حیاتِ انسانی کی اُلجھنیں

idara letterhead universal2c

حیاتِ انسانی کی اُلجھنیں

محترم راحیل گوہر صدیقی

انسان کی زندگی ایک ایسی اُلجھی ہوئی ڈور ہے جس کا سرا ڈھونڈتے بعض اوقات ساری عمر بیت جاتی ہے، مگر ڈور سلجھنے ہی نہیں پاتی۔ زندگی کی اس اُلجھی ڈور کو سلجھانے کے لیے جس فہم وفراست، دور اندیشی اور دروں بینی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بھی ہر انسان میں نہیں ہوتی۔ خال خال لوگ ہی ہیں، جنہیں الله کی یہ نعمت حاصل ہوتی ہے۔ کم فہمی، عجلت پسندی، حقائق سے لاعلمی او رجھوٹی انا جیسے عناصر انسانی معاملات کو مزید پیچیدہ کر دیتے ہیں۔ اس دنیا میں کچھ لوگ غیر معمولی ذہانت، فطانت، عقابی نگاہ اور عبقری شخصیت کے حامل ہوتے ہیں، جو ہر گزرتے ہوئے لمحے کو اپنی مٹھی میں قید کر لینے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں اور پھر یہی لوگ دنیا میں شہرت، دولت اور زندگی کی بے شمار آسائشوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا محور ومرکز یہی مادی دنیا ہوتی ہے، اس لیے ان کی تمام بھاگ دوڑ، تمام سعی وجہد اسی فانی دنیا کے لیے ہوتی ہے۔ وہ اپنی کاوشوں سے شہرت وکام رانی کی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں۔ ان کی شخصیت لوگوں کی مرکز نگاہ ہوتی ہے اور وہ جو چاہتے ہیں حاصل کر لیتے ہیں۔ مادہ پرستانہ سوچ ان کے ہر عمل سے نمایاں ہوتی ہے، کیوں کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہوتا ہے وہ دنیا کے نفع ونقصان کو سامنے رکھ کر ہی تو کیا ہوتا ہے اور یہی قانون ِ فطرت ہے کہ انسان جس کے لیے کوشش کرتا ہے، اسے وہی ملتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :﴿وان لیس للإنسان إلا ماسعیٰ﴾(النجم)

”اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔“

اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی سار ی بھاگ دوڑ اور سعی و جہد ہمہ وقت اورہمہ جہت صرف ایک ہی زاویے میں ہوتی ہے کہ اس دنیا کی نعمتیں ملیں نہ ملیں، لیکن ان کی آخرت بہتر او رنتیجہ خیز ہو جائے اوران کا رب ان سے راضی ہو جائے۔ وہ ہر اس عمل سے خود کو بچاتے ہیں جس میں الله کے غضب کا امکان پیدا ہوتا ہو۔ ان کے نزدیک یہ دنیا برتنے کی چیز ہے، لہٰذا اسی میں کھو کر رہ جانا اور دنیا ہی کو دل میں بسا لینا ان کا مطمح نظر نہیں ہوتا۔ بقول اکبر الہ آبادی #
          دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
          بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں!

چناں چہ جس طرح دنیا کی طلب اور اس کے لیے تگ ودو آخر کار انسان کو کم وبیش دنیا دے ہی دیتی ہے، اسی طرح انسان آخرت کی کام یابی حاصل کرنے کے لیے اپنے جسم وجان کی تمام توانائیاں کھپا دیتا ہے تو اسے آخرت کی فلاح اور رب تعالیٰ کی نظر کرم حاصل ہونے کی امید پیدا ہو جاتی ہے۔ متعدد آیات ِ قرآنی اور احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں یہ کہا جاتا ہے کہ ” ایمان والا اُمید اورخوف کے درمیان رہتا ہے۔“

انسان اپنی کوشش، ارادہ، عزم صمیم، اپنی خواہش اور طلب کی شدت سے کام یابی اور فتح مند ہو جاتا ہے، اس لیے کہ حرکت میں برکت ہے اور الله کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔ الله تعالیٰ نے انسان کو ارادہ واختیار کی آزادی دے کر دنیا میں بھیجاہے، اس کے ہاتھ پیر باندھ کر نہیں اور یہ دنیا او راس کی مصلحتوں کا تقاضا بھی ہے۔ چناں چہ انسان کو صلہ تو مل ہی جاتا ہے، تاہم کام یابی، فتح مندی، شہرت ونام وری حاصل کرنا او رپھر اس کو اپنی زندگی میں قائم رکھنا، دو الگ پہلو ہیں۔ ایسے ہی جیسے اس دنیا اور آخرت کے قانون بالکل الگ الگ ہیں۔ پانی اپنی سطح سے باہر نکل جائے تو ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔ دودھ برتن کے اندر رہے تو بہتر ہے، مگر وہ آگ کی حرارت سے اُبل کر باہر آجائے تو وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہو جاتے ہیں۔ ان حقائق سے لاعلم ہو کر انسان بعض اوقات اپنی کام یابی، اپنی شہرت وبلندی او راپنے مقام ومرتبہ کے احساسِ برتری میں مبتلا ہوکر، دوسرے انسانوں کو کم تر، حقیر اور بے وقعت سمجھنے لگتا ہے۔ مختلف پیرائے میں ان کی تضحیک و توہین کو اپنا مشغلہ بنا لیتا ہے، کیوں کہ اس کے ذہن میں یہ جازم ہو چکا ہوتا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے یہ سب اس کی محنت وذہانت ، حکمت عملی او ربہترین منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ یہ وہ باغیانہ افکار ونظریات ہیں جو انسان کے لیے الله سے دوری کا سبب بنتے ہیں۔

الله تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی شکر گزاری کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان کو اس کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے۔ جس عمل میں بھی الله کی ہدایت واطاعت شامل نہ ہو وہ کسی اعتبار سے بھی اس کے لیے نعمت اور فلاح کا باعث نہیں بن سکتا۔ جو چیز اپنے محل سے ہٹ جائے وہ اپنا مقام او راپنا اثر کھو دیتی ہے۔

اسلامی تعلیمات میں سب سے اعلیٰ وصف انسان کا اخلاق ہے اور اس دائرے میں انسانوں کے تمام رویے شامل ہیں۔ انسان عظیم واشرف مخلوق ہے، بایں طور کہ یہ علم ودانش کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسان کو طاقت، وزن یارنگ کی بنیاد پر دوسری مخلوقات پر فوقیت نہیں بخشی گئی، کیوں کہ چیتا اس سے زیادہ طاقت اور ہاتھی اس سے زیادہ وزن رکھتا ہے۔ رنگ میں کئی جانور انسان سے زیادہ خوب صورت نظر آتے ہیں۔ غرض انسان طاقت، وزن یا صورت کا نام نہیں، بلکہ اُس جوہر کا نام ہے جو خالق کائنات نے اس کے اندر اپنی روح میں سے پھونکا اور اس جوہر کی حیات وحی الہٰی سے ہے۔ اگر انسان کو علم وحی حاصل نہ ہو تو وہ انسان، انسان نہیں رہے گا، گو اس کی صورت انسان جیسی ہو۔
جب انسان فطری قوانین (Natural Laws) کے برخلاف کام کرتا ہے تو اس کے منفی اثرات اس کی زندگی پر ضرور پڑتے ہیں۔ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ رب کائنات کی عطا ہے۔ ایک محدود مدت تک یہ سب اس کے پاس رہتا ہے، پھر الله اپنی امانت واپس لے لیتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری اپنی زندگی اپنی نہیں ہے، جس کو بنانے سنوارنے میں انسان جائز وناجائز، حق وناحق اور ظلم وزیادتی کے رویوں سے گریز نہیں کرتے، لیکن پھر بھی یہ ہم سے چھین لی جاتی ہے۔ ہم اور ہمارے چاہنے والے روکنا چاہیں بھی تو روک نہیں سکتے۔ بالکل اسی طرح جیسے کچھ پھول شام ڈھلے اپنی پنکھڑیاں سمیٹ کر، اپنی رعنائیوں کے ساتھ، اپنے ہی وجود میں سماجاتے ہیں۔ ہم چاہیں بھی تو ان سمٹی ہوئی پنکھڑیوں کو پھول نہیں بناسکتے، کیوں کہ قانون ِ فطرت یہی ہے۔

اس دنیا میں کتنے ہی انسان لمحہ بھر کی خوشی ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہ دنیا ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی کا نام حیات ِ دنیوی ہے، جسے انسان کو جھیلنا ہی پڑتا ہے۔ یہاں حقیقت کو فسانہ بنتے دیر نہیں لگتی۔ کوئی اپنے گھر سے تفریح منانے، مسائل او رناخوش گواریوں کی دھول کو اپنے ذہن سے جھٹکنے ، مایوسیوں اور کلفتوں کی دبیز چادر کو اپنے اوپر سے اُتار پھینکنے، رزق کی تلاش، حصول علم یا محض اپنے شوق آوارگی کی تسکین کے لیے کھلی فضاؤں اور یخ بستہ ہواؤں کا لطف لینے سفر پر نکل جاتا ہے اور اسے گمان بھی نہیں ہوتاکہ یہ اس کی زندگی کا آخر سفر ہو گا۔روح وبدن کے ساتھ گھر سے چلا تھا اور بے روح ہو کر خاکی جسم کے ساتھ واپس لوٹے گا۔ روح وبدن کی اس جدائی کا تسلسل ازل سے جاری ہے او رتا قیامت جار ہے گا کہ یہی منشائے الہٰی ہے ،جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔

ہر انسان حالت سفرمیں ہے، کسی کا سفر دو گام چلتے ہی ختم ہوجاتا ہے او رکوئی ایک طویل شاہ راہ پر چلتا جاتا ہے۔ اس کے قویٰ شل ہونے لگتے ہیں، آرزوئیں دم توڑنے لگتی ہیں، جذبات کی سرد لہریں جسم میں خون منجمد کرنے لگتی ہیں، مگر سفر بھی ختم نہیں ہوتا۔ راستے کی کٹھنائیاں سانسوں کو اتھل پتھل کر دیتی ہیں۔ چلتے چلتے وہ پاؤں آبلہ پا ہو جاتا ہے، مگر سفر پھر بھی جاری رہتا ہے۔ دن ہفتوں کا او رمہینے سالوں کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ چلتے چلتے کوئی مڑ کر دیکھتا ہے تو دور تک ناکام تمناؤں کی گرداُڑتی دکھائی دیتی ہے۔ اکیلے پن کا احساس روح کو چھلنی کرتا محسوس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ دنیا کی کثیر دولت سمیٹ کر بھی خود کو تہی دامن پاتے ہیں۔ دولت کے انبار گھر میں موجود ہوتے ہیں، جسے دوسرے استعمال کرتے ہیں، یعنی ”دکھ جھلیں بی فاتحہ اور کوے انڈے کھائیں“ کے مصداق صاحب ثروت کو کھانا بھی ناپ تول کر چمچوں سے کھلایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ تنہااپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں اور بعض لوگ انجمن میں تنہا او راکیلے اکیلے۔ یہی اس زندگی کا تضاد ہے، لیکن یہ زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی، کیوں کہ اس کا ایک سرا دنیا ہے تو دوسرا سرا آخرت!

ہر گزرنے والا دن ہمیں اپنی موت سے قریب ترکر رہا ہے، لیکن سوچنے کا موقع کسی کے پاس نہیں۔ ہمیں تو ہر آنے والے نئے سال کا جشن منانا یاد رہتا ہے۔ آتش بازی کے نام پر آگ اور بارود کا کھیل، بے ہنگم موسیقی پر تھرکتے مدہوش بدن، دنیاومافیہا سے بے نیاز، بال کھولے بے حیائی ناچتی ہے۔ رنگ ونور کی یہ محفلیں پوری رات اپنا جو بن دکھاتی ہیں۔ یہ ہے ابن آدم کا طرز زندگی اور اس کے شب وروز کے میلے ٹھیلے! ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں، ہماری راہ گزر کون سی ہے، منزل کہاں ہے، ہمیں کیا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے؟ ان سوالوں کے جواب نہ کوئی جانتا ہے اورنہ جاننے کی جستجو کسی کے اندر مچلتی ہے۔ (الا ماشاء الله!) کیوں کہ علم تو خوف پیدا کرتا ہے، اس لیے نہ جاننا ہی بہتر ہے۔ بقول عبدالحمید عدم #
          میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا!
          ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا

یہ زندگی جشن منانے، لطف وسرور کی محفلیں سجانے اور مادیت کے جال میں خود کو محصور کرنے کے لیے نہیں دی گئی ہے۔ زندگی کا مقصد اُس ذات ِ اقدس کی عبادت میں پنہاں ہے جس نے ہمیں عدم سے وجود بخشا ہے۔ ہمارے خاکی وجود میں روح ربانی کا لطیف جوہر پھونکا او رہم جیتے جاگتے انسان بن گئے۔ اس دنیا ئے فانی میں ہمیں خالی دامن نہیں بھیجا گیا، بلکہ عدم سے وجودبخشنے کے ساتھ ہی بے شمار نعمتوں سے مالا مال بھی کیا گیا۔ لیکن جیسے ہی ہم عدم سے وجود میں آئے، اپنا وہ عہد ہی بھول گئے جو اپنے خالق سے ہم نے کیا تھا۔ ہم سب نے اُس کے رب ہونے کی یک زبان ہو کر گواہی دی تھی، لیکن ہم یہ بھول گئے۔ اس کے باوجود وہ رب ذوالجلال ہمیں نہیں بھولا۔ وہ ہمیں رزق دینے کے ساتھ ساتھ ہمار ی ہر ضرورت اور احتیاج کو پورا کر رہا ہے۔

جدیدیت کا تصور یہ ہے کہ انسان کسی خدا اور مذہب کا پابند نہیں ہے۔ وہ اپنی آزادی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زندگی جس طرح چاہے بسرکرے۔ ماضی ، حال او رمستقبل کے آمیزے سے ایک وحدت اُبھر کر سامنے آتی ہیں۔ ماضی کے بغیر حال اور حال کے بنا مستقبل کا کوئی وجود نہیں۔ مسلمانوں کا شان دار ماضی ایک تحریک ہے، راستے کی رکاوٹ نہیں۔ اقبال نے امت مسلمہ کے ماضی سے متاثر ہو کر اپنی شاعری کی شمعیں فروزاں کیں۔ اسلام کے ماضی پر فکر وتدبر کے نتیجہ میں اسلام کی نشاة ثانیہ کرنے کا داعیہ دل میں پیدا ہوا اور آج پورے کرہٴ ارض پر احیائی تحریکوں کی اُٹھان اسی فکر ونظر کا اعلان ہے کہ ماضی کی پختہ اینٹوں سے ہی حال کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔

فہم وفراست کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے ماضی کا احتساب کرنا چاہیے کہ ماضی میں کیا کھویا او رکیا پایا، حقوق الله اورحقوق العباد میں کہاں کہاں کوتاہیاں ہوئیں، کس پر ظلم وزیادتی کی، اپنے طرز عمل سے لوگوں کو دین سے قریب کیا یا انہیں دین سے دور ہونے کی راہ سجھائی! آج ہم اس دنیا کے رنگ وبو میں ایسے مست رہتے ہیں کہ آگے پیچھے، دائیں بائیں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ ہم شیطان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیوں کی مانند ناچ رہے ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں مصائب، ناگہانی آفتیں، عجیب طرح کی بیماریاں، فرسٹریشن، شکوک، اوہام اور بے سکونی ہمارے گھروں میں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔

دنیا کا اصل لطف اپنے خالق کی بندگی، عاجزی، فروتنی ، پاکیزگی اور شرم وحیا کے احساس کے ساتھ زندگی گزارنے میں ہے۔ دوسروں کے لیے زندہ رہنے والا انسان کبھی نہیں مرتا۔ وہ زندہ رہتا ہے لوگوں کے دلوں میں، ان کی یادوں میں، ان کی خلوت وجلوت میں اور تاریخ کے اوراق میں۔ کاش! اس دنیا میں ہی ہمیں یہ بات سمجھ میں آجائے اور ہمیں اپنی ذات کی صحیح معرفت حاصل ہو جائے۔ یہی الله کی معرفت تک لے جانے والا راستہ ہے او رہمارے آنے والے کل کے لیے یہی ہماری نجات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کی کام یابی کے لیے ہمارا حسن عمل، خشیت الہی، ظاہر وباطن کی نفاست او راپنے الله سے گڑ گڑا کر مانگی ہوئی دعا بہترین وسیلہ ہے #
          یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
          ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

مرفہ الحال لوگوں کا مصیبت کے مارے انسانوں کی بے بسی اور ناگفتہ بہ حالت سے چشم پوشی اختیار کرنا، اپنے ہی عیش وعشرت اور طاؤس ورباب میں مدہوش رہنا، معاشرے کے محروم طبقے میں تعصب، انتقام اور ظلم کی روش کو جنم دیتا ہے اور یہ طرز عمل دنیا میں تباہی وبربادی، خوں ریزی، دہشت گردی، لوٹ مار، چھینا جھپٹی اور حیوانیت کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں، جنہیں ہر باشعور انسان خوب جانتا ہے، کیوں کہ وہ خود بھی اسی ماحول میں زندگی گزار رہا ہے۔ جو لوگ اس وقت دنیا کی باگ ڈور تھامے ہوئے ہیں وہ کٹھوردل، سفاک او رمال ودولت کے پجاری ہیں، انہیں عوام صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے او رجب وہ اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کو یاد ہی نہیں رہتا کہ کن لوگوں کے کندھوں پر سوار ہو کر مسند ِ اقتدار تک پہنچے ہیں۔

یہ بے حسی ہمارے حکم رانوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ ان کے دور اقتدار میں کوئی خود کشی کرکے مر جائے یا غربت او رمفلسی سے تنگ آکر اپنے معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دے، ان کو اس سے نہ کوئی غرض ہوتی ہے او رنہ اس پر کوئی افسوس! ہم بحیثیت اُمت ِ مسلمہ وہ خوش نصیب اوربخت آور لوگ ہیں جن کے پاس رب کائنات کی طرف سے انسان کی فوزو فلاح اور اطمینان ِ قلب کے لیے ایک مکمل ضابطہٴ حیات موجود ہے۔ پھر ہمیں کسی خوف اور غلامی کے سمندر میں ڈوبنے کی کیا ضرورت ہے؟

یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کی اپنی ایک مخصوص فطرت (Nature) ہے، جس پر انسان کے ذہن میں پرورش پانے والے ہر تصور کی بنیاد ہے۔ یہ وصف ہر انسان میں بالقوہ (Potentially) موجود ہے۔ مطلب یہ کہ ہر فرد انسان کے کلی تصور، یعنی تصور انسان کی ایک مخصوص مثال ہے۔ انسان پہلے وجود میں آتا ہے، اپنی ذات کا سامنا کرتا ہے، کاغذات میں اُبھرتا ہے او رپھر کہیں اپنے تصور کی تشکیل کر پاتا ہے۔

انسان صرف اس وقت وجود سے مشرف ہوتا ہے جب وہ کچھ ہو اورمزید کچھ کرکے وہ خود کو بنانا چاہتا ہو۔ محض کچھ ہونے کی آرزو اس کا وجود نہیں۔ آرزویا ارادے سے ہماری مراد شعوری طور پر کچھ فیصلہ کرنا ہے۔ ایسا فیصلہ جو اکثر وبیشتر ہم اپنے آپ کو بنا لینے کے بعد کرتے ہیں۔ کوئی شے ہمارے لیے اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک تمام نوع انسان کی اس میں بہتری نہ ہو۔ اس حقیقت کا ادراک ہی ہمارے نفس کا اصل جوہر ہے اوراگر یہ نہ ہو تو انسان اینٹ اور پتھر سے زیادہ وقعت دیے جانے کے قابل نہیں۔

انسان کا طرزِ عمل دراصل اس کی فکر اور سوچ کا عکس ہوتا ہے۔ انسان کے کردار پر اس کی سوچ کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ جس طرح کے عقائد ونظریات ہوں گے ، اعمال بھی اسی کے مطابق ہوں گے۔ گویا انسان کا نظریہٴ زندگی ہی اس کے تمام اعمال وافعال پر حکم رانی کرتا ہے۔ بعض لوگ اپنے غیر مناسب طرز عمل او رغیر اخلاقی رویوں سے زندگی کی ڈور کو سلجھانے کے بجائے کچھ اور اُلجھا دیتے ہیں، کیوں کہ سراگم ہو جائے تو ڈور میں اُلجھاوا بڑھتا ہی جاتا ہے۔ شعور وادراک ہی انسان کی وہ قیمتی متاع ہے جو زندگی کی ہر راہ کو ہم وار کر دیتے ہیں۔ اُلجھنیں تو آتی رہتی ہیں، حالات ومعاملات میں گرہیں پڑتی ہیں، مگر فہم وفراست کے حامل انسان کی ایک چٹکی ان تمام گرہوں کو اس طرح کھول دیتی ہے ،جیسے طلوع سحر کے وقت شاخوں میں لگی کلیاں انگڑائیاں لے کر خوش نما اور دیدہ زیب پھول بن جاتی ہیں۔

ایک کام یاب، بھرپور او رجوہر انسانیت سے معمور زندگی سات پردوں میں چھپی کوئی شے نہیں ہے، بلکہ ہر فرد کو اپنے فکروعمل، اپنی غیر فطری(Unnatural) نفسیات اور زیغ وضلال(Deception) سے دھندلائے ہوئے آئینہ کی گرد صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے انسانیت کا بے داغ او رمنور چہرہ نکھر کر سامنے آئے گا او رپھر زندگی کی ہر اُلجھی ہوئی ڈور سلجھتی چلی جائے گی۔ آگہی کا نور دل کے بند دریچوں کوکھول دے گا او رحیرت واستعجاب کے دبیز پر دے یوں اُٹھتے چلے جائیں گے، جیسے چاند کے اوپر آئے گہرے بادل دھیرے دھیرے سرکتے جاتے ہیں او رچاند کی نرم وگداز کرنیں آسمان کی وسعتوں میں چہار سو اپنی پوری تاب ناکیوں کے ساتھ بکھر جاتی ہیں۔

تعمیر حیات سے متعلق