درود وسلام کے فضائل

idara letterhead universal2c

درود وسلام کے فضائل

مولانا زبیر احمد صدیقی

سرورِ کونین، امام الانبیاء، سید المرسلین، فخرِموجودات، حضرت ”محمد“ صلی الله علیہ وآلہ  وسلم ،فداہ ابی وامی، کی ذات ِ بابرکات کو آپ کے خالق ومالک، محب او رمجبوب نے بھلا کون سی رفعت او رکس کمال سے نہیں نوازا؟ کمال ِ عملی، کمالِ علمی، کمال جسمانی، کمالِ روحانی، کمالِ نبوت، کمالِ رسالت، تکمیل ِ شریعت، کمالِ کتاب، کمالِ سنت، کمالِ امت، کمالِ قبلہ، کمالِ رفقاء ، کمالِ اہل خانہ، کمال ِ شہر، کمالِ معجزات، الغرض آپ کو مجموعہٴ کمالات بنا دیا۔ بقول حضرت نانوتوی #
          جہاں کے سارے کمالات اک تجھ میں ہیں
          تیرے کمال کسی میں نہیں مگر دو چار

ایک موجد جب کوئی عجیب وغریب چیز اختراع کرتا ہے، تو سب سے پہلے خود ہی اس کا تعارف او راس کی تعریف وتوصیف کیا کرتا ہے، خالق لم یزل نے بھی اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم وآلہ وسلم کو سراپا کمال بنا کر اپنی کتاب ِ لم یزل میں مختلف اسلوب وانداز بیان کے ساتھ تعارف کروایا ہے۔ خود بھی تعریف وتوصیف فرمائی او راپنے ملائکہ وخواص کی حمد وثنا کا ذکر فرما کر اہل ِ ایمان سے بھی اسی کارِ خیر کا تقاضا فرمایا۔

قرآن کریم کی سورة الاحزاب الله کے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے آداب وحقوق کے بیان پر مشتمل ہے، اس سورة میں حق تعالیٰ نے اہل ِ ایمان کو خصوصی حکم بھی ارشاد فرمایا:﴿إِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا﴾․ (الاحزاب:56)

”بے شک الله اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو۔“

رحمت ِ عالم صلی الله علیہ وسلم کے لیے یہ خدائی اعزاز آپ کے اعجاز کی بین دلیل ہے، اہل علم نے الله تعالیٰ کی جانب سے صلوٰة بھیجنے کے مفہوم ومعنی کو واضح فرمایا ہے۔ ابو العالیہ  نے الله تعالیٰ کے صلوٰة بھیجنے کا مطلب الله تعالیٰ کا جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعریف کرنا اور ذکر کرنا کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے صلوٰة الله کا معنی الله تعالیٰ کی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے لیے خاص مغفرت اورر حمت سے کیا ہے، اسی طرح صلوٰة کی نسبت الله تعالیٰ کی جانب ہے، اس کا مفہوم الله کی جانب سے جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم کے اظہار سے بھی کیا گیا ہے، گویا کہ مفہوم یہ ہوا کہ الله تعالیٰ اپنے حبیب کی تعریف وتوصیف اور تعظیم کرتے ہیں، اپنے نبی کو مغفرت ورحمت کے ساتھ متصف کرتے ہیں۔

فرشتوں کی صلوٰة کا معنی اہل علم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے دعائے برکت کرنے، دعائے مغفرت کرنے او ردعائے تعظیم کرنے سے کیا ہے، گویا کہ ملائک وفرشتے ہمہ وقت بارگاہِ ایزدی میں مشغول دعا رہتے ہیں کہ رب العالمین اپنے حبیب کو ڈھیروں برکتیں اور رفعیتں عطا فرمائیے، آپ صلی الله علیہ ودسلم کے ذکر کو بلند فرمائیے، آپ صلی الله علیہ وسلم کو رحمت خاصہ سے نوازیے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی عزت وتوقیر میں اضافہ فرمائیے، آپ صلی الله علیہ وسلم کی شریعت کو غلبہ نصیب فرمائیے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے دشمنوں کو خائب وخاسر فرمائیے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے گستاخوں کو ناکام ونامراد فرمائیے۔

الله تعالیٰ اور فرشتوں کی سنت مطہرہ کے بیان کے بعد ایمان والوں کو یہ حکم دیا گیا کہ : ”اے ایمان والو! تم بھی آپ صلی الله علیہ وسلم پر ”صلوٰة“ بھیجو“۔

عموماً صلوٰة کا ترجمہ”درود“ سے کیا جاتا ہے، حقیقت میں صلوٰة کا مفہوم تعظیم وعظمت ہے:” اللھم صل علی محمد“ کا معنی یہ ہے کہ اے الله! حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر فرما، آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعظیم دنیوی یہ ہے کہ الله تعالیٰ دنیا میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کریں، آپ صلی الله علیہ سلم کے دین کو غالب کر دیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ کو بقا ودوام بخشیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی اُخروی تعظیم یہ ہے کہ الله تعالیٰ آپ صلی الله علیہ وسلم کو ڈھیروں بدلے عطا فرمائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت کے حق میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو شافع بنا کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت کو قبول فرمائیں، نیز آپ صلی الله علیہ وسلم کو جنت کا مقام عالی او رمقام محمود نصیب فرمائیں، غرض”صل علی محمد“ کے مختصر سے جملے میں رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم کے لیے ڈھیروں دعائیں رب تعالیٰ سے طلب کی جاتی ہیں۔

حضور علیہ السلام کے لیے تعمیل ارشادِ خداوندی میں نماز میں درود پاک اور ” السلام علیک ایھا النبی“ کے جملے سے او رنماز سے باہر ”صلی الله علیہ و سلم“ وغیرہ کے جملے سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے صلوٰة وسلام کو مختص کیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سلام کا کیا مفہوم ہے؟

اہل علم نے ذکر فرمایا کہ لفظ ”سلام“ اسماءِ خداوندی میں سے ہے جس کا معنی ہے سلامتی، جس کا مفہوم ومطلب واضح ہے کہ یہ حضور علیہ السلام کے لیے سلامتی کی دعا ہے کہ اے الله! حضور صلی الله علیہ وسلم کو ہر آفت ، ناپسندیدگی، دکھ، تکلیف سے محفوظ فرما۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی شریعت کو کمی، آپ صلی الله علیہ وسلم کے دین کو کم زوری، آپ صلی الله علیہ وسلم کی کتاب وسنت کو مٹنے اور بدلنے سے محفوظ رکھ۔
یقینا حق تعالیٰ نے دونوں نعمتیں اپنے حبیب کریم صلی الله علیہ وسلم کو پہلے سے مرحمت فرمائی ہوئی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کو تعریف وتوصیف سے بھی نوازا ہوا ہے، قرآن کریم میں جابجا آپ صلی الله علیہ وسلم کی مدح وثنا کا مضمون مذکور ہے، اذان ، نماز، کلمہ سبھی مقامات پر حضور علیہ السلام کی ثنا کی گئی ہے، نیز آپ صلی الله علیہ و سلم کا مقام عالی بھی بیان کیا گیا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے رحمت خاصہ اور مغفرت کا اعلان بھی کر دیا گیا، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کو ہر آفت، بلا، مصیبت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی شریعت کو مٹ جانے سے بھی محفوظ رکھا ہوا ہے، لیکن درود وسلام کے ذریعہ اہل ایمان کے لیے بلندی درجات ، مغفرت ذنوب او رحصول رحمت کا دروازہ کھول دیا گیا، یہی وجہ ہے کہ جو مسلمان جس قدر حضور صلی الله علیہ وسلم پر کثرت سے درود وسلام کا اہتمام کرتا ہے، اسی قدر اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں، درجے بلند ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ کی جانب سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں، جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حق میں درود وسلام یقینا دربارِ حق تعالیٰ میں مقبول ومنظور ہوتا ہے، اس لیے درود وسلام کی برکت سے دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں اور عبادت بھی، درود وسلام کے ساتھ قبولیت دعا کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ چند بے قیمت چیزوں کو نہایت ہی قیمتی فائدہ مند چیز کے ساتھ فروخت کیا جائے تو لوگ اس قیمتی چیز کی وجہ سے بے قیمت اشیاء بھی خرید لیا کرتے ہیں، اہل ایمان کی ناقص عبادتیں، دعائیں او راعمال بھلا کیسے بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت پاسکتے تھے، یہ تو کرم ہوا رب محمد کا کہ اس نے ہمیں صلوٰ ة وسلام کا حکم دے کر ہماری ناقص عبادات، ادعیہ او رمعمولات کی قبولیت کا ذریعہ بنا دیا۔ چناں چہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”ان الدعاء موقوف بین السماء والأرض، لا یصعد منہ شیء حتی تصلی علی نبیک (صلی الله علیہ وسلم)“․ (سنن الترمذی:1/614)

”دعا آسمان وزمین کے درمیان موقوف رہتی ہے جب تک کہ تم اپنے نبی پر صلوٰة نہ بھیجو۔“

اہل ِ علم نے جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حقوق ذکر فرمائے ہیں، ان میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کا اسم گرامی آئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے۔

صاحب ِ حق کا حق ادا کرنے کی صورت میں صاحب ِ حق کا قرب نصیب ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجنے کی برکت سے روز محشر آپ علیہ السلام کا قرب نصیب ہو گا۔ اس حقیقت کو آپ صلی الله علیہ و سلم خود یوں بیان فرماتے ہیں:”أولی الناس بی یوم القیامة أکثرھم عليَّ صلاة․“ (سنن الترمذی:2/354)روزِ محشر لوگوں میں سے میرا سب سے قریبی وہ ہو گا جو کثرت سے مجھ پردرود بھیجے گا۔“

جوارِ رسول صلی الله علیہ وسلم کی سعادت عظمیٰ کا مستحق کثرت سے درود بھیجنے والا شخص ہے، علامہ سخاوی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”القول البدیع“ میں بشارت کا سب سے زیادہ مستحق ان علماء کو قرار دیا ہے، جو جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حدیث مبارک کے خادم ہیں اور دن رات درسِ حدیث میں مشغول رہتے ہیں، کیوں کہ یہ لوگ سب سے زیادہ درود پڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم سے کذب وافترا کی نفی کرتے ہیں، صحیح اور ضعیف احادیث میں تمیز کرتے ہیں، من گھڑت اور اصلی احادیث کا فرق بھی اُمت کو بتاتے ہیں، گویا کہ یہ لوگ قولاً وفعلاً آپ صلی الله علیہ وسلم پر صلوٰة بھیجتے ہیں او ردن رات صلوٰة بھیجتے رہتے ہیں۔

جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر صلوٰة بھیجنے والوں کو حق تعالیٰ کی جانب سے بے شمار انعامات نصیب ہوتے ہیں۔ ایک حدیث میں ارشادِ گرامی ہے:”من صلی عليَّ واحدة صلی الله علیہ عشراً“ ․(سنن ابی داؤد:1/562)

”جس کسی نے مجھ پر ایک مرتبہ صلوٰة بھیجا الله اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔“

قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے کی مقبول نیکی پر الله تعالیٰ کی جانب سے دس نیکیاں یعنی دس گناہ معاف ہوتے ہیں، نیز دس درجے بلند ہوتے ہیں۔ 

تعمیر حیات سے متعلق