکر کھڑا ہو جائے تو فطرت سلیم گوارا نہیں کر ے گی کہ وہ اسے کھانے پر نہ بلائے، بلکہ اب انسان خود کھانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کوبھی کھلانے کی کوشش کرتا ہے۔

بچپن میں انسان چاہتا ہے کہ بس کھانا ملنا چاہیے، جیسے بھی ہو، کسی طرح کے برتن میں ہو، ایسے ہی گرمی سردی سے بچاؤ کے لیے کپڑا ہونا چاہیے، چاہے کسی ڈیزائن اور کسی بھی کلر کا ہو، اس کو اس سے کوئی مطلب نہیں، نیند آئی سو گیا، زمین پر سو گیا، کہاں سو گیا اس سے کوئی مطلب نہیں، لیکن جب عقل کی حکم رانی چلتی ہے تو وہ صرف یہی نہیں کہ ضروریات زندگی کو پورا کرنا چاہتا ہے، بلکہ وہ حسن سلیقہ اور حسن اسلوب کوبھی ضروری سمجھتا ہے۔

ایک عاقل آدمی جب کھانا کھاتا ہے تو بچے کی طرح اس کے سامنے یہ بات نہیں ہوتی ہے کہ بس پیٹ بھر جائے، بلکہ وہ اس سلسلے میں حسن انتظام اور حسن سلیقہ کو بھی ملحوظ رکھتا ہے، ایسے ہی زندگی کے اس دور میں انسان محض اپنے تقاضوں ہی کو پورا کرنا نہیں چاہتا، بلکہ وہ اس کے اندر خوب صورتی بھی دیکھنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اچھے قسم کے برتنوں میں کھانا کھائے، اچھے سے اچھے مکانوں میں آرام کرے، شان دار لباس زیب تن کرے، کپڑا پہننے سے اس کا مقصد صرف گرمی وسردی سے بچاؤ ہی نہیں ہوتا، بلکہ وہ چاہتا ہے کپڑاخوش رنگ بھی ہو، ڈیزائن بھی شان دار ہو، دیدہ زیب بھی ہو، نہ صرف یہی بلکہ اس دور شباب میں انسان چاہتا ہے کہ اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ بھی خوب صورت طریقے سے ادا ہوں، ان کی تعبیر بھی اچھی ہو، جس کو خود کلام الله نے زینت سے تعبیر کیا ہے، کیوں کہ اس دور میں فرماں روائی عقل کی ہے، لہٰذا جب آپ نے عقل سے لباس کے بارے میں رنگوں کے نت نئے ڈیزائنوں کے بارے میں، معیشت، تجارت ، زراعت غرض کہ کسی بھی سلسلے میں جب اس سے سوال کریں گے تو وہ بھی آپ کے سامنے مجیب بن کر آئے گی۔ لیکن ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ وہاں آکر عقل بھی خود سائل بن کر کھڑی ہو جاتی ہے اور اپنے عجز کا اعتراف کرکے کہنے لگتی ہے کہ تیری فطرت کے اندر جو بلندی رکھی گئی ہے میں اس کے قابل نہیں ہوں، مثلاً اگر آپ اس سے سوال کریں کہ مرنے بعد بھی کوئی ہے کہ نہیں؟ اورمرنے کے بعد کیا صورت حال پیش آتی ہے؟ قبر میں انسان پر کیا گزرتی ہے؟ اس کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہے ؟ اس مرحلے پر آکر عقل اپنے عجز کا اعتراف کرے گی او رکہے گی میں ان سوالوں کا جواب نہیں دے سکتی ہوں۔

جب زندگی کے سب سے بڑے حاکم نے بھی عجز کا اعتراف کر لیا اورجب سب سے بڑے مجیب نے بھی جواب دینے سے انکار کر دیا اور وہ خود سائل بن کر کھڑا ہو گیا تو ظاہر ہے کہ عقل پر سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا۔ پہلے تو حاکم جاہل طبیعت تھی ،جو اپنے محکوم سے جاہلانہ افعال صادر کرواتی تھی، اس لیے اس سے چھٹکارا لے کر فاضل عقل نے حکم رانی کی، لیکن وہبھی ناقص نکلی، اب انسانی فطرت بے چین ہے او رکسی کامل واکمل راہ نما اور حاکم کا مطالبہ کرتی ہے۔ چناں چہ ندائے ربانی فطرت انسانی کے اس مطالبے کو پورا کرتی ہے، اب نبوت حاکم و راہ نما بن کر آتی ہے، جس کا قدرتی مقام عقل سے مافوق اور بلند تر تو ہے، لیکن اس کے برخلاف نہیں ہے، فطرت انسانی جس چیز کی طالب تھی اور جس چیز کی اس کو جستجو تھی نبوت اس کو بدرجہ اتم اوربتمام وکمال پورا کرتی ہے او رپھر فطرت انسانی اپنے اندر ایک قسم کا ٹھہراؤ اور سکون محسوس کرتی ہے۔

نبوت یہ نہیں کہتی ہے کہ ضروریات کو پورا نہ کیا جائے بلکہ نبوت نہ صرف ضروریات کو پورا کرنے کی تعلیم ہی دیتی ہے، بلکہ وہ تو اس کو فرض قرار دیتی ہے :”کسب الحلال فریضة بعد الفریضة“ ․(مرقاة المفاتیح، باب الکسب وطلب الحلال،:5/1904، رقم:2781)

حلال راستے سے رزق کے حصول کی جد جہد اسی طریقے پر فرض ہے جیسا کہ دیگر فرض عبادات ہیں، لیکن فرق یہ ہو جاتا ہے کہ پہلے انہی ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا طبیعت کو خوش کرنے کے لیے، عقل کو راضی کرنے کے لیے، لیکن نبوت کی حاکمیت کا پہلا درس یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ کرو اپنے خالق ومالک کو راضی کرنے کے لیے کرو، اسی حقیقت کو نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک حدیث پاک میں نہایت واضح اور دل نشین پیرائے میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ :”من اعطیلله، ومنع لله، وأحب لله، وأبغض لله، وأنکح لله فقد استکمل الإیمان“․ (مسند أحمد، مسند المکیین، حدیث معاذ بن أنس الجھني:24/399، رقم:15638)

ترجمہ: جس نے کسی کو کچھ دیا تو الله کے لیے دیا اور دینے سے ہاتھ روک لیا تو الله کے لیے روک لیا، کسی سے محبت کی تو الله کے لیے کی، کسی سے دشمنی کی تو الله کے لیے کی او رنکاح کیا تو الله کے لیے کیا، تو اس نے اپنا ایمان کامل کر لیا ہے۔

پہلے جب انسان جاہل طبیعت کی حکم رانی میں زندگی گزارتا ہے تو وہ اس کی حیوانی زندگی ہے، پھر جب اس نے فاضل عقل کی حکم رانی قبول کی تو وہ ہے اس کی انسانی زندگی او رجب اس نے اپنا راہ نما اور حاکم حق تعالیٰ کو بنا لیا تو وہ ہے اس کی ایمانی زندگی، جس طرح پہلے دور کی زندگی کا تقاضا تھا نفس پروری، لذت اندوزی، خود غرضی اور دوسری زندگی کا تقاضا تھا اجتماعیت، جمال پسندی، اسی طریقے سے اس تیسری زندگی یعنی ایمانی زندگی کے بھی کچھ مطالبات او راس کے تقاضے ہیں، اس ایمان زندگی کا تقاضا اورمطالبہ یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نبی آخر الزماں محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جس طرح زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا ہے اس کو پورے طور پر اپنی زندگی کے ایک ایک مرحلے میں اپنا لیا جائے او رجو کام بھی کیا جائے اس میں اپنے رب او رخالق ومالک کی رضا پیش نظر ہو، پہلے آدمی کھانا صرف پیٹ بھرنے کے لیے کھاتا تھا، لیکن جب ایمانی زندگی آئے گی تو وہ یہ بھی سوچے گا کیا کھاؤں او رکس طرح سے کھاؤں؟ جس سے کہ صرف میرا پیٹ ہی نہیں بھرے ،بلکہ میرا خدا بھی مجھ سے راضی ہو، اس احساس کے ساتھ جب آدمی کھانا کھانے بیٹھے گا تو حرام کا ایک لقمہ بھی اس کے پیٹ میں نہیں جائے گا، ایسے ہی جب آدمی کپڑا پہنے گا تو یہ سوچے گا کہ کپڑا ایسا ہو کہ جو الله تعالیٰ کی منشا اور اس کی مرضیکے خلاف نہ ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ مردوں کے لیے ریشم کا بنا کپڑا پہننا حرام ہے، تو ریشم کا کپڑا پہننے سے نفس تو راضی ہو جائے گا اور دوسرے کچھ لوگ خوش بھی ہوسکتے ہیں کہ بڑا اچھا لباس ہے ،اس میں بڑے خوب صورت لگ رہے ہو، مگر اس سے الله تعالیٰ راضی اور خوش نہیں ہوں گے تو ایمانی زندگی میں آکر آدمی ایسا کوئی لباس اختیار نہیں کر ے گا، اس کو جب بھی کپڑا پہننا ہو گا وہ یہ ضرور سوچے گا کون سا کپڑا جائز ہے او رکون سا ناجائز، کون سا حلال ہے او رکون سا حرام ہے؟ اسی طرح عقل محض میں زنا حرام ہے اور نکاح حلال ہے، لیکن جب آدمی ایمانی زندگی میں آئے گا تو وہ زنا سے بچے گا اور نکاح کی طرف راغب ہو گا۔

حاصل یہ ہے کہ عمارت کی اگر بنیاد او ر اساس درست ہے تو پوری عمارت ازاول تا آخر سیدھی اور استوار ہو گی او رانسانی زندگی کی بنیاد واساس کا آغاز اس کے عہد شیر خواری سے ہوتے ہوئے اور عہد شباب وکہولت سے گزرتے ہوئے پیرانہ سالی تک یکساں طریقے سے مسلسل اورمستمر ہے اور یہ ادوارحیات او راس کے تقاضوں کی بجا آوری ہی اگلے جہان میں کام یابی وناکامی کی خشت اساس قرار پاتی ہے۔

تعمیر حیات سے متعلق