نسل نو کو تباہی سے بچائیں!

idara letterhead universal2c

نسل نو کو تباہی سے بچائیں!

مولانا زبیر احمد صدیقی

میڈیکل سائنس کے مطابق والدین کی بعض اچھی یا بری صفات اولاد میں منتقل ہوتی ہیں، یہ امر مشاہد بھی ہے اور حقیقت بھی، چنا ں چہ والدین کا رنگ، ہیئت، شکل وصورت، مزاج، زبان ، حتی کہ بعض امراض تک بچوں میں پائے جاتے ہیں، خاندانی اوصاف، صلاحیتیں وغیرہ بھی موروثی ہوتی ہیں، مذکورہ بالا مادی اشیاء کی طرح روحانی اشیاء بھی والدین سے اولاد میں منتقل ہوتی ہیں، چناں چہ صالحین کی اولاد وذریت عموماً نیک وصالح اورفساق وفجار کی نسلیں عموماً اپنے آباء کے نقش قدم پر ہوتی ہیں، الایہ کہ الله تعالیٰ ان کی اولادوں کو ہدایت کی دولت نصیب فرما دیں اور صالحین کی اولاد کو گم راہ کر دیں۔ چناں چہ بیشتر انبیاء علیہم السلام کی اولاد بھی نبی ورسول بنائی گئیں، قرآن کریم میں ایسی ذریات کا تذکرہ موجود ہے:﴿إِنَّ اللَّہَ اصْطَفَیٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِینَ ، ذُرِّیَّةً بَعْضُہَا مِن بَعْضٍ وَاللَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ﴾․ (آل عمران:34-33)

ترجمہ:” الله نے آدم، نوح، ابراہیم کے خاندان اور عمران کے خاندان کو چن کر تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی۔ یہ ایسی نسل تھی، جس کے افراد ( نیکی اور اخلاص میں ) ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔ اور الله (ہر ایک کی بات) سننے والا ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔“

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:﴿أُولَٰئِکَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِم مِّنَ النَّبِیِّینَ مِن ذُرِّیَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّیَّةِ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْرَائِیلَ وَمِمَّنْ ہَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا…﴾․(مریم:58)

ترجمہ:”آدم کی اولاد میں سے یہ وہ نبی ہیں، جن پر الله نے انعام فرمایا اور ان میں سے کچھ ان لوگوں کی اولاد میں سے ہیں، جن کو ہم نے نوح کے ساتھ ( کشتی میں ) سوار کیا تھا اور کچھ ابراہیم اور اسرائیل ( یعقوب علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ اور یہ سب ان لوگوں میں سے ہیں، جن کو ہم نے ہدایت دی اور ( اپنے دین کے لیے ) منتخب کیا۔ جب ان کے سامنے خدائے رحمن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو یہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔“
معلوم ہوا کہ نیک اعمال کا اثر اولاد میں جار ی ہوتا ہے، جس سے اولاد بھی نیک بن جاتی ہے، جب کہ برے اعمال کا اثر نسل پر پڑتا ہے، جس سے اولاد بھی بری بن جاتی ہے، قرآن کریم نے اس حقیقت کی جانب اس طرح بھی اشارہ فرمایا:﴿وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُم بِإِیمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَا أَلَتْنَاہُم مِّنْ عَمَلِہِم مِّن شَیْء ٍ کُلُّ امْرِءٍ بِمَا کَسَبَ رَہِینٌ﴾․(الطور:21)

ترجمہ:” اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں او ران کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہے، تو ان کی اولاد کو ہم انہیں کے ساتھ شامل کر دیں گے او ران کے عمل میں سے کسی چیز کی کمی نہیں کریں گے۔ ہر انسان کی جان اپنی کمائی کے بدلے رہن رکھی ہوئی ہے۔“

آیت سے واضح ہوا کہ نیکوں کی اولاد اگر نیکی پر قائم رہے، تو حق تعالیٰ شانہ ایسی اولاد کو، باوجود اعمال کی کمی کے، اپنے فضل وکرم کے ساتھ اپنے آباء واجداد کے ساتھ لاحق فرما دیں گے اور بزرگوں کے درجات بھی کم نہیں کریں گے، گویا نیکوں کی اولاد پر نیکی کا اثر ہوتا ہے او راس کی نیکی کی وجہ سے ان کا حشر اپنے بزرگوں کے ساتھ ہو گا۔ اس کے برعکس معاملہ بھی اسی طرح ہے، بعض معاصی وگناہ ایسے ہیں کہ ان کا اثر والدین پر ایسا پڑتا ہے، جس سے پوری نسل ہی خراب ہو جاتی ہے، نتیجتاً دونوں نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ ذیل میں چند ایسے گناہ ذکر کیے جارہے ہیں جو نسلوں کو تباہ کر رہے ہیں:

توہین انبیاء علیہم السلام

توہین انبیاء علیہم السلام ایسا خطرناک جرم ہے، جس سے نسل کے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، احادیث نبویہ میں اس کا اشارہ موجو دہے، صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، سنن نسائی وغیرہ میں مذکور ہے:

”سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ نے یمن سے سونے کا ایک ٹکڑا حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ارسال کیا، آپ نے یہ سونا صرف چار افراد میں تقسیم فرمایا:

1.. اقرع بن حابس  2.. عینیہ بن بدر الفزاری 3.. زید الطائی 4.. علقمہ بن علاقہ العامری

اس پر قریش وانصار کو ناگواری ہوئی، وہ گویا ہوئے کہ آپ نجد کے سرداروں کو نواز رہے ہیں او رہمیں نظر انداز فرمارہے ہیں ( یہ ناراضگی فطری تھی)۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں ان ( نو مسلموں ) کی تالیف قلب کر رہا ہوں( قریش وانصار مطمئن ہو گئے) بعد ازیں ایک ایسا شخص آیا جو گہری آنکھیں، موٹے رخسار، ابھری ہوئی پیشانی، گھنی داڑھی اور سر سے گنجا تھا، اس نے کہا اے محمد( صلی الله علیہ وسلم)! خوف خدا کیجیے! آپ نے ارشاد فرمایا: اگر میں خدا کی نافرمانی کرتا ہوں تو فرماں برداری کون کرے گا؟ الله تعالیٰ تو اہل زمین کے لیے مجھ پر اعتماد کرتے ہیں او رتم مجھ پر اعتماد نہیں کرتے؟ ایک شخص نے اس ( گستاخ) کے قتل کی اجازت طلب کی، شاید وہ خالد بن ولید تھے (ایک روایت میں حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کا ذکر ہے) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اجازت مرحمت نہ فرمائی، یہ شخص جانے لگا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی نسل سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو (بظاہر) قرآن کریم پڑھتے ہوں گے، لیکن قرآن کریم ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے ایسے باہر ہو جائیں گے جیسے تیر کمان سے باہر ہو جاتا ہے، یہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے، بت پرستوں سے تعرض نہیں کریں گے، اگر میں نے انہیں پالیا تو قوم عاد کی طرح انہیں قتل کردوں گا۔“ (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء:3344)

جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بے ادبی کے مرتکب اس شخص کا نام ذوالخویصرہ حرقوص بن زہیر تھا، جس کا تعلق بنو تمیم سے تھا، جو غالبا منافق تھا، اس نے جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر بد اعتمادی کے ساتھ بے ادبی بھی کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس پر حلم وحوصلہ کا مظاہرہ فرمایا، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے قتل کی اجازت مرحمت نہیں فرمائی، کیوں کہ بظاہر یہ نماز بھی پڑھتا تھا۔ منافقین کے بارے آپ صلی الله علیہ وسلم کا طرز یہی تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم انہیں قتل نہیں فرماتے تھے، ورنہ لوگ یہ الزام دیتے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں، اس برے تاثر سے بچنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے عبدالله بن ابی جیسے رئیس المنافقین کو بھی بھی قتل کرنے کی اجارت نہیں دی، لیکن جب یہ شخص جانے لگا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے اس عمل بد کی نحوست بھی بیان فرمائی کہ اس کے گناہ کی نحوست سے اس کی نسل بھی بے دین ہو گی، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہوئی۔ سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں اس شخص کی نسل سے خارجی پیدا ہوئے، جو بظاہر قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے، عبادت گزار بھی تھے اورشب بیدار بھی، لیکن صحابہٴ کرام بشمول حضرت علی  کو کافر کہتے تھے، ان کے متعلق سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ اور صحابہ کرام کا یہ مؤقف تھا کہ یہ جادہ ٴ مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں، حضرت علی نے ان کے خلاف جہاد بھی فرمایا۔

قارئین! اس واقعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کے گناہ کی نحوست سے اس کی نسل تباہ ہو گئی۔

توہین علمائے کرام

اہل علم نے انبیاء علیہم السلام کی توہین کے ساتھ وارثان انبیاء، یعنی علماء ومشائخ کی بے ادبی کو بھی خطرناک قرار دیا ہے، حضرات انبیاء علیہم السلام کی بے ادبی سے آدمی خارج از ایمان او رکافر ہوجاتا ہے، جب کہ علماء ومشائخ کی توہین سے کفر تو لازم نہیں آتا، البتہ ایمان کا نور اور دین کا علم ضرور سلب ہو جاتا ہے، سلف صالحین کا تجربہ ہے کہ علمائے کرام کے گستاخ کی نسل سے الله تعالیٰ علم دین دور رکھتے ہیں، اگر گستاخ خود بھی صاحب علم ہو تو نور علم سلب ہو جاتا ہے، جب کہ اہل علم کے ادب او راحترام کی برکت سے الله تعالیٰ با ادب کی نسل سے کوئی نہ کوئی عالم پیدا فرما دیتے ہیں۔

مقام افسوس یہ ہے کہ معاشرے سے تحمل او راختلاف رائے برداشت کرنے کا عنصر ختم ہو گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض علمائے کرام سے سیاسی اختلاف کی بنیاد پر علمائے کرام کی توہین اور ان پر الزام تراشی تک کو روا رکھا جاتا ہے، جس سے زبردست نقصان کا اندیشہ ہے۔ تحریک آزادیٴ ہند میں قیام پاکستان سے متعلق، مسلمانوں او رعلماء کرام کی دوآرا تھیں، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  علمائے کے اس طبقے میں سے تھے، جو تقسیم ہند کے خلاف تھا، جب کہ ہمارے بہت سارے اکابرین تقسیم ہند کے پرجوش حامی تھے، حضرت مدنی  کی اس موقع پر بعض جذباتی نوجوانوں نے توہین کی او ران کے سامنے برہنہ ہو گئے، داڑھی پرشراب پھینکی، دشنام طرازی کی، عین شاہدین کا کہنا ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے بعد ان لوگوں کو گلیوں میں بھیک مانگتے اور ذلیل ہوتے دیکھا۔ ہمارے بزرگ خواجہ عبدالرحمن مرحوم بھی ان عینی شاہدین میں شامل تھے، جنہوں نے احقر کو بتایا تھا کہ بعض کو تو یہ اعتراف بھی تھا کہ انہیں حضرت مدنی  کی گستاخی کی سزا مل رہی ہے۔

قطب الارشاد، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی  مستجاب الدعوات او رصاحب کشف بزرگوں میں سے تھے، ان کا ملفوظ ہے کہ علمائے کرام کے گستاخ کا چہرہ قبر میں قبلہ رو نہیں رہتا، اس لیے اس نسل کو تباہ کر دینے والے جرم سے باز رہنا چاہیے۔

اہل حق کی عداوت

نسل کش گناہوں میں سے ایک گناہ اہل حق کی مخالفت وعداوت بھی ہے، کچھ نہ کرسکنے کے باوجود اہل حق سے بغض وعناد رکھنا، نہ صرف خود کو تباہ کر دیتا ہے، بلکہ نسلیں بھی برباد کر دیتا ہے، صحیح بخاری میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں ڈالے جانے پر ایک جانور کے آپ کے لیے دہکائی گئی آگ میں پھونک مارنے کا ذکر ہے، تاکہ آگ زیادہ بھڑکے، اس پر اس جانور کی نسل کو قیامت تک مار ڈالنے کا حکم ہے۔

”ام شریک  سے روایت ہے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سام ابرص گِرگِٹ کے قتل کرنے کا حکم دیا اور ارشا د فرمایا یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر پھونک مارتا تھا۔“ (صحیح بخاری، کتاب الانبیاء:335)

حدیث کی شرح میں امام قسطلانی  ارشاد فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا، تو تمام جانور آگ بجھانے اور سام ابرص آگ بھڑکانے کی کوشش میں تھا، گویا اس جانور کی گھٹی میں صالحین ومقام صالحین کی دشمنی سموئی ہوئی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب بیت المقدس کو آگ لگائی گئی تو یہ جانور آگ میں پھونک مار کر آگ بھڑکانے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا، اس لیے اس جانور کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یوں ارشاد ہے کہ جس نے پہلی ضرب میں اس جانور کو قتل کیا اسے سو نیکیاں ملیں گی، جس نے دوسری ضرب میں مارا اسے اس سے کم اور جس نے تیسری ضرب میں اسے قتل کیا، اسے اس سے کم حسنات نصیب ہوں گی۔

معلوم ہوا کہ یہ جانور اہل الله او رمساجد سے نفرت کی وجہ سے لائق قتل قرار دیا گیا۔ اسی نفرت کے اظہار، سیدنا ابراہیم علیہ السلام او ربیت المقدس کو جلانے کی کوشش میں مصروف چند جانوروں کی وجہ سے ان کی پوری نسل خراب ہو گئی، جس کی بنیاد پر انہیں مار ڈالنے کا حکم دیا گیا اور مار دینے پر نیکیاں مرحمت فرمائی گئیں، بعض روایات میں تو یہاں تک فرمایا گیا کہ یہ جانور کعبہ میں داخل ہو جائے، تب بھی اسے قتل کر دو۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل الله اور مقدس مقامات یا دین کی ادنی سی مخالفت بھی تباہ کن ہے، جو نسلوں کو خراب کر دیتی ہے، ہر چند کہ اس جانور کی یہ کوشش بے کار وبے سود ہی تھی، جس کا بظاہر سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا او رنہ ہی بیت المقدس کی آگ میں اس کے پھونک مارنے سے چنداں اشتعال ہوا ہو گا، لیکن یہ ادنی کاوش بھی اس کی نسلوں کی تباہی کا ذریعہ بن گئی، اعاذنا الله من ذلک․

والدین کی اولاد کے حق میں دعائیں او ران کی حسنات اولاد کی مادی وروحانی ترقی اور رزق میں وسعت کا باعث ہوتی ہیں، قرآن کریم نے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا نقل فرمائی ہے:﴿رَّبَّنَا إِنِّی أَسْکَنتُ مِن ذُرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیْرِ ذِی زَرْعٍ عِندَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِی إِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُونَ﴾․ (الابراہیم:37)

ترجمہ:” اے ہمارے پرورد گار! میں نے اپنی کچھ اولاد کو آپ کے حرمت والے گھر کے پاس، ایک ایسی وادی میں لابسایا ہے، جس میں کوئی کھیتی نہیں، ہمارے پرورد گار! ( یہ میں نے اس لیے کیا) تاکہ یہ نماز قائم کریں، لہٰذا لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے کشش پیدا کر دیجیے اور ان کو پھلوں کا رزق عطا فرمائیے، تاکہ وہ شکر گزار بنیں۔“

سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذریت واولاد ( جو مکہ مکرمہ میں مقیم ہوگئی) کی محبوبیت اور لوگوں کے ان کی جانب رحجان، نیز وسعت رزق کی دعا فرمائی، جسے الله تعالیٰ نے ان کے لیے قبول فرمایا۔ ذریت ابراہیم علیہ السلام کو مکہ جیسے بے آب وگیاہ غیر زرعی خطہ میں ہمہ قسم کے پھل نصیب فرمائے، چناں چہ اس دعا کی قبولیت کا ذکر سورہٴ قصص کی آیت نمبر ستاون میں یوں مذکور ہے:﴿أَوَلَمْ نُمَکِّن لَّہُمْ حَرَمًا آمِنًا یُجْبَیٰ إِلَیْہِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْء ٍ رِّزْقًا مِّن لَّدُنَّا وَلَٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُونَ﴾․(سورہ القصص:57)

ترجمہ:”بھلا کیا ہم نے ان کو اس حرم میں جگہ نہیں دے رکھی ، جو اتنا پرامن ہے کہ ہر قسم کے پھل اس کی طرف کنھچے چلے آتے ہیں، جو خاص ہماری طرف سے دیا ہوا رزق ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔“

”بعض مفسرین کا قول ہے کہ الله تعالیٰ نے ذریت ابراہیم علیہ السلام کو پھلوں سے رزق دینے کے لیے فلسطین کی سرزمین سے طائف کو مکہ کے قریب منتقل فرما دیا۔“ (تفسیر قرطبی)

والدین کے حسن اعمال کے سبب اولاد کے رزق میں وسعت کے بے شمار واقعات قرآن وسنت میں مذکو رہیں۔ امام بخاری نے کتاب الجہاد میں باب ” برکة الغازی فی مالہ حیا ومیتا“ کے تحت سیدنا زبیر بن عوام رضی الله عنہ او ران کے خاندان کا تفصیلی واقعہ روایت فرمایا ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

سیدنا زبیر رضی الله عنہ نے اپنے صاحب زادے حضرت عبدالله بن زبیر رضی الله عنہ کو شہادت سے قبل وصیت فرمائی کہ مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرض کی ہے او رمیرے خیال میں میرا ترکہ میرے قرض سے شاید بچ جائے، لہٰذا میرا مال فروخت کرکے قرض ادا کرنا، باقی مال سے ایک تہائی کے متعلق وصیت فرمائی، اس ایک تہائی کا ثلث حضرت عبدالله بن زبیر رضی الله عنہ کے بیٹوں کو دینے کی وصیت فرمائی، پھر قرض سے متعلق ہدایت فرمائی کہ اگر ادائیگی قرض میں دشواری ہو تو میرے مولیٰ سے مدد طلب کرنا یعنی الله تعالیٰ سے مدد مانگنا، ان کی شہادت کے بعد حضرت عبدالله بن زبیر رضی الله عنہ کو ادائیگی قرض کے سلسلہ میں دشواری پیش آئی، تو وہ یوں دعا مانگتے:”یَا مَوْلَی الزُّبَیْرِ اقْضِ عَنْہُ دَیْنَہُ“․

ترجمہ:” اے زبیر کے مولیٰ !ان کے قرض کی ادائیگی کروا دیجیے۔“

حضرت زبیر کے ترکے میں نقد رقوم بالکل نہ تھیں، بلکہ مکان، زمین او رجائیداد یں ان کا ترکہ تھا۔ اس ترکہ میں ”غابہ“ کی زمین ، مدینہ منورہ میں گیارہ گھر، بصرہ میں دو گھر، کوفہ میں ایک گھر کے علاوہ مصر میں بھی ایک گھر تھا۔ حضرت زبیر کی شہادت کے بعد جب قرض کا حساب لگایا گیا تو 22 لاکھ نکلا، حضرت حکیم بن حزام کے قرض کے متعلق سوال کے جواب میں حضرت عبدالله نے صرف ایک لاکھ قرض ظاہر کیا، اس پر وہ کہنے لگے مجھے نہیں لگتا کہ اس ترکہ سے اتنا سارا قرض ادا ہو، حضرت عبدالله بن زبیر نے فرمایا: اگر قرض 22 لاکھ ہو تو پھر؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں لگتا کہ آپ والد کا قرض ادا کرسکیں گے، میری مدد کی ضرورت ہو تو ضرور بتائیے، حضرت عبدالله بن زبیر نے اپنے والد کے قرض کی ادائیگی شروع کی، غابہ کی وہ زمین جو ان کے والد نے ایک لاکھ ستر ہزار کی خریدی تھی، اسے سولہ لاکھ میں فروخت کیا، پھر اعلان کیا جس نے ہمارے الد سے قرض لینا ہو وہ غابہ میں آکر لے جائے، یہ سن کر عبدالله بن جعفر آئے اور بتایا میرا چار لاکھ قرض ہے، اگر آپ چاہیں تو میں معاف کر دوں، حضرت عبدالله نے انکار فرما دیا، انہوں نے مہلت دینے کی پیش کش کی تو اسے بھی مسترد کر دیا گیا، چناں چہ ان کی ادائیگی بصورت زمین کر دی گئی۔

حضرت عبدالله نے غابہ کی پوری جائیداد فروخت کرکے مکمل قرض ادا کر دیا اور زمین کے ساڑھے چار حصے بچ بھی گئے او ران ساڑھے چار حصوں میں سے ڈیڑھ حصہ حضرت معاویہ نے ڈیڑھ لاکھ اور حضرت منذر، عمر وبن عثمان  عبدالله بن زمعہ نے ایک لاکھ لاکھ کا ایک حصہ خرید لیا، یوں قرض کی ادائیگی سے فراغت ہوئی تو چار سا ل تک انتظار کیا گیا کہ کوئی قرض خواہ نہ آجائے او رادائیگی قرض کے لیے ہر سال حج پر اعلان بھی کیا جاتا رہا، اگر کسی نے حضرت زبیر  سے قرض لینا ہو تو آکر لے جائے، چار سال بعد باقی رقم ورثا میں تقسیم ہوئی، تو اس قدر برکت ظاہر ہوئی کہ کل ترکہ6 کروڑ روپے تک جا پہنچا اور چاربیویوں میں سے ہر بیوی کو بار ہ بارہ لاکھ درہمحصہ ملا، الله تعالیٰ نے حضرت زبیر رضی الله عنہ کی طاعات کی برکت سے ورثاء کو بھی مالا مال کر دیا۔

تعمیر حیات سے متعلق