عبادت کی توفیق کیوں نہیں ملتی؟

idara letterhead universal2c

عبادت کی توفیق کیوں نہیں ملتی؟

مفتی محمد سلمان قاسمی

کسی بھی شخص کو خیرکے کام کا موقع فراہم ہونا اتفاق نہیں ہوتا، بلکہ الله تعالیٰ کا انعام او رتوفیق ہوا کرتی ہے، جن بندگان خدا سے باری تعالیٰ راضی او رخوش ہوتے ہیں ان کے لیے خیر کے کاموں کی راہ ہموار کرتے ہیں، سورة اللیل کی آیت میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرَیٰ﴾․ (آیت:7) علامہ ابن جریر رحمہ الله نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ اس کے لیے کشادگی پیدا کرتے ہیں، کشادگی سے مراد ایسے عمل کی توفیق ملنا جس سے الله تعالیٰ دنیا میں راضی ہوں، تاکہ آخرت میں اس عمل کی وجہ سے جنت عطا کرسکیں۔ ( تفسیر طبری) اور جو بندے خدا فراموش اور شریعت کو ثانوی درجے میں رکھ کر زندگی گزارتے ہیں، ان سے یہ توفیق وتیسیر چھین لی جاتی ہے، بس معلوم ہوا کہ قربت وعبادت کا تعلق توفیق سے ہے، یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس توفیق خداوندی کے نصیب ہونے میں انسان کی معیشت او رکمائی کا بہت بڑا دخل ہے، جس شخص کی کمائی پاکیزہ اور حلال ہو گی اور جو پاک وطیب طریقِ معاش اختیار کرے گا الله تعالیٰ ایسے بندوں کو بکثرت اعمال ِ صالحہ کا موقع عنایت فرمائیں گے اور نہ صرف اس کو بلکہ اس کی نسلوں میں تک اس کے نفیس وپاکیزہ اثرات کو منتقل کرتے ہیں، آج معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اپنی اولا دکے باغی ونافرمان ہونے کا شاکی ہے اور ان کی بے راہ روی وبے دینی، بلکہ آوارگی وبددینی کو لے کر بے حد فکر مند اور نہایت غمگین ہے، ان کا یہ تصور وخیال ہے کہ زمانے کی رنگینیوں اورمعاشرے کی خرابیوں نے باوجود ان کی ہزار تربیت ونگرانی کے نوجوان نسل کو آوارہ وبے ہودہ بنا دیا، حقیقت یہ ہے کہ نسل ِ نو کے بگاڑ میں جہاں معاشرتی مفسدات کار فرما ہیں، وہیں ان کے افزائش میں استعمال شدہ حرام اورمشتبہ مال بھی اثر دار ہے، دنیا میں جتنے بھی اولیاء ِ عظام گزرے ہیں ان کے سوانح میں یہ بات نمایاں طور پر ملتی ہے کہ ان کے والدین نے ان کی نشوو نما اور روزی روٹی میں غایت درجہ احتیاط برتا ہے او رحرام تو درکنار، مشکوک ومشتبہ روزی کو بھی ان کے قریب آنے نہیں دیا، یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ آفتاب ِ ہدایت بن کر عالم دنیا پر چھا گئے او رامت کے ایک بڑے طبقے کو صراط مستقیم پر گام زن کیا اور اپنے والدین کے لیے تاہنوز صدقہٴ جاریہ بنے ہوئے ہیں، گو ان کے والدین نے کوئی بڑا دینی کارنامہ انجام نہ دیا ہو، لیکن اپنی اولاد کی تربیت کے تئیں جو حزم واختیاط سے کام لیا وہی ان کی دنیا میں ترقی اور آخرت میں بلندیٴ درجات کا باعث بنا، اس کے برعکس جو شخص حرام مال کماتا اور کھاتاہے الله اس کی حق شناسی کی دولت کو ختم کر دیتے ہیں، اس کے نور ِ ایمان کو بجھا دیتے ہیں اور ایسے شخص کا دل مردہ ہو جاتا ہے، حق اورہدایت کی بات اس کے ضمیر پر اثر انداز نہیں ہوتی، اعمال صالحہ کی اس کو توفیق نہیں ملتی اور سارے اسباب مہیا ہونے کے باوصف کبھی خیر کے کاموں کی طرف اس کی طبیعت مائل نہیں ہوتی، اس کے قلب پر شیطان کا تسلط ہو جاتا ہے اور یہ شخص معاشرے کے لیے ایک موذی جانور کی طرح نقصان دہ ہو جاتا ہے، نیز جو شخص ناجائز طریقے سے مال کماتا ہے اس کو عبادت کی توفیق تو کیا میسر آتی، بلکہ اس کی، کی ہوئی عبادتیں او ردعائیں بھی عندالله مردور ہو جاتی ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشاد فرمایا: بے شک الله تعالیٰ پاک ہے، پاک ہی قبول کرتا ہے اور بے شک الله تعالیٰ نے جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو! وہی حکم اُس نے پیغمبروں کے علاوہ اپنے مؤمن بندوں کو دیا ہے کہ اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اُس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ! اس کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر فرما یا جو لمبے سفر میں ہو، بال بکھرے ہوئے ہوں، بدن پر غبار لگا ہوا ہو، آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر یا رب یا رب کہتا ہو، اُ س کا کھانا حرام ہو، اُس کا پینا حرام ہو، اُس کا پہننا حرام ہو، تو ان سب چیزوں کے باوجود اُس کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے؟ ( صحیح مسلم:1015، جامع ترمذی:2989)

چناں چہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ کوفہ میں ” مستجاب الدعاء“ لوگوں کی ایک جماعت تھی، جب کوئی حاکم اُن پر مسلط ہوتا، اُ س کے لیے بد دعا کرتے، وہ ہلاک ہوجاتا؛ حجاج ظالم کا جب وہاں تسلط ہوا تو اُس نے ایک دعوت کی، جس میں ان حضرات کو خاص طور پر شریک کیا اور جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو اُس نے کہا کہ میں ان لوگوں کی بد دعا سے محفوظ ہو گیا کہ حرام کی روزی ان کے پیٹ میں داخل ہو گئی۔ (فضائل رمضان:29)

حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ نے عرض کیا: ” یا رسول الله! میرے لیے دعا کیجیے کہ میں ”مستجاب الدعوات“ ہو جاؤں! “ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ :” اپنے کھانے کو پاک کرو! الله کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک الله تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا“ جس شخص کا بدن حرام مال سے بڑھا تو اُس کا بدلہ سوائے جہنم کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ “ (المعجم الاوسط للطبرانی:6495)

حضرت ابنعباسضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”جس شخص نے دس درہم کا لباس خریدا؛ لیکن اُس میں ایک درہم حرام کا تھا، تو جب تک یہ لباس اُس کے بدن پر رہے گا، اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔“ (مسند احمد:5732)

حضرت علی کرم الله وجہہ کی روایت میں ہے کہ :” جس نے حرام مال سے کرتا پہنا تو اس کی نماز قبول نہیں“۔ (مسند بزار:819)

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ” منھ میں خاک ڈال لینا اس سے بہترہے کہ کوئی شخص حرام مال اپنے منھ میں ڈالے“۔ (شعب الایمان:5379)

بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی ایک روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی ضرور آئے گا جس میں انسان بالکل بے پروا ہو کر مال حاصل کرے گا، یہ بھی نہیں دیکھے گا کہ وہ حلال طریقے سے آرہا ہے یا حرام راستے سے ۔ ( بخاری حدیث نمبر2083) گویا اسی زمانے کی نبی صلی الله علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی ہو گی، آج معاشرے میں جتنی بھی کاروباری اسکیمیں او رتجارت کے نئے طریقے رائج ہوچکے ہیں ان میں سے اکثر کے احوال مشتبہ اور گڑ بڑی ہیں اور امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ بے دریغ ان معاملات میں ملوث ہوتا چلا جارہا ہے، شیئر مارکیٹنگ اور منی انوسٹمنٹ وغیرہ کے بابت جو شرعی اصول وضوابط ہیں، شرکت ومضاربت کی جو شرائط ہیں، ان کا ذرالحاظ کیے بغیر سودی کاروبار کی خوب ترویج کی جارہی ہے او ربہت سارے مسلمان دانستہ ونادانستہ طور پر آپ علیہ السلام کی پشین گوئی کے مطابق محض مال کے حصول کے لیے اس سودی نظام کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جن کا گزارہ ہی سو فیصد سودی سرمایہ پر ہے، قرض دے کر ماہانہ اس کا انٹرسٹ وصول کرنا، بینک میں جمع شدہ مال پر حاصل ہونے والے سود کا استعمال، قرضہ دے کر رہن پر رکھے گئے دکان ومکان میں تجارت وسکونت اختیار کرنا، بیٹنگ ایپلیکیشنز میں پیسہ ِانویسٹ کرکے جوا سٹہ کی شکل میں مال کمانا وغیرہ یہ بلاریب حرام ہیں، مگر مسلم اُمہ بڑے شوق کے ساتھ یہ سب کچھ کر رہی ہے۔

اب غور کریں جن جسموں کی نشوو نما ہی خالص سودی مال او رحرام رقم سے ہوئی ہو کیا وہ جسم خدا کی بندگی کے قابل ہیں؟ کیا اُنہیں الله اپنے گھر عبادت کے لیے بلائے گا؟ کیا ایسے لوگوں کو حج وزکوٰة کے مواقع فراہم ہوں گے؟ کیا ایسے لوگ اقامت ِ دین او رخلافت ارضی کی عظیم ذمہ داری کا استحقاق رکھتے ہیں؟ کیا ان کی نسلوں میں علماء وصلحاء، اتقیاء واولیاء پیدا ہوں گے؟ ہر گز نہیں ! بلکہ ایسی قوم تو خدا کے قہر اور عذاب کا شکار ہو جائے گی، الله اپنے دشمنوں کو ان پر تسلط واقتدار عطا فرمائیں گے، ان کے سارے اختیارات سلب کرکے انہیں مقہور ومجبور ہو کر زندگی گزارنا پڑے گی اور یہ لوگ ہمیشہ مظالم وآلام کی چکی میں پستے رہیں گے۔

ہم اس زمانے کے مسلمانوں کا سلف سے موازنہ کریں، صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین تو مشتبہ مال کا ایک لقمہ بھی اپنے پیٹ میں چلے جانے پر دنیا وآخرت میں ہلاکت کا اندیشہ کیا کرتے تھے، حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کا ایک غلام تھا، جو غلہ کے طور پر اپنی آمدنی میں سے کچھ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا، ایک مرتبہ وہ کچھ کھانا لایا اور حضرت نے اس میں سے ایک لقمہ نوش فرما لیا، غلام نے فرمایا کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے دریافت کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ اب بتاؤ! عرض کیا کہ میں زمانہٴ جاہلیت میں ایک قوم پر گزرا اور ان پرمنترپڑھا، انہوں نے مجھ سے وعدہ کر رکھا تھا آج میرا گزر اِدھر کو ہوا تو ان کے یہاں شادی ہو رہی تھی، انہوں نے یہ مجھے دیا تھا۔حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ تو مجھے ہلاک ہی کر دیتا۔ اس کے بعد حلق میں ہاتھ ڈال کر قے کرنے کی کوشش کی، مگر ایک لقمہ وہ بھی بھوک کی شدت کی حالت میں کھایا گیا تھا، نہ نکلا۔ کسی نے عرض کیا کہ پانی سے قے ہوسکتی ہے، ایک بہت بڑا پیالہ پانی کا منگوایا او رپانی پی پی کر قے فرماتے رہے، یہاں تک کہ وہ لقمہ باہر نکال دیا۔ کسی نے عرض کیا کہ الله آپ پر رحم فرمائیں ! یہ ساری مشقت اس ایک لقمہ کی وجہ سے برداشت فرمائی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری جان کے ساتھ بھی یہ لقمہ نکلتا ، تو میں اس کو نکالتا، میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو بدن مال حرام سے پرورش پائے، آگ اس کے لیے بہترہے، مجھے یہ ڈر ہوا کہ میرے بدن کا کوئی حصہ اس لقمہ سے پرورش نہ پائے ۔ ( منتخب کنز العمال، ماخوذ از حکایات صحابہ)
آج امت مسلمہ کی زبوں حالی بیان سے باہر ہے، نہ عبادات میں جی لگتا ہے اور نہ ان کی توفیق ملتی ہے، گھر کی عورتیں جن کی کبھی تہجد بھی قضا نہیں ہوتی تھی فرائض ہی کو کبھی کبھی ادا کر رہی ہیں اور نوجوان نسل کی دینی حالت کا تو پوچھنا ہی کیا! ان تمام کی ایک اہم وجہ یہی حرام وناجائز لقموں کا پیٹ میں داخل ہونا ہے، جس کی وجہ سے الله تعالیٰ نے ہم سے طاعت کی لذت او رعبادت کی توفیق دونوں چھین لی ہے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو اکل حلال کی توفیق عنایت فرمائے او رحرام، بلکہ مشتبہ روزی کے دانے دانے سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین #
          ائے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
          جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
                                                  (علامہ اقبال)

تعمیر حیات سے متعلق